منگل، 10 ستمبر، 2024

کاگا سب تن کھائیو سو چن چن کھائیو ماس

 کاگا سب تن کھ  کھائیو سو چن چن کھائیو ماس 

دو نینا ں مت کھائیو جن میں پیا ملن کی آس    

  ہندوستان کے ایک بڑے نامور ادیب نے راجندر سنگھ بیدی کے ناول ''ایک چادر میلی سی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا  راجندر کچھ نا لکھتے   تب بھی یہی ایک ناول ان کو آسما ن ادب کا درخشاں ستارہ بنانے کے لئے کافی تھا - اور میرا کہنا ہے قرۃ العین حیدر کے لئے کہ عینی کچھ نا لکھتیں  تب بھی ان کا نام اسی ایک افسانے سے کہکشاں کی مانند ادبی  آسمان میں جگمگاتا -فکشن نگارقرہ العین  ۔ ان کےافسانوں میں عصری حسیت اور فلسفیانہ شعور کی گہرائی  موجود ہے۔ قصہ کو قصہ بتانے کے تمام لوازم ان کے افسانوں کوکامیاب بناتے ہیں اور کہانی کو کہانی بنانا ہی تخلیق کار کا اولین فرض ہوتا۔قرہ العین حیدر نے اپنے افسانوں میں تاریخ، فلسفہ، عصری آگہی کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ ان کے یہاں اسلوب اور تکنیک کاحسین امتزاج ملتا ہے۔ ماضی کی بازیافت ،  زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات ۔ ان کے فنی طریق کار کی انفرادیت اور تکنیک کےتنوع نے ان کے فن کو ممتاز اور منفرد بنا دیا ہے۔ ان کے ابتدائی افسانو ں ںپر ایک پرتکلف ، خوابناک اور رومانی فضا چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہےلیکن تقسیم وطن کے بعد تہذیبی سانچوں کی شکست و ریخت اور انسانیت کی  پسپائی ان کے یہاں زیادہ درآئی ۔ 


قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔


قرہ العین حیدرنے اپنے افسانوں میں انھیں موضوعات، ماجرے، مناظراور محاکات کو پیش کیا ہے جن سے وہ بخوبی واقف تھیں۔ ان کے کردارعموماً اعال متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو کانونٹ، کالج اوریونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں اور کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، ٹینس، تاش،شطرنج کے شوقین ہیں۔رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ کلب جانا ان کےشغل میں شامل ہے۔ عام طور پر وہ ہوائی سفر کرتے ہیں۔ معاشی مسائلسے بےنیاز ہیں۔ باپ دادا کی دولت پر عیش کرتے ہیں اور انگریزی طرزمعاشرت میں رنگے ہیں۔قرہ العین حیدرایک غیرجانبدار ادیبہ ہیں۔ وہ نہ تو کسی فرقہ اور مذہب  کے لیے لکھتی ہیں اور نہ کسی خاص ملک کے لیے اور نہ کسی رجحان   اور تحریک کی پابند ہیں۔ وہ ایک روشن خیال ادیبہ ہیں۔ انسانیت اورمشترکہ تہذیب میں یقین رکھتی ہیں۔ ان کے یہاں جس پس منظر سے وہ،کردار  لیا گیا ہوتا ہے، اس پس منظر کا تہذیبی منظرنامہ قاری کے سامنے نمایاں ہوتا جاتا ہے۔

زبان و بیان کی ندرتوں کے لحاظ سے بھی عینی کی تخلیقات عدیم المثال ہیں۔ انھوں نے اردو فکشن کو ایک نیا اور البیلا اسلوب دیا ہے جوانوکھا ہونے کے ساتھ ساتھ دلکش بھی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے 'پت جھڑ کی آواز' پر انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔قرہ العین حیدرنے ترقی پسند تحریک کے دوران ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔ آزادی سے کچھ پہلے ان کے افسانوں کا مجموعہ 'ستاروں سےآگے' منظرعام پر آچکا تھا۔اس کے بعد وہ اپنے ادبی سفر میں خوب سےخوب تر کی منزل کی طرف بڑھتی گئیں اور ان کا فکروفن مسلسل ارتقائیمنازل طے کرتا رہا۔جوں جوں ان کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع اور عمیق ہوتا گیا ان کے افسانے نکھرتے اور سنورتے گئے اور کینوس میں وسعت آتی گئی۔یہاں تانیثیت کا رجحان ایک نئی معنویت کے ساتھ ابھرا ہے۔ انھوں نےانسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی بنتی بگڑتی شبیہ کو پیش کیاہے اور اپنی اکثر تخلیقات میں سماج اور زمانے کی طاقت کے سامنےعورت کی کمزوری اور حالت کی ستم ظریفی کو عورت کی نارسائی اورپسپائی کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تقریباً تمام تخلیقات میں جدید دور کی عورت کے مختلف کردار ہمارےسامنے ہیں۔ عورت کی محرومی ، کرب اور تقدیر پر شاید ہی کسی اور نےاتنی تفصیل، تواتر اور شدت سے لکھا ہوگا۔۔


قرہ العین حیدر کے افسانوں کے کردار اور واقعات صرف برصغیر کی حد تک محدود نہیں ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے کردار ساری دنیا کےمختلف ممالک اور خطوں سے بھی لیے ہیں بلکہ انھوں نے دنیا میں کیا ہورہاہے، ان باتوں اور خیالوں کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ اس   زمانے میں، چاہے ترقی پسند تحریک کے زیراثر ہو یا جدیدیت کے زیر اثرجو بھی افسانے لکھے جا رہے تھے ان میں یہ باتیں نہیں تھیں۔یہی وجہ ہے کہ قرہ العین حیدرکے افسانے اس زمانے کے افسانوں سے منفردتھے۔"کارمن، ہاؤسنگ سوسائٹی، یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندےمونالیزا" قرہ العین حیدر کے ایسے افسانے ہیں جو عالمی افسانے کےمعیار کے ہیں۔ انھوں نے مواد، پالٹ، اسلوب، لفظیات، کردار نگاری کا جومظاہرہ کیا ہے، وہ ان کے عمیق مطالعہ اور جہاں نوردی کا حاصل ہے۔ یہی    وجہ ہے کہ ان کے افسانے اردو کے عام افسانہ نگاروں کے افسانوں سےمعیار میں بہت بلند ہیآخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی انہوں نے شادی نہیں کی جو وہ اپنے پیچھے کسی وارث کو چھوڑ کر جاتیں اس لئے بس ان کا ادبی سرمایہ ہی ان کی وراثت ٹہرا -ہندوستان کی  حکومت کی جانب سے  ان کو کئ ادبی اعزازات سےنوازا گیا جبکہ  حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔  


  گیارہ سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں

1 تبصرہ:


  1. بچوں کی کہانی1

    بلاگ1

    دیگر

    رپورتاژ2
    قرۃالعین حیدر کا تعارف
    اصلی نام :قرۃ العین حیدر

    پیدائش :20 Jan 1926 | علی گڑہ, اتر پردیش

    وفات :21 Aug 2007 | نوئیڈا, اتر پردیش

    رشتہ داروں :سجاد حیدر یلدرم (والد)

    LCCN :n83184080

    Awards :گیان پیٹھ ایوارڈ(1989) | ساہتیہ اکادمی ایوارڈ(1967)


    قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر