پاکستان اللہ کی ان نعمتوں میں سے ہے جسے اللہ نے دنیا کی ہر نایاب نعمت سے مالا کر رکھا ہے۔کیا خوبصورت موسم ، ندی نالے، ساحل، آبشاریں، انواع واقسام کی نباتات، نایاب چرند ،پرند اورحشرات الارض۔غرضیکہ ہر وہ نعمت جس کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک ترستے ہیں ۔ ایسی ہی کچھ صورت حال یہاں کی پرشکوہ اور سحر انگیز وادیوں کی ہے جہاں کے قدرتی خزانے تو ایک طرف ہم نے تو ان نایاب چرند پرند کو بھی نہیں بخشا جنکی نسل اب تیزی سے معدومیت کا شکار ہے۔ اور دنیا بھر کی تنظیمیں ہمیں چیخ چیخ کر ان کی بقاء کے خطرات سے متنبہ کرتی آرہی ہیں۔ایسے میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پایا جانے والا ایک نایاب اور قیمتی جانور کستوری ہرن بھی ہے۔جس کے نافہ سے نکلنے والی کستوری سونے سے بھی زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ غیر قانونی شکار سے حاصل کی جانے والی یہ کستوری دنیا کی مہنگی ترین خوشبوؤں میں استعمال ہوتی ہے۔ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں شاید سب سے زیادہ غیر قانونی شکارکستوری ہرن کا ہی ہوتا ہے۔
لیکن یہاں اصل المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں اس معصوم جانور کی بقا کو شکاریوں سے خطرہ ہے دوسری طرف اس جانور کو تیزی سے بدلتی موسمی تبدیلیوں کے چیلنجز کاسامنا بھی ہے۔ حیوانیات اور ماحولیات کے ماہرین اکثر و بیشتر اس خدشے کا اظہار کرتے آتے ہیں کہ کستوری ہرن کی بقا ء کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اس سلسلے میں حال ہی میں وادیء نیلم میں کنٹرول لائن کے قریب ایک رہائشی قمر الزمان جنہوں نے یوں تو حیوانیات میں ماسٹرز کر رکھا ہے لیکن ان کاقابل ذکر کارنامہ کستوری ہرن بارے وہ مقالہ ہے جس پر انہوں نے وسیع تحقیق کر رکھی ہے۔قمر الزمان کہتے ہیں '' پاکستان میں سب سے زیادہ غیر قانونی شکار اور خرید وفروخت پینگوئن کے بعد کستوری ہرن کا ہی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے پاکستان میں اس کی تعداد اس قدر کم ہو چکی ہے کہ اب یہ معدومیت کا شکار ہوتا جارہا ہے‘‘۔بنیادی طور پر کستوری ہرن جو بلند و بالا پہاڑوں کی بلندیوں اور ٹھنڈی جگہ پر رہنے کاعادی ہے۔
ہمالیہ ممالک جن میں پاکستان ، بھوٹان ،انڈیا، چین اور نیپال وغیرہ شامل ہیں۔اب حال ہی میں ہمالیہ ممالک نے ایک مشترکہ بین الاقوامی رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق اس جانور کی بقا ء کو جہاں غیر قانونی شکار کی فراوانی سے خطرہ ہے وہیں اسے تیزی سے بدلتے موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا بھی ہے جس کے پیش نظر ماہرین نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ 2050ء تک جب ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں اپنے عروج پرہونگی ،کستوری ہرن اپنی آماجگاہیں تبدیل کرنے پر مجبور ہونگے جس کے سبب ہمالیہ میں شاید یہ جانور ناپید ہو جائیں۔ایک اور ماہر ماحولیات ہمالیہ میں کستوری ہرن کی تیزی سے کم ہوتی نسل بارے کہتے ہیں اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہمالیہ اور کستوری ہرن کا چولی دامن کاساتھ ہے اور اگر کستوری ہرن کم یا ناپید ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمالیہ کا خصوصی ماحول جو کہ ہمالیہ والے ممالک کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ماہرین ماحولیات اور حیوانیات پچھلے کچھ عرصہ سے ایک اور خدشہ کااظہار کرتے آرہے ہیں۔ ان کے مطابق ہمالیہ کے دامن میں جس میں پاکستان ، افغانستان، انڈیااور نیپال شامل ہیں ،
ماہرین اس کو کستوری ہرن جیسے قیمتی جانور کی زندگی میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہیں جو اس قیمتی جانور کی نسل کشی کے برابر ہے۔ماہرین اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمالیہ میں اسی رفتار سے انسانی مداخلت ہمالیہ کے قدرتی ماحول کو متاثر کرتی رہی تو کستوری ہرن کی نسل کو تو ناقابل تلافی نقصان تو ہوگا ہی انسانوں کو بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے دورس نتائج برداشت کرنا پڑیں گے۔کستوری ہرن اتنا بیش قیمت کیوں ؟کستوری ہرن دنیا کا وہ واحد جانور ہے جب اس کی ناف کستوری سے بھری ہو اگر قریب سے گزر جائے تو ایک لمبے فاصلے تک فضا ایک معطر خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہ ہو کہ ایک ہرن میں اوسطاً ایک سے چار تولہ اور بسااوقات اس سے بھی زیادہ کستوری اس کے نافہ میں جمع ہو چکی ہوتی ہے۔اگر اس کی قیمت کا اندازہ کرنا ہو تو اوسطاًچار تولہ کستوری والے ہرن کی کستوری کی مالیت آٹھ سے دس تولے سونے کی قیمت کے برابر ہوگی۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جو شکاری ایک بالغ اور تنومند کستوری ہرن کا شکار کر لے تو سارا سال گھر بیٹھ کر کھاسکتا ہے۔کستوری صرف جوان ہرن میں پائی جاتی ہے۔
کستوری کی خوشبو کستوری ہرن کی ناف کے ساتھ لگی جھلی نما تھیلی میں ہوتی ہے۔چنانچہ کستوری حاصل کرنے کے لئے جب اس کا شکار کیا جاتا ہے تو ماہر شکاری بڑی تیزی سے اس تھیلی کو پکڑ کر باہر نکالتا ہے اور چاقو سے اس کو جلد سے الگ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد اس تھیلی کو چیر کر اس میں سے نیم خشک دانے دار سفوف کو نکال کر الگ کر دیتا ہے اور اسے مکمل خشک کرنے کے لئے رکھ چھوڑتا ہے۔کستوری سے تیار کردہ خوشبو یورپ اور عرب ممالک میں بہت مقبول ہے۔-کستوری ہرن کا شکار- کستوری ہرن کے شکار کے آثار آج سے چھ ہزار سال قبل میں بھی ملتے ہیں۔ کیونکہ اس معصوم جانور کو صدیوں سے نہ صرف خوشبو بلکہ مذہبی رسومات اور علاج معالجے کی غرض سے بھی شکار کیا جاتا رہا ہے۔ قدرت نے اس جانور کو کستوری جیسے قیمتی خزانے سے تو مالامال کیا ہے لیکن اس کو اپنے دفاع کی طاقت سے محروم رکھا ہے کیونکہ اس کے سینگ نہیں ہوتے اسلئے یہ غیر محفوظ ہوتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماہر اور پیشہ ور شکاریوں نے اس ہرن کی عادات اور معمولات سے پوری پوری آگاہی حاصل کر رکھی ہوتی ہے جس کے سبب انہیں اس کا شکار کرنے میں آسانی رہتی ہے۔مثال کے طور پر کستوری ہرن عام طور پر رفع حاجت کے لئے ایک ہی مقام استعمال کرتے ہیں ،اس دوران وہ اپنے ساتھیوں کو پیغام رسانی بھی کرتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان ہو یا انڈیا، نیپال یا افغانستان ہمالیہ کے دامن سے اب پہاڑوں تک کھیتی باڑی شروع ہو چکی ہے۔ یہ ہمالیہ میں مداخلت ہو رہی ہے۔ یہ مداخلت کستوری ہرن جیسے قیمتی جانوروں اور ہمالیہ کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ ہمالیہ والے ممالک کی پانی کی ضرورتیں زیادہ تر ہمالیہ سے پوری ہوتی ہیں
جواب دیںحذف کریں