جمعہ، 27 دسمبر، 2024

دیوسائی نیشنل پارک-بھورے ریچھوں کی سر زمین-parT -1

 

  دیوسائی نیشنل پارک-بھورے ریچھوں کی سر زمین

دیوسائی نیشنل پارک دنیا کے خوبصورت اور بلند ترین سطح مرتفع سے 13 ہزار 500 فٹ بلند اور 3 لاکھ 58 ہزار 400 ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔دیوسائی کو دنیا کی چھت اور لینڈ آف جائینٹز ‘land of the giants’ بھی کہا جاتا ہے۔ نانگا پربت کے برفیلے پہاڑ، شفاف ندی نالے، مچھلیاں، پرندے، سیکڑوں اقسام کے پودے (150 کے قریب ادویاتی پودے) اور کہیں کہیں بکری اور بھیڑ دیکھ کر دیوسائی پر جنت کا گماں ہونے لگتا ہے۔دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہے اور پھر بہار میں اس کے میدانوں میں دنیا کے نایاب رنگوں کے پھول کھل اٹھتے ہیں اور سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔اس خوبصورت مقام دیوسائی کو 1993ء میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور اس میدان میں پھلتے پھولتے تمام جاندار محفوظ قرار پائے اور اس میں سب سے اہم فلیگ شپ نوع بھورے ریچھ کا تحفظ تھا، لیکن اسی تحفظ یافتہ بھورے ریچھ کے حوالے سے کمیونٹی میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔یہ ریچھ ہمارے جانوروں کو کھا جاتا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہم اس بھورے ریچھ کو مار ڈالیں‘، مقامی نوجوان نے ناراضی کا اظہار کیا۔ہم اسکردو سے 30 کلومیٹر دُور سدپارہ گاؤں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ گاؤں دیوسائی نیشنل پارک کے بفرزون میں آتا ہے۔ گاؤں والوں کی ناراضی کی وجہ ان کا یقین ہے کہ دیوسائی کا بھورا ریچھ جسے ہمالین براؤن بیئر یا ursus arctos بھی کہا جاتا ہے ان کے جانوروں کا شکار کرتا ہے جبکہ نیشنل پارک کی انتظامیہ اس سے انکار کرتی ہے۔دیوسائی نیشنل پارک کی انتظامیہ اور مقامی آبادی کے مابین ریچھ کے حوالے سے ابتدا ہی سے یہ تنازع موجود ہے اور 26 سال گزرنے کے باوجود یہ جھگڑا طے نہیں ہوسکا کہ براؤن بیئر جانور کھاتا ہے یا نہیں؟


دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے۔ ریچھوں کی یہ قسم پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکا میں بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ الپائن میڈو اینڈ سب الپائن اسکرب میں پائی جاتی ہے۔ چند ریچھوں کو راما اور بیافو گلیشئرز جبکہ چند ایک چترال اور خنجراب نیشنل پارک میں بھی دیکھے گئے لیکن ان کا اصل مسکن دیوسائی کے میدان اور برفیلے پہاڑ ہیں۔دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے—فوٹو: کامران سلیمنیشنل پارک کے قیام سے پہلے ریچھوں کی تعداد بہت کم تھی۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آباد سے وابستہ وقار ذکریا نے دیوسائی کو نیشنل پارک کا درجہ دلوانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وقار ذکریہ پیشے کے اعتبار سے تو انجینئر ہیں لیکن جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ان کی خدمات 38 سالوں پر محیط ہیں۔وقار ذکریہ بتاتے ہیں کہ جب 20، 25 سال پہلے ہم یہاں ٹریکنگ کرتے تھے تو ہمیں کوئی ریچھ نظر نہیں آتا تھا۔ 


لیکن جب ہم نے سروے کیا تو صرف 17 ریچھ ملے تھے لہٰذا ہم نے کوشش کرکے دیوسائی کو نیشنل پارک ڈیکلیئر کروایا اور اب تازہ ترین سروے کے مطابق یہ تعداد 76 ہوچکی ہے۔ یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔لیکن مقامی آبادی نیشنل پارک میں ریچھوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جانوروں کے ایک مقامی ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’چونکہ ریچھوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور نیشنل پارک میں ان کے لیے خوراک کافی نہیں رہی اس لیے اب یہ شکار کے لیے آبادیوں کے قریب نالوں میں آجاتے ہیں‘۔سدپارہ کے عباس جان کا کہنا ہے کہ نیشنل پارک کا یہ رقبہ ریچھوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے بہت کم ہے۔ اس لیے اب یہ نیشنل پارک کے حدود کے باہر موجود نالوں میں آجاتے ہیں جہاں ہمارے جانور چرتے ہیں تو اب ہم اپنے جانور کہاں لے جاکر چرائیں؟ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال صرف میلپن نالے میں 8 بکریاں شکار ہوئیں۔ اگر ایک گائے یا بکری بھی ماری جاتی ہے تو غریب آدمی کا ہزاروں کا نقصان ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے نقصان کا ازالہ کیا جانا چاہیے لیکن ڈپارٹمنٹ کے لوگ ہماری بات سننے کے بجائے ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔


عباس جان نے مزید کہا کہ پچھلے سال جہاں جانور مرا تھا وہاں نہ صرف ریچھ کے قدموں کے نشانات موجود تھے بلکہ اس کا فضلہ بھی موجود تھا۔ ہم نے تمام ثبوت ڈپارٹمنٹ کو دیے مگر انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا-دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہےایک اور گاؤں چلم استور کے فدا علی سلطانی جن کا ہوٹل بھی ہے، وہ عباس کی تائید کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریچھ شدید سردیوں سے پہلے خوراک کی تلاش میں دیوسائی سے نیچے اتر کر نالوں میں آجاتے ہیں۔ اس سال 50 سے 60 جانور ریچھ کی خوراک بن چکے ہیں۔ ریچھ کو ہم نے گاؤں میں گھومتے بھی دیکھا ہے۔اس کا ثبوت دیتے ہوئے فدا علی کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص بشارت حسین ہوٹل سے رات کے وقت واپس گھر جارہا تھا تو اسے اپنے گھر کے دروازے پر ریچھ نظر آیا اور اس نے بمشکل گھر میں داخل ہوکر اپنی جان بچائی۔وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن بھی ایسے تمام شواہد کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیوسائی کا براؤن بیئر omnivore ہے یعنی گھاس خور بھی ہے اور گوشت خور بھی، لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ  مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتا ہے۔


 بیئر کی feces کا تجزیہ اور تحقیق موجود ہے جس کے مطابق اس کی خوراک جڑی بوٹیاں اور دیوسائی پر پائے جانے والے چھوٹے چوہے (voles) ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کے جانور مرتے ضرور ہوں گے مگر اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ دیوسائی میں اور بھی تو جانور ہیں مثلاً بھیڑیے ہیں اور اسنو لیوپرڈ بھی دیکھا گیا ہے لیکن چونکہ نیشنل پارک بننے کے بعد ریچھ کی اہمیت بڑھ چکی ہے اس لیے ریچھ پر الزام لگایا جاتا ہے۔ ۔ ریچھ کو ہم نے گاؤں میں گھومتے بھی دیکھا ہے-اس کا ثبوت دیتے ہوئے فدا علی کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص بشارت حسین ہوٹل سے رات کے وقت واپس گھر جارہا تھا تو اسے اپنے گھر کے دروازے پر ریچھ نظر آیا اور اس نے بمشکل گھر میں داخل ہوکر اپنی جان بچائی۔وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن بھی ایسے تمام شواہد کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیوسائی کا براؤن بیئر omnivore ہے یعنی گھاس خور بھی ہے اور گوشت خور بھی، لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ وہ مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتا ہے۔ بیئر کی feces کا تجزیہ اور تحقیق موجود ہے جس کے مطابق اس کی خوراک جڑی بوٹیاں اور دیوسائی پر پائے جانے والے چھوٹے چوہے (voles) ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کے جانور مرتے ضرور ہوں گے مگر اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ 


شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی  نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔میں شبینہ فراز بیٹی کا مضمون ان کے شکرئیے کے ساتھ اپنی ویب سائٹ پر دے رہی ہوں


 


1 تبصرہ:

  1. اس خوبصورت مضمون کو پڑھنے کے بعد میرے دل سے آواز آئ -اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر