بدھ، 14 اگست، 2024

بنگلہ دیش میں اقتصادی انقلاب کے خالق ڈاکٹر یونس پارٹ 2

 

وہ 2024 کا پہلا ہی دن تھا جب 84 سالہ نوبل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات محمد یونس کو بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ اس کے چھ ہی دن بعد 76 سالہ شیخ حسینہ واجد چوتھی بار انتخابات جیت کر جب ملک کی وزیراعظم بنیں تو انھیں جنوبی ایشیا کی سب سے طاقتور خاتون کہا گیا۔لیکن بنگلہ دیش میں سیاسی بساط اگلے سات ماہ میں یوں پلٹی کہ آج وہی محمد یونس عبوری حکومت کے نگران سربراہ بنائے جا چکے ہیں جبکہ انھیں ’عوامی دشمن‘ قرار دینے والی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے- گرامین فاؤنڈیشن  جس کے خالق موجودہ بنگلہ دیش کے صدر  ڈاکٹر محمد یونس نے جب  سیا ست کے اندھے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو  اس وقت سیات کا آسمان صرف حسینہ واجد کے اختیار میں تھا جنہوں  نے  ڈاکٹر یونس کو اپنی رقیبانہ روش کے سبب پسپا ہونے پر مجبور کر دیا  اور  ڈاکٹر یونس جیسے عوام دوست انسان   سیاست سے دست کش ہو کر صرف عوام کی فلاحی  منصوبوں میں مصروف ہوگئے  ان کی  فاؤنڈیشن  نے   بنگلہ دیش کے  ساٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کو اب تک  قرضے  دئے  ہیں اور 1997 سے قائم گرامین فاؤنڈیشن دنیا بھر میں امدادی کام کرتی ہےمحمد یونس نے چھوٹے قرضوں کے زریعہ غربت کے خاتمہ کے خیال پر کام 1974 کے قحط سے متاثر ہو کر شروع کیا تھا۔ اس وقت وہ بنگلہ دیش کے  پلاننگ کمیشن کی اچھی نوکری چھوڑ کر چٹاگانگ یونیورسٹی میں معیشت پڑھا رہے تھے۔ اس کام میں انہیں کامیابی دو سال بعد ملی جب دسمبر 1976 میں،ڈاکٹر  یونس  غریبوں کو قرض دینے کے لیے سرکاری جنتا بینک سے قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس قرض کے بعد  محمد یونس نے اپنے چھوٹے قرضہ کے منصوبوں کے لیے دوسرے بینکوں سے قرضے حاصل کرتے ہوئے کام جاری رکھا۔ 1982 تک ان سے قرض لے کر کام کرنے والے ارکان کی تعداد 28,000 تھی۔1 اکتوبر 1983 کو، محمد یونس کے پائلٹ پروجیکٹ نے غریب بنگلہ دیشیوں کے لیے ایک مکمل بینک کے طور پر کام شروع کیا اور اسے گرامین بینک یعنی دیہاتی بینک ("ویلیج بینک") کا نام دیا گیا۔ جولائی 2007 تک، گرامین بینک نے 74 لاکھ  ضرورت مندوں کو   6.38 بلین امریکی ڈالر  کے انتہائی چھوٹے قرضےجاری کیے تھے۔


گرامین بینک  ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے، بینک "یکجہتی گروپس" کا نظام استعمال کرتا ہے۔ یہ چھوٹے غیر رسمی گروپ قرضوں کے لیے مل کر درخواست دیتے ہیں اور اس کے اراکین ادائیگی کے شریک ضامن کے طور پر کام کرتے ہیں اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک دوسرے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔یونس اورگرامین کو نوبل انعام-محمد یونس نے گرامین بینک 1976 میں بنگلہ دیش میں قائم کیا تھا-بنگلہ دیش کے چھوٹے قرضے دینے والے گرامین بینک اور اس کے بانی محمد یونس کو اس سال کا امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔انعامات کے بارے میں فیصلہ کرنے والی سویڈن کی نوبل کمیٹی کے مطابق محمد یونس اور ان کے قائم کردہ ادارے کو یہ انعام غربت کے خاتمے کے لیے کام پر دیا گیا ہے۔محمد یونس نے کہا ہے کہ ’میں بہت بہت خوش ہوں۔ یہ ہمارے اور بنگلہ دیش کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ ہمارے کام کو تسلیم کرنا ہے۔ بطور ایک بنگلہ دیشی، مجھے فخر ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش کو کچھ دیاہے۔ اب ہمارے کام کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’یہ غریبوں کے حقوق کے لیے چلائی گئی ہماری تحریک کو شروع کرنا ہے۔ اس طرح تسلیم کیے جانے کے بعد ہم امید کرتے ہیں ہمارا ماڈل پوری دنیا میں پھیلے گا۔ دسیوں ہزار لوگ بنگلہ دیشی اور اس دوسرے جو پوری دنیا میں مائیکرو کریڈٹ پروگراموں کو فروغ دے رہے ہیں اس اعتراف سے بہت حوصلہ پائیں گے‘۔


گرامین بینک غریب لوگوں کو چھوٹے قرضے دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ غربت سے نکل سکیں۔یہ بینک محمد یونس نے سنہ 1976 میں بنگلہ دیش میں قائم کیا تھا۔ چھوٹے قرضے دینے کا یہ نظام پھر ’مائیکرو کریڈٹ‘ کے نام سے جانا گیا۔نوبل کمیٹی کا اپنے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’پائیدار امن تب تک ممکن نہیں ہے جبک تک آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت سے نہ نکل سکے۔ مائیکروکریڈٹ غربت سے نکلنے کا ایک راستہ ہے۔ مقامی سطح پر ترقی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو بھی فائدہ ہوگا‘نوبل کمیٹی کا اپنے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’پائیدار امن تب تک ممکن نہیں ہے جبک تک آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت سے نہ نکل سکے۔ائیکروکریڈٹ غربت سے نکلنے کا راستہ ہے۔ مقامی سطح پر ترقی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو بھی فائدہ ہوگا۔‘کمیٹی نے کہا کہ محمد یونس کو یقین تھا کہ عورتیں بھی یہ قرضے لے کر اپنی زندگیاں بدل سکیں گی۔  ۔


بی بی سی بنگلہ کے مطابق جس وقت شیخ حسینہ واجد فوجی ہیلی کاپٹر میں ملک چھوڑ کر انڈیا روانہ ہو رہی تھیں، محمد یونس علاج کی غرض سے فرانس میں موجود تھے۔بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد کوٹہ مخالف طلبہ تحریک کے مطالبے پر ملک کے عبوری سربراہ بننے والے 84 سالہ معیشت دان کو ان کی قسمت چھ ماہ میں قید خانے سے اقتدار کی دہلیز پر لے تو آئی ہے لیکن ساتھ ہی ان کے کندھوں پر ہی ملک میں امن و امان کے قیام اور استحکام لانے کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔محمد یونس:  جنھیں ان کے مداح ’غریبوں کا بینکار‘ کہتے ہیں، اس وقت عالمی شہرت ملی تھی جب ان کے گرامین بینک کی جانب سے غریب طبقے کو کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضے دینے کے پروگرام کو سراہا گیا اور 2006 میں انھیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔انھوں نے 1970 کی دہائی میں ملک میں مائیکرو فائنانس کے بانی کی حیثیت سے معاشرے کے محروم طبقے کے بہت سے لوگوں کو غربت کی زندگی سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کی۔یہ تصور انھیں چٹاگانگ یونیورسٹی سے متصل دیہات کے دوروں کے دوران آیا تھا جس کے بعد انھوں نے قلیل سرمایہ، جو بعض اوقات دس ڈالر تک ہوتا، درجن بھر دیہاتیوں کو بطور قرض فراہم کیا اور ایسے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والوں کو چنا جنھیں روایتی بینک قرضہ فراہم کرنے سے کتراتے تھے۔محمد یونس کا یہ ماڈل کامیاب ہو گیا اور تیزی سے پھیلا۔  


     گرامین کے معنی ’گاؤں کا بینک‘ ہے۔2007 میں محمد یونس نے ’ناگرک شکتی‘ یعنی ’عام شہری کی طاقت‘ کے نام سے اس تحریک پر کام کرنا شروع کیا جو ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت بنانے کی کوشش تھی اس بینک نے ٹیسکٹائل سے لے کر موبائل ٹیلی کام اور براڈ بینڈ جیسے بڑے شعبوں سمیت زندگی کے ہر شعبے میں سرمایہ لگایا اور رفتہ رفتہ عالمی شہرت پروفیسر یونس کا پیچھا کرنے لگی۔ 2006 میں انھیں نوبل انعام دیا گیا تو ان کا ماڈل ترقی پذیر دنیا میں بھی مشہور ہو چکا تھا۔ 6 اگست 2024-سیاست میں قدم اور شیخ حسینہ واجد سے رقابت-نوبل انعام پانے کے چند ہی ماہ بعد پروفیسر یونس نے سیاست میں قدم رکھا۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’میں ایسا شخص نہیں ہوں جو سیاسی میدان میں آرام دہ محسوس کرتا ہے۔ لیکن اگر حالات نے مجبور کیا تو میں سیاست کا حصہ بننے سے گریز نہیں کروں گا۔‘۔2008 میں وزیر اعظم بنتے ہی شیخ حسینہ واجد نے یونس پر الزام لگایا کہ وہ اپنی کاروباری سرگرمیوں سے ’غریبوں کا خون چوس رہے ہیں‘طاقت کی رسہ کشی اور سیاسی رقابتوں سے مایوس ہونے کے بعد محمد یونس جلد ہی سیاسی میدان سے پسا ہو گئے۔لیکن  حسینہ واجد  نے ان کے لئے انتقام کا دروازہ بند نہیں کیا -یہاں تک کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش میں سیاسی مخالفین کے ساتھ حکومتی رویے پر سرزنش بھی کی جب عالمی تنظیم کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بیان دیا کہ ’ہمیں انسانی حقوق کے کارکنوں کی ہراسانی پر کافی تشویش ہے 2024 جنوری میں ملک کے لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت گرامین ٹیلی کام کے تین ساتھیوں سمیت یونس کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی اور پھر ضمانت پر رہا ہو گئے۔’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا‘ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پروفیسر یونس نے بیان دیا تھا کہ ’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا ہے‘شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ڈرامائی اختتام کے بعد اب پروفیسر یونس ہی ایک ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جن پر ملک میں احتجاج کرنے والے طلبہ اعتماد کرتے دکھائی دیے۔۔

منگل، 13 اگست، 2024

بچوں کا بچپن اور مٹی کے کھیل



  بچوں کا بچپن کا دور ان کی زندگی کا خوبصورت ترین دو ر ہوتا ہے  اور اسی دور میں ان کے اوپر  گھر کی جانب سے پابندیاں بھی کچھ زیادہ ہی لگتی ہیں  اور جیسے 'جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے ہم اپنے بچوں پر زیادہ ہی پابندیاں لگا رہے ہیں  ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بچوں کی زندگی کے خوبصورت ترین دن ہیں، یہی وہ لمحات ہیں جو ان کی یادوں کا خوبصورت احساس بن جاتے ہیں۔ ذرا آپ یاد کریں اور محسوس کریں کہ بچپن میں انگلیوں سے کیچڑ میں کھیلنا کیسا محسوس ہوتا تھا؟اصل بات یہ ہے کہ اب ٹیکنالوجی نے ہمار ے احساسات اور ضرورتوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں صفائی ستھرائی سے انکار نہیں لیکن اس کے جنون میں ہم مٹی کی خوشبو اور ہمارے ذہن و روح کے لیے مٹی چھونے کی جو حس ہمیشہ سے فائدہ مند رہی ہے، اُس سے دور ہوگئے ہیں۔ یہ مٹی، پانی درخت تمام اپنے اثرات چھوڑتے ہیں۔اب موسم گرما شروع ہوچکا ہے اور گرمی کو شکست دینے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہے کہ اپنے بچوں کو باہر کی سیر کرنے اور مٹی اور اگر بارش میں کیچڑ مل جائے تو اس میں کچھ مزہ کرنے کا موقع دیں۔


 انہیں بارش کے موسم میں مینڈک اور بیر بہوٹیاں  پکڑنے دیں،  بس مٹی میں کھیلنے کی حد تک ان کو رنگ برنگے کپڑے پہنا کر باہر بھیجیں لیکن اپنی نگرانی میں تاکہ وہ خطرات کے قریب نہیں جائیں -مٹی ایک اور حیرت انگیز فائدہ جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ مٹی میں وقت گزارنا دماغ میں سیروٹونن نامی قلمی مادے کی مقدار بڑھاتا ہے جو کہ اعصابی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے‘ جس سے ان کے بد جسما نی افعال بہتر ہوتے ہیں اور  دماغی قوت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔انسانی جسم اکثر اوقات مختلف اقسام کی الرجیز کا شکار ہوجاتا ہے ‘ مٹی میں کھیلنے سے ان الرجیز کے خاتمے مدد ملتی ہے اور انسان بہت سی الرجیز سے قبل ازوقت لڑنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے۔اور بارش کے پانی و کیچڑ میں کھیلنا بچوں کے لیے ایک تفریحی اور فائدہ مند سرگرمی ہے۔ یہ فطرت سے ان کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے، ان کے خیالات کو وسعت دیتا ہے، تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتا ہے اور یہاں تک کہ جسمانی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو احتیاط کے ساتھ ان سرگرمیوں میں شامل ہونے کی اجازت دینے سے گریز نہ کریں بلکہ اسے بچپن کا ایک فطری اور قیمتی حصہ سمجھ کر قبول کریں۔


مائیں خود دیکھیں گی کہ مٹی سے کھیلنا ان  کے بچوں کی صحت پر کتنے مثبت اثرات مرتب کرے گا  کیونکہ بارش کی  کیچڑ میں کھیلنا دراصل جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کو فروغ دینے کا ایک بہترین طریقہ ہے لیکن بد قسمتی سے ہم نے آج کے بچوں سے یہ مٹی کا کھیل چھین لیا ہے۔بچوں کے بچپن پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر رابرٹ ڈبلو تھیلڈ نے اپنی کتاب ’بچوں کی نگہداشت‘ میں لکھا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی صفائی کا خیال رکھا جائے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ بچے کو ہر قدم پر جراثیم سے ڈرایا اور دھمکایا جائے ہر وقت اس کو ان جراثیم کا احساس دلانا کہ اس کو ان جراثیم سے گھر میں اور باہر بھی خطرہ ہے، اس سے کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اس سے یہ نقصان ضرور ہوتا ہے کہ بچہ وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے اور وہ بے دھڑک ہر طرف چلنے سے رک جاتا ہے، وہ بے چینی اور خوف محسوس کرنے لگتا ہے‘۔ڈاکٹر رابرٹ کہتے ہیں کہ ’ہر شخص جانتا ہے کہ انسان کے اندر مشین لگی ہوتی ہے جو جراثیم کا خاتمہ کرتی رہتی ہے۔ ہر بچے میں بھی مدافعانہ مشین موجود ہے۔ اگر وہ صحت مند ہے تو اس کے جراثیم خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ 


چھوٹے بچے عام طور پر صفائی کو پسند نہیں کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ خود بخود چیزوں کو سمجھنے اور اپنے والدین کے بنائے ہوئے اصولوں پر چلنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ لیکن ماں اکثر ان کو اپنی فکر و تردد سے الجھن میں ڈال دیتی ہے۔ وہ ان کی اس حوالے سے بڑی نگہداشت کرتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس چیز سے بچے کو بچاتی ہے وہ اسی کا شکار ہوجاتا ہے ‘ مٹی سے بچوں کا کھیلنا اپنے آپ کو مٹی میں چھپا لینا ان کے لیے کیوں بہت زیادہ ضروری ہے-آخر یہ مٹی کا کھیل کیا ہے؟۔ کیچڑ میں کھیلنا بچوں کا ایک دوسرے پر مٹی پھینکنا، بچے اسی طرح کیچڑ میں مختلف قسم کی سرگرمیوں میں شغل کرسکتے ہیں، جس میں ادھر ادھر بھاگنا اور  مٹی کو آرٹ یا تخیلاتی کھیل کے ذریعے استعمال کرنا شامل ہے۔


 مٹی سے کھیلنا ایک بنیادی  ضرورت ہے اور اس قسم کے کھیل کے بچوں کے لیے بہت سے جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی فوائد ہوتے ہیں۔ ۔۔ مٹی  بچوں کے  اندر خوشی کا احساس اجگر کرتی ہےجس سے بچوں میں بالیدگی کا عمل تیز ہوتا ہے ۔ نئی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ مٹی کے اندر   اللہ تعالیٰ نے  صحت مند بیکٹیریا رکھے ہیں جو خود بخود بچوں کے جسمانی نظام میں صحت مند خلیات فراہم کرتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے  -بچے سیکھنے کی خاطر ہر طرح کی چیزوں میں ہاتھ مار سکتے ہیں اسی لیے مٹی کے گھروندے بنانا اور پھر  ان کے اپنے ہاتھ دوبارہ بکھیر دینا بچوں کا بڑا دلچسپ مشغلہ ہوتا ہےاو رمٹی سے کھیلنا بچوں کے لیے  بہت ضروری ہے -ہمارے معاشرے کے بزرگ عموماً ایک بات کہا کرتے تھے کہ بچوں کو مٹی میں کھیلنے دیا جائے اس سے صحت اچھی ہوتی ہے ‘ لیکن بہت سے افراد  اس خیال کو رد کرتے  تھے  کیونکہ ان کے خیال میں یہ کوئی اچھا کام نہیں اور اس سے بچوں کو بیماریاں لگنے کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔  


پیر، 12 اگست، 2024

بنگلہ دیش میں اقتصادی انقلاب کے خالق -ڈاکٹر محمد یونس پارٹ 1

یہ مضمون  میں نے گوگل    سے لیا ہے  تلخیص میری جانب سے ہے -غربت کی نچلی سطح  میں گلے 'گلے تک ڈوبے بنگلہ دیش   میں   ن نے ایک  بڑے خواب دیکھنے والا ایک  بڑے انسان  پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس  نے جب  اپنا علمی اور شعوری  قد کاٹھ نکالا تو ان کو معلوم ہوا کہ ان کے وطن پر  سرمایہ داری کے خونیں عقاب نے قوم کی شہ رگ  پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں ۔اور وہ  اپنے مقابل  بڑے قد کاٹھ کے   سیاسی اکھاڑے میں  اتر گئے  اور کچھ ہی عرصے کے بعد  ان کو معلوم ہوا  کہ سیاست کا میدان ان کے لئے موزوں نہیں ہے اس لئے باقاعدہ  دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے اکھاڑے سے نکل گئے - ان کو معلوم نہیں تھا اللہ رحمٰن  ان سے کون سا بڑا  کام لینا چاہتا ہےانہوں نے بنگلہ دیش میں  دیہاتی حکومتیں قائم کیں اور  وہ انتہائی غریب لوگوں کو جو عام بنکاری نظام سے قرضہ لینے کے اہل نہیں تھے ان  کو چھوٹے قرضے دینے کے نظام   رائج کیا ۔   وہ گرامین بینک کے بانی بھی ہیں۔ 2006ء میں ان کو اور ان کے بنک کو مشترکہ طور پر غریب لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنے پر اور سماجی خدمات کے شعبہ میں نوبل انعام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر یونس انفرادی طور پر بھی کئی بین الاقوامی اعزازات بشمول بین الاقوامی خوراک کا انعام (ورلڈ فوڈ پرائز World Food Prize) جیت چکے ہیں۔ وہ بینکر ٹو دی پوور (Banker to the Poor) کے مصنف اور گرامین بنک کے بانی بھی ہیں۔1971ء میں جب سقوط مشرقی پاکستان ہوا تو وہ ابھی امریکا ہی میں تھے۔ انھوں نے وہاں دیگر بنگالیوں کے ساتھ مل کر سٹیزن کمیٹی اور بنگلہ دیش انفارمیشن سنٹر قائم کیا۔


بنگلہ دیش کے قیام کے بعد محمد یونس وطن واپس آ گئے اور چٹاگانگ یونیورسٹی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے۔ ان کے ساتھ انھوں نے اپنے معاشرے سے غربت کے خاتمے کی کوششیں شروع کر دیں۔انھوں نے ’’رورل اکنامک پروگرام‘ُ‘ شروع کیا۔ یہ ایک ریسرچ پراجیکٹ تھا۔اس کے نتیجے میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک سے غربت کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پورے ملک میں دیہاتی حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ انھوں نے اس حوالے سے ایک زوردار مہم چلائی۔ جنرل ضیاء الرحمن بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے ملک کے 40 ہزار 3 سو 92 دیہاتوں میں حکومتیں قائم کر دیں۔1976ء میں انھیں خیال آیا کے چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر غریب لوگوں کو مشکلات سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلا قرضہ اپنی جیب سے دیا جس کی مالیت 27 ڈالر بنتی تھی۔ اس رقم سے گائوں کی 42 خواتین نے مختلف چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کیے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس سلسلے نے ملکی برآمدات درآمدات پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔غربت کے خاتمے کے لیے چھوٹے قرضے دینے کا آئیڈیا نیا نہیں تھا۔ اس کے سب سے پہلے خالق پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیویلپمنٹ کے بانی ڈاکٹر اختر حمید خان تھے۔ روایتی بینک اس آئیڈیا پر کام کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے اپنے تحفظات تھے تاہم محمد یونس کا کہنا تھا کہ غریبوں کو آسان اور چھوٹے قرضے دیے جائیں تو نہ صرف وہ بروقت واپس کریں گے بلکہ اس سے ان کی اور ملک کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔رامین بنک سی اثنا میں محمد یونس حکومت کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دسمبر 1976ء میں انھیں اس حوالے سے ایک غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی جب سرکاری جنتا بنک نے انھیں قرض دینے کی ہامی بھرلی۔


 اس طرح انھوں نے ایک ادارہ قائم کر لیا جسے دوسرے بنکوں نے بھی قرضے فراہم کرنے شروع کر دیے۔ 1982ء میں اس دارے کے ممبرز کی تعداد 28 ہزار تھے۔ یکم اکتوبر، 1983ء کو یہ ادارہ باقاعدہ ایک بنک کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کا نام ’’گرامین بنک‘‘ (دیہاتی بنک) رکھ دیا گیا۔ اس دوران محمد یونس کا سامنا بائیں بازو کے کٹر لوگوں سے بھی ہوا اور تنگ نظر مولویوں سے بھی مڈبھیڑ ہوئی جو کہتے تھے کہ وہ کسی ایسے فرد کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے جو گرامین بنک سے قرضہ لے گا۔ ان مخالفتوں کے باوجود گرامین بنک کے حجم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جولائی 2007ء کی رپورٹ کے مطابق یہ بنک 74 لاکھ لوگوں کو 6 اعشاریہ 38 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کرچکا تھا۔80 کی دہائی کے اواخر میں بنک نے کچھ نئے پراجیکٹ شروع کیے یعنی مچھلیوں کے تالاب اور ٹیوب ویل لگانا شروع کیے۔ بعد ازاں ایگریکلچر فاؤنڈیشن کی صورت میں باقاعدہ مکمل ادارے بن گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر کئی ادارے بھی قائم کر دیے گئے جن میں گرامین سافٹ وئیر لمیٹٹڈ گرامین سائبر لمیٹڈ، گرامین نیٹ وئیر، گرامین فون بنگلہ دیش کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہے۔ گرامین بنک سے قرضہ حاصل کرنے والوں میں خواتین کی شرح 94 فی صد ہے۔ خواتین کو قرضے دینے میں اس لیے خوشی محسوس کی جاتی ہے کہ خواتین خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ مخلص ہوتی ہیں۔2006ء میں محمد یونس کو نوبل انعام دیا گیا۔ محمد یونس پہلے بنگلہ دیشی اور تیسرے بنگالی ہیں جنھوں نے یہ نوبل ایوارڈ حاصل کیا۔


 جب اس ایوارڈ کی خبر نشر ہوئی تو محمد یونس نے اس ایوارڈ سے ملنے والی رقم 14 لاکھ ڈالر میں سے ایک حصے سے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا جو غریبوں کے لیے انتہائی سستی اور اعلٰی معیار کی خوراک تیار کرے۔محمد یونس کو نوبل ایوارڈ دلانے کے لیے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اہم کردار ادا کیا ۔کیلیفورنیا یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے بل کلنٹن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یونس ایسے شخص ہیں جنہیں بہت پہلے نوبل انعام مل جانا چاہیے تھا۔ معروف مغربی جریدے اکانومسٹ نے محمد یونس کو ایوارڈ دینے کی مخالفت کی۔ اس کا لکھنا تھا کہ زیادہ بہتر ہوتا اگر نوبل ایوارڈ دینے والی کمیٹی یہ اعلان کر دیتی کہ اس انعام کا کوئی حقدار نہیں۔2006ء کے اوائل میں محمد یونس اور سول سوسائٹی کے دیگر لوگوں نے ایک مہم چلائی جس میں کہا گیا کہ آئندہ انتخابات میں صرف دیانت دار اور صاف ستھرے لوگوں کو ہی امیدوار ہونا چاہیے۔ اس سال کے اواخر میں انھوں نے سیاست میں آنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ 11 فروری، 2007ء کو محمد یونس نے عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ انھیں رائے دی جائے کہ وہ سیاست میں حصہ لے کر کیسے اچھی حکومت اور موزوں قیادت تیار کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 18 فروری، 2007ء کو انھوں نے ’’ناگرگ شکتی ‘‘ کے نام سے پارٹی قائم کر لی۔


 چھوٹے قرضے سے بڑی ترقی کا عظیم خیال دے کربنگلہ دیش کو گرامین بینک جیسے قوی الجثہ مائیکرو فنانس بینک کا تحفہ دینے والے نوبیل انعام یافتہ ماہر معیشت پروفیسر  محمد یونس کو 6 ماہ قید کی سزا سنادی گئی۔ڈھاکہ  کی لیبر کورٹ نے83 سالہ بینکار محمد یونس کو لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں سزا سنائی، ان پر الزام ہے کہ وہ اپنی کمپنی میں ورکرز ویلفیئر فنڈ بنانے میں ناکام رہے، محمد یونس اور ان کے تینوں ساتھیوں کو 25 ہزار ٹکا کا جرمانہ بھی کیا گیا۔محمد یونس اور ساتھیوں نے درخواست ضمانت دائرکی جو کہ منظور کرلی گئی، عدالت نے ان کو 5 ہزار ٹکا کے عوض ایک ماہ کی ضمانت دے دی۔ اس سزا کے خلاف محمد یونس نے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے، محمد یونس کے حامیوں نے سزا کو انتقامی نوعیت کا فیصلہ قرار دیا ہے،پروفیسر یونس کے وکلاکا کہنا ہے کہ انہیں لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں اور مبینہ بدعنوانی کے 100 سے زائد دیگر الزامات کا سامنا ہے۔محمد یونس کے چھوٹے قرضوں کے زریعہ معیشت میں بڑی تبدیلی لانے کے تجربہ نے نہ صرف بنگلہ دیش کی مژمردہ معیشت کو چند سال میں ترقی کی راہ پر ڈال دیا بلکہ ان کے اس تجربہ نے دنیا میں غربت کے خاتمہ کی ساری سائنس کو ہی بدل ڈالا۔ محمد یونس کا بنایا ہوا گرامین بینک بڑھتے بڑھتے دنیا میں مائیکرو فنانس کے بہت بڑے بینک میں بدل گیا  اور  تقریباً کسی مالی ضمانت کے بغیر جاری کئے گئے چھوٹے  قرضوں سے فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش میں لاکھوں لوگ مہیب غربت کی دلدل سے باہر نکل آئے۔  محمد  یونس کے معیشت میں اس اہم تجربہ سے متاثر ہو کر جہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور اقوامِ متحدہ نے غربت کے خاتمہ کی کوششوں اور حکمتِ عملیوں میں اہم تبدیلیاں کیں وہاں نوبیل کمیٹی نے بھی محمد یونس کو  2006 میں معیشت کا نوبیل پرائز دے دیا تھا۔ 


اتوار، 11 اگست، 2024

آج ایک وطن دیوانہ یاد آیا

 ۔قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں لکھتے ہیں، 'اکتوبر 1981 میں لندن میں وہاں کے ایک مشہور رسالے نیو اسٹیٹسمین (New Statesman) کا ایک شمارہ میری نظر سے گزرا۔ اس کے سرورق پر آغا حسن عابدی کی بڑے سائز کی رنگین تصویر چھپی تھی جس کے نیچے یہ کیپشن درج تھا: ہائی اسٹریٹ کا بینکر، جو حکومتیں خرید لیتا ہے۔'رسالے کے اندر بی سی سی آئی کے تعلق سے آغا حسن عابدی کے بارے میں چار صفحات کا طویل مضمون بھی درج تھا۔ مضمون کا فقرہ فقرہ حسد، رقابت، خوف اور نفرت کی بھٹی میں بجھا ہوا تھا، جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ صاحب مضمون کے مطابق بی سی سی آئی ایک ایسا بینک تھا جو خطرناک تیز رفتاری سے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہا تھا۔'قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: 'بی سی سی آئی کی ترقی اور وسعت کی یہ تیز رفتاری انگلستان کے اونگھتے ہوئے سست رو، سرد مہر، بے حس اور سرخ فیتوں میں جکڑے ہوئے غیر مثالی بینکوں کے لیے ایک زبردست خطرے کا نشان بن گئی تھی۔'وہ مزید لکھتے ہیں: 'یہ مضمون پڑھ کر مجھے کرید لگ گئی کہ میں آغا صاحب سے مل کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ ان کی ترقی کا اصل راز کیا ہے۔


انھوں نے شہاب نامہ میں آغا حسن عابدی سے ہونے والی ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مطابق ادارے کی انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان رشتہ ایسا تھا کہ ہر فرد خود کو ادارے کا فعال رکن تصور کرتا تھا۔ادارے کے زیر انتظام نہ صرف متعدد فلاحی ادارے کام کر رہے تھے بلکہ ادارہ کے ہر کارکن کو ہر برس پورے سال کی تنخواہ کی ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد تک اضافی رقم بھی اس شرط پر ادا کی جاتی تھی کہ وہ اسے اپنی ذات پر خرچ نہیں کرے گا بلکہ دوسروں کے کام میں لائے گا۔تاہم کوئی ملازم اس شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے، اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ معاملہ ہر شخص کے اپنے ضمیر اور اعتماد پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا مگر پھر اس کی یہی ترقی اور فلاحی کام بین الاقوامی اداروں کی نظر میں کھٹکنے لگے۔کمیں مالیاتی شعبے کے حوالے سے جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ایک ہی نمایاں ترین نام ہوگا اور وہ نام ہے آغا حسن عابدی کا۔ آغا صاحب نے دو بڑے بینکوں کی بنیاد رکھی اور دونوں کو کامیابی کے عروج تک پہنچایا۔ ایک بینک کی کامیابی کو اچھی قسمت کا نام دیا جاسکتا ہے لیکن جب اس بینک کو قومیا لیا گیا تو ایک دوسرے بینک BCCI کی بنیاد رکھی اور اس کو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی زبردست کامیابی نصیب ہوئی۔


آغا حسن عابدی 14؍مئی 1922ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں ہی حاصل کی اور لٹریچر میں ماسٹرز کیا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے بینکنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور حبیب بینک بمبئی میں شمولیت اختیار کرلی،ان کی محنت اور ذہانت کے باعث اس بینک نےنمایاں مقام حاصل کرلیا، پاکستان بننے کے بعد بھی اس بینک سے ہی منسلک رہے۔ 1957ء میں انتظامیہ سے کچھ اصولی اختلاف پر حبیب بینک چھوڑ دیا اور اپنا ایک بینک قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے اور یوں 1959ء میں یونائیٹڈ بینک کے نام سے ایک بینک قائم کیا جس نے ایک مختصر عرصے میں نمایاں مقام حاصل کرلیاجس کی 600سے زائد شاخیں ملک بھر میں اور ایک درجن سے زائد بین الاقوامی سطح پر کام کرنے لگیں جو بعدمیں دوسرا بڑا بینک بن گیا۔آغا حسن عابدی ایک دوراندیش اور اپنے شعبے کے ماہر تھے۔ انہوں نے پاکستان میں بینکوں کے قومی تحویل میں لئے جانے سے پہلے ہی ایک بین الاقوامی بینک کھولنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی اور لکسمبرگ میں اس کا ہیڈ کوارٹر قائم کرلیا تھا1974ء میں جب بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تو انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اس بین الاقوامی بینک پر مرکوز کردی اور اس کا نام BCCI رکھا۔ اس بینک کو آغا صاحب نے ایک بڑا بینک بنانے کیلئے انتھک محنت کی اور بہترین افراد کو اپنے ادارے میں جمع کیا۔


 اس بینک نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ 15؍سال کے عرصے میں یہ بینک نجی شعبے میں قائم دنیا بھر کے بینکوں میں 7؍ویں نمبر پر پہنچ گیا۔آغا صاحب نے 70ء کی دہائی میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بطور ٹرینی آفیسر بھرتی کیا جو آج بھی ملک کے مختلف بینکوں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کررہے ہیں۔وہ ایک خوشگوار اور طلسماتی شخصیت کے مالک،ایک خوش اخلاق اور انسان دوست شخص تھے، اپنے اداروں میں کام کرنے والوںسے عزت سے پیش آتے تھے خواہ وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو۔ ان کا رویہ ایک اعلیٰ ترین شخصیت سے لے کر تمام ورکرز تک یکساں ہوتا تھااور ایک وضعدار شخصیت تھے۔ گو کہ عابدی صاحب کا تعلق مالیاتی شعبے سے تھا لیکن ان کو زندگی کے مختلف شعبوں کو درپیش مسائل کا بھی ادراک تھا اس لئے وہ ان شعبوں کو درپیش مسائل کے حل میں خصوصی توجہ دیتے تھے ۔


 وہ ایک بہترین منتظم تھے اور لوگوں کے ساتھ اصولوں کی بنیاد پر تعلقات استوار رکھتے تھے۔ وہ انکساری اور ہمدردی کا ایک پیکر تھے۔ وہ انتظامی امور پر بات چیت کے ساتھ ساتھ شیکسپیئر، غالب، خلیل جبران کے اقوال کا اپنی گفتگو کے دوران ذکر کرتے تھے۔وہ دنیا کے دیگر کامیاب لوگوں کی طرح ایک انتہائی محنتی شخص تھے۔ بہت کام کرتے تھے لیکن چہرے پر تھکن کے آثار نہ ہوتے بلکہ ہر وقت تروتازہ اور مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں سے ملاقات کرتے۔عابدی صاحب بے شمار خصوصیات کے حامل شخص تھے۔ ان کی ذات مالیاتی شعبے کیلئے ہی نہیں بلکہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کیلئے مشعل راہ ہے۔ ان کا اپنے دور کے بڑے لوگوں سے بھی قریبی تعلق تھا جن میں میخائل گوربا چوف، جمی کارٹر، ڈینگ زیایونگ، اندرا گاندھی اور رابرٹ موگابے جیسی شخصیات شامل تھیں۔ عابدی صاحب کا دل پاکستان کیلئے دھڑکتا تھا۔ جب بھی پاکستان کو زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی، وہ ہمیشہ پیش پیش ہوتے۔انہوں نے بینک افسران کی ایک کھیپ تیار کی جو دنیا کے 73؍ممالک میں ان کے بینک کیلئے کام کرتے تھے اور افسران ان 73؍ممالک میں پاکستان کے سفیر ہوتے تھے۔عابدی صاحب نے پاکستان میں اتفاق فائونڈیشن جیسا ادارہ قائم کیا جو آج بھی صحت اور تعلیم کے شعبے میں فلاحی کام کررہا ہے۔انہوں نے غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ (GIKI) اور NUST جیسے اداروں کے قیام میں بھرپور حصہ لیا۔ آغا حسن عابدی کا نام ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔


کشمیر میں موئے مبارک کی مقدس آماجگاہ-حضرت بل درگاہ

 

   غلام نبی  گوہر ایک تاریخ نگار لکھتے ہیں: جن دنوں کشمیر پر افغان حکومت تھی۔ افغان حکمرانوں نے سرینگر کے مغرب میں جھیل ڈل کے کنارے سرسبز زمین کا وسیع رقبہ پر نئی درگاہ کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا اور وہاں درگاہ تعمیر کی گئی جہاں موئے  مبارک کو دیدار عام کے لئے  منتقل کیا گیا۔کہا  جاتا ہے کہ مغل بادشاہ  شاہجہاں 1044 ھجری مطابق 1634 عیسوی میں کشمیر سیر کے لئے آیا تو ایک مصاحب صادق خان بھی بادشاہ کے ساتھ تھا بادشاہ نے اس باغ کی ایک عمارت میں نماز ادا کی اور کہا جاتا ہے کہ صادق خان سے کہا کہ یہ مکان عیش و آرام کے لئے نہیں بلکہ عبادتِ خدا کے لئے زیادہ موزوں ہے.بادشاہ کی یہ خواہش 1111 ھجری مطابق 1699 عیسوی میں پوری ہوئی جب اورنگزیب کے عہدِ حکومت میں یہاں پر موئے مقدّس حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'لایا گیا.فاضل خان نے جو اُس وقت کشمیر کا صوبیدار تھا.اس موئے مقدّس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی باغِ صادق کی عمارت میں رکھا اور باغِ صادق آباد حضرت بل کے نام سے مشہور ہوا. اسی کے پاس ہی ایک اور شیعہ صوبیدار علی مردان خان نے تیل بل کے اوپر ایک باغ بنایا جس کے گرد پختہ دیوار تھی اس باغ کو نہر سیراب کرتی تھی اور باغ میں ایک حوض بھی تھا جو ہر وقت پانی سے لبریز ہوتا تھا اس باغ میں فوارے اور آبشار تھے چنار و بید مشک اور میوہ دار درخت لگائے گئے تھے اس میں ایسی عمارتیں تعمیر کی جو عجوبہ جیسی لگتی تھی اور یہ باغ حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے وقف کیا گیا تھا.اس کی آمدنی مشہد بھیجی جاتی تھی اس باغی کا نام علی آباد تھا کچھ آثار ابھی بھی موجود ہیں


..عزت و حشمت والے ایک صاحب سید عبداللہ روضہ مطہرہ کے متولی تھے جو اپنی بڑائی بزرگی,خود سری اور غرور کے موجب خلیفتہ المسلمین کے احکام کی تکمیل کا چنداں پروا نہ کرتے تھے اور حُکم عدولی کے لئے مدینہ منورہ سے جلا وطن ہونے کا فرمانِ شاہی اس کے حق میں صادر ہوا.مدینہ منورہ کے گورنر نے شاہی حکم کی تعمیل میں سید موصوف کو 1024 ھجری کے مہینوں میں ہندوستان جلا وطن کرکے اس کا مال و جائداد ضبط کیا.(حُکم عدولی کی وجہ غیر شرعی امور کی انجام دہی کے لیے دباؤ بھی کہا جاتا ہے جس کو سید موصوف خاطر میں نہیں لاتے تھے). حضرت سید عبداللہ نے مدینہ منورہ کو الوداع کہنے پر تین متبرک تحفے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوی مبارک کا ایک مویِ و دستارِ شریف اور حضرت علی علیہ السلام کے گھوڑے کا زین ساتھ اُٹھائے.ہندوستان پہنچنے پر مغل بادشاہ شاہ جہاں نے نہایت قدر دانی کی اور اور بیجا پور کی جاگیر مقرر کی.کچھ مدت گزرنے کے بعد سید موصوف کی وفات ہوئی.بعد میں عالمگیر نے حضرت سید کے بیٹوں کو داراشکوہ کی طرفداری کے الزام میں جاگیر ضبط کی. اس لئے گُزارہ کے لئے عاجز ہوگئے اور کشمیر کے ایک بڑے تاجر کوٹھیدار خواجہ نورالدین ایشہ بری سے جن کی کوٹھی اُردو بازار میں تھی اخراجات کے لیے ایک بھاری رقم اُدھار لی.بہت مدت کے بعد عالمگیر نے جائداد واگُزار کی.


لیکن اس مدت میں ان کو قرضہ ادا کرنے کی سکّت باقی نہیں رہی تھی اور مجبوری کے حالت میں انہوں نے خواجہ نور الدین کے ساتھ موئ مقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میدانش غلام کی مجاوری میں موئ مبارک تھا قرضہ کے عوض ہبہ کرنے کا فیصلہ کیا.خواجہ نورالدین نے اس فیصلے کو سعادت دارین خیال کرکے قرضہ دے دست برداری دیکر فارغ خطی لکھ کر دی اور موئ مبارک حاصل کیا سفر کا سامان باندھ کر کشمیر روانہ ہوا مگر عالمگیر کے جاسوسوں نے واقعہ کی خبر بادشاہ کو دے دی. بادشاہ نے حکم دیا کہ جہاں بھی موئ شریف ہو واپس لاکر میں دیدار کرنا چاہتا ہوں.خواجہ نورالدین جب لاہور پہنچا تو وہی گرفتار ہوا. موئ شریف اور میدانش غلام اس سے کے بادشاہ کو دیدار کے لئے روانہ کیا گیا.بادشاہ نے زیارت کرکے کہا کہ موئ شریف کو خواجہ معین الدین چشتی رح کی خانقاہ میں رکھا جائے اجمیر شریف میں موئ مبارک کو نو دن ہی گُزرے تھے کہ بقول بادشاہ کہ میں نے خواب میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور حکم دیا کہ میرا موئےمبارک  جو اجمیر میں ہے کشمیر بھیجدیا جائے 


اس کے بعد موئے مبارک  معہ میدانش غلام کو لاہور روانہ کیا گیا جہاں پر خواجہ نورالدین تپ دق سے وفات پاچُکے تھے میدانش خواجہ نورالدین کی نعش لے کر کشمیر کی طرف بڑھے.زیارت کے استقبال کے لئے ہیرہ پورہ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بڑی جماعت حضرت شیخ محمد رادھو کی پیشوائی میں گئے.شہر پہنچ کر موئےمبارک کو درگاہ عالیہ خواجہ معین الدین نقشبندی میں رکھا گیا   -حضرت بل  درگا ہ  شہر کے مرکز سے 10 کلومیٹر دور ہے ۔ اس علاقے میں ابتدائی آبادیاں ڈل جھیل کے کنارے آباد تھیں  اس علاقے کی زیادہ تر آبادی ہنگی (ماہی گیر) کی ہے۔ یہ علاقہ حضرت بل کے مزار کی تعمیر کے بعد مشہور ہوا جہاں ہر سال لاکھوں لوگ زیارت موئےمبارک کے لئے آتے ہیں اردو میں لفظ حضرت احترا م کی طرف مشیر ہے جبکہ بل کے معنی مقام کے ہیں۔ لہٰذا لفظ حضرت بل کا مطلب ہے وہ جگہ جو لوگوں میں بہت محترم ہے۔ ڈل جھیل اور اس کے آس پاس کی گھریلو کشتیوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ شہر کا مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے ۔  شروع میں موئے مبارک کو سرینگر میں خانقاہ نقشبندیہ میں عام لوگوں کی زیارت کیلئے رکھا گیا لیکن خانقاہ میں زیادہ لوگوں کیلئے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مغل بادشاہ، فاضل خان کے حکم اور لوگوں کے اصرا پر موئے مبارک کو باغ صادق‌آباد منتقل کیا گیا اور اس باغ کی عمارت کو موئے مبارک کی زیارتگاہ کے عنوان سے وقف کیا گیا یوں یہ عمارت "حضرت بال" کے نام سے مشہور ہو گئی۔

 پہلے یہ عمارت جو صادق آباد کے نام سے مشہور تھی پہلی بار 1033ھ میں بنائی گئی جو مغلوں اور کشمیری  طرز تعمیر کا نمونہ تھا-جب اس میں موئے مبارک کو لایا گیا تو اس کی مزید توسیع کی گئی اور اس کے مغرب میں مسجد اور مشرق میں ایک بڑی خانقاہ بنائی گئی۔    موجودہ عمارت مکمل طور پر سفید سنگ مرمر سے مسجد نبوی کے طرز پر بنائی گئی ہے۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر شہر کے امراء و عالموں اور مشائخ نے فاضل خان صوبیدار کشمیر سے مشورہ کرکے باغِ صادق آباد کو جو ڈل کے کنارے واقع تھا وسعت اور نزہت کے موجب بہترین مقام جان کر موئے  مبارک کو وہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا بادشاہ عالمگیر نے تین گاؤں گزارہ کے لئے دیئے.مرزا قلندر بیگ نے موئے  مبارک کشمیر پہنچنے کا یہ تاریخی قطعہ لکھا ہے.مرتے دم تک حضرت شیخ محمد رادھو موئے مبارک کی زیارت کراتے رہے اور اس کے بعد خواجہ نورالدین ایشہ بری کے داماد خواجہ بلاقی بانڈے کو یہ مبارک کام تفویض کردیا.اور یہ روایت جاری ہے اور یہ خاندان باری باری اس کام کی زیارت کراتے ہیں.

جمعرات، 8 اگست، 2024

بس مٹھی بھر پستے

  

 جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اینٹی  آکسیڈنٹس صحت کے لیے کتنے ضروری  ہوتے ہیں کیونکہ یہ خلیات کو ہونے والے نقصان کی روک تھام کرنے کے ساتھ مختلف امراض  کا خطرہ کم کرتے ہیں۔اور کسی بھی گری کے مقابلے میں پستوں میں اینٹی آکسیڈنٹس کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے، پستہ اخروٹ سے دوسرے نمبر پر بہتر ہوتا ہے۔غذائ ماہرین  کہ روزانہ کچھ مقدار میں پستے کھانے والے افراد میں لیوٹین اور y-Tocopherol کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔ پستے میں لیوٹین اور zeaxanthin کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو آنکھوں کی صحت کے لیے انتہائی اہم اینٹی آکسیڈنٹس ہیں ان کی مدد سے آنکھوں کو ڈیوائسز کی نیلی روشنی اور عمر بڑھنے سے پٹھوں میں آنے والی تنزلی سے تحفظ مل سکتا ہے۔ اسی طرح پستے میں موجود 2 اینٹی آکسیڈنٹس پولی فینولز اور tocopherols کینسر اور امراض قلب سے تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ اس گری میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس معدے میں بہت آسانی سے قابل رسائی ہوتے ہیں اور ہاضمے کے دوران جذب ہوجاتے ہیں


 اس بات کا بہت کم افراد کو علم ہے کہ مٹھی بھر پستے کھالینا بہتر صحت اور خوبصورتی کا انوکھا راز ہے۔7 ہزار قبل مسیح سے استعمال ہونے والے پستہ کا آبائی علاقہ ایران تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایشیاء کے دیگر علاقوں شام، ہندوستان اور ترکی کو بھی اس کا آبائی وطن مانا جاتا ہے۔ ایران اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ پستہ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور شام تیسرے نمبر پر ہیں۔ ترکی، چین، یونان، افغانستان، اٹلی، ازبکستان اور پاکستان میں پستہ کاشت کیا جاتا ہے۔بلوچستان میں پستہ کی جنگلی قسم Pistachio kinjakپہاڑی علاقوں میں اب بھی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ بلوچستان میں اس وقت کوئٹہ، مستونگ، قلات، پشین اور دیگر علاقوں میں پستہ کے باغات پائے جاتے ہیں۔ ضلع مستونگ میں محکمہ زراعت توسیعی کا ایک پستہ کا فارم سریاب فارم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں پستے کے کچھ قدیم درخت اب بھی موجود ہیں اور ہر سال نرسری میں ہزاروں کی تعداد میں پودے اُگائے جاتے ہیں۔

.

پستے میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا:چھلکوں کے بغیر ایک پیالی پستے میں 159 کیلوریز، 5.72 گرام پروٹین، 13 گرام چکنائیاں، 3 گرام فائبر، 7.70 گرام کاربوہائڈریٹس، 34 ملی گرام میگنیشیم، 291 ملی گرام پوٹاشیم، 0.482 ملی گرام وٹامن بی 6 اور 0.247 ملی گرام تھایامن ہوتا ہے۔ان اجزا میں سے وٹامن بی 6 میٹابولزم اور دماغی نشونما کیلئے نہایت مفید قرار پایا ہےپستہ کے طبی فوائد:٭پستہ مختلف طریقوں سے امراض قلب کا خطرہ کم کرتا ہے۔ اینٹی آکسیڈنٹس کے ساتھ ساتھ یہ گری بلڈ کولیسٹرول میں کمی اور بلڈ پریشر کو بہتر کرسکتی ہے جس سے بھی امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ مختلف تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوتا ہے کہ پستے کولیسٹرول کی سطح میں کمی لانے میں مدد دے سکتے ہیں ۔نقصان دہ کولیسٹرول کے شکار افراد پر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پستے کھانے سے کولیسٹرول کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ دن کی 20 فیصد کیلوریز اس گری سے حاصل کرنا کولیسٹرول کی شرح میں 12 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔


٭گریاں کھانے کے متعدد فوائد ہوتے ہیں مگر عام طور پر ان میں کیلوریز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے مگر پستے سب سے کم کیلوریز والی گریوںمیں سے ایک ہے۔ پروٹین کے حوالے سے پستہ بادام کے بعد دوسرا اہم ترین میوہ ہے۔ پستوں میں امینو ایسڈز کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے جو پٹھوں کی صحت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں جبکہ یہ امینو ایسڈز اس لیے بھی ضروری ہیں کیونکہ جسم خود انہیں بنا نہیں سکتا، اور وہ غذا کے ذریعے ہی حاصل کیے جاتے ہیں اسمیں ایک امینو ایسڈ ایل آرگینی بھی ہوتا ہے جو جسم میں جاکر نائٹرک آکسائیڈ میں بدل جاتا ہے جو شریانوں کو کشادہ کرنے کے ساتھ خون کی روانی میں مدد دیتا ہے۔٭ینٹی آکسیڈنٹس صحت کے لیے لازمی ہوتے ہیں کیونکہ یہ خلیات کو ہونے والے نقصان کی روک تھام کرنے کے ساتھ مختلف امراض جیسے کینسر کا خطرہ کم کرتے ہیں۔کسی بھی گری کے مقابلے میں پستوں میں اینٹی آکسیڈنٹس کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے، صرف اخروٹ ہی اس حوالے سے پستے سے بہتر ہوتا ہے۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ کچھ مقدار میں پستے کھانے والے افراد میں لیوٹین کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔ پستے میں لیوٹین کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو آنکھوں کی صحت کے لیے انتہائی اہم اینٹی آکسیڈنٹس ہیں ان کی مدد سے آنکھوں کو ڈیوائسز کی نیلی روشنی اور عمر بڑھنے سے پٹھوں میں آنے والی تنزلی سے تحفظ مل سکتا ہے۔ اسی طرح پستے میں موجود 2 اینٹی آکسیڈنٹس پولی فینولز اور tocopherols کینسر اور امراض قلب سے تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ اس گری میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس معدے میں بہت آسانی سے قابل رسائی ہوتے ہیں اور ہاضمے کے دوران جذب ہوجاتے ہیں۔٭پستے کو جسمانی وزن میں کمی کے لیے بہترین غذاؤں میں سے ایک مانا جاتا ہے، اگرچہ اس بارے میں زیادہ تحقیقی رپورٹس تو موجود نہیں مگر نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں پستے فائبر اور پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ دونوں ہی پیٹ کو بھرنے کا احساس بڑھانے کے ساتھ کم کھانے میں مدد دیتے ہیں ایک تحقیق کے دوران روزانہ 53 گرام پستے کھانے سے جسمانی وزن میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی محققین کے خیال میں اس کی ایک ممکنہ وجہ اس میں موجود چکنائی ہے جو پوری طرح جسم میں جذب نہیں ہوتا۔ چھلکوں والے پستے کھانے میں وقت زیادہ لگتا ہے اور ان چھلکوں کو دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ کتنی گریاں کھائی ہیں۔

٭پستے فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ جزو نظام ہاضمہ میں پوری طرح ہضم نہیں ہوتا، کچھ اقسام کے فائبر معدے میں موجود بیکٹیریا کی غذا بنتے ہیں جو پروبائیوٹیکس کا کام کرنے لگتے ہیں یہ بیکٹیریا فائبر کو شارٹ چین فیٹی ایسڈز میں بدل دیتا ہے جو متعدد طبی فوائد کا باعث بن سکتا ہے نظام ہاضمہ کے امراض کینسر اور امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔٭خون کی شریانوں کی اندرونی جھلی کے درست افعال بہت ضروری ہوتے ہیں اور اس میں خرابی امراض قلب کا خطرہ بڑھاتی ہے۔پستوں میں ایک امینو ایسڈ ایل آرگینی بھی موجود ہوتا ہے جو جسم میں جاکر نائٹرک آکسائیڈ میں بدل جاتا ہے یہ ایسا مرکب ہے جو شریانوں کو کشادہ کرنے کے ساتھ خون کی روانی میں مدد دیتا ہے، ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ 40 گرام پستے تین ماہ تک کھانے سے شریانوں کی اندرونی جھلی کے افعال اور شریانوں کی اکڑن میں بہتری دیکھنے میں آئی دوران خون ٹھیک رہنا بھی متعدد جسمانی افعال کو ٹھیک رکھنے کے لیے ضروری ہے۔٭اگر آپ غذائی حراروں (کیلوریز) کی وجہ سے پریشان ہیں تو 50 پستوں میں صرف 159 کیلوریز پائی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ خیال غلط ہے کہ پستے کھانے سے جسم موٹاپے کی جانب مائل ہوتا ہے۔٭2017 کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فائبر کی وجہ سے پستے آنتوں کے سرطان کو روکنے میں نہایت مفید ثابت ہوتے

بدھ، 7 اگست، 2024

آم کے آم گٹھلیوں کے دام

 ،آم کے لئے تو  یہ محاورہ پورے ہندوستان میں مشہور تھا لیکن اس کی سچی حقیقت اس وقت معلوم ہوئ جب واقعئ اس کی گٹھلی کے جادوئ اثرات پڑھنے کو ملےہم سب جانتے ہیں  کہ آم   صحت کے خزانوں سے مالا مال پھل ہے ۔ یہ مختلف بیماریاں دُور کرنے کی استعداد رکھتا ہے   لیکن آم کی گٹھلی کے فوائد   بھی بے شمار ہیں -آم کی گٹھلی کا حلوہ بنا کر کھانا اولاد نرینہ کے حصول کا بہترین زریعہ ہے۔ بیٹے کے خواہشمند جوڑے کو چاہئے کہ وہ آم کی گٹھلی کا حلوہ سوجی کے ساتھ بنا کر تین مہینے دونوں شوہر بیوی استعمال میں لائیں  اور انشاللہ اس کے بہرین نتائج دیکھیں اس کے علاوہ عام حالات میں بھی یہ گٹھلی طاقت کا خزانہ رکھتی ہے،   آپ اس کی گٹھلی پھینکنے کی بجائے سُکھا کے سفوف بنا کر رکھ لیں گے، تاکہ بوقت ضرورت استعمال کرسکیں۔دل کی بیماری کو دور رکھتی ہے۔اس کی گٹھلی کا استعمال دل کی بیماریوں اور ہائپر ٹینشن کے خطرے کو کم کرنے کے لئے مفید ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس کی گٹھلی سے حاصل ہونے والے عرق مجموعی طور پر کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جبکہ میٹابولزم کو متحرک کرنے اور وزن میں کمی کو فروغ دینے کے قابل بھی ہوتے ہیں، یہ سب مجموعی طور پر دل کی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔آم کی گٹھلی کیسے کھائیں؟کسی بھی پھل کا بیج کھانا بہت سے لوگوں کو عجیب لگتا ہے، لیکن اس کی گٹھلی جو غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے ۔ اگر آپ اس کی گٹھلی کے فوائد سے اس کی سب سے بہتر قدرتی شکل میں لطف اندوز ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو آپ  آم کے ساتھ ساتھ اس کی گٹھلی کو بھی استعمال کیجئے 


   غذائ ماہرین کا کہنا ہے کہ گٹھلی میں    بے شمار وٹامنز، منرلز اور معدنیاتی اجزا پائے جاتے ہیں۔ یعنی جو' جو خوبیاں طبی لحاظ سے آم میں پائی جاتی ہیں،وہی آم کی   گٹھلی میں پائ جاتی ہیں  اس  کا مطلب ہے کہ آم کی گٹھلی بھی طاقت کا بھر پور خزانہ ہےگٹھلیوں کو ہوا میں خشک کرکے ان کو گرائنڈر کا استعمال کرکے پیسا جائے یہاں تک کہ پاؤڈر بن جائے اور اس کو محفوظ کرلیا جائے۔  اس کے بے شمار فوائد میں  سینے کی جلن، مسوڑھوں کی خرابی، ذیابطیس، دست، قے اور لُو لگنے کی صُورت میں مفید ہے۔٭دانت اور مسوڑھوں میں درد یا خون رِسنے کی شکایت سے شفا کے لیے آم کی گٹھلی کے اندر سے گِری نکال کر سُکھا دیں اور سفوف بنا کر اس سے دانت صاف کریں٭کولیسٹرول بڑھنے کی شکایت میں آم کی سوکھی گٹھلی کا پاؤڈر ایک چمچ دِن میں ایک بار پانی کے ساتھ پھانک لیں۔وزن میں کمی کے لیے روزانہ نہار منہ ایک چائے کا چمچ گٹھلی کا سفوف استعمال کریں۔قبض یا اسہال کی شکایت میں گٹھلی کےسفوف کا ایک چمچ سادہ پانی سے پھانک لیں۔سَر کی جوؤںسے نجات کے لیے گٹھلی کے سفوف میں لیموں کا رس مِکس کرکے بالوں میں لگائیں اور آدھے گھنٹے بعد سَر دھولیں۔ ایک ہفتے کے استعمال سے جوئیں ختم ہوجائیں  گی۔ ایک بار آم پکنے کے بعد بیج سخت ہو جاتا ہے، جسے صرف پاؤڈر کی شکل میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ پھل نہ صرف مزیدار ہے بلکہ ایک متاثر کن غذائی پروفائل کا حامل بھی ہے۔مطالعات آم اور اس کے غذائی اجزاء کو صحت کے بہت سے  فوائد بتاتے ہیں، جس میں بہتر قوت مدافعت اور ہاضمہ کی صحت شامل ہے ۔ اس پھل میں پائے جانے والے کچھ پولی فینول  کینسرکے خطرے کو بھی کم کرسکتے ہیں۔

    آم کے مرکز میں یہ بڑے سائز کا کریمی سفید بیج غذائی اجزاء اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں۔آپ کو صرف انہیں  پاؤڈر یا پیسٹ اور یہاں تک کہ مکھن میں ملانے کی ضرورت ہے۔ آم کی گٹھلی  عام طور پر کچے آموں میں کھائی جاسکتی ہے۔ ایک بار آم پکنے کے بعد بیج سخت ہو جاتا ہے، جسے صرف پاؤڈر کی شکل میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کچھ فوائد ہیں۔آم کے بیجوں کے سب سے متاثر کن فوائد میں خشکی کے علاج، جلد اور بالوں کی شکل کو بہتر بنانے، ہاضمے کو سکون دینے، ذیابیطس کی علامات سے بچنے اور وزن میں کمی میں مدد سمیت بہت سے دیگر شامل ہیں۔جلد کی خوبصورتی کے لیے -اس کی گٹھلی اینٹی آکسیڈنٹس اور غیر مستحکم مرکبات کی کثافت کے ساتھ، جلد کی شکل کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے قابل ہوتا ہے، سوزش کی علامات کو کم کرتا ہے، جیسے مہاسوں، خاص طور پر جب پاؤڈر کی شکل متاثرہ حصے پر وقتی طور پر لگائی جاتی ہے۔ تو یہ جھریوں اور بڑھتی عمر کے دھبوں کی شکل کو کم کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔ 


بالوں کی دیکھ بھال اور خشکی کے لیے مؤثر۔آم کی گٹھلی کا پاؤڈر اور پانی کے ساتھ بالوں کا ماسک بنا کربالوں کی جڑوں پر لگانے سے، آپ اپنے بالوں کے فولیکلز کو مضبوط بنا سکتے ہیں، خاص طور پر جب آپ پیسٹ کو اپنی کھوپڑی میں رگڑتے ہیں۔ تو اس سے خشکی جیسی سوزش ور خارش بھی ختم ہوسکتی ہے۔خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے جلد کے ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اچھا ہوسکتا ہے۔یہ 2014 میں نیوٹریشن اینڈ میٹابولک انسائٹس نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آم کی گٹھلی کے عرق کے ساتھ باقاعدگی سے سپلیمنٹ لینے کے نتیجے میں بلڈ شوگر زیادہ کنٹرول ہوسکتا ہے، جو ذیابیطس کے شکار افراد یا اس حالت  کے خطرے سے دوچار افراد کے لئے بہت اچھا ہے۔اس کی گٹھلی خون میں شکر کی سطح کو کم کرسکتی ہے، یقینا جب مناسب مقدار میں کھایا جاتا ہے۔ تو وہ گلوکوز کے جذب ہونے کو اور شوگر کو کم کرنے کے لئے آنتوں اور جگر کے انزائم کو تبدیل کرتے ہیں۔اس کا استعمال ذیابیطس کے ڈاکٹر کے مشورے سے کریں۔ڈائریا کے خطرے کو کم کرتا ہے۔اس طرح کی حالت کے علاج کے لئے دن میں کم از کم دو بار آم کی گٹھلی کا پاؤڈر لیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کا پاؤڈر بنانے کے لئے اچھی طرح خشک کیا گیا ہے۔ شہد کے ساتھ ملا ہوا پاؤڈر ایک گرام سے زیادہ استعمال نہ کریں۔

 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر