جب دنیا کی تاریخ میں منعقد کی جانے والی ڈھا ئ ہزار سالہ شاندار ترین تقریب کا انعقاد ہو نے والا تھا اس وقت کا ایرانی معاشرہ شیطان کے رنگ میں کس طرح رنگ چکا تھا اس تقریب کا احوال پڑھ کر قا رئین کو اندازہ ہو گا کہ ایران کے نوجوان اپنی آزادی کی قیمت لینے کے لئے سر سے کفن باندھ کر نکلے اور تہران کی سڑکوں پر اپنے لہو کا نذرانہ دے کر اپنی آزادی واپس لے کر ہی دم لیا - سلطنت فارس کے قیام کا 2500 سالہ جشن 12 سے 16 اکتوبر 1971ء کو ایران میں منایا گیا۔یہ دنیا کی تاریخ میں کی جانے والی شاندار ترین تقریبات میں سے ایک تھی۔اس تقریب میں دنیا کے ہر برِاعظم سے بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، شیخ، سلطان، سربراہانِ مملکت، وزیر، سفیر، بزنس کی اہم شخصیات سبھی اس محفل میں شریک ہوئے۔تقریب کا انتظام کرنے کے لیے ڈیڑھ سال پہلے اس کی تیاری شروع کر دی گئی۔ ایران میں انفراسٹرکچر موجود نہ ہونا ایک مسئلہ تھا۔ تقریب کے شایانِ شان ہوٹل نہیں تھے۔ سوچ بچار کے بعد اس کے لیے قدیم شہر پرسیپولس کے صحرا کا انتخاب کیا گیا۔اس صحرا کو جنگل میں بدلا گیا۔ درخت درآمد کیے گئے۔ پندرہ ہزار درخت جہازوں پر لائے گئے۔ پھولدار پودے لگائے گئے۔اٹلی کے مشہور باغبان جارج ٹرروفوٹ کو بلایا گیا کہ وہ چار ہیکٹئر پر مشتمل خوشبودار باغ لگائیں۔ اس کے لیے مٹی منگوائی گئی۔ اس جگہ پر سانپ اور بچھو بہت تھے جو مہمانوں کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔ تیس کلومیٹر تک کے علاقے پر کیمیکل چھڑکے گئے اور رینگنے والے جانوروں کے ٹرکوں کے ٹرک پکڑے گئے۔ اس دوران ایسی انواع بھی ملیں جو نامعلوم تھیں اور انھیں یونیورسٹیوں کو تحقیق کے لیے دیا گیا۔اس جنگل کو آباد کرنے کے لیے یورپ سے پچاس ہزار چہچانے والے پرندے درآمد کیے گئے۔ بیس ہزار چڑیوں کو سپین سے منگوایا گیا
لیکن پرندوں کی بڑی تعداد چند روز میں ہی مر گئی۔ وہ یہاں کے موسم سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ صحرا میں گالف کورس بنایا گیا۔اس تقریب کا زیادہ تر کام مشہور یورپی کمپینیوں کے حوالے ہوا۔پرسیپولس میں خیموں کا شہر-شاہی خیموں کا شہر بنانے کے لیے پیرس کی مشہور جینسن کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے رہائش کے لیے ائیر کنڈیشنڈ ٹینٹ ڈیزائن کیے جس میں لگژری سویٹ ہوں اور انھیں روایتی ایرانی پردوں سے ڈھکا گیا۔ ہر خیمے میں دو بیڈروم، دو باتھ روم، ایک لاونج، ایک کچن تھا جس میں باورچی اور خدمت گار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر تھے۔ فرانسیسی آرکیٹکٹ، انٹیرئیر ڈیزائنر اور ہنرمندوں کو ایک سال سے زیادہ ان خیموں کی تعمیر پر لگا۔ ان کو پیرس کے ہوائی اڈے کے قریب تعمیر کیا گیا اور سینکڑوں جہازوں میں انھیں پرسیپولس پر پہنچایا گیا۔ خیموں کا یہ شہر 160 ایکڑ پر پھیلا تھا۔ ایک سوشل خیمہ بنایا گیا تھا جس میں بار، ریسٹورنٹ، کسینو تھا۔ ایک اور سپیشل خیمے میں میک اپ سیلون، ہیرڈریسنگ سیلون سیٹ کیے گئے تھے۔ ان میں پیرس کے بہترین ہیرڈریسرز اور میک اپ کے ماہرین کو بلایا گیا تھا کہ وہ مہمانوں کو خدمات مہیا کریں۔ ان کی مہینوں تک خاص ٹریننگ کی گئی تھی کہ وہ تیز رفتاری سے کام کر سکیں۔ اور کیسے صرف چند منٹ میں تاج فٹ کر سکیں۔
پیرس سے فیشن ڈیزائنرز کی ایک ٹیم بھی بلوائی گئی تھی تا کہ اگر کسی کو اپنے لباس میں آخری وقت پر تراش خراش کروانی پڑے تو خدمات دستیاب ہوں۔ کھانے کے لیے فرانس کے مشہور میکسیم ڈی پیری سے معاملہ ہوا۔ یہ اس وقت دنیا کا بہترین ریسٹورنٹ سمجھا جاتا تھا۔ پارٹی کے وقت یہ ریسٹورنٹ دو ہفتے بند رہا۔ اس کا تمام سٹاف ایران میں دس روز پہلے پہنچ گیا تھا۔ فرانس سے اٹھارہ ٹن خوراک منگوائی گئی۔ ڈھائی لاکھ انڈے۔ 2700 کلوگرام گوشت اور بہت کچھ اور۔ یہاں تک کہ تیس کلوگرام خاویار بھی! مشہور ترین ہوٹلییر میکس بلوئے، اپنی ریٹائرمنٹ چھوڑ کر انتظامات سپروائز کرنے پہنچے۔ اس جگہ تک اتنا سامان پہنچانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس سے پچاس کلومیٹر دور شیراز تھا جہاں ایئر فیلڈ تعمیر ہوا جہاں جہازوں کی آمدورفت ہو سکتی تھی۔ اس ائیرفیلڈ کو پرسیپولس سے ملانے کے لیے ایک ہائی وے تعمیر کی گئی۔ سامان لانے کا کام ایرانی ائرفورس کے سپرد ہوا۔ چھ ماہ تک ایرفورس شیراز اور پیرس کے درمیان سامان کی ترسیل میں مصروف رہی۔
شیراز سے آرمی کے ٹرکوں میں سامان منزل تک پہنچا دیا جاتا۔ پردے اور قالین اٹلی سے آئے۔ باکاراٹ کرسٹلز پہنچے۔ برتن لموژے چائنہ کے بنوائے گئے جس میں پہلویوں کا کوٹ آف آرمز کنندہ تھا۔ تولیہ اور چادریں پورٹہو سے۔ پرچ اور پیالیاں رابرٹ ہاویلانڈ سے۔ اور مہنگی ترین شراب کی ہزاروں بوتلیں آئیں جن کا وزن بارہ ٹن تھا۔ کھانا پکانے کے لیے پیرس سے جو سامان آیا، وہ تیس ٹن وزنی تھا۔ جہاز اس کو سرد رکھنے کے لیے برف لے کر آئے۔ تیس میل کی سڑک کو روشن کرنے کے لیے ایرانی آئل کمپنی نے مشعلیں جلانے کا بندوبست کیا۔سیاحت کی وزارت نے شیراز میں دو نئے ہوٹل تعمیر کروائے۔ کروش اور درویش نامی ان ہوٹلوں میں کم اہم مہمانوں اور میڈیا کے لوگوں کو ٹھہرایا گیا۔سیکورٹی -د نیا کے اہم ترین لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو رہے تھے۔ شاہ کی غیر مقبولیت کی دوسری کئی وجوہات بھی تھیں۔ شاہ کو طلبہ کی طرف سے سبوتاژ کیے جانے کا خطرہ تھا۔ سیکورٹی پر 65000 اہلکار تعینات ہوئے۔
یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں کوئی کھانے میں کوئی چیز نہ ملانے میں کامیاب ہو جائے۔ کھانے کی حفاظت خاص طور سے کی گئی جس تک بہت کم لوگوں کو رسائی تھی۔ بیرے سوئٹزلینڈ سے منگوائے گئے۔ ایران کی سرحد کو تقریب کے دوران سیل کر دیا گیا۔ یونیورسٹیاں اور اسکول بند کر دئے گئے۔ شک کی بنیاد پر ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ طلبہ تنظیموں میں متحرک لوگوں کو تقریب سے چند ماہ قبل احتیاط کے طور پر جیل میں ڈال دیا گیا -اس تقریب کی تشہیرپر خاص توجہ دی گئی۔ مختلف ممالک کے ٹی وی چینلوں کے ساتھ اس کو براہِ راست دکھانے کی ڈیل کی گئی۔ ایران کے قومی فلم بورڈ نے اس تقریب پر فلم “فارس کے شعلے” کے نام سے بنائی جو کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔ انگریزی ڈبنگ کے لیے ہالی وڈ کے ایکٹر اور ڈائریکٹر اورسن ویلز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایرانی سفارتخانوں کو اس تقریب کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک سال پہلے سے کانفرنس، پارٹی، سمپوزیم اور دوسری کلچرل تقریبات کے لیے کہا گیا۔ کئی کتابیں لکھوائی گئیں اور دنیا بھر میں تقسیم کی گئیں۔ یہ کامیاب رہا اور دنیا بھر کے میڈیا میں یہ دعوت توجہ کا مرکز رہی۔ “کون آ رہا ہے؟ کیا پہن رہا ہے؟ کھانے میں کیا ہو گا؟” یہ قیاس آرائیاں خبروں کے طور پر لگتی رہیں۔
جواب دیںحذف کریںتیسرے روز وی آئی پیز کو تہران لے جایا گیا۔ یہاں پر کچھ پروگرام رکھے گئے تھے جس میں شاہِ ایران کی یاد میں تعمیر کردہ شاہ یاد ٹاور کی افتتاحی تقریب بھی تھی۔ تقریب خود میں بہت کامیاب شو رہا۔ شاہ نے دنیا کو دکھایا کہ پارٹی کیسے کی جاتی ہے۔ ملکہ فرح کے لباس اور زیور دنیا بھر کی خبروں میں رہے۔ ایک اور مشہور موضوع ایتھیوپیا کے بادشاہ کا پالتو کتا تھا جس کا ہیروں جڑا پٹہ کئی ملکاوٗں کے زیورات سے زیادہ قیمتی تھا۔