پیر، 16 ستمبر، 2024

آم جیسا شیریں پھل ہمارے لئے عطیہء خداوندی ہے

  آم جیسا  شیریں پھل  ہمارے لئے عطیہء خداوندی ہے  اور پاکستان ان خوش  نصیب ملکوں میں جو بہترین اور   لذیذ ترین آم کی پیداوار دیتے ہیں- پوری دنیا  میں پھلوں کے بادشاہ آم کی1600 کے قریب اقسام دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں -یہ لذیذ پھل  تمام دنیا میں  ا نتہائی مقبول اور پسندیدہ پھل کے طور پر شہرت رکھتا ہے آم ا غذائیت اور ذائقے سے بھر پور پھل ہے پاکستانی آم دنیا کے زیادہ ممالک میں پسند کیا جاتا ہے اس میں فائبر کی مقدار زیادہ، کیلوریز کم اور کاربوہائیڈریٹس، کیلشیم، آئرن، پوٹاشیم اور تھوڑا سا پروٹین ہوتا ہے اور وٹامنز اے بی سی سے یہ بھر پور ہوتے ہیں دیگر اینٹی آکسیڈنٹ وٹامنز کا بھی ایک خزانہ اپنے اندر رکھتے ہیں یہ دنیا کے میٹھے پھلوں میں سے ایک ہے برصغیر آم کا مسکن ہے جہاں یہ تقریبا 4ہزار سال سے بڑھ رہا ہے اور اس کے بعد یہ دیگر علاقوں میں پھیل گیا ہے پاکستان میں آم2ہزار سال سے زیادہ عرصے سے پیدا ہو رہے ہیں اور یہ ملک اب دنیا کا چوتھا بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے، آم کی 1595اقسام مشہور ہیں جن میں سے صرف 25 سے 30قسمیں تجارتی پیمانے پر اگائی جا رہی ہیں، پاکستان میں پھلوں کے بادشاہ کی جو اقسام پیدا ہو رہی ہیں ان میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا، دسہری، انور رٹول، سرولی، ثمر بہشت، طوطا پاری، فجری، نیلم، الفانسو، الماس، سانول، سورکھا، سنیرا اور دیسی شامل ہیں ۔


انور رتول جسے حرف عام میں انور راٹھور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انوار الحق نے بھارت کی ریاست اتر پردیش میں رٹول کے علاقے میں ایک باغ میں کاشت کی تھی لیکن اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے انور رتول آم پوری دنیا میں اپنے بھرپور ذائقے کے لیے پہچانا جاتا ہے اپنے شاندار ذائقے کی وجہ سے اس نے حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے اس کا ایک غیر معمولی میٹھا ذائقہ ہے جو تازگی بخشتا ہے یہ آم کی مٹھاس اور ذائقے کے لحاظ سے بہترین قسم ہے جو اسے باقی تمام آموں سے ممتاز کرتی ہے اس کا چوٹی کا موسم جولائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اگست میں ختم ہوتا ہے یہ آم پوری طرح سے غذائیت سے بھرپور ہے جو کافی مقدار میں توانائی فراہم کرتا ہے۔ -ہمارے وطن میں ملتان بھی آموں کے باغات کے لئے مشہور شہر ہے -لیکن اب سننے میں آ رہا ہے کہ ملتان میں آموں کے درخت بڑی تعداد میں ختم کئے جا رہےہیں تاکہ وہاں ہاؤسنگ سوسائیٹیز بن سکیں


پاکستان کا چونسہ آم دنیا کی بہترین دستیاب اقسام میں سے ایک ہے۔ چونسہ آم کی ایک قسم ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اگائی جاتی ہے لیکن اصل میں پنجاب کے رحیم یار خان اور ملتان سے ہے یہ ایک غیر معمولی طور پر میٹھا آم ہے جس میں شاندار خوشبو اور مزیدار نرم، رسیلا ہے جس میں صرف کم سے کم فائبر ہوتا ہے عام طور پر پیلا، میٹ پیلے رنگ کا ہونا لیکن پتلی چھلکے کے اندر یہ ایک لذت ہے چونسا آم کافی موٹا اور رسیلا ہوتا  اس کا تعلق رحیم یار خان اور ملتان پنجاب سے ہے، سندھڑی سندھ کی ایک معروف قسم ہے اس کی شکل بیضوی لمبا، سائز بڑا، جلد کا رنگ لیموں پکنے پر پیلا، گودا رنگ زرد کیڈیم، بناوٹ ٹھیک اور مضبوط ریشے کے بغیر،درمیانے سائز کا، ذائقہ خوشگوار خوشبودار اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اس کا تعلق میر پور خاص سے ہے، یہ پاکستان کا قومی پھل بھی ہے کیونکہ یہ ورائٹی پاکستان میں سرفہرست ہے، سندھڑی آم پاکستان کی بہت مشہور اور دنیا کے بہترین آموں میں سے ایک ہے، لنگڑا آم کا ریشہ سے کم زرد بھورا رنگ کا ہوتا ہے اور جب پک جاتا ہے تو اس کی خوشبو تیز ہوتی ہے، آم کی دیگر اقسام کے مقابلے میں، یہ قدرتی طور پر بہت میٹھا اور نرم ہوتا ہے، بیج کا سائز چھوٹا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے لنگڑا پکنے کے بعد اس کا سبز رنگ برقرار رکھتا ہے، جب کہ دیگر آم پیلے سرخی مائل رنگ میں بدل جاتے ہیں،دسیری آم لمبا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے جس کی جلد ہلکی سبز یا پیلی سبز ہو جاتی ہے جب پختہ ہو جاتی ہے پکنے پر سنہری پیلی ہو جاتی ہے دسیری آم میں ریشے کے بغیر، آڑو کے رنگ کادرمیانے سائز میں زیادہ پایاجاتا ہے ذائقہ بہت میٹھا اور خوشبودار ہے دسیری آم میں وٹامن سی اور فائبر زیادہ ہوتا ہے قدرتی طور پر ہاضمے کے لیے فائدہ مند انزائمز کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر قیمتی وٹامنز اور منرلز بھی ہوتے ہیں



یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر اگائے جاتے  ہیں - اس کا چوٹی کا موسم وسط جولائی سے اگست تک ہوتا ہے سرولی، شمالی ہندوستان اور پاکستان میں ایک مقبول قسم یہ موسم کے دوران ظاہر ہونے والے پہلے آموں میں سے ایک ہے میٹھے سبز آم خوشبودار اور خوشبو سے بھرپور ہوتے ہیں یہ وٹامنز، پوٹاشیم، فینول اور آئرن کا بھرپور ذریعہ ہے اور یہ بہت پرکشش اور ذائقہ دار لگتا ہے ثمر بہشت مقامی انتخاب ہیں ۔توتاپوری آم ایک کھیتی ہے جو جنوبی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے اور جزوی طور پر سری لنکا میں کاشت کی جاتی ہے بھارت میں آم کے گودے کے لیے ’الفونسو‘ اور ’کیسر‘ کے ساتھ اگائی جانے والی اہم کاشتوں میں سے ایک ہے درخت درمیانے سائز کا ہوتا ہے جس میں سبز پیلے پھل ہوتے ہیں فجر ی موسم بہار سے ماخوذ ہے اسے ایک عورت نے تخلیق کیا تھا جس کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے، جلد کا رنگ پیلا گودا ریشے دار کے بغیر میٹھے ذائقے اور غیر معمولی ساخت کے لیے بھی جانا جاتا ہے-پاکستان اب بھارت، چین، میکسیکو اور تھائی لینڈ کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا پروڈیوسر ہے آم پاکستان کی دوسری بڑی پھلوں کی فصل ہے اس وقت یہ 1.8ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ ہزاروں ایکڑ کے رقبے پر اگایا جاتا ہے 


صرف صوبہ پنجاب میں تقریبا 3لاکھ ایکڑ کے قریب رقبے پر آم کے باغات ہیں جو کل پیداوار کا 70فیصد آم پیدا کر رہے ہیں ،صوبہ سندھ تقریبا 24فیصد اور خیبر پختوانخواہ بھی معمولی کا حصہ ڈالتا ہے پاکستان کی فصل دنیا کے آم کا 8.5 فیصد پیدا کرتی ہے پنجاب سے پہلے کی آب و ہوا نے صوبے کو آم کی ابتدائی اقسام اگانے کا اعزاز بخشا ہے آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ چند سال میں معیاری آم کی پیداوار میں کمی آرہی ہے اور حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کوئی کام نہیں کر رہی ۔موسمیاتی تبدیلی اور شدید موسم کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں آم کی فصل متاثر ہوتی ہے ماہرین کے مطابق آم کی فصل اگانے کیلئے پاکستان میں مٹی اور موسمی ماحول معیار کے لحاظ سے معاون ہے آم کی کم پیداوار میں متعدد عوامل کارفرما ہیں بیمار پودے بنانے والے غیر صحت بخش بیجوں کا غیر منظم استعمال، کیڑوں کا حملہ (آم کا میلی بگ، فروٹ فلائی، مینگو ویول، ترازو، مائٹس)، بڈنگ یا گرافٹنگ کے دوران انتظام کے غلط طریقے، آبپاشی کا وقت، کٹائی اور کھادوں کے استعمال کا وقت اس میں خاطر خواہ کردار ادا کر تے ہیں آم کی تشہیر اور تعارف کے لیے محکمہ زراعت کی جانب سے رحیم یار خان میں تین روزہ سالانہ مینگو شو کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ ہر سال میرپورخاص کے شہید بینظیر بھٹونمائش ہال میں قومی آم اور موسم کے پھلوں کے فیسٹیول کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

اتوار، 15 ستمبر، 2024

گورکھ ہِل اسٹیشن، سندھ کا مَری

 

 تما م دنیا کی مہذب اقوام اپنے عوام کے لئے   بہترین اور سستی تفریح گاہیں مہیا کرتی ہیں  لیکن شومئ قسمت  کہ ہمارے ملک کے وسائل صرف چند ہاتھوں میں ہونے کے سبب پاکستان کے عوام ہر سہولت سے محروم ہیں خاص کر تفریح گاہیں - جبکہ ا  للہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے، جن میں سمندر، دریا، پہاڑ، ریگستان، نخلستان،زرخیز زمین، انواع و اقسام کے مزے دار پھل، اناج، سبزیاں، گیس اور معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک نے قدرت کی عطا کردہ ان نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دُنیا میں عروج حاصل کیا،کسی بھی مُلک کے معاشی حالات کی بہتری میں سیّاحت کا شعبہ   اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نیز، سیّاحتی مقامات کی تعمیر و ترقّی کے نتیجے میں شہریوں کو سیر و تفریح کے بہتر مواقع بھی میسّر آتے ہیں۔ پاکستان میں عام طور پر موسمِ گرما میں سندھ اور پنجاب کے شہری اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مَری، سوات، کاغان سمیت دیگر شمالی علاقہ جات کا رُخ کرتے ہیں اوروہاں کےٹھنڈے موسم سےلطف اندوز ہوتے ہیں۔ سندھ کی نسبت فاصلہ کم ہونے کے سبب پنجاب کے شہری پبلک ٹرانسپورٹ یا نجی گاڑیوں کےذریعے ان علاقوں کی سیر کے لیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف سفر پر آنے والے اخراجات کم ہو جاتے ہیں بلکہ سفر کا دورانیہ بھی گھٹ جاتا ہے، جب کہ سندھ کے شہریوں کو ان پُر فضا مقامات تک رسائی کے لیے انٹرسٹی بسز یا ہوائی جہازکا سفر کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، سفر کی مد میں اچّھی خاصی رقم خرچ ہو جاتی ہے اور وقت بھی بہت زیادہ صَرف ہوتا ہے، بالخصوص بذریعہ سڑک آنے جانے میں 5 سے 6 دن لگ جاتے ہیں۔


ایسی صورتِ حال میں گرمی سے بچاؤ کے لیے سندھ کے شہریوں نےشمالی علاقہ جات ہی کا رُخ کیا اور اِس ضمن میں انہیں اچّھا خاصا مالی بوجھ بھی برداشت کرناپڑا۔ حالاں کہ اگرگورکھ ہِل اسٹیشن کو ایک معیاری تفریح گاہ میں بدلتے ہوئے یہاں آنے والے سیّاحوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کر دی جائیں، تو سندھ کے باشندے مَری اور سوات سمیت دیگر شمالی علاقہ جات کا رُخ کرنے کی بجائے گورکھ ہل ہی پر سیرو تفریح کو ترجیح دیں ایک خاصی سَستی سیرگاہ ثابت ہوگی بلکہ وہ طویل سفر کی تکلیف   سے بھی بچ جائیں گے۔واضح رہے کہ سندھ حکومت نے گورکھ ہِل اسٹیشن کو ترقّی دینے کے لیے 1995ء میں ’’گورکھ ہِلز ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘‘ (جی ایچ ڈی اے) قائم کی تھی اور اس ضمن میں نجی ماہرین کی مدد سے ایک ماسٹر پلان بھی تشکیل دیا گیا تھا، مگر افسوس کہ 29برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ ترقیاتی کام مکمل نہیں ہوسکا۔ 

 

  اللہ تعالیٰ نے صوبۂ سندھ کے ضلع، دادو میں ’’گورکھ ہِل اسٹیشن‘‘ کی شکل میں موسمِ گرما میں سیر و تفریح کے لیے ایک بہترین مقام عطا کیا ہے۔ مذکورہ مقام کو اس کے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے ’’سندھ کا مَری‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گورکھ ہِل اسٹیشن کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں صوبۂ سندھ اور صوبۂ بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ مقام سطحِ سمندر سے 5689 فٹ بلند ہے، جہاں موسمِ گرما میں درجۂ حرارت 20ڈگری سینٹی گریڈ اور موسمِ سرما میں نقطۂ انجماد سے بھی کم ہو جاتا ہے۔نیز، یہاں ہرسال دو سال بعد برف باری بھی ہوتی ہے۔ جنوری 2023ء میں برف باری کے نتیجے میں یہاں درجۂ حرارت منفی 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ ایسے میں اگر گورکھ ہِل اسٹیشن کوایک سیّاحتی مقام کے طور پرترقّی دی جائے، تو نہ صرف صوبۂ سندھ کے عوام بلکہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے شہریوں کو بھی ایک بہترین اورسَستی تفریح گاہ میسّر آسکتی ہے،  گورکھ ہِل اسٹیشن کراچی سے تقریباً 405 کلو میٹر، حیدر آباد سے 265 کلومیٹر، سکھر سے 30اور لاڑکانہ سےکم و 218 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔  ۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرمیوں میں شمالی سندھ کےشہروں کا درجۂ حرارت50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرگیا، جب کہ حالیہ موسمِ گرما میں کراچی کے بعض علاقوں میں درجۂ حرارت56 ڈگری سینٹی گریڈ تک محسوس کیا گیا۔ 

 

یاد رہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے سب سے اہم کام   ایک معیاری سڑک کی تعمیر ہے، کیوں کہ آج بھی راستے خراب ہونے کے باعث لوگوں کو وہاں تک پہنچنے کے لیے کرائے پر جیپ لے کر ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں، سکیوریٹی کی ناقص صورتِ حال بھی ایک اہم مسئلہ ہے اور لُوٹ مار کی وارداتوں کی وجہ سے بھی بالخصوص فیملیز وہاں جانے سے گھبراتی ہیں۔سندھ کے شہریوں کی سہولت کے پیشِ نظر صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد گورکھ ہِل اسٹیشن کو ایک معیاری تفریح گاہ میں تبدیل کرے۔ نیز، وفاقی حکومت بھی اِس ضمن میں سندھ حکومت کو مالی اور تیکنیکی معاونت فراہم کرے۔ ہماری رائے میں پبلک / پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اس پراجیکٹ کو جلد از جلد اور اعلیٰ معیار کے مطابق تعمیر کیا جاسکتا ہے  پھرحکومت اس ضمن میں کسی بین الاقوامی تعمیراتی کمپنی سے بھی معاہدہ کرسکتی ہے۔ یاد رہے کہ صوبۂ خیبرپختون خوا کے مشہور تفریحی مقام، مالم جبّا کی تعمیر وترقّی کے لیے آسٹریلوی حکومت نے مدد فراہم کی تھی اور آج یہ پاکستان کی ایک بہترین تفریح گاہ ہے۔


 سیّاحوں کی تفریحِ طبع کے لیے  حکومت یہاں کیا بنا سکتی ہے ، چڑیا گھر، سوئمنگ پول، کشتیاں،  الیکٹرک جھولے -ہارس رائڈنگ کا میدان  -سندھ کی پہچان اونٹوں پر سواری -جھولا پل،  ، مینارِ پاکستان کا ماڈل، گراسی پلاٹ، کرکٹ لان، بچّوں کا پارک، اوپن شیڈز اور بینچز وغیرہ  ۔ بڑی تعداد میں فوڈ پوائینٹس -اس کے علاوہ رہایش کے لیے ریسٹ ہائوسز کا بھی مناسب انتظام کیا جانا چاہیے۔کیونکہ مناسب تعداد میں ریسٹ ہاوسز نا ہونے کی بنا پر اکثر لوگ کیمپنگ کرتے ہیں لہٰذا، حکومتِ سندھ کو چاہیےکہ وہ مذکورہ ہِل اسٹیشن کو جلدازجلد ایک محفوظ اورمعیاری تفریح گاہ میں تبدیل کرکے گرمی کے ستائے صوبے کے شہریوں کو راحت کا موقع فراہم کرے۔ میری حکوت سندھ سے مودبانہ گزارش ہے کہ گورکھ ہل اس ٹیشن کے منصوبے کو جلد سے جلد  مکمل  کر کے مقامی افراد کے روزگار کا بندوبست کیا جائے 


جمعرات، 12 ستمبر، 2024

چھانگا مانگا جنگل' میڈ ان پاکستان


 

 جی جناب عالی 'یہ جنگل بے شک پاکستان میں ہے لیکن اس جنگل کو پروان چڑھایا ہے انگریز بہادر نے-کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کو لکڑی کی بطور ایندھن ضرورت تھی کیونکہ ریل کے انجن بھاپ سے چلتے تھے اس لئے انہوں نے اس وسیع عریض رقبے کا انتخاب کر کے اس کو لہلہاتے ہوئے جنگل میں تبدیل کر دیا اور آج بھی یہ جنگل پنجاب کی شان بڑھانے کے علاوہ قومی آمدنی بھی بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا انسانی ہاتھوں سے لگایا جانے والا مصنوعی جنگل قرار دیا جاتا ہے۔ ۔ چھانگا مانگا کے جنگلات صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے 70 کلومیٹر اور پتوکی سے 7 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اور بارہ ہزارایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ چھانگا مانگا نام لوک کہانی پر مشتمل ہے۔ یہ دو بھائیوں کی کہانی ہے جن میں ایک بھائی کا نام چھانگا اور دوسرے کا نام مانگا تھا۔ یہ دونوں بھائی چوراور ڈاکو تھے اور انگریز حکام سے بچنے کے لیے ان جنگلات میں چھپ جایا کرتے تھے۔ ان بھائیوں کے قصے اس علاقے کے بارے میں جاننے والے ہر بچے کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔پاکستان میں چھانگا مانگا جنگل انسانی کاوش کی عمدہ مثال ہے۔ پاکستان کے ساحلی جنگلات کو بھی بچانے کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں 


محل وقوع-چھانگا مانگا کے جنگلات لاہور اور ساہیوال کے درمیان میں چونیاں کے مقام پر قومی شاہراہ کے مشرقی حصے میں تقریباً 10 کلومیٹر پر واقع ہیں۔ ایک بہت بڑا علاقہ ہونے کیوجہ سے اس کا کچھ حصہ ضلع قصور اور کچھ ضلع لاہور میں آتا ہے۔شجرکاری کی تاریخ-اس کا منصوبہ 1865 میں لاہور، امرتسر اور کراچی کے درمیان میں چلنے والے سٹیم انجنوں کے لیے سستی لکڑی کی فراہمی کے لیے عمل میں آیا تھا،چھانگا مانگا کے جنگلات میں شجر کاری کا آغاز 1866میں کیا گیا۔ اس جنگل کا ابتدائی ورکنگ پلان 1871 میںMr.B.Ribbentro نے تیار کیا۔ اور یہاں سب سے پہلے درختوں کی کٹائی 1881 میں شروع ہوئی۔1888میں برطانوی حکام نے فیصلہ کیاکہ وہ اس جنگل کے ایک وسیع رقبے پرشیشم کی لکڑی اگائیں گے۔


سیاحتی مقام-اس جنگل میں جنگلی حیات پر مشتمل ایک پارک بھی موجود ہے۔ جبکہ ایک واٹر ٹربائن اور بچوں کے کھیلنے کے لیے ایک وسیع ایریا بھی موجود ہے۔ یہاں آنے والے سیاحت کے شوقین لوگوں کے لیے ایک خصوصی ٹرین بھی موجود ہے۔ جس میں سوار ہوکر جنگل کی سیر کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک جھیل بھی بنائی ہے جس میں کشتی کی سواری کی جا سکتی ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے ایک ریزورٹ بھی ہے جو لاہور سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میدانی علاقوں میں شجرکاری کیلئے نیم ، پیپل ، لیگنم اورگل مہر بہترین درخت ہیں۔جبکہ آم ، امرود ،چیکو ،بیر، کھجور ، شریفے اور جنگل جلیبی وہ پھل دار درخت ہیں، جو نہایت آسانی سے اگائے جاسکتے ہیں۔یہ پھل دار درخت پرندوں کی خوراک اور افزائش کا سبب بھی بنتے ہیں۔جبکہ پہاڑی علاقوں میں چیڑھ ، اخروٹ ، سیب اور خوبانی کے درخت موزوں ترین خیال کئے جاتے ہیں۔جنگلی حیات کی افزائش:2008ء سے اس جنگل کو جنگلی جانوروں اور پرندوں کی تعداد میں اضافہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی وہ نسلیں جو ناپید ہو رہی ہیں ان کے لیے یہاں ماہرین کام کر رہے ہیں۔ یہاں نیل گائے، ہرن، گیدڑ، سؤر ،بارہ سنگھا،موراور اڑیال جیسے جنگلی جانوروں کو قدرتی ماحول دیا جاتا ہے اس کے علاوہ گدھ کی افزائش نسل کا مرکز ہے۔  چھانگامانگا جنگل میں جھیل بھی بنائی گئی ہے جہاں سیر تفریخ کرنے والوں کے لیے بے شمار حسین مقامات بنائے گئے ہیں    

چھانگا مانگا کا جنگل نہ صرف لکڑی کی فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے، بلکہ یہ ایک بہترین سیرگاہ کی حیثیت سے بھی پورے ملک میں شہرت کا حامل ہے۔ 1960ء میں یہاں قومی پارک بنایا گیا، جس کے بعدہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیّاح، یہاںسیّاحت کی غرض سے آنے لگے۔ سیّاحوں کی تفریحِ طبع کے لیے مہتابی جھیل، چڑیا گھر، سوئمنگ پول، کشتیاں، جھولا پل، مہتاب محل، مینارِ پاکستان کا ماڈل، گراسی پلاٹ، کرکٹ لان، بچّوں کا پارک، اوپن شیڈز اور بینچز وغیرہ کی سہولت مہیّا کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ رہایش کے لیے ریسٹ ہائوسز کا بھی مناسب انتظام ہے۔ علاوہ ازیں، سیّاحوں کی دل چسپی کے لیے بھاپ سے چلنے والی ٹرین بھی چلائی جاتی ہے۔ چھانگا مانگاجنگل کے درمیان سے ایک نہر برانچ لوئر گزرتی ہے،جو پورے جنگل کو سیراب کرتی ہے۔ ساتھ ہی ایک خوب صورت جھیل بھی ہے، جو جنگل کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔ جھیل کی خوب صورتی کے پیشِ نظر اس کا نام’’ مہتابی جھیل‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہاں چلنے والی کشتیاں سیّاحوں کے لیے خاص کشش رکھتی ہیں۔ جھیل کے دوسری جانب جانے کے لیے ایک’’ جھولا پل‘‘ بنایا گیا ہے۔ اس پر ایک وقت میں آٹھ سے زیادہ افرادکو گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر جھیل کے بیچوں بیچ، پانی میں کھڑے دو منزلہ’’ مہتاب محل‘‘ کے کناروں پر سدا بہار درختوں کی شاخوں کاجھک کر جھیل کے پانی کو چھونے کا حسین منظر تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔


چھانگا مانگا  جنگل! جہاں ریشم کے کیڑے پال کر دھاگہ بنایا جاتا ہے جس سے ورلڈ کلاس ریشم کا کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار سے اوسطاََ ایک خاندان تقریباََ ایک لاکھ روپے تک ماہانہ کما رہا ہےجنگل کے تحفّظ اور اسے خوب صورت بنانے میں ’’محکمۂ تحفّظِ جنگلی حیات‘‘ کابھر پور حصّہ ہے۔اس جنگل میں درختوں کی آب یاری، کاٹ چھانٹ اور پانی دینے کے لیے بیلداروں کی رہائشی کالونیاں بھی جنگل کے احاطے  کے اندر  بنائی گئی ہیں۔ ملازمین کے لیے جنگل کے احاطے ہی میں ایک ڈسپینسری اور بچّوں کے لیے پرائمری اسکول بھی موجودہے۔جنگلی حیات کی افزائش کے لیے جھیل سے متصل، ایک بریڈنگ سینٹر بنایا گیا ہے، جس میں نیل گائے، ہرن، اڑیال اور گدھ سمیت دیگر جانور رکھے گئے ہیں، جانوروں کو حتی الامکان جنگلی ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ محکمۂ تحفظِ جنگلی حیات نے فیزنٹ (جنگلی مرغے) کی نسل کو بڑھانے کے لیے دو سو کے قریب جنگلی مرغے پال کر جنگل میں آزاد چھوڑے ہیں۔ علاوہ ازیں، کافی تعداد میں خرگوش تیتر، تلور، بٹیر اور مور بھی پائے جاتے ہیں۔ مہمان پرندے تلور، مارچ اور اپریل میں ایشیائے کوچک سے یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ جب کہ قیمتی اقسام کے باز کے علاوہ بڑے سائز کے بلّے بھی اچھلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، جنگل میں کسی بھی قسم کا شکارممنوع ہے۔

بدھ، 11 ستمبر، 2024

زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے

 زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے، جو کسی بھی وقت کہیں بھی آسکتا ہے۔پاکستان نے بھی  بڑے بڑے زلزلے  سے بڑے جانی اور مالی نقصان اٹھائے ہیں - ریکٹر اسکیل پر زیادہ شدت رکھنے والے زلزلے جانی اور مالی نقصان کا باعث بھی بنتے ہیں، اس کے نتیجے میں عمارتیں بھی زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو زلزلے کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ عالمی بینک رپورٹ کے مطابق، 2005ء کے زلزلہ کی وجہ سے پاکستان کو پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔اس زلزلہ کی وجہ سے تقریباً 28 لاکھ لوگ بے گھر جب کہ 73ہزار افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ تاہم دُنیا میں سب سے زیادہ اورسب سے شدید زلزلے جاپان میں آتے ہیں، جو بسا اوقات سونامی کی شکل بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ زلزلوں کو تو نہیں روکا جاسکتا تاہم انسان سائنسی ترقی کی روشنی میں ایسے اقدام ضرور اٹھا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے، ان میں زلزلہ سے محفوظ رہنے والی عمارتوں کی تعمیر ایک اہم قدم ہے۔  تاریخ گواہ ہے کہ غلط منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی عمارتیں، زلزلے کی صورت میں شہری مرکز میں بڑے مالی اور جانی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں، زلزلوں کو برداشت کرنے والی عمارتوں کی تعمیر کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ ذیل میں ایسی ہی چند عمارتوں کی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیتائیوان کے دارالحکومت تائپے کی فلک بوس عمارت تائپے 101کی تعمیر 2004ء میں مکمل کی گئی تھی۔ 1,667میٹر بلندی کے ساتھ اُس وقت یہ دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ ہرچند کہ، اب اسے دنیا کی بلند ترین عمارت کا درجہ حاصل نہیں رہا، تاہم اس میں زلزلے اور موسمی تغیر سے محفوظ رہنے کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی آج بھی اتنی ہی مؤثر اور اعلیٰ ہے۔ تائپے101میں، زلزلے کے جھٹکوں سے محفوظ رہنے کے لیے ’’اِنٹرنل ڈَیمپر‘‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ زلزلے کی صورت میں عمارت کے ڈھانچے کو نقصان نہیں پہنچے گا۔


زلزلہ کے بڑھتے خطرات کے پیشِ نظر پاکستان میں بھی تعمیرات میں زلزلہ پروف ٹیکنالوجی پر کام ہورہا ہے۔ این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اَرتھ کوئیک انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کی لیب میں اسٹیل کینیڈا کے تعاون سے زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیراور موجودہ عمارتوں کے لیے اسٹیل سے بنے بکلنگ ری اسٹرین فریم کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔بکلنگ ری اسٹرین بریسنگ(بی آر بی) ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ لچکدار اور زیادہ مضبوط ڈھانچے کی تعمیرممکن ہے، جس کے ذریعے عمارت زلزلے کے شدید جھٹکوں کو برداشت کرسکتی ہے۔این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق، یہ فریم نصب کروانے سے عمارت انتہائی محفوظ ہوجاتی ہے اور خرچ بھی زیادہ نہیں آتا۔ نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں کو زلزلہ پروف بنانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں لیکن پُرانی تعمیر شدہ عمارت کے لیے بی آر بی بہترین طریقہ ہے، جس کے ذریعے کسی بڑی ڈیمالیشن کیے بغیر عمارت کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں اس ٹیکنالوجی کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان کا محل وقوع فالٹ لائن پر واقع ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں بی آر بی ٹیکنالوجی زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

 استنبول ایئر پورٹ-زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیں-1999ء میں ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں 7.4شدت کا زلزلہ آیا تھا، جس کے نتیجے میں 17,000لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ 20لاکھ مربع فٹ پر تعمیر کردہ اس وسیع و عریض اور خوبصورت کمپلیکس میں زلزلے سے محفوظ رہنے کے لیے، سطح زمین پر 300سیسمِک آئسولیٹرز نصب کیے گئے ہیں۔ اس کے انفرادی بیئرنگ، زلزلے سے پیدا ہونے والی حرکت کے ساتھ چلتے ہیں، جس کے نتیجے میں ساری عمارت ایک یونٹ کے طور پر حرکت میں آتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے باعث، زلزلے سے پیدا ہونے والی حرکت کی رفتار میں 80فیصد کمی آجاتی ہے۔-ٹرانس امریکا پیرامیڈزلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیں -یہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکوکی بلند ترین عمارت ہے اور توقع ہے کہ مستقبل میں یہ 6.7کی شدت والے زلزلے تک کو برداشت کرجائے گی۔ اس عمارت کی بنیاد میں استعمال ہونے والاکنکریٹ 52فٹ گہرا ہے اور یہ زلزلے کی صورت میں زمین کے ساتھ حرکت میں آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 1989ء میں سان فرانسسکو میں 6.9شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس زلزلے کے دوران یہ عمارت ایک منٹ تک مسلسل حرکت میں رہی، عمارت کی بالائی منزل اپنی جگہ سے ایک فٹ تک باہر جاتے دیکھی گئی، تاہم عمارت کا ڈھانچہ مکمل طور پر محفوظ رہا

-کاربن فائبر سے بنے تار کا استعمال جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جاپان میں سب سے زیادہ اور سب سے شدید زلزلے آتے ہیں۔ اس بات کے پیشِ نظر جاپان نے اپنی عمارتوں کو محفوظ بنانے کےکئی طریقے ایجاد کیے ہیں۔ ایک ایجاد ’کاربن فائبر‘ سے بنے تاروں کا استعمال ہے۔ جاپانی ماہرِ تعمیرات’کینگو کیومہ ‘نے عمارت کو زلزلہ پروف بنانے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جنوبی جاپان کے شہر’ نومی ‘ میں زلزلہ سے متاثرہ لیبارٹری اوردفتر کی عمارت کو ازسرِ نو تعمیر کیا گیا۔ شنگھائی ٹاور-زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیںچین کے سب سے بڑے شہر شنگھائی کے 2,000فٹ بلند شنگھائی ٹاور کو اس وقت زمین پر موجود دنیا کی دوسری سب سے اونچی عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بدقسمتی سے، شنگھائی زلزلے کی زد میں ہونے والے علاقوں میں شامل ہے، اور یہاں کی زمین بھی نسبتاً نرم مٹی پر مشتمل ہے۔ اس عمارت کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے لیے انجینئرز نے ساڑھے 21لاکھ مکعب فٹ ’’ری اِنفورسڈ کنکریٹ‘‘ کا استعمال کیا، جوزمین کے اندر 300فٹ تک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پینڈولم پاور ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ پینڈولم کا وزن 1,000ٹن ہے، جس کے سامنے تائپے 101کا پینڈولم بھی شرما جاتا ہے۔

اب کی بار اسے زلزلے سے محفوظ رکھنے کے لیے آرکیٹیکٹ نے ‘کاربن فائبر’ سے بنے تاروں کا استعمال کیا ہے۔ طریقہ کار کے تحت عمارت کی بنیادوں ، اندرونی دیواروں اور کھڑکیوں کو کئی تاروں سے باندھا گیا ہے۔ عمارت کے باہر سے تاروں کو باندھنے کے لیے ایک سرا عمارت کی چھت اور دوسرازمین پر باندھا گیا ہے، جس کے بعد یہ بلڈنگ، سرکس ٹینٹ سے مشابہہ دِکھائی دیتی ہے۔ آرکیٹیکٹ کے مطابق، اگر زلزلہ بلڈنگ سے ٹکرائے گا، تو یہ زمین کے ساتھ اپنی جگہ بنائے رکھے گی۔بلڈنگ کو ڈیزائن کرنے والے آرکیٹیکٹ کا کہنا ہے کہ یہ ڈیزائن ان عمارتوں کے لیے بنایا گیا ہے، جو ایک سے دو بار زلزلے سے متاثر ہو چکی ہیں اور اس طریقے سےانھیں دوبارہ زلزلہ پروف بنایا جا سکتا ہے۔اسٹائرو فوم سے تعمیرجاپان میں عمارتوں کے زلزلہ سے محفوظ رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر مسلسل کام ہورہا ہے، جس کے باعث ماہرین ہر آئے دن نئی اختراعات متعارف کراتے رہتے ہیں۔ کاربن فائبر سے تیار کردہ تاروں کے استعمال کے علاوہ، جاپانیوں نے زلزلہ سے محفوظ رہنے کا ایک اور طریقہ یہ نکالا ہے کہ وہ فوم کی مدد سے گھر بنانے لگے ہیں، جو زلزلے سے مکمل طور پر محفوظ رہتے ہیں۔ یہ گھر انتہائی خوبصورت بنائے گئے ہیں اور جاپان کی سیر پر جانے والے اکثر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ ان ہلکے پھلکے مگر خوب صورت گھروں کو ’اسٹائروفوم‘ نامی مضبوط فوم سے تیار کیا جاتا ہے،جو ایک طرف تو مکینوں کو شدید گرمی اور شدید سردی سے محفوظ رکھتے ہیں تو دوسری جانب اسی فوم کی بدولت یہ مکانات زلزلوں کے خلاف حیرت انگیز مزاحمت بھی رکھتے ہیں۔ اسٹائروفوم سے تعمیر کیے جانے والے تمام مکانات کو گنبد جیسی شکل دی جاتی ہے، کیونکہ اس کی ساخت بہت مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ اس میں بنیادی ڈھانچے کی لکڑی پر اسٹائروفوم کی موٹی تہہ چڑھادی جاتی ہے۔


6گھنٹہ میں زلزلہ پروف گھر تیار-اِٹلی کی ایک فرم نے عالیشان مکان کے ایسے ضروری اجزاء تیار کیے ہیں، جن کے ذریعے ص6 گھنٹے میں پورا مکان تعمیر کیا جاسکتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ مکان مکمل طور پر زلزلہ پروف ہوتا ہے۔ اسے فلیٹ پیک فولڈنگ ہوم کا نام دیا گیا ہے، جس کے تمام اجزاء اٹلی کی ایک فیکٹری میں تیار کیے گئے ہیں اور انہیں آسانی سے ٹرکوں کے ذریعے کسی بھی جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔اس کی خاص بات مکان کی ڈیزائننگ ہے جو بہت خوبصورت ہے اور اندر سے بھی کشادگی کا احساس دیتی ہے۔ چھوٹے مکان کا رقبہ290مربع فٹ جب کہ بڑے مکان کا رقبہ904 مربع فٹ ہوتا ہے۔ کمپنی کے مطابق، مکان کی فوری تعمیر کے لیے لکڑی اور پلاسٹک سمیت کئی نئے مٹیریل بھی بنائے گئے ہیں، جو موسم کی شدت برداشت کرسکتے ہیں جبکہ فوری تیاری کےلیے ڈیزائن میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ماحول دوست مکان، شمسی پینل کے ذریعے اپنی بجلی خود پیدا کرتا ہے، جسے اٹلی کے ڈیزائنر ریناٹو وائیڈل نے بنایا ہے۔ مکان کو مختلف ماڈیولز میں رکھاجاتا ہے، تاکہ اسے کھول کر بآسانی بنایا جاسکے۔ اس میں 904 مربع فٹ کا ماڈل ایک چھوٹے خاندان کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ ضرورت کے تحت گھر کو پھر سے کھول کر کسی اور جگہ منتقل کرنا بھی آسان ہے۔


منگل، 10 ستمبر، 2024

کاگا سب تن کھائیو سو چن چن کھائیو ماس

 کاگا سب تن کھ  کھائیو سو چن چن کھائیو ماس 

دو نینا ں مت کھائیو جن میں پیا ملن کی آس    

  ہندوستان کے ایک بڑے نامور ادیب نے راجندر سنگھ بیدی کے ناول ''ایک چادر میلی سی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا  راجندر کچھ نا لکھتے   تب بھی یہی ایک ناول ان کو آسما ن ادب کا درخشاں ستارہ بنانے کے لئے کافی تھا - اور میرا کہنا ہے قرۃ العین حیدر کے لئے کہ عینی کچھ نا لکھتیں  تب بھی ان کا نام اسی ایک افسانے سے کہکشاں کی مانند ادبی  آسمان میں جگمگاتا -فکشن نگارقرہ العین  ۔ ان کےافسانوں میں عصری حسیت اور فلسفیانہ شعور کی گہرائی  موجود ہے۔ قصہ کو قصہ بتانے کے تمام لوازم ان کے افسانوں کوکامیاب بناتے ہیں اور کہانی کو کہانی بنانا ہی تخلیق کار کا اولین فرض ہوتا۔قرہ العین حیدر نے اپنے افسانوں میں تاریخ، فلسفہ، عصری آگہی کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ ان کے یہاں اسلوب اور تکنیک کاحسین امتزاج ملتا ہے۔ ماضی کی بازیافت ،  زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات ۔ ان کے فنی طریق کار کی انفرادیت اور تکنیک کےتنوع نے ان کے فن کو ممتاز اور منفرد بنا دیا ہے۔ ان کے ابتدائی افسانو ں ںپر ایک پرتکلف ، خوابناک اور رومانی فضا چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہےلیکن تقسیم وطن کے بعد تہذیبی سانچوں کی شکست و ریخت اور انسانیت کی  پسپائی ان کے یہاں زیادہ درآئی ۔ 


قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔


قرہ العین حیدرنے اپنے افسانوں میں انھیں موضوعات، ماجرے، مناظراور محاکات کو پیش کیا ہے جن سے وہ بخوبی واقف تھیں۔ ان کے کردارعموماً اعال متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو کانونٹ، کالج اوریونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں اور کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، ٹینس، تاش،شطرنج کے شوقین ہیں۔رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ کلب جانا ان کےشغل میں شامل ہے۔ عام طور پر وہ ہوائی سفر کرتے ہیں۔ معاشی مسائلسے بےنیاز ہیں۔ باپ دادا کی دولت پر عیش کرتے ہیں اور انگریزی طرزمعاشرت میں رنگے ہیں۔قرہ العین حیدرایک غیرجانبدار ادیبہ ہیں۔ وہ نہ تو کسی فرقہ اور مذہب  کے لیے لکھتی ہیں اور نہ کسی خاص ملک کے لیے اور نہ کسی رجحان   اور تحریک کی پابند ہیں۔ وہ ایک روشن خیال ادیبہ ہیں۔ انسانیت اورمشترکہ تہذیب میں یقین رکھتی ہیں۔ ان کے یہاں جس پس منظر سے وہ،کردار  لیا گیا ہوتا ہے، اس پس منظر کا تہذیبی منظرنامہ قاری کے سامنے نمایاں ہوتا جاتا ہے۔

زبان و بیان کی ندرتوں کے لحاظ سے بھی عینی کی تخلیقات عدیم المثال ہیں۔ انھوں نے اردو فکشن کو ایک نیا اور البیلا اسلوب دیا ہے جوانوکھا ہونے کے ساتھ ساتھ دلکش بھی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے 'پت جھڑ کی آواز' پر انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔قرہ العین حیدرنے ترقی پسند تحریک کے دوران ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔ آزادی سے کچھ پہلے ان کے افسانوں کا مجموعہ 'ستاروں سےآگے' منظرعام پر آچکا تھا۔اس کے بعد وہ اپنے ادبی سفر میں خوب سےخوب تر کی منزل کی طرف بڑھتی گئیں اور ان کا فکروفن مسلسل ارتقائیمنازل طے کرتا رہا۔جوں جوں ان کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع اور عمیق ہوتا گیا ان کے افسانے نکھرتے اور سنورتے گئے اور کینوس میں وسعت آتی گئی۔یہاں تانیثیت کا رجحان ایک نئی معنویت کے ساتھ ابھرا ہے۔ انھوں نےانسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی بنتی بگڑتی شبیہ کو پیش کیاہے اور اپنی اکثر تخلیقات میں سماج اور زمانے کی طاقت کے سامنےعورت کی کمزوری اور حالت کی ستم ظریفی کو عورت کی نارسائی اورپسپائی کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تقریباً تمام تخلیقات میں جدید دور کی عورت کے مختلف کردار ہمارےسامنے ہیں۔ عورت کی محرومی ، کرب اور تقدیر پر شاید ہی کسی اور نےاتنی تفصیل، تواتر اور شدت سے لکھا ہوگا۔۔


قرہ العین حیدر کے افسانوں کے کردار اور واقعات صرف برصغیر کی حد تک محدود نہیں ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے کردار ساری دنیا کےمختلف ممالک اور خطوں سے بھی لیے ہیں بلکہ انھوں نے دنیا میں کیا ہورہاہے، ان باتوں اور خیالوں کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ اس   زمانے میں، چاہے ترقی پسند تحریک کے زیراثر ہو یا جدیدیت کے زیر اثرجو بھی افسانے لکھے جا رہے تھے ان میں یہ باتیں نہیں تھیں۔یہی وجہ ہے کہ قرہ العین حیدرکے افسانے اس زمانے کے افسانوں سے منفردتھے۔"کارمن، ہاؤسنگ سوسائٹی، یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندےمونالیزا" قرہ العین حیدر کے ایسے افسانے ہیں جو عالمی افسانے کےمعیار کے ہیں۔ انھوں نے مواد، پالٹ، اسلوب، لفظیات، کردار نگاری کا جومظاہرہ کیا ہے، وہ ان کے عمیق مطالعہ اور جہاں نوردی کا حاصل ہے۔ یہی    وجہ ہے کہ ان کے افسانے اردو کے عام افسانہ نگاروں کے افسانوں سےمعیار میں بہت بلند ہیآخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی انہوں نے شادی نہیں کی جو وہ اپنے پیچھے کسی وارث کو چھوڑ کر جاتیں اس لئے بس ان کا ادبی سرمایہ ہی ان کی وراثت ٹہرا -ہندوستان کی  حکومت کی جانب سے  ان کو کئ ادبی اعزازات سےنوازا گیا جبکہ  حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔  


  گیارہ سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں

پیر، 9 ستمبر، 2024

ٹنڈر: روایتی رشتہ کلچر میں تبدیلی! پارٹ -2

 


  پلوشہ کا کہنا ہے کہ ’اس عمر میں انسان کو اندازہ ہوتا ہے اور مجھے پتا تھا کہ وہ سیریس ہے، کیونکہ پہلے بھی بات چیت میں وہ کئی بار شادی کا اشارہ دے چکے تھے اور فوزان نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ ہم نے پہلے ڈیٹ کرنا ہے پھر دیکھیں گے کیا ہوتا ہے، بلکہ وہ ہمیشہ سے ہی ڈائریکٹ شادی کی بات کرتے تھے۔‘31 سالہ فوزان محمد خان بینک میں نوکری کرتے ہیں -گھر والوں کو کیسے بتایا کہ جس لڑکے سے شادی کرنی ہے اسے ڈیٹنگ ایپ پر ملی ہوں؟اس کے جواب میں پلوشہ ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میرے تو ممی پپا بھی رانگ نمبر پر ملے تھے‘۔ وہ کہانی پھر سہی مگر سب سے پہلے تو پلوشہ کو گھر والوں کو سمجھانا پڑا کہ ٹنڈر ہے کیا چیز۔وہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ کو معلوم تھا کہ وہ کوئی ڈیٹنگ ایپ استعمال کر رہی ہیں اور ان کی گھریلو ملازمہ اکثر پوچھتی تھی کہ ’باجی آپ ہر وقت لڑکوں کی پروفائل پر لیفٹ رائٹ کیا کرتی رہتی ہیں‘ اور وہ اکثر اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ بیٹھ کر ان سے پوچھتی تھیں کہ اس لڑکے پر سوائپ رائٹ کروں یا لیفٹ۔


پلوشہ کا کہنا ہے کہ خاندان کو ان پر بہت بھروسہ ہے اور وہ بہت سپورٹ کرنے والے ہیں۔ ’انھیں معلوم ہے کہ میں ایسے ہی کسی لڑکے کو پسند کر کے گھر تک نہیں لے آؤں گی، تاہم انھوں نے تھوڑے بہت سوال جواب ضرور کیے کہ کون ہے، کیا کرتا ہے، تمھاری اصل میں بھی ملاقات ہوئی ہے یا نہیں وغیرہ۔‘وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے اپنی بہن، بھائی اور بھابھی کو اعتماد میں لیا، فوزان کو ان سے ملوایا اور پھر انھیں آگے کر دیا کہ اب تم لوگ جانو اور تمھارا کام۔ اور اس طرح یہ سارا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔ٹنڈر-چونکہ ہمارے معاشرے میں ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں بہت غلط تاثر موجود ہے تو دوست، کولیگز، سوشل سرکل کے لوگ یا رشتہ داروں کا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟اس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ اکثر لوگ بہت پُرجوش ہو جاتے ہیں کہ ’اوہ واقعی ایسا ہوتا ہے؟ حقیقی اور اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں ڈیٹنگ ایپس پر؟ لوگ پوری کہانی جاننا چاہتے ہیں کہ کیسے ہوا، کیا ہوا، گھر والے کیا کہتے ہیں۔


‘ پلوشہ کے مطابق یہ خبر بیشتر لوگوں کے لیے حیران کن ضرور ہوتی ہے مگر مثبت انداز میں۔وہ کہتی ہیں ’پیٹھ پیچھے کوئی باتیں کرتا ہو تو اور بات ہے مگر میرے منھ پر تو بہت اچھا ردِعمل ملتا ہے۔‘ان کے شوہر فوزان بتاتے ہیں کہ وہ جب اپنے کولیگز یا دوستوں کو بتاتے ہیں کہ میں اپنی بیگم سے ٹنڈر پر ملا تو اکثر لوگ بے یقینی سے پوچھتے ہیں ’کیا پاکستان میں بھی لوگ ٹنڈر استعمال کرتے ہیں؟‘ کچھ لوگ شاباشی بھی دیتے ہیں کہ پتا نہیں کیا تیر مار لیا ہے جبکہ کئی یہ بھی کہتے ہیں کہ ’ہمارا تو آج تک میچ بھی نہیں ہوا اور تم  نے ٹنڈر پر جا کر شادی کر لی۔‘ فوزان کے مطابق اگر کوئی judgemental ہوتا ہے تو وہ ان لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے۔پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس پر کیٹ فشنگ بہت عام ہے‘اگر آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا ٹاکسک (زہریلے مواد سے بھرپور) ہے، تو یقین مانیے آپ کو اندازہ نہیں کہ ڈیٹنگ ایپس پر کیا ہو رہا ہے۔اگرچہ ڈیٹنگ ایپس کی پالیسی کے مطابق میچز کے لیے امپرسنیشن (کسی اور کا روپ دھارنا)، کیٹ فشنگ (سوشل میڈیا پر جعلی پروفائلز بنا کر لوگوں کو بیوقوف بنانا ممنوع ہے۔

کیٹ فشنگ ٹنڈر جیسی ڈیٹنگ ایپس پر سب سے زیادہ عام ہے جہاں لوگ کسی اور کی تصاویر کا استعمال کر کے جعلی شناخت سے لے کر افسانوی زندگی کی کہانیاں گھڑتے ہیں) اور ہراسانی سخت ممنوع ہے۔لیکن پاکستان کی بات کی جائے تو کم از کم میں نے تو اب تک یہی دیکھا ہے کہ بمبل اور ٹنڈر جیسی ڈیٹنگ ایپس پر اکثر لوگوں نے غلط بائیو، کسی اور کی تصویر اور اِدھر اُدھر سے کافی کچھ کاپی پیسٹ کیا ہوتا ہے جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور ایسے لوگوں کے ساتھ بات چیت اور ملنے کے دوران اکثر خواتین کو بدتمیزی سے لے کر ہراسانی جیسے واقعات کا سامنا بھی رہا ہے۔ایسے ناخوشگوار واقعات منظرِعام پر آنے کے بعد اگرچہ بیشتر ڈیٹنگ ایپس نے صارفین کی حفاظت کے لیے کئی نئے ٹولز متعارف کروائے ہیں مگر اس کے باوجود نوڈ کونٹیٹ (برہنہ تصاویر بھیجنا) اور ہراسانی کے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔


تو کیا پلوشہ کا ایسے کسی فیک شخص سے میچ ہوا یا انھیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا-پلوشہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس پر کیٹ فشنگ بہت عام ہے۔ انھوں نے کئی لوگوں سے ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں ملے جلے تبصرے سنے ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ باہر کے ممالک میں خواتین کو ہراسانی کا سامنا بھی رہا ہے، انھیں بھی کئی فیک پروفائلز بہت ملیں، کیٹ فشنگ کے کئی چھوٹے موٹے واقعات بھی پیش آئے مگر ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔تاہم انھوں نے خود کے ساتھ پیش آنے والا کیٹ فشنگ کا ایک واقعہ ضرور شیئر کیا۔تو ہوا کچھ یوں کہ ایک مرتبہ پلوشہ نے کسی کی پروفائل پر سوائپ رائٹ کیا اور ٹنڈر تک ان کی بات چیت ٹھیک چل رہی تھی، مگر جب واٹس ایپ کا تبادلہ ہوا تو کسی اور شخص کی تصویر لگی ہوئی تھی اور وہ شخص انھیں جو تصاویر بھیج رہا تھا وہ کسی اور شخص کی تھیں۔۔ وہ آدمی کوئی نوجوان لڑکا نہیں بلکہ دبئی میں رہائش پذیر 60-65 سالہ شخص تھا۔  

اتوار، 8 ستمبر، 2024

ٹنڈر: روایتی رشتہ کلچر میں تبدیلی!پارٹ -1


 

’   یہ اب سے بہت دور نہیں چالیس پچاس برس پہلے  کا زمانہ تھا جب گھروں میں لڑکے 'لڑکیاں جوان ہو تے تو ان کی شادیاں ان کے بڑے گھر میں ہی طے کر دیتے تھے - نا تعلیم کی پر سش نا اور کو ئ سوال جواب بس بڑوں نے جو کہ دیا وہ پتھر کی لکیر ہوتا تھا -پھر آہستہ 'آہستہ زمانہ بدلا اور لڑکیوں میں تعلیم عام ہونی شروع ہوئ اور یہیں سے گھروں کے اندر کا تمدن بدلنے لگا 'اور سرگوشی سنائ دی ہمیں کزن میرج نامنظور ہے -پھر یہ آواز گونج بن گئ اور اب یہ حال ہے کہ لڑکیاں اور لڑکے شادی ایپس پر اپنے لئے شریک زندگی تلاش کر رہے ہیں -ٹنڈر ایک شادی ایپ ہے جس کی تفصیل  بی بی سی اردو نے دی  ہےمیں آ پ سے شئر کرتی ہوں کیا پاکستان میں بھی ٹنڈر پر رشتے ہوتے ہیں؟تجزیہ نگار کہتی ہیں ‘ گذشتہ مہینے جب میری نظر زرق برق لباس میں ملبوس ایک نوجوان جوڑے کی تصویر پر پڑی تو میرے منھ سے بے اختیار یہی نکلایہ جان کر مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی تھی کہ ’ہم نے ٹنڈر پر سوائپ رائٹ کیا اور کہا قبول ہے‘ کے عنوان اور ’وی میٹ آن ٹنڈر‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ تصویر پوسٹ کرنے والی لڑکی کوئی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی نہیں بلکہ کراچی میں ہی رہنے والی تھی۔پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں زیادہ تر رشتے ہمیشہ ماں، خالہ، پھوپیوں اور رشتہ آنٹیوں کے ذریعے ہی طے پاتے تھے، حالیہ چند برسوں میں اس حوالے سے کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے اور اب اکثر یہ سُننے کو ملتا ہے کہ کسی کا رشتہ فیس بک گروپ کے ذریعے ہو گیا یا کسی نے خود اپنے پارٹنر کو کسی آن لائن فورم پر پسند کیا۔


مگر آج بھی ڈیٹنگ ایپ کا نام سنتے ہی لوگ آپ کو ایسی نظروں سے گھورنے لگتے ہیں جیسے خدانخواستہ آپ نے پتا نہیں کون سا گناہ کر لیا ہو۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ اس خبر کی اشاعت تک پاکستان میں ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر پابندی ہے لیکن تجسس کے مارے میں نے بھی ایک دو ایپس ڈاؤن لوڈ کیں مگر استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ یہی ڈر رہتا تھا کہ کہیں آس پاس کوئی دیکھ نہ رہا ہو کہ میں لڑکوں کی پروفائلز پر لیفٹ رائٹ کر رہی ہوں۔پاکستان میں ٹنڈر اور اس جیسی دوسری ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور اکثر یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ یہ ہک اپ ایپس (جنسی تعلقات کے لیے ساتھی تلاش کرنے والی ایپس) ہیں، شاید اسی لیے جب اس رپورٹ کے لیے ہم نے بمبل، ٹنڈر، مز میچ وغیرہ پر ملنے والے کئی جوڑوں سے رابطہ کیا تو وہ آف کیمرہ اپنی کہانی شئیر کرنے کو تو تیار تھے مگر اپنے اردگرد کے لوگوں کے ردِعمل کے ڈر سے باعث بیشتر جوڑوں نے آن کیمرہ بات کرنے سے معذرت کر لی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے کئی آن لائن پلیٹ فارمز کی طرح ان ڈیٹنگ ایپس پر پاکستانی لڑکے لڑکیاں اپنے لیے پارٹنر خود چُن رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال کراچی کے رہائشی پلوشہ سکندر اور فوزان محمد خان کی ہے جو ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر ایک سوائپ رائٹ سے ملے اور گذشتہ ہفتے یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے (ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر سوائپ رائٹ کا مطلب ہے کہ آپ اس شخص یا خاتون کو پسند کرتے ہیں جبکہ لیفٹ کا مطلب ہے آپ کو ان کی پروفائل پسند نہیں آئی)۔ٹنڈر،تصویر کا ذریعہCourtesy Palwasha/Fozan


’ڈیٹنگ ایپس پر ایسا کچھ نہیں ہے جیسی لوگوں نے باتیں بنائی ہوئی ہیں‘پاکستانی معاشرے میں ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کے باوجود پلوشہ نے کیا سوچ کر ٹنڈر استعمال کرنا شروع کیا؟ پلوشہ بتاتی ہیں کہ یہ سنہ 2019 کی بات ہے۔ ان کے دو چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی ہو چکی تھی اور خود ان کا شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا، مگر کزنز اور دوست ان کے پیچھے لگے رہتے تھے کہ ’تم شادی نہیں کرنا چاہتی تو ٹنڈر ڈاؤن کرو، لوگوں سے ملو،ان سے بات کرو، نہیں سمجھ آیا تو وہ الگ بات ہے لیکن ایک بار کوشش تو کرو۔‘کزنز اور دوستوں نے یہ بھی سمجھایا کہ ’ڈیٹنگ ایپس پر ایسا کچھ نہیں ہے جیسی لوگوں نے باتیں بنائی ہوئی ہیں۔‘ ہر جگہ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور اچھے بُرے لوگ تو آپ کو ہر جگہ ہی ملتے ہیں۔لہذا پلوشہ نے کزنز کی باتوں میں آ کر جون 2019 میں ڈیٹنگ ایپ انسٹال کی۔جبکہ ان کے شوہر فوزان بتاتے ہیں کہ وہ بس دیکھنا چاہتے تھے کہ یہ ایپ ہے کیا اور انھوں نے نیٹ ورکنگ کے لیے ٹنڈر انسٹال کیا تھا۔پلوشہ


،31 سالہ پلوشہ کراچی کی ایک نجی کمپنی میں پی آر مینیجر ہیںتو دونوں میں سے سوائپ رائٹ کس نے کیا؟پلوشہ کے مطابق فوزان آج تک یہ نہیں مانتے کہ پہل انھوں نے کی تھی۔ ’وہ کہتا ہے تم نے پہلے سوائپ رائٹ کیا تھا، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ایک رات بوریت کا شکار سوائپ لیفٹ کر رہی تھیں کیونکہ عجیب و غریب پروفائلز سامنے آ رہی تھیں پھر اچانک فوزان کی پروفائل سامنے آئی جس پر انھوں نے سوائپ رائٹ کیا تو لکھا آیا کہ ’فوزان آل ریڈی لائکس یو‘ یعنی فوزان پہلے ہی آپ کو پسند کرتے ہیں اور آپ دونوں ایک دوسرے کا میچ ہیں‘۔ اور اس طرح اُن کی بات چیت شروع ہوئی۔فوزان کی پروفائل میں کیا چیز پلوشہ کو پسند آئی تھی؟پلوشہ کے مطابق ’فوزان نے بائیو (اپنے تعارف) میں صرف ایک لائن لکھی ہوئی تھی، ایک تصویر تھی اور بس نام لکھا تھا۔۔۔ کچھ لوگوں نے لمبے لمبے پیراگراف لکھے ہوتے ہیں اور اتنے لمبے مضمون مجھ سے نہیں پڑھے جاتے۔‘ اور بس یہی بات انھیں بھا گئی۔دوسری جانب فوزان کو پلوشہ کی پروفائل خاصی پُراسرار لگی جس پر کچھ بھی نہیں لکھا تھا اور ساتھ ساتھ تصویر بھی پسند آئی، اسی لیے انھوں نے اس پر سوائپ رائٹ کیا تاکہ انھیں جان سکیں۔


کیا ایک دوسرے سے ملنے سے پہلے وہ ٹنڈر پر اور لڑکے لڑکیوں سے بھی ملے؟پلوشہ کے مطابق کہ اپنے شوہر فوزان سے ملنے سے پہلے ان کا کافی لوگوں سے میچ ہوا، اچھی بات چیت رہی، موبائل نمبرز کا تبادلہ ہوا، ملاقاتیں بھی ہوئیں اور اچھا تعلق بنا مگر بات آگے نہیں بڑھی۔‘فوزان کہتے ہیں کہ وہ کسی سے ملے تو نہیں البتہ ان کی کئی اور لڑکیوں سے بات چیت رہی، مگر بقول ان کے زیادہ تر وہ بور ہی ہوئے اور کسی سے ’کلک نہیں کر پائے۔‘تو پلوشہ کو کب لگا کہ لڑکا سیریس ہے؟لوشہ بتاتی ہیں کہ بات چیت کا آغاز ہونے کے ایک دو دن بعد انھوں نے موبائل نمبروں اور سوشل میڈیا کا تبادلہ کیا اور ان میں بہت اچھی دوستی ہو گئی جو چھ سے سات ماہ تک چلی اور وہ ہر روز گھنٹوں بات کرتے، ہر بات، ہر مسئلہ ایک دوسرے سے شئیر کرنے لگے اور رومانوی رشتہ شروع ہونے سے پہلے ہی ان کا مضبوط تعلق بن چکا تھا۔پھر ایک دن فوزان نے انھیں کہا کہ ’میں تمھیں پسند کرتا ہوں۔۔۔ تم سے محبت کرتا ہوں۔‘  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر