ہفتہ، 28 دسمبر، 2024

دیو مالائ حسین وادی میں شندور پولو میلہ

 

 شندور میلہ اور شندور پولو کی تاریخ ۔۔۔ قدرتی حسن سے مالا مال دیو مالائ حسین  وادی میں   چاند کی   روشنی میں کھیلا   جانے والا یہ منفرد کھیل اب پوری دنیا میں  پاکستان کے خو بصورت چہرے سے روشناس کروا رہا ہے -آئے پہلے اس کھیل اور اپنے جنت  گمان گلگت بلتستان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں 

 بنیادی طور پر گلگت  بلتستان دو خطوں پر مشتمل ہے۔ایک حصہ '' بلتستان'' جب کہ دوسرا ''گلگت'' کہلاتا ہے۔ سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت بھی خوب اہمیت کی حامل ہے۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہ ِہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے سنگلاخ و د ل فریب قدرتی حصار میں انمول ہیرے کی طرح جگمگاتا گلگت  بلتستان کا خطہ پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے مشہور تھا۔ تقریباً پندرہ لاکھ آبادی اور چودہ اضلاع پر مشتمل یہ صوبہ حسین وادیوں،دل موہ لینے والے میدانوں، برف پوش پربتوں، قدرت کی رعنائیوں،نایاب پھولوں اور رسیلے پھلوں سے لدے خوب صورت باغات کی بدولت جنت نظیر کا درجہ رکھتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح ہر برس گلگت  بلتستان کے خوب صورت ترین مقامات کی سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ صوبے کے اہم سیاحتی مقامات میں دیوسائی، شنگریلا،  فیری میڈوز، کچورا جھیل، خنجراب، بابوسر ٹاپ، عطا آباد جھیل، خلتی جھیل،ستپارا جھیل، راما، سرد صحرا، پھنڈر، شندور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موسمِ گرما کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا بھرکے لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ چند ہی برسوں میں یہ صوبہ اپنی مبہوت کر دینے والے حسن و دل کشی، سحر انگیزپربتوں اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بدولت اپنی الگ شناخت بنا چکا ہے۔

چترال میں واقع شندور ٹاپ جہاں مشہور شندور پولو میچ کھیلا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے شندور میلہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے ۔ خوبصورت پہاڑوں ، سرسبز میدانوں، شفاف نیلگوں پانی کی نہروں ، چنار کے درختوں اور پھولوں میں گھرے اس علاقے کی خوبصورتی کشاں کشاں لوگوں کو دنیا بھر سے کھینچ لاتی ہے۔ شندور میلے کے دوران چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جاتا ہے جس کو دیکھنے کیلئے ایک بڑی تعداد جمع ہوتی ہے اور ہر حملے پر داد وتحسین کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں یہ روایت سینکڑوں سالوں سے اسی طرح چلی آرہی ہے ۔ پولو کا یہ میدان3734 میٹر کی بلندی پر شندور پاس کے پاس واقع ہے ۔ تین روزہ میچ کے دوران میدان کے گرد سیاح ٹینٹ لگاتے ہیں اور رہائش اور کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اس دوران مختلف علاقوں اور ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہے ۔ اس میلے میں پہنچنے کیلئے عمومی طور پر سیاحوں کا سفر اسلام آباد سے شروع ہوتا ہے ،’’فور ویلر‘‘ گاڑ ی میں سوات اور دیر کی وادیوں سے گزرتے ہوئے لواری پاس سے ہوتے چترال پہنچتے ہیں۔


کیلاش کی وادی بھی رستے میں پڑتی ہے ، کیلاش کے قبائل تین علاقوں میں منقسم ہیں جن میں بھمبورٹ، رمبر اور بھر شامل ہیں جنہیں سکندر اعظم کی فوج کی نسل سے قرار دیا جاتا ہے ۔کو ہ ہندوکش میں ترچ میر کی برف میں ڈھکی خوبصورت چوٹی کو بھی یہیں سے گزرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ سفر کے دوران آپ کے پاس کیا ہونا چاہیے:پانی کی بوتل، ٹارچ، کیپ، ہلکے اور گرم کپڑے، واٹرپروف جیکٹس، کیمرہ، نوٹ بک، تولیہ، جاگنگ شوزیا ٹریکنگ شوز، چھتری، واکنگ چھڑی ، صابن۔شندور تک پہنچنے کیلئے اسلام آباد سے بذریعہ سڑک یا اسلام آباد ٹو گلگت بذریعہ ہوائی جہاز سفر اختیار کیا جاسکتا ہے ۔گلگت شہر سے خضر شندور تک سڑک بہت اچھی بنی ہوئی ہے اور رستے میں بہت سے قدرتی مناظر کو دیکھتے ہوئے انسان کی آنکھیں اللہ پاک کی کبریائی کے آگے جھک جاتی ہیں۔خلتی و پھنڈر جھیل اور شندور جھیل کے دل کو موہ لینے والے مناظر سے متاثر ہوئے بنا کو ئی سیاح رہ نہیں پاتا۔ یہاں کے خوشگوار موسم میں جولائی اگست کے مہینے میں شندور میلا منعقد ہوتا ہے جو کہ تین روز تک جاری رہتا ہے ۔


 شندور کو عام طور پر دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔پنجی کے مقام پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو الگ کرنے والی پٹی بھی واقع ہے ۔ شندور ٹاپ پر ہموار میدان ہے جو کہ شندور جھیل کے ساتھ واقع ہے جہاں گرائونڈ پر پولو میچ کھیلا جاتا ہے ۔یہ گرائونڈ سکردو کے راجہ علی شیر خان انچن نے تعمیر کروائی تھی ۔ پولو ٹورنامنٹ 1936ء سے ہر سال کھیلا جاتا ہے جسے دیکھنے کیلئے ملک بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں ۔ شندور فیسٹیول میں پولو میچ کے لئے فائنل ٹیمیں منتخب کرنے کیلئے ضلع چترال اور ضلع گلگت کی ٹیموں کے درمیان متعدد میچز ہوتے ہیں ۔میچ کا وقت ایک گھنٹہ رکھا جاتا ہے اور اس میںدو وقفے ہوتے ہیں ۔گرائونڈ کو دو سو میٹر لمبا اور56 میٹر چوڑا رکھا جاتا ہے ۔ دونوں اطراف کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کیلئے ان کے سپورٹر ز جمع ہوتے ہیں اورمیچ نہایت جوش و جذبہ اور انہماک سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس موقع پر مقامی فوک میوزک، بار بی کیو اور کیمپنگ کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔شندور میں پولو کی شروعات برطانوی باشندوںنے رکھی ۔


 یہ کہا جاتا ہے کہ 1935 ء میں، شمالی علاقوں کے لئے برطانوی ایڈمنسٹریٹر ایولین ہے کوب نے نیات قبول حیات کاکا خیل کو شندور میں ایک اچھی پولیو گرائونڈ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں کی مدد سے پولو گرائونڈ بنائی۔ بعد میں اس پولو زمین کو’’ماس جنالی‘‘ کا نام دیا گیا ۔ ’’ماس جنالی‘‘ لفظ کھوار زبان سے حاصل کیا گیا ہے ۔لفظ ’’ماس‘‘ کا مطلب چاند اور ’’جنالی‘‘ کا مطلب ہے پولو گرائونڈ۔میجر ہے کوب پورے چاند کی روشنی میں پولو کھیلنے کا شوقین تھا اور شندور جھیل کے قریب پورے چاند کی رات میں پولو کھیلنے کا اپنا ہی لطف تھا جس کیلئے اس نے 37 سو میٹر کی بلندی پر پولو گرائونڈ بنواکر آنے والی نسلوں کے لئے ایک تفریحی مقام بنا دیا۔ کاکاخیل کی خدمات کے صلہ میں ہے کوب نے انہیں انعامات سے نوازنے کا اعلان کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ لینے سے انکار کرتے ہوئے ٹرائوٹ مچھلی مقامی جھیلوں میں ڈالنے کی فرمائش کی جسے پورا کرتے ہوئے ہے کوب نے انگلینڈ سے زندہ ٹرائوٹ منگوائی اور انہیںدریائے خضر میں ڈلوادیا۔اس طرح محکمہ فشریز قائم ہوا اور سینکڑوں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔اب ان مچھلیوں کی پیداوار ہدراب جھیل میں اور بہا جھیل میں خاصی ہو چکی ہے ۔ اس طرح ماس جنالی گلگت اورخیبرپختونوا کے لوگوں کے درمیان ایک تعلق کا ذریعہ بن گیا۔خضر اور چترال کی ٹیموں کے درمیان میچ ابھی تک ایک دلچسپ مقابلے اور میلے کی صورت اختیار کرچکا ہے

میں نے یہ آرٹیکل انٹر نیٹ کی مدد سے   لکھا ہے 

شکریہ گوگل

1 تبصرہ:

  1. شندور کی وادی چاروں جانب اونچے پہاڑوں اور جھیلوں کی وجہ سے انتہائی دلکش سیاحتی مقام ہے جہاں 1936ء سے باقاعدگی کے ساتھ ہر سال فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر