اتوار، 7 اپریل، 2024

ایک شہر کئ صدیوں کا سفر -دہلی


تیمور  نے دہلی کو اجاڑ کر ہی دم لیا -لیکن پحر اس اجڑی ہوئ  بستی کو ہندوستان  کے کونے کونے سے لوگوں نے آ کر بسا لیا  ۔   پھر مغل  بادشا  ہوں کے آنے سے دلی  کو کچھ رونق ملی -لیکن پھر  فضلت مآب شہر آگرہ بن گیا ۔    اکبر نے آگرہ کو اکبر آباد بنایا تو اسے ہفت آسمان کا دمکتا نگینہ بنا دیا ۔پھر جہانگیر کے بعد دور شاہجہانی آیا -شاہجہاں کی زندگی کے بہترین سال بھی یہیں گزرے۔ ممتاز کی موت نے اسے آگرہ سے کچھ بد دل سا کر دیا، مگر چلتے چلاتے تاج محل سا تحفہ آگرہ کو دے کر آیا۔ نظر انتخاب دلی پر پڑی، سوکھے دانوں پانی پڑا۔ آن کی آن میں کایا پلٹ گئی۔ حسن کچھ ایسا نکھرا، جیسے کالی بدلیوں سے چھٹ کر چاند نکل آیا۔ اس زمانے کی نئی دلی اور آج کی پرانی دلی کو دل کھول کر سجایا گیا۔ لال قلعہ بنا، جامع مسجد بنی، چاندنی چوک، فیض بازار اور چوک سعد اللہ جیسے بازار بسے۔ محل سرائیں تعمیر ہوئیں۔تمام دلی باغ و بہار ہوگئ ۔ اہل قلم، اہل سیف، اہل دولت اور اہل حرفہ غرض سبھی کی آنکھوں کا تارا بنی۔ دولت اور فراغت نصیب ہوئی تو دلی کی معاشرت نکھر آئی۔ مزاجوں میں نفاست آ گئی۔ طبیعتیں سیر و تفریح کی طرف راغب ہوئیں۔ معیارِ زندگی اونچا اٹھا تو اچھی چیزوں کی مانگ بڑھی۔ معیاری چیزیں بننے لگیں۔ قدردانی فن میں توانائی اور بلندی پیدا کرتی ہے۔ اس میں ہُن برستی دلی میں بادشاہ کی سر پرستی اور امراء کی قدردانی نے پارس کا کام کیا۔ جو چیز چھو لی گئی، سونا بن گئی۔ اہل حرفہ کے حوصلے ایسے بڑھے کہ ہر شخص اپنے فن کا ماہر بن گیا۔ اہل حرفہ ہی پر کیا موقوف، جو جہاں تھا وہیں اس نے اپنے جوہر دکھائے۔ یہ عہدِ زریں اورنگ زیب کے دم تک رہا۔ کامیابی دولت اور عیش کے سامان مہیا کرتی ہے تو تن آسانی، قویٰ، کوشل اور احساسِ فرض کو سرد کرکے انحطاط کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہی کچھ مغلوں کے ساتھ ہوا۔

کہاوت ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے، لیکن ہر زروال صرف تخریب کی جانب نہیں لے جاتا، بلکہ اس سے تعمیر کے سوتے بھی پھوٹتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس دورِ انحطاط میں بھی ہوا۔ دلی میں مغلیہ دور (شاہجہاں تا بہادر شاہ ظفرؔ) جو معاشرہ وجود میں آیا، اسے مشترکہ تہذیب، گنگا جمنی تہذیب کہا گیا اور جو بعد ازاں دلی کی تہذیب کہلائی۔ اسی دورِ انحطاط میں اس کی نشوونما ہوئی۔ اسی دورِ انحطاط میں شمالی ہند میں اردو شعر و ادب کا آغاز ہوا۔ دلی شعرو ادب کا مرکز بن گئی۔ یہاں شعر و ادب پر تبصرہ کرنا مقصود نہیں، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ دلی کی تہذیب نے شعر و ادب کو اس طرح متاثر کیا کہ یہ الگ دبستان بن گیا  اور آج یہ   لگ بھگ تین  کروڑ سے اوپر آبادی والا دلی شہر اپنے اندر ایک  گونا گوں   دنیا آباد کیے ہوئے ہے - یہ پورے ملک کی ثقافتوں، مذاہب اور روایات کا عکاس ہے۔گذشتہ کئی صدیوں پر محیط عالمی تجارت، فتوحات اور نوآبادیاتی نظام کی تاریخ نے دلی کو واقعی ایک کثیر الثقافتی رنگ دیا ہے۔دلی کا ثقاتی تنوع تو اپنی جگہ لیکن یہاں پر بسنے والے نوجوان ہوں یا بزرگ، سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ایک اچھی پارٹی (تقریب) سے لگاؤ۔ یہاں ایک شادی پانچ سے دس دنوں تک جاری رہتی ہے جس میں ایک ہزار سے زیادہ مہمان صرف ایک شادی سے جڑی رسومات اور پارٹیز کا حصہ بن سکتے ہیں۔ویسے تو پورے انڈیا میں ہی شادی کی رسم کئی دنوں تک جاری رہتی ہے لیکن دلی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر مبارک سمجھی جانے والی تاریخ پر ایک دن میں 60 ہزار شادیاں بھی ہو چکی ہیں۔ دلی کی شادیوں اور ان پر ہونے والے خرچوں کے اتنے چرچے ہو چکے ہیں کہ انڈیا میں کئی اراکین اسمبلی شادیوں میں فضول خرچی کے خلاف بل متعارف کروا چکے ہیں۔


چاندنی  چوک  بھارت کے شہر دہلی کا قدیم ترین اور مصروف ترین بازار ہے۔ یہ پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کی قربت میں واقع ہے۔ یہ بھارت کا سب سے بڑا تھوک فروش بازار بھی ہےاردو بازار بھارت کے شہر دہلی کی جامع مسجد کے قریب کی ایک گلی ہے۔یہ پرانے زمانے میں دہلی کے دیواری شہر کا سب سے اہم بازار تھا۔ شہنشاہ شاہجہان نے قلعہ معلّٰی دہلی کے قریب اردو بازار کے نام سے اس محلہ کو بسایا تھا۔نئی دہلی حکومت بھارت کا دار الحکومت اور قدیم شہر ہے۔ یہ پہلے بھی بادشاہوں کی دار الحکومت ہو کرتا تھا اور آج بھی یہ اس ملک کا دار الحکومت ہے مغلوں کے زمانے میں تعمیر شدہ عمارتین آپ کو اس شہر میں بھی کافی تعداد میں ملتی ہیں جن میں دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد اور قطب الدین کی تعمیر کردہ قطب مینار سر فہرست ہے۔ نئی دہلی میں اعلی درجے کی سیاحتی پرکشش مقاماتاس شہر میں جادوئی مساجد، تاریخی یادگاروں، پرانے اور شاندار قلعوں کی ایک لکیر ہے جو مغل حکمرانوں کی میراث   ہے- دلی میں جہاں سالانہ دس لاکھ شادیوں کی پارٹیز اور روایتی رسومات کا چرچا ہوتا ہے وہیں یہاں کے باسیوں نے کلبو ں  ا ریستوران کے ذریعے ایک مغربی پارٹی کلچر بھی اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رکھا ہے۔دہلی کے  گم گشتہ  عوام-دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لیے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔  دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے--بات کہنے میں آتی ہے تو اتنا سمجھ لیجیے، دلی والے علم مجلسی میں بھی دوسروں کی نسبت آگے ہی تھے۔ حالتِ غیظ میں بھی ’’آدمیت‘‘ کو نہ چھوڑتے۔ 


کبھی ایسا بھی وقت آتا کہ زبان پر گالی بھی آجائے تو طبقہ اشرافیہ کی زبان پر تیرا یا تیری جیسے الفاظ نہ آتے۔ گالی دینے میں بھی ایک سلیقہ ہوتا تھا۔ دلی کے مشہور طبیب اور مدبر، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے دیوان خانے کے تعلق سے بہت سی باتیں منظرعام پر آ چکی ہیں حکیم صاحب نے ملک میں دیسی ادویات کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک بڑی تحریک چلائی اور اپنے مشن کو انجام تک پہنچانے کے لیے دہلی میں تین اعلیٰ اداروں کی بنیاد رکھی، پہلا سنٹرل کالج، دوسرا ہندوستانی دواخانہ اور تیسرا طبیہ کالج، جو اب آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج کے نام سے جانا جاتا   ہےاگر آپ ہندوستان کا دورہ کرتے ہیں ، تو آپ کو ذیل میں درج ذیل مقامات کا دورہ کرنا چاہیے۔ یہاں ان مقامات کی فہرست ہے جو دہلی میں دیکھنے کے لیے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پرکشش مقامات ہیں۔ان مقامات کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر عوامی دوروں کے لیے مفت ہیں۔ آپ کی ضرورت ہے انڈیا ای ٹورسٹ ویزا  انڈین ویزا آن لائن ہندوستان میں ایک غیر ملکی سیاح کے طور پر حیرت انگیز مقامات اور تجربات کا مشاہدہ کرنے کے لیے۔ متبادل طور پر، آپ ایک پر ہندوستان کا دورہ کر سکتے ہیں۔ انڈیا ای بزنس ویزا اور ہندوستان میں کچھ تفریح ​​اور سیر کرنا چاہتے ہیں۔ دی انڈین امیگریشن اتھارٹی ہندوستان آنے والوں کو درخواست دینے کے لئے حوصلہ افزائی کرتا ہے انڈین ویزا آن لائن ہندوستانی قونصل خانہ یا ہندوستانی سفارتخانے جانے کے بجائے۔جامع مسجد۔دہلی میں دیکھنے کے لیے بہت سے شاندار جواہرات میں سے ایک جامع مسجد ہے۔ عبادت گاہ ہونے کے علاوہ، جامع مسجد مشہور مغل فن تعمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تقریباً شہر کے کھوئے ہوئے اور پائے جانے والے خزانے کی طرح ہے۔ یہ ملک کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ مسجد کا صحن اتنا کشادہ ہے کہ تقریباً 25,000 عازمین آرام سے رہ سکتے ہیں۔ اس قد کاٹھ کی مسجد بنانے میں کاریگروں، مزدوروں، انجینئروں اور منصوبہ سازوں کو اس بے مثال خوبصورتی کو عملی جامہ پہنانے میں 12 سال لگے۔ آخر کار یہ سال 1656 میں مکمل ہوا۔یادگار کے جنوبی ٹاور کی چوٹی تک ایک محنتی چڑھائی آپ کو دلکش شہر دہلی کا ایک دلکش نظارہ پیش کرے گی(تاہم، یہ علاقہ دھاتی حفاظتی گرلز سے بند ہے)۔ مسجد میں آسانی سے داخل ہونے کے لیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے آپ کو ٹھیک سے ڈھانپیں (اپنی جلد کا زیادہ حصہ نہ دکھائے) کیونکہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک مقدس عبادت گاہ ہے۔ جلد تاہم، اگر آپ اب بھی اس جگہ کے لیے مطلوبہ لباس پہننا بھول جاتے ہیں، تو مسجد میں داخل ہونے اور تبدیل کرنے کے لیے مختلف لباس موقع پر فراہم کیے جاتے ہیں۔یہ جگہ پرانی دہلی کے چاندنی چوک کے قریب لال قلعہ کے قریب واقع ہے۔،

دہلی  میں سیّاحوں کی کششپراشر جھیل

فطرت کے شائقین کے لیے ایک چھوٹی سی پناہ گاہ، پراشر جھیل ان میں سے ایک ہے۔ ہماچل پردیش میں دیکھنے کے لئے سب سے خوبصورت مقامات. یہ پرسکون چھوٹی وادی 2730 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ دیودار کے گھنے جنگلات اور دھولدھر سلسلوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔. کچھ واقعی خوبصورت مناظر کا مشاہدہ کرنے کے لیے تیار رہیں کیونکہ اس جھیل کے بیچ میں ایک خوبصورت چھوٹا تیرتا ہوا جزیرہ کھڑا ہے، اور کنارے پر ایک 100 سال پرانا پگوڈا نما مندر دیکھا جا سکتا ہے جو سنت پراشر کے لیے وقف ہے۔ اگر آپ اس تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو جھیل تک جانے کی کوشش کریں اور ایک رات کے لیے کنارے پر کیمپ لگائیں!ریوالسر جھیلریوالسر جھیل ایک مربع شکل کی جھیل ہے جو 1360 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور ایک پہاڑی اسپر سے دور ہے۔ اس نام سے بہی جانا جاتاہے Tso-Pema، اس کا تقریباً ترجمہ "لوٹس لیک" سے کیا جا سکتا ہے اور یہ منڈی میں دیکھنے کے لیے سب سے خوبصورت مقامات میں سے ایک ہے۔ حیرت انگیز خوبصورتی کے علاوہ، اس جگہ پر، آپ کو بھی مل جائے گا 3 ہندو مندر جو بالترتیب بھگوان شیو، بھگوان کرشنا اور سیج لوماس کے لیے وقف ہیں، دیگر خانقاہوں، گرودواروں کے ساتھ، اور پدم سمبھوا کا ایک بہت بڑا مجسمہ جو روحانی مسافروں کو لانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ 

1 تبصرہ:

  1. پنڈوہ ڈیم
    پنڈوہ ڈیم کا شاندار ڈھانچہ 1977 میں پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ دریائے بیاس۔. جو چیز پنڈوہ ڈیم کو منڈی میں دیکھنے کے لیے سب سے خوبصورت جگہوں میں شامل کرتی ہے وہ ہے۔ روور کا خوبصورت سبز نیلا کرسٹل صاف پانی اور اس پر کھڑا ڈیم کا بڑا ڈھانچہ - واقعی دیکھنے کے لئے ایک نظر! زائرین کو گریڈ IV اور V ریپڈس کے ساتھ جھیل کے نچلے بستروں میں سفید پانی کی رافٹنگ میں جانے کا انتخاب بھی دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جسے آپ آنے والے طویل عرصے تک نہیں بھولیں گے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر