اتوار، 29 دسمبر، 2024

اور حضرت زکریا ّٗع 'کا قلم پانی میں ٹہر گیا

 

 از روئے  قران   قصہ بی بی مریم سلام اللہ علیہا ' بنتِ عمران علیہ السلام

 

حضرت مریم ؑ کی والدہ  حنّہ بنتِ فاقوذ بن قبیل نہایت برگزیدہ خاتون تھیں۔ آپ کا حضرت دائود علیہ السلام کے خانوادے سے تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سمیت ہر طرح کی آسائش سے نوازا، لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھیں۔ اُن کے شوہر عمران بن ہاشم بھی عابدوزاہد، متقّی و پرہیزگار شخص تھے، جن کا شمار بنی اسرائیل کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ گرمیوں کی ایک سہ پہر کا ذکر ہے، بی بی حنّہ اپنے گھر کے صحن میں درختوں کے نیچے آرام کررہی تھیں کہ اچانک اُن کی نظر درخت کی ایک ٹہنی پر پڑی، جہاں ایک چڑیا اپنے معصوم بچّے کو دانہ کِھلانے میں مصروف تھی۔ بچّے سے ماں کی بے لوث محبّت کے اس منظر نے حنّہ کی ماں بننے کی خواہش کو  دل میں  جگا دیا۔ بے اختیار ربّ ِذوالجلال کی بارگاہ میں ہاتھ بلند کردیئے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ دُعا گو ہوئیں، ’’اے پروردگار! اسی طرح مجھے بھی اولادعطافرما۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی نیک بندی کی دُعا قبول فرمائی اور بی بی حنّہ   کو گود ہری ہونے کی نوید مل گئ    


اس خُوش خبری کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ سے منّت مان لی، جس کا ذکر قرآنِ کریم میں باری تعالیٰ نے یوں فرمایا، ترجمہ: ’’جب عمران کی بیوی نے کہا، اے میرے ربّ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، سب سے آزاد کرکے مَیں نے تیری نذر کیا۔ سو، تُو مجھ سے قبول فرما، بے شک تُو ہی سُننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘ اور جب بچّی پیدا ہوئی، توکہنے لگیں کہ ’’اے میرے ربّ! مَیں نے تو وہ لڑکی جَنی ہے۔ اور جو کچھ اُس نے جنا ہے، اللہ اُسے خُوب جانتا ہے، اور بیٹا، بیٹی کی طرح نہیں ہوتا، اور مَیں نے اِس کا نام مریم رکھا اور میں اِسے اور اِس کی اولاد کو شیطان مردود سے بچا کر تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران، آیات نمبر 35،36)حضرت مریم   کی ماں نے جو نذر مانی تھی، وہ بیت المقدس کی خدمت تھی اور بیت المقدس کی خدمت کے کام لڑکے ہی کرسکتے تھے۔ بیت المقدس کی خدمت کے لیے لڑکیوں اور عورتوں کے لینے کا رواج نہیں تھا۔ 


لیکن جب حضرت  عمران کی بیوی کو لڑکی پیداہوگئی تو انھوں نے بڑی حسرت و یاس سے اپنے رب کو پکارا اور فرمایاخدایا! میں تو اسے تیرے نام وقف کرچکی تھی، لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے۔ نذر مانتے وقت ان کے خیال میں یہی تھا کہ لڑکاہوگا مگر لڑکی پیدا ہوگئی۔ معذرت پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اب میری نذر کا کیا ہوگا؟ اللہ نے انھیں تسلی دی اور اطمینان دلایاکہ نذر مانتے ہوئے تمہیں اس کا علم نہیں تھا کہ کیا پیدا ہوگا مگر اللہ تعالیٰ تو جانتاتھا کہ تمہیں لڑکی پیدا ہوگی اور وہ لڑکی اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والا لڑکا دونوں ہی اللہ کی نشانیوں میں سے ہوں گے۔ تمہیں اس لڑکی کی ابھی قدر معلوم نہیں ہے، اس لیے تم حسرت کررہی ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے پھر جب بچی اس کے یہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا: مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوگئی ہے۔ حالانکہ جو کچھ اس نے جناتھا اللہ کو اس کی خبر تھی۔ اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔ خیر، میں نے اس کا نام مریم رکھ دیاہے اور اسے اور اس کی آیندہ نسل کو شیطان مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہیں۔  


خرکار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرمالیا۔ اُسے بڑی اچھی لڑکی بناکر اُٹھایا اور زکریا کو اس کا سرپرست بنادیا۔ زکریا جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتے تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان ہوتا۔آپ  پوچھتے مریم! یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتیں اللہ کے پاس سے آیا ہے۔ اللہ جسے چاہتاہے بے حساب رزق دیتا ہے‘‘۔مریمؑ   حضرت زکریا ؑ  کی کفالت  میں اللہ کی طرف سے نذر قبول ہوگئی اور حضرت مریم بیت المقدس کی خدمت اور اس میں عبادت کے لیے خاص کردی گئیں تو اب سوال اٹھاکہ ان کی کفالت کون کرے۔ پہلے ذکر ہوچکاہے کہ ان کے والد عمران بن ماثان کا ان کی ولادت سے پہلے ہی انتقال ہوچکاتھا۔ اللہ کی طرف سے والدۂ مریم کی نذر اس لڑکی کی شکل میں قبول ہوجانے کے بعد اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہوگئی تھی۔ بیت المقدس کے خدمت گاروں اور کارندوں میں اس بات پر جھگڑا ہونے لگا اور ہر کوئی چاہیے لگاکہ یہ عظیم لڑکی اس کی کفالت میں دی جائے۔جب کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوتو پھر ایک شرعی طریقہ یہ ہے کہ قرعہ اندازی کی جائے اور اس میں جو نکل جائے اسی کو فیصلہ مان لیاجائے۔ حضرت مریم کی کفالت کے سلسلہ میں بھی قرعہ اندازی ہوئی، لیکن یہ قرعہ اندازی دوسری شکل میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:


ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَ آئِ الغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَمَاکُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَاکُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ ﴿اٰل عمران: ۴۴﴾

وَکَفَّلَھَازَکَرِیَّا  ﴿اٰل عمران: ۳۷﴾        ’’اور زکریا کواس کا سرپرست بنادیا’’


حضرت زکریاؑ   حضرت مریمؑ  کے سگے خالو تھے اور اپنے اس رشتہ اور قرابت کی وجہ سے انھوں نے دعویٰ کیاکہ اس لڑکی کی سرپرستی مجھے ملنی چاہیے۔ لیکن ان کی اس دلیل کو لوگوں نے تسلیم نہیں کیا تو پھر فیصلے کے لیے قرعہ ڈالاگیا۔ قرعہ ڈالنے کی شکل یہ ہوئی کہ بیت المقدس کے خدمت گاروں نے اپنے وہ قلم جن سے وہ توریت لکھتے تھے، سب نہراردن میں ڈال دیے اور کہاکہ جس کا قلم پانی کے بہائو کے ساتھ نہیں بہے گا، وہی اس لڑکی کا کفیل اور سرپرست ہوگا۔ چنانچہ سب کے قلم پانی کے بہائو کے ساتھ بہہ گئے۔ حضرت زکریاؑ  کا قلم پانی کے بہائو کے ساتھ نہیں بہا اور ٹھہرا رہ گیا۔ اس طرح حضرت مریمؑ   حضرت زکریا کی کفالت و سرپرستی میں دے دی گئیں ۔ ‘‘یہ بھی اللہ کاخاص فضل ہواکہ ان کی کفالت و تربیت کی ذمہ داری حضرت زکریاؑ   نے اٹھائی جو حضرت مریم کے خالو تھے اور اس دور میں بیت المقدس کے اسرائیلی اصطلاح میں کاہنِ اعظم بھی‘‘۔ ﴿تدبر قرآن ، ج ۲، ص:۷۷﴾

1 تبصرہ:

  1. بی بی مریم کے قصے میں کئ باتیں ہمارے لئے سبق کی طرح ہیں کہ اللہ پاک اپنے پاکیزہ بندوں کا کس طرح مدد گار بن جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر