تما م دنیا کی مہذب اقوام اپنے عوام کے لئے بہترین اور سستی تفریح گاہیں مہیا کرتی ہیں لیکن شومئ قسمت کہ ہمارے ملک کے وسائل صرف چند ہاتھوں میں ہونے کے سبب پاکستان کے عوام ہر سہولت سے محروم ہیں خاص کر تفریح گاہیں - جبکہ ا للہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے، جن میں سمندر، دریا، پہاڑ، ریگستان، نخلستان،زرخیز زمین، انواع و اقسام کے مزے دار پھل، اناج، سبزیاں، گیس اور معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک نے قدرت کی عطا کردہ ان نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دُنیا میں عروج حاصل کیا،کسی بھی مُلک کے معاشی حالات کی بہتری میں سیّاحت کا شعبہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نیز، سیّاحتی مقامات کی تعمیر و ترقّی کے نتیجے میں شہریوں کو سیر و تفریح کے بہتر مواقع بھی میسّر آتے ہیں۔ پاکستان میں عام طور پر موسمِ گرما میں سندھ اور پنجاب کے شہری اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مَری، سوات، کاغان سمیت دیگر شمالی علاقہ جات کا رُخ کرتے ہیں اوروہاں کےٹھنڈے موسم سےلطف اندوز ہوتے ہیں۔ سندھ کی نسبت فاصلہ کم ہونے کے سبب پنجاب کے شہری پبلک ٹرانسپورٹ یا نجی گاڑیوں کےذریعے ان علاقوں کی سیر کے لیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف سفر پر آنے والے اخراجات کم ہو جاتے ہیں بلکہ سفر کا دورانیہ بھی گھٹ جاتا ہے، جب کہ سندھ کے شہریوں کو ان پُر فضا مقامات تک رسائی کے لیے انٹرسٹی بسز یا ہوائی جہازکا سفر کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، سفر کی مد میں اچّھی خاصی رقم خرچ ہو جاتی ہے اور وقت بھی بہت زیادہ صَرف ہوتا ہے، بالخصوص بذریعہ سڑک آنے جانے میں 5 سے 6 دن لگ جاتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں گرمی سے بچاؤ کے لیے سندھ کے شہریوں نےشمالی علاقہ جات ہی کا رُخ کیا اور اِس ضمن میں انہیں اچّھا خاصا مالی بوجھ بھی برداشت کرناپڑا۔ حالاں کہ اگرگورکھ ہِل اسٹیشن کو ایک معیاری تفریح گاہ میں بدلتے ہوئے یہاں آنے والے سیّاحوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کر دی جائیں، تو سندھ کے باشندے مَری اور سوات سمیت دیگر شمالی علاقہ جات کا رُخ کرنے کی بجائے گورکھ ہل ہی پر سیرو تفریح کو ترجیح دیں ایک خاصی سَستی سیرگاہ ثابت ہوگی بلکہ وہ طویل سفر کی تکلیف سے بھی بچ جائیں گے۔واضح رہے کہ سندھ حکومت نے گورکھ ہِل اسٹیشن کو ترقّی دینے کے لیے 1995ء میں ’’گورکھ ہِلز ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘‘ (جی ایچ ڈی اے) قائم کی تھی اور اس ضمن میں نجی ماہرین کی مدد سے ایک ماسٹر پلان بھی تشکیل دیا گیا تھا، مگر افسوس کہ 29برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ ترقیاتی کام مکمل نہیں ہوسکا۔
اللہ تعالیٰ نے صوبۂ سندھ کے ضلع، دادو میں ’’گورکھ ہِل اسٹیشن‘‘ کی شکل میں موسمِ گرما میں سیر و تفریح کے لیے ایک بہترین مقام عطا کیا ہے۔ مذکورہ مقام کو اس کے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے ’’سندھ کا مَری‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گورکھ ہِل اسٹیشن کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں صوبۂ سندھ اور صوبۂ بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ مقام سطحِ سمندر سے 5689 فٹ بلند ہے، جہاں موسمِ گرما میں درجۂ حرارت 20ڈگری سینٹی گریڈ اور موسمِ سرما میں نقطۂ انجماد سے بھی کم ہو جاتا ہے۔نیز، یہاں ہرسال دو سال بعد برف باری بھی ہوتی ہے۔ جنوری 2023ء میں برف باری کے نتیجے میں یہاں درجۂ حرارت منفی 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ ایسے میں اگر گورکھ ہِل اسٹیشن کوایک سیّاحتی مقام کے طور پرترقّی دی جائے، تو نہ صرف صوبۂ سندھ کے عوام بلکہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے شہریوں کو بھی ایک بہترین اورسَستی تفریح گاہ میسّر آسکتی ہے، گورکھ ہِل اسٹیشن کراچی سے تقریباً 405 کلو میٹر، حیدر آباد سے 265 کلومیٹر، سکھر سے 30اور لاڑکانہ سےکم و 218 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔ ۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرمیوں میں شمالی سندھ کےشہروں کا درجۂ حرارت50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرگیا، جب کہ حالیہ موسمِ گرما میں کراچی کے بعض علاقوں میں درجۂ حرارت56 ڈگری سینٹی گریڈ تک محسوس کیا گیا۔
یاد رہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے سب سے اہم کام ایک معیاری سڑک کی تعمیر ہے، کیوں کہ آج بھی راستے خراب ہونے کے باعث لوگوں کو وہاں تک پہنچنے کے لیے کرائے پر جیپ لے کر ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں، سکیوریٹی کی ناقص صورتِ حال بھی ایک اہم مسئلہ ہے اور لُوٹ مار کی وارداتوں کی وجہ سے بھی بالخصوص فیملیز وہاں جانے سے گھبراتی ہیں۔سندھ کے شہریوں کی سہولت کے پیشِ نظر صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد گورکھ ہِل اسٹیشن کو ایک معیاری تفریح گاہ میں تبدیل کرے۔ نیز، وفاقی حکومت بھی اِس ضمن میں سندھ حکومت کو مالی اور تیکنیکی معاونت فراہم کرے۔ ہماری رائے میں پبلک / پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اس پراجیکٹ کو جلد از جلد اور اعلیٰ معیار کے مطابق تعمیر کیا جاسکتا ہے پھرحکومت اس ضمن میں کسی بین الاقوامی تعمیراتی کمپنی سے بھی معاہدہ کرسکتی ہے۔ یاد رہے کہ صوبۂ خیبرپختون خوا کے مشہور تفریحی مقام، مالم جبّا کی تعمیر وترقّی کے لیے آسٹریلوی حکومت نے مدد فراہم کی تھی اور آج یہ پاکستان کی ایک بہترین تفریح گاہ ہے۔
سیّاحوں کی تفریحِ طبع کے لیے حکومت یہاں کیا بنا سکتی ہے ، چڑیا گھر، سوئمنگ پول، کشتیاں، الیکٹرک جھولے -ہارس رائڈنگ کا میدان -سندھ کی پہچان اونٹوں پر سواری -جھولا پل، ، مینارِ پاکستان کا ماڈل، گراسی پلاٹ، کرکٹ لان، بچّوں کا پارک، اوپن شیڈز اور بینچز وغیرہ ۔ بڑی تعداد میں فوڈ پوائینٹس -اس کے علاوہ رہایش کے لیے ریسٹ ہائوسز کا بھی مناسب انتظام کیا جانا چاہیے۔کیونکہ مناسب تعداد میں ریسٹ ہاوسز نا ہونے کی بنا پر اکثر لوگ کیمپنگ کرتے ہیں لہٰذا، حکومتِ سندھ کو چاہیےکہ وہ مذکورہ ہِل اسٹیشن کو جلدازجلد ایک محفوظ اورمعیاری تفریح گاہ میں تبدیل کرکے گرمی کے ستائے صوبے کے شہریوں کو راحت کا موقع فراہم کرے۔ میری حکوت سندھ سے مودبانہ گزارش ہے کہ گورکھ ہل اس ٹیشن کے منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کر کے مقامی افراد کے روزگار کا بندوبست کیا جائے
انسان کی تخلیق ہی کچھ اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ انسان مسلسل کام اور لگاتار ایک ہی عمل سے ناصرف تھک جاتا ہے بل کہ اکتا بھی جاتا ہے۔ چناں چہ راحت کے اوقات کی تلاش اور روزہ مرہ کے معمولات میں تبدیلی کی خواہش انسانی فطرت میں شامل ہے۔
جواب دیںحذف کریں