جمعرات، 12 ستمبر، 2024

چھانگا مانگا جنگل' میڈ ان پاکستان


 

 جی جناب عالی 'یہ جنگل بے شک پاکستان میں ہے لیکن اس جنگل کو پروان چڑھایا ہے انگریز بہادر نے-کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کو لکڑی کی بطور ایندھن ضرورت تھی کیونکہ ریل کے انجن بھاپ سے چلتے تھے اس لئے انہوں نے اس وسیع عریض رقبے کا انتخاب کر کے اس کو لہلہاتے ہوئے جنگل میں تبدیل کر دیا اور آج بھی یہ جنگل پنجاب کی شان بڑھانے کے علاوہ قومی آمدنی بھی بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا انسانی ہاتھوں سے لگایا جانے والا مصنوعی جنگل قرار دیا جاتا ہے۔ ۔ چھانگا مانگا کے جنگلات صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے 70 کلومیٹر اور پتوکی سے 7 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اور بارہ ہزارایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ چھانگا مانگا نام لوک کہانی پر مشتمل ہے۔ یہ دو بھائیوں کی کہانی ہے جن میں ایک بھائی کا نام چھانگا اور دوسرے کا نام مانگا تھا۔ یہ دونوں بھائی چوراور ڈاکو تھے اور انگریز حکام سے بچنے کے لیے ان جنگلات میں چھپ جایا کرتے تھے۔ ان بھائیوں کے قصے اس علاقے کے بارے میں جاننے والے ہر بچے کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔پاکستان میں چھانگا مانگا جنگل انسانی کاوش کی عمدہ مثال ہے۔ پاکستان کے ساحلی جنگلات کو بھی بچانے کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں 


محل وقوع-چھانگا مانگا کے جنگلات لاہور اور ساہیوال کے درمیان میں چونیاں کے مقام پر قومی شاہراہ کے مشرقی حصے میں تقریباً 10 کلومیٹر پر واقع ہیں۔ ایک بہت بڑا علاقہ ہونے کیوجہ سے اس کا کچھ حصہ ضلع قصور اور کچھ ضلع لاہور میں آتا ہے۔شجرکاری کی تاریخ-اس کا منصوبہ 1865 میں لاہور، امرتسر اور کراچی کے درمیان میں چلنے والے سٹیم انجنوں کے لیے سستی لکڑی کی فراہمی کے لیے عمل میں آیا تھا،چھانگا مانگا کے جنگلات میں شجر کاری کا آغاز 1866میں کیا گیا۔ اس جنگل کا ابتدائی ورکنگ پلان 1871 میںMr.B.Ribbentro نے تیار کیا۔ اور یہاں سب سے پہلے درختوں کی کٹائی 1881 میں شروع ہوئی۔1888میں برطانوی حکام نے فیصلہ کیاکہ وہ اس جنگل کے ایک وسیع رقبے پرشیشم کی لکڑی اگائیں گے۔


سیاحتی مقام-اس جنگل میں جنگلی حیات پر مشتمل ایک پارک بھی موجود ہے۔ جبکہ ایک واٹر ٹربائن اور بچوں کے کھیلنے کے لیے ایک وسیع ایریا بھی موجود ہے۔ یہاں آنے والے سیاحت کے شوقین لوگوں کے لیے ایک خصوصی ٹرین بھی موجود ہے۔ جس میں سوار ہوکر جنگل کی سیر کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک جھیل بھی بنائی ہے جس میں کشتی کی سواری کی جا سکتی ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے ایک ریزورٹ بھی ہے جو لاہور سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میدانی علاقوں میں شجرکاری کیلئے نیم ، پیپل ، لیگنم اورگل مہر بہترین درخت ہیں۔جبکہ آم ، امرود ،چیکو ،بیر، کھجور ، شریفے اور جنگل جلیبی وہ پھل دار درخت ہیں، جو نہایت آسانی سے اگائے جاسکتے ہیں۔یہ پھل دار درخت پرندوں کی خوراک اور افزائش کا سبب بھی بنتے ہیں۔جبکہ پہاڑی علاقوں میں چیڑھ ، اخروٹ ، سیب اور خوبانی کے درخت موزوں ترین خیال کئے جاتے ہیں۔جنگلی حیات کی افزائش:2008ء سے اس جنگل کو جنگلی جانوروں اور پرندوں کی تعداد میں اضافہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی وہ نسلیں جو ناپید ہو رہی ہیں ان کے لیے یہاں ماہرین کام کر رہے ہیں۔ یہاں نیل گائے، ہرن، گیدڑ، سؤر ،بارہ سنگھا،موراور اڑیال جیسے جنگلی جانوروں کو قدرتی ماحول دیا جاتا ہے اس کے علاوہ گدھ کی افزائش نسل کا مرکز ہے۔  چھانگامانگا جنگل میں جھیل بھی بنائی گئی ہے جہاں سیر تفریخ کرنے والوں کے لیے بے شمار حسین مقامات بنائے گئے ہیں    

چھانگا مانگا کا جنگل نہ صرف لکڑی کی فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے، بلکہ یہ ایک بہترین سیرگاہ کی حیثیت سے بھی پورے ملک میں شہرت کا حامل ہے۔ 1960ء میں یہاں قومی پارک بنایا گیا، جس کے بعدہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیّاح، یہاںسیّاحت کی غرض سے آنے لگے۔ سیّاحوں کی تفریحِ طبع کے لیے مہتابی جھیل، چڑیا گھر، سوئمنگ پول، کشتیاں، جھولا پل، مہتاب محل، مینارِ پاکستان کا ماڈل، گراسی پلاٹ، کرکٹ لان، بچّوں کا پارک، اوپن شیڈز اور بینچز وغیرہ کی سہولت مہیّا کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ رہایش کے لیے ریسٹ ہائوسز کا بھی مناسب انتظام ہے۔ علاوہ ازیں، سیّاحوں کی دل چسپی کے لیے بھاپ سے چلنے والی ٹرین بھی چلائی جاتی ہے۔ چھانگا مانگاجنگل کے درمیان سے ایک نہر برانچ لوئر گزرتی ہے،جو پورے جنگل کو سیراب کرتی ہے۔ ساتھ ہی ایک خوب صورت جھیل بھی ہے، جو جنگل کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔ جھیل کی خوب صورتی کے پیشِ نظر اس کا نام’’ مہتابی جھیل‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہاں چلنے والی کشتیاں سیّاحوں کے لیے خاص کشش رکھتی ہیں۔ جھیل کے دوسری جانب جانے کے لیے ایک’’ جھولا پل‘‘ بنایا گیا ہے۔ اس پر ایک وقت میں آٹھ سے زیادہ افرادکو گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر جھیل کے بیچوں بیچ، پانی میں کھڑے دو منزلہ’’ مہتاب محل‘‘ کے کناروں پر سدا بہار درختوں کی شاخوں کاجھک کر جھیل کے پانی کو چھونے کا حسین منظر تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔


چھانگا مانگا  جنگل! جہاں ریشم کے کیڑے پال کر دھاگہ بنایا جاتا ہے جس سے ورلڈ کلاس ریشم کا کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار سے اوسطاََ ایک خاندان تقریباََ ایک لاکھ روپے تک ماہانہ کما رہا ہےجنگل کے تحفّظ اور اسے خوب صورت بنانے میں ’’محکمۂ تحفّظِ جنگلی حیات‘‘ کابھر پور حصّہ ہے۔اس جنگل میں درختوں کی آب یاری، کاٹ چھانٹ اور پانی دینے کے لیے بیلداروں کی رہائشی کالونیاں بھی جنگل کے احاطے  کے اندر  بنائی گئی ہیں۔ ملازمین کے لیے جنگل کے احاطے ہی میں ایک ڈسپینسری اور بچّوں کے لیے پرائمری اسکول بھی موجودہے۔جنگلی حیات کی افزائش کے لیے جھیل سے متصل، ایک بریڈنگ سینٹر بنایا گیا ہے، جس میں نیل گائے، ہرن، اڑیال اور گدھ سمیت دیگر جانور رکھے گئے ہیں، جانوروں کو حتی الامکان جنگلی ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ محکمۂ تحفظِ جنگلی حیات نے فیزنٹ (جنگلی مرغے) کی نسل کو بڑھانے کے لیے دو سو کے قریب جنگلی مرغے پال کر جنگل میں آزاد چھوڑے ہیں۔ علاوہ ازیں، کافی تعداد میں خرگوش تیتر، تلور، بٹیر اور مور بھی پائے جاتے ہیں۔ مہمان پرندے تلور، مارچ اور اپریل میں ایشیائے کوچک سے یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ جب کہ قیمتی اقسام کے باز کے علاوہ بڑے سائز کے بلّے بھی اچھلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، جنگل میں کسی بھی قسم کا شکارممنوع ہے۔

1 تبصرہ:

  1. اس جنگل میں شجرکاری کے آغاز سنہ 1866ءMr.B.Ribbentro نے کیا -کیونکہ لاہور، امرتسر اور کراچی کے درمیان میں چلنے والے سٹیم انجنوں کے لیے سستی لکڑی درکار تھی 1888میں برطانوی حکام نے فیصلہ کیاکہ وہ اس جنگل کے ایک وسیع رقبے پرشیشم کی لکڑی اگائیں گے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر