یہ اب سے تقریباً پچیس برس پہلے کا زکر ہے میں
ایک رو حانی محفل میں شریک -تھی بہت سے جانے پہچانے چہرے تھے اور کئ چہرے نا شناسا بھی تھے ان نا شناسا چہروں میں ایک نازک اندام لڑکی اپنی ننّھی منّی سی گڑیا جیسی بیٹی کو لئے بیٹھی تھی لڑکی بھی شکل و صورت کی اچّھی تھی لیکن اس کی گود میں بچّی ماشاللہ بہت پیاری تھی میں نے پیار سے دیکھا توبچّی میرے پاس ہمک کر آ گئ ، میں کچھ دیر اس سے کھیلتی رہی پھر وہ بچّی اپنی ماں کے پاس واپس چلی گئ ،مین نے لڑکی سے کہا معلوم ہوتا ہے تمھارے والد بہت خوبصورت ہوں گے کیونکہ بیٹی کی اولاد اکثر اپنے نانا کی شکل پر ہوتی ہے ،لڑکی کہنے لگی آپ نے ٹھیک پہچانا لیکن میرے والد کا مقدّر ان کی ساری وجاہت کے بر عکس بڑا کھوٹا نکلا-کیون ؟کیا ہوا؟میرے اندر ایک احساس سا جاگا جیسے وہ لڑکی مجھ سے کچھ شئر کرنا چاہ رہی ہےلڑکی پھر گویا ہوئ-ہم درمیانے طبقے کے لوگ ہیں ،امّی نے ابّو کو زبردستی باہر یہ کہ کر بھیجا کہ میرا اس پیسے میں گزارہ نہیں ہوتا ہے ابّو نے بالآخر امّی کے آگے ہا ر مان لی اور باہر چلے گئے ،ابّو کے باہر جانے کے بعد ہمارے ایک عزیز امّی سے کچھ چھوٹی عمر کے امّی کے پاس آنے لگے اور ابّو کا بھیجا ہوا پیسہ ہمارے گھر میں خوشحالی تو لایا لیکن ساتھ امّی کی بے راہروی بھی لایا اور میرے ابّو کی پردیس کی خون پسینے کی کمائ امّی بے دریغ اُن پر خرچ کرنے لگیں، ہم بہن بھائیوں کو ان کا آنا بہت ناگوار گزرتا تھا لیکن امّی نے سختی سے کہ دیا کہ کوئ بچّہ ان کے معاملات میں دخیل ناہو اور ہم بہن بھائ چپ ہو گئے
اور پھر دو برس تو جیسے پلک جھپکتے میں گزر گئے اور ابّو پاکستان آ گئے امّی نے ابّو کے آگے طلاق کا مطالبہ رکھ دیا ابوّ بہت روئے لیکن حالات اس نہج پر تھے کہ ابّو کو با لآخر طلاق دیتے بنی اور پھرطلاق ہوتے ہی امّی کی تقدیر کی بساط الٹ گئ،وہ شخص جو دو برس سے امّی کا پل پل رات اور دن کا ساتھی تھا وہ جو امّی سے کہتا تھا کہ طلاق لے لو میں تم سے شادی کروں گا وہ ا مّی کی زندگی کے آسمان سے دھواں بن اس طرح تحلیل ہو گیا کہ جیسے وہ امّی کی زندگی میں آ یا ہی نا ہو - ابّو کے طلاق دینے کے بعد اب امّی ہم سب کو چھوڑ کر اپنے میکہ جاچکی تھیں ،اور ابّو پردیس دوبارہ جانے سے انکاری تھے کیونکہ پھر ہم تینوں بھائ بہن اکیلے رہ جاتے
اس عرصہ میں، میں انّیس برس کی - چھوٹی بہن ستّرہ برس کی اور بھائ پندرہ برس کا ہوچکا تھا ابّو اب پردیس تو واپس نہیں جا سکتے تھے گھرکے اندر سامنے کے حصّے کریانہ کی دکان کھول لی تھی تاکہ ہم بہن بھائ گھر میں اکیلے نہیں رہیں ایسے میں میرا ایک اچھّا رشتہ آیا جسے ابّو نے دیکھ بھال کر میری شادی کر دی اس سنگین حادثہ کی وجہ سے میرا انتہائ نفیس مزاج معصوم بھائ نفسیاتی مریض ہو گیا تھا جس کو میرے شوہر نے بہت سمجھداری سے سنبھالا اور پھر وقت گزرتا رہا بس ہمیں اتنا پتا چلا کہ امّی کے بھائیوں نے ان کی شادی کراچی کے بجائے سندھ کے کسی اور شہر میں کر دی ہے،ظاہر سی بات ہے کہ میرے ماموؤں کی اپنی فیمیلیز تھیں اور حقیقت بھی یہ تھی کہ امّی کے کردار کو ان کے میکہ میں سب ہی برا کہ رہے تھے
پھر ابّو نے ایک اچھّا رشتہ دیکھ کر مجھ سےچھوٹی بہن کی شادی بھی کر دی ہمارا امّی سے ہر قسم کا ناطہ ختم ہو چکا تھا لیکن ہوا یوں کہ شادی کے سال بھر کے بعدبہن کے یہاں پہلے بچّے کی ولادت ہوئ تو اس نے امّی کو نا جانے کس کے زریعہ رابطہ کر کے اپنے پاس بلالیا بہن ہاسپٹل میں تھی اور میں ابّو اور میرے شوہر بچّے اور بہن سے ملنے جب ہاسپٹل پہنچے تو امّی وارڈ میں بچّے کو اپنی گود میں لیئے بیٹھی تھیں اور ابّو جیسے ہی وارڈ میں داخل ہوئے ویسے ہی واپس ہو لئے میں نے ابّو کو دیکھ کر کہا کیا ہوا ابّو کہنے لگے وہاں کوئ اجنبی خاتون ہیں جب وہ چلی جائیں گی تب جاؤں گا میں نے ابّو سے کہا ابّو وہ امّی ہیں میرے کہنے ساتھ ایسالگا کہ ابّو کا کسی نے لہو نچوڑ لیا ہو،
میں نے ابّو سے کہا ابّو آپ اپنے آپ کو سنبھالئے کہ اب ہمارے لئے آپ ہی سب کچھ ہیں ،ابّو نے اپنی آنکھوں کے گوشوں پر ٹکے ہوئے آنسو صاف کئے اور بولے ان سے پوچھو کیا وہ بیمار ہیں ،یا ان کو پیسہ کی ضرورت ہے ،امّی کا حسن گہنا گیا تھا اور وہ ایک مدقوق ضعیف خاتون دکھائ دے رہی تھیں-یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ میری امّی بھی حسن و خوبصورتی میں یکتا ئے روزگار تھیں-جب میں نے امّی سے یہ بات کہی امّی بے اختیار رونے لگیں پھر آہستہ سے بولیں ان سے کہو مجھے معاف کر دیں،جب لڑکی خاموش ہوئ تو اس کے منہ سے بے اختیار ایک سرد آہ نکلی اور اس نے کہا ،پھر امّی نے بتایا کہ وہ گھارو شہر میں ایک جھگّی محلّہ میں بیاہی گئیں ہیں اور ان کا شوہر ضعیف کمزور اور مدقوق ہے اور امّی کو ان کی کئر ٹیکر بننے کے لئے ان کا نکاح کیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ مجھے بھی امّی کو اس حال میں دیکھ کر شدید صدمہ ہواتھا ،وہ سراپا غربت کی تصویر تھیں وہ بال جن کو وہ اپنے محبوب کے لئے رنگ کر سنوارا کرتی تھیں اپنے سفید رنگ ہو چکے تھے شائد رزق کی کمی نے ان کو بلکل نڈھال کر دیا تھا-لڑکی پھر خاموش ہو گئ اور پھر چند ثانیوں کے بعد بولی-یہ میری امّی کی داستانِ عشق و الم تھی جن کے حسن کو ان کی ہوائے نفسانی نے بہت جلد خزاں رسید کر دیا تھااس بار جب لڑکی خاموش ہوئ میری واپسی کا وقت آ چکاتھا ،میں نے چلتے چلتے اسے دعائیں دیں اور گھر آگئ لیکن کئ دن تک یہ قصّہ میرے حواس پر محیط رہا ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں