بدھ، 25 دسمبر، 2024

یا اللہ !جنت میں میرا ہم سایہ کون ہوگا؟حضرت موسیٰ علیہ السلام

 


ایک مرتبہ حضرت موسیؑ کوہ طور پر جب اللہ تعالیٰ سے ہم کلام تھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ، ’’جنت میں میرا ہم سایہ کون ہوگا؟‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ، ’’فلاں شہر کا فلاں قصاب جنت میں تیرا ہمسایہ ہوگا!‘‘ جس پر حضرت موسیؑ کو تجسس ہوا کہ، وہ قصاب ایسا کون سا عمل کرتا ہوگا جو اسے اتنا بڑا رتبہ ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس شہر کی جانب گئے، وہاں قصاب کو تلاش کیا اور خاموشی سے دیکھتے رہے کہ، اس کا کون سا عمل ہے، جو اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند آیا۔ دن بھر میں اس قصاب نے اپنا سارا گوشت سوائے ایک ٹکڑے کے فروخت کر دیا۔ پھر اس ٹکڑے کو تھیلے میں ڈال کر گھر کی طرف چل پڑا۔ آپ اس کے پیچھے پیچھے اس کے گھر تک آ گئے۔پھر آپ نے قصاب سے مہمان بننے کی گزارش کی، جس پر قصاب نے کہا کہ، ’’بسمہ اللہ‘‘ آپ اس کے ساتھ گھر کے اندر چلے گئے۔قصاب نے گھر کے اندر جا کر  گوشت کو اچھی طرح پکایا، پھر چند بوٹیوں کو دانتوں سے چبا کر نرم کیا۔ پھر گھر کے اندورنی حصّے میں چار پائی پر لیٹی ضعیف خاتون کو اٹھایا، اسے پیار سے کھانا کھلایا، پانی پلایا اور اس کا بستر وغیرہ سیدھا کیا، پھر اس بوڑھی خاتون نے قصاب کے کان میں کچھ کہا،جس پر وہ مسکرا دیا۔ اور وہ اس خاتون کو آرام سے لٹا کر کمرے سے باہر آگیا۔

 حضرت موسیٰؑ کو امید تھی کہ شاید وہ کوئی خاص عمل کرتا ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے، مگر اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا، پھر اس نے حضرت موسیٰؑ کو بھی کھانا کھلایا۔ کھانا کھانے کے بعد انہوں نے اس قصاب سے دریافت کیا کہ بستر پر لیٹی ہوئی خاتون کون ہے اور اس نے قصاب کے کان میں کیا کہا تھا۔ جس پر قصاب نے کہا کہ،’’ وہ میری والدہ ہیں، وہ بہت سادہ عورت ہیں، جب بھی میں اسے کھانا کھلاتا ہوں، تو مجھے یہی دعا دیتی ہیں کہ، ’’یا اللہ میرے بیٹے کو جنت میں اپنے نبی موسیؑ کا ہمسایہ بنانا‘‘ جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ، کہاں میں معمولی قصاب اور کہاں حضرت موسیٰؑ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی‘‘۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ، ’’میں ہی موسیٰؑ ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ، فلاں قصاب جنت میں میرا ہمسایہ ہوگا یہ سن کر میں تمہاری زیارت کے لیے آیا ہوں‘


 حضرت موسیٰ  علیہ السلام    کے اس بصیرت افروز قصے سے ہم کو ماں منزلت  اور قدر کا انازہ ہوتا ہے -قران کریم میں جگہ جگہ  اللہ  کریم فرمارہا ہے ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے پیدا کیا۔ماں ایک ایسی ہستی کا نام ہے جو اپنے بچے کی خاطر تمام تکالیف برداشت کرلیتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچے سے محبت کرتی ہے اگر اس کے دل میں محبت نہ ہوتی تو وہ ہر گز سختیاں برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوتی لہذا ماں کا مقام بہت بلند ہے جسے صرف قرآن ہی میں نہیں بلکہ روایات میں تلاش کیاجاسکتا ہے ماں کے حق کے متعلق  روایات میں بھی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے،امام صادق علہ السلام نے منقولہ ایک حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ ایک انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیااور کہنے لگایارسول اللہ ! میں کس کے ساتھ نیکی کروں ؟اپنی ماں کے ساتھ،اس نے عرض کیا اس کے بعد،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اپنی ماں کےساتھ،تیسری بار پھر اس نے عرض کیا اس کے بعد؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرولیکن چوتھی بار اس نے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ  احکام دینی میں ماں کے حقوق کی رعایت اس کا احترام اور اس کی منزلت بہت زیادہ ہے کیونکہ بچے سے متعلق اس کی ذمہ داریاں باپ سے زیادہ ہیں لہذا اس سے متعلق زیادہ تاکید کی گئی ہے۔سی نصیحت تاکید اور حکم کو سورہ الاحقاف میں دہراتے ہوئے فرمایا، میرا اور اپنے والدین کا بھی شکر ادا کرو-

امام سجاد علیہ السلام اپنے رسالہ حقوق میں ماں کے حق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ماں کا  حق ادا کرنا انسان  کے لئے ناممکن ہے لیکن اگر خدا وندمتعال کی توفیقات اس کے شامل حال ہوجائیں تو تب انسان ماں کے حق کو ادا کر نے پہ قادر ہوپائے گا کیونکہ ماں نے حمل کے دوراں جو سختیاں اور مشکلات برداشت کی ہیں اس کے علاوہ بچے کی پیدائش کے بعد جو زحمات اور فداکاریاں انجام دیتی ہے ان کی تلافی نہیں کی جاسکتی۔قرآن کریم میں والدین اور خصوصی طور پر ماں کی قدر منزلت اور اس کا جدا گانہ مقام اور حقوق  بیان کرنے کے لیے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سورہ لقمان میں ارشاد فرمایا ،"ہم نے انسان کو اس کے والدین کے متعلق تاکید کی ہے کہ اس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے ہوتی ہے(پھر اس کو دودھ پلاتی ہے )اور (آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا 
ہوتا ہے

 والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والو! آگاہ ہو جاؤ کہ کلمہ شہادت پڑھنا نصیب نہ ہوگا- حضرتِ عبد الله بن سلام رضی الله تعالیٰ عنہ بستر مرگ پر تھے، سرکارِ دو عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا آخری دیدار کرنا چاہتے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبد الله کے سرہانے جاکر فرمایا:اے عبد الله پڑھو - اشهد ان لا اله الا الله-مگر وہ نہیں پڑھ سکے- آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اسی طرح تین مرتبہ پڑھنے کو فرمایا، مگر وہ نہ پڑھ سکے- آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ دنیا میں ان کے اعمال کیسے تھے اور ان کا مشغلہ کیا تھا؟ جواب دیا یارسول الله! الله کی قسم! جب سے انہوں نے مجھ سے نکاح کیا ہے، میں نہیں جانتی کہ سرکار عليك التحية والثناء کے پیچھے، ان کی کوئی نماز چھٹی ہو- ہاں ان کی ماں ان سے ناراض ہے-آپ نے ان کی والدہ کو طلب فرمایا- فرمایا، اے ضعیفہ! اگر تم اپنے بیٹے کو معاف کر دوگی تو تمہارا حق میرے ذمہ ہے- اس ضعیفہ نے عرض کی یارسول الله! آپ اور آپ کے اصحاب گواہ ہیں کہ میں نے اسے معاف کردیاخداوند عالم ہر اولاد کو اپنے والدین کا فرمانبردار بننے کی تو فیق عطا فرمائے آمین -  

1 تبصرہ:

  1. ماں شفقت ، خلوص ، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے ۔ ماں دُنیا کا وہ پیارا لفظ ہے جس کو سوچتے ہی ایک محبت ، ٹھنڈک ، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈی چھاو¿ں کی مانند ہے ۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِسایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے ۔ اس کی گرم گود سردی کااحساس نہیں ہونے دیتی ۔ خود بے شک کانٹوں پر چلتی رہے ، مگر اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے اور دُنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر