وہ میرے گھر میلے کپڑے دھونے آئ تھی اور میرا اجلا میاں چراکرلے گئ- انیلہ کی جاب ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر کی تھی اس نے شہر کے ایک ریسٹورنٹ کے کچن کی لائیو رپورٹ تیّار کر کے نیوز ایجنسی کو بھیجی ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے اس رپورٹنگ کے لئے اسے خود بلایا تھا تاکہ عوام میں اس کے ریسٹورینٹ کے مذیدارکھانوں کی اوراچھّی سروس کی پبلسٹی ہو سکے -رپورٹ تیّار کرتے ہی انیلہ کو اپنی جاب پر پہنچنا تھا وہ جیسے ہی ریسٹورینٹ سے باہر آئ ریسٹورینٹ کا مالک بھی عجلت میں اس کے پیچھے ہی چلا آیا اور اس نے انیلہ سے درخواست کی کہ وہ چند منٹ کا توقّف کر لے اس کے ساتھ ہی ایک معقول قسم کی خاتون ریسٹورینٹ سے باہر نکل کران کے قریب آ گئیں ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے کہا خالہ آپ ان کے ساتھ چلی جائیے یہ آ پ کو راستے میں اتار دیں گی ،انیلہ نے خاتون کو دیکھا اور سلام کر کے عزّت کے ساتھ ان کو کار میں بٹھایا ،کار جب سڑک پر رواں ہوئ تو انیلہ نے خاموشی توڑنے کے لئے خاتون سے پوچھا آ پ رہتی کہاں ہیں ،خاتون نے اپنا پتا بتایا اور پھر گویا ہوئین کہ ریسٹورینٹ کا مالک ان کا بھتیجا ہے جس کے پاس وہ کبھی کبھی ملنے آتی ہیں اب انیلہ کے تجسس نے سر ابھارا اور اس نے ان کے اپنے گھر بار کے لئے سوال و جواب کئے تو وہ خاتون جیسے دل کے پھپھو لے پھوڑنے کو تیّار ہی بیٹھی تھیں -
پھر انہوں نے بتایا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے علاقے میں پانی کا قحط شروع ہوا میری اپنے سامنے گلی کے گھر سے اچھّی علیک سلیک تھی ہم اچھّا پکاتے تو ایک دوجے کو ضرور بھیجتے یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا اعتبار بھی اپنا بھرم کھو دیتا ہے ،،بہر حال ہو یہ رہا تھا کہ گلی دو رویہ تھی ایک جانب پانی کی فراوانی تھی دوسری جانب قحط کا سماں تھا اس گھر میں ایک کنواری لڑکی تھی جو میرے بچّو ں کا بھی خیال کرتی تھی بس وہ لڑکی میرے گھر پانی بھرنے کے لئے انے لگی کچھ دن تو کچھ بھی نہیں محسوس ہوا لیکن ایک دن جب میرے میاں گھر پر تھے وہ آ گئ اور اس نے آ کر پوچھا کیا میں تمھارے گھر میلے کپڑے دھونے آجاوں بڑا ڈھیر جمع ہو گیا ہے میں نے بہت خلوص سے کہا ہاں ہاں آ جاو وہ کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھّر لے کر آ گئ اور جب کپڑے دھو کر واپس جانے لگی تو گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی کا وزن زیادہ ہو چکا تھا ایسے میں میرے میاں نے کمرے سے نکل کر اسے دیکھا اور لپک کر اس کے ہاتھ سے گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہنے لگے ارے یہ تو بہت بھاری ہے آپ کس طرح اٹھائیں گی اور پھر میرے میاں نے وہ بھری بالٹی اس کے گھر پہنچا دی -
اس دن کی پہلی ملاقات جانے کس طرح رنگ لائ کہ میرے میاں شا م کو زرا جلدی گھر آنے لگے اور گھر کی بالکونی میں دیر دیر تک کھڑ ے رہنے لگے پہلے پہلے تو م اس تبدیلی کو سمجھ نہیں سکی جب سمجھ آئ تو میں بھی ایک دن میاں جی کے برابر میں جا کرکھڑی ہوگئ تو سامنے والی لڑکی گلی کے بچّوں کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہی تھی ،میرے بالکونی میں جاتے ہی میرے میاں وہاں سے ہٹ کر کمرے میں چلے گئے تھے تب میں سمجھی تھی کہ کوئ دال میں کالا ہے ،،پھر کچھ اور بھی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں تھیں کہ میرے میاں نت نئ خوشبو کی بوتلیں لا لا کر استعمال کر نے لگے تھے نئے نئے کلر کی شرٹس بھی ےبدل بد ل کر پہننے لگے تھے جبکہ اس سے پہلے وہ کہتے تھے کہ مجھے صرف سفید رنگ ہی پسند ہے میں نے زیادہ کچھ کریدنا بہتر نہیں جانا تاکہ گھر کا ماحول پراگند ہ نا ہو لیکن ایک دن میرے بیٹے نے اپنے برابر میں کھڑے اپنے پاپا سے کہا پاپا آپ نے کاغذ کیوں نیچے پھینکا ؟ آپ ہمیں تو منع کرتے ہیں کہ گلی میں کوئ چیز ناپھینکو اور بیٹے کی بات پر میرے شوہر نے بے اختیار میری جانب دیکھا اور بیٹے کی بات ادھر ادھر کر کے اسے اپنے ساتھ وہاں سے ہٹا لے گئے،
یعنی اب بالکونی سے ان کی خط و کتابت کا آغاز بھی ہو چکا تھا ،،میں نے اپنے شوہرسے کچھ سوال جواب کئےتوبس اب ہمارے گھر طوفانو ں کی آمد کی ابتداء ہو گئ ،یہی وہ وقت تھا جب میں اپنے شوہر کی محبّت جیتنے کے لئے کچھ سوچتی میں نے شوہر سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی اور بالآخر انہوں نے کہ دیا کہ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں اورشادی کا فیصلہ کر چکے ہیں اب یا تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیدو کہ میں اپنے شوہر کو بخوشی دوسری شادی کی اجازت دے رہی ہوں اس صورت میں ،میں تم کو تمھارا خرچہ پانی دیتا رہوں گا اور انصاف سے چلوں گا میں نے شوہر کی بات کے جواب میں خودکشی کی دھمکی دی انہوں نے کہا اگر تم کو حرام موت مرنے کا شوق ہے تو کل کی مرتی آج مر جاوُمیری بلا سے اور کہ کر گھر سے نکل گئے اور پھر چند روز کے اندر مجھے طلاق نامہ بھیج دیا ،میں شوہر کے انتقام میں اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ میں نے اپنے تینوں معصوم بچّوں کو رکشہ میں بٹھایا اور لے جاکر ان کی بوڑھی دادی کے منہ پر یہ کہ کر مارا کہ تمھارے بیٹے کے بچّے ہیں میں میکے سے تو لائ نہیں تھی ،میرا بڑا بیٹا سات برس کا بیچ والی بیٹی پانچ برس کی اور تیسرا بیٹا چاربرس کاتھا جب میں ان کی دادی کے گھر سے نکل رہی تھی میرا چار برس کا بیٹا میرے پیچھے روتا ہوا بھاگا تھا اور میں نے بے رحمی سے دروازہ بند کیا اور پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا گھر حالانکہ میرے شوہر کے نام تھا لیکن شوہر نے گھر سے بیدخل نہیں کیا-
پھرکچھ برس بعد میرے دل مِیں بچّوں کی مامتا جاگی اور میں نے اسکول جاکر ملنے کی کوشش کی تو وہ بے سود ثابت ہوئ پھر بارہ برس پہلے بچّوں کی دادی کا انتقال ہوا تب مین نے ان کی دادی کے جنازے میں شرکت چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ دادی کی و صیّت ہے کہ مجھے ان کے جنازے میں شامل نا کیا جا ئَے دادی کے مرنے کے بعد بچّون کے چچا اور چچی نے ان کی پرورش کا فریضہ انجام دیابس اس کے بعد پھر اب تو اٹھّارہ برس بیت گئے ہیں سوکن آج بھی میرے شوہر کے ساتھ خوش و خرّم زندگی گزار رہی ہے کئ بچّے ہو چکے ہیں اورمیں جنم جلی اپنے ہاتھوں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے پیچھے تنہا تنہا جی رہی ہوں دو برس پہلے میری بیٹی کی شادی ہوچکی ہے ،بڑے بیٹے کی منگنی اس کے چچا نے اپنی بیٹی سے کر دی ہے چھوٹا بیٹا ابھی حال میں پڑھائ سے فارغ ہوا ہے وہ بچّہ جو میرے بغیر ایک گھڑی نہیں رہتا تھا-اسے تو اب میری شکل سے نفرت ہے اور بڑے بھائ سے کہتا ہے کہ امّی ملنے آئیں تو مجھے کمرے سے باہر نہیں بلانا ہے ،بڑے بیٹے کوکچھ خوف خدا ہے تو مجھ سے ملنے بھی آجاتا ہے اور اپنے فلیٹ پر بھی بلا لیتا ہے اس نے شادی کرنے سے پہلے ہی اپنا زاتی فلیٹ لے لیا ہے،میں اسی فلیٹ پر جا کر اس سے مل لیتی ہوں خاتون خاموش ہو گئیں تو انیلہ نے ان سے سوال کیا کیا آپ معاشرے کی خواتین کو کوئ پیغام دینا چاہیں گی-خاتون نے کہا ہاں ضرور دوسری شادی مرد کا جائز اور اللہ کا مقّررکردہ حق ہے جبکہ وہ انصاف سے چلنے کی بات بھی کر رہا ہو اس لئے ایسی صورت میں اس کو دوسری شادی کی اجازت ضرور دے دینی چاہئے -خاتون کی منزل آچکی تھی اور وہ اتر کر چلی گئیں اور انیلہ کو اس کی نئ کہانی کا عنوان دے گئین تھیں اور انیلہ شام کو جب تھکی ہاری واپس گھر آئ تب بستر پر لیٹ کر اسے ان خاتون کا خیال آیا اور ان کے الفاظ یاد آئے ،،،دوسری شادی مرد کا جائز حق ہے اسے خوشی خوشی اجازت دے دینی چاہئے ورنہ وہ جبریہ چھین لیتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں