جمعہ، 27 دسمبر، 2024

لواری ٹنل 42 سالہ تعمیراتی دور سے گزر کر مکمل ہوئی

 

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلعے چترال کے عوام کے لیے موسم سرما میں ’لائف لائن‘ کی حیثیت رکھنے والی ملک کے سب سے بڑی سرنگ لواری ٹنل کے منصوبے پر کام کے آغاز   42 سال قبل  اپنے وقت  کے وزیر اعظم  وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دو حصوں پر مشتمل لواری ٹنل کا افتتاح کردیا ہے۔وزیراعظم نے ٹنل کا افتتاح کرنے کے بعد ٹنل کے اندرونی حصے کا بھی معائنہ کیا۔اس موقع پر ان کے ہمراہ گورنر اقبال ظفر جھگڑا، سابق گورنر و مشیر ہوا بازی سردار مہتاب عباسی بھی موجود تھے۔لواری ٹنل 42 سالہ تعمیراتی دور سے گزر کر مکمل ہوئی ہے، اس انتہائی اہم سرنگ کا پہلی بار سنگ بنیاد 5 جولائی 1975 کو وزیر بین الصوبائی رابطہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے رکھا تاہم 5 جولائی 1977 کو سابق جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا کر اس منصوبے پر کام بند کروا دیا۔ اس سے اگلے مرحلے میں  وزیراعظم نواز شریف نے لواری ٹنل کا افتتاح کیا، اس موقع پر وزیر اعظم کے ہمراہ گورنر اقبال ظفر جھگڑا، سابق گورنر و مشیر ہوا بازی سردار مہتاب عباسی بھی موجود تھے جب کہ وزیراعظم نے ٹنل کا افتتاح کرنے کے بعد ٹنل کے اندرونی حصے کا بھی معائنہ کیا۔6 اکتوبر 2006 کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر لواری ٹنل کے دونوں طرف دوبارہ کام شروع کیا گیا، 2008 میں ٹنل مکمل ہوئی اور گاڑیوں کی آمد و رفت سرنگ کے اندر سے شروع ہوئی، 2009 سے 2017 تک سردیوں میں لوگوں کو آمد و رفت کی اجازت دی گئی۔

لواری ٹنل کی تعمیر کے بعد چترال کے مسافروں کو 10500 فٹ بلند لواری ٹاپ عبور کرنے سے نجات مل جائے گی اور پورا سال آمد و رفت کی سہولت بھی میسر رہے گی، سردیوں میں برفباری کی وجہ سے لواری ٹاپ بند ہونے سے آمد و رفت رک جاتی تھی جب کہ اب سفر کا دورانیہ بھی 2 گھنٹے کم ہو جائے گا۔ لواری ٹنل دو حصوں پر مشتمل ہے، بڑی ٹنل 9 کلومیٹر طویل جب کہ چھوٹی کی لمبائی 2 کلو میٹر ہے۔جناب ذوالفقار علی بھٹو  کے دور حکومت میں ہوا لیکن بار بار کی تاخیر کی وجہ سے یہ منصوبہ آج تک مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔پہاڑی علاقے میں واقع لواری ٹنل چترالیوں کےلیے ہمشہ سے ایک سہانا خواب رہا ہے۔ ساڑھے آٹھ کلومیٹر اس طویل سرنگ پاکستان کا سب سے بڑا ٹنل سمجھا جاتا ہے  ۔اس منصوبے پر پہلی مرتبہ کام کا آغاز سن 2005 میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا لیکن بعد میں حکومتی دلچسپی کم ہونے کی وجہ سے تعمیراتی کام بار بار تاخیر کا شکار ہوتا رہا۔لواری ٹنل دو حصوں پرمشتمل ہے جس پر مجموعی طور پر 22 ارب روپے لاگت آئی ہے۔ پہلا حصہ تقریباﹰ 9 کلومیٹر اور دوسرا حصہ 3 کلو میٹر پر محیط ہے جو پشاور سے چترال دیر، ملاکنڈ، مردان اور اطراف کے علاقوں کو ملاتا ہے۔

 پشاور سے چترال کی چودہ گھنٹے کی مسافت اب نصف وقت میں طے ہوسکے گی۔خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلعے، چترال کے عوام کے لیے موسم سرما میں لائف لائن کی حیثیت رکھنے والی ملک کی سب سے بڑی سرنگ پر کام کا آغاز 1975 میں ہوا تھا، تاہم ملک میں تیسرے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاالحق نے فنڈز کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر کام روک دیا تھا۔ گیارہ سال قبل جنرل مشرف نے ٹنل کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا، مگر ریل ٹنل کو روڈ ٹنل میں تبدیل کردیا گیا جس کے باعث بھی یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوا۔ٹنل کی تعمیر سے چترال اور اطراف کے علاقوں میں آباد پانچ لاکھ سے زائد افراد کو ہر موسم میں سفر کی سہولت دستیاب ہوگی۔ ٹنل کے منصوبے میں چار پل اور دونوں جانب رابطہ سڑکیں بھی شامل ہیں جس سے تین گھنٹے کا سفر اب محض پندرہ منٹ میں طے کیا جاسکے گا۔ دوسری ٹنل کی تعمیر سے پہاڑی کا بیشتر حصہ ختم ہوگیا ہے اور اب گاڑیاں ایک ٹنل سے نکل کر ایک پل کو عبور کرتے ہوئے دوسری ٹنل میں داخل ہوجائیں گی۔


لواری ٹنل کے پراجیکٹ ڈائریکٹر انجنئیر محمد ابراہیم مہمند کا کہنا ہے کہ ابتدائی طورپر یہ ریل ٹنل کا منصوبہ تھا لیکن بعد میں حکومت کی طرف سے اسے روڈ ٹنل میں تبدیل کیا گیا جسکی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار رہا ۔انھوں نے کہا کہ سنہ 2010 کے سیلاب اور اس کے علاوہ شدید بارشوں سے بھی وقتاً فوقتاً کام میں روکاوٹ پیش آتی رہی۔پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق ’ آجکل دو شفٹوں میں دن رات تیزی سے کام جاری ہے اور اگلے سال یعنی مارچ 2017 تک تمام کام مکمل کرکے اسے عام ٹریفک کےلیے کھول دیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے خصوصی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ اس منصوبے کو وقت پر مکمل کردیا جائے اور اس کےلیے فنڈز کا بھی کوئی ایشو نہیں رہا۔ان کا کہنا تھا کہ لواری ٹنل کی تعمیر سے چترال کی تقریباً پانچ لاکھ آبادی کو ہر موسم میں اس سرنگ سے جانے کی سہولت میسر ہوگی۔لواری ٹنل کے منصوبے میں چارپل اور دونوں جانب رابطہ سڑکیں بھی تعمیر کی جائیں گی جس سے اندازہ ہے کہ تین گھنٹے کا راستہ 15منٹ میں طے کیا جاسکے گا۔


 اس کے ساتھ ساتھ چترال کی طرف ایک اور سرنگ بھی بنائی جارہی ہے جسے ٹنل نمبر دو کا نام دیا گیاہے۔یہ ٹنل تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر پر مشتمل ہے جو مرکزی ٹنل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔پراجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ٹنل نمبر دو کی تعمیر سے پہاڑی کا بیشتر حصہ ختم ہوجائے گا اور گاڑیوں کو ایک سرنگ سے نکل کر صرف ایک پل کو عبور کرنا ہوگا جس کے بعد دوسری سرنگ میں داخل ہوں گی جس سے ڈرائیوروں اور مسافروں کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئےگا اور ٹریفک میں بھی رواں دواں رہے گی۔۔انھوں نے کہا کہ موسم سرما میں چترال پاکستان سے کٹ کر رہ جاتا ہے کیونکہ لواری پاس کا پہاڑی راستہ برف باری کی وجہ سے مکمل طورپر بند ہو جاتا ہے اور لوگوں کے پاس ہوائی جہاز کے ذریعے سے ملک کے دیگر علاقوں میں جانے کےلیے اور کوئی  ذریعہ نہیں ہوتا تھا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر