سلطان المشائخ المعروف محبوبِ ا لٰہی اللہ علیہ کے والد سید علی بخاری علیہ الرحمہ، حضرت سید عرب علیہ الرحمہ کے حقیقی چچا
زاد بھائی تھے اس طرح خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ ء نسب نجیب الطّرفین سادات سے جا ملتا ہے یہ وسطِ ایشیا کی ایک ریاست ازبکستان کے شہر بخارا میں اپنے آبائ وطن سرزمین عرب کو ترک کر کے یہاں آ بسے تھے
ان کا تعلّق اہلِ تشیع کے سلسلہء امامت کے نویں امام علی نقی علیہ
السّلام سے تھا بخاری کہلائے جانے کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ
امام علی نقی علیہ السّلام کے یہاں دو صاحبزادگان پیدا ہوئے ان صاحبزادگان نے
اپنے آبائ وطن سر زمین عرب کو خیر باد کہ کر وسط ایشیا ئ ریاست کے شہر بخارا کو رہنے کے منتخب کیا اور ان میں سے ایک بھائ نے اپنے نام کے ساتھ
نقوی لگانے کے بجائے بخارا کی نسبت بخاری کہلانا پسند کیا جبکہ دوسرے
صاحبزادے نے اپنے نام کے ساتھ اپنے پدر گرامی امام علی نقی علیہ
السّلام کے نام کی نسبت نقوی نام کا لاحقہ پسند کیا
امام علی نقی علیہ السّلام سے نسبتِ خاص ہونے کے سبب یہ خاندان خود بھی ولیوں کا خاندان تھا
سید عرب علیہ الرحمہ طویل عرصے سے
بخارا میں مقیم تھے۔ تجارت آپ کا پیشہ تھا اور اﷲ نے آپ کی روزی میں بہت
برکت دی تھی۔ مشہور مورخ خاقی خان کی روایت کے مطابق حضرت سید عرب علیہ
الرحمہ حضرت خواجہ عثمان ہرونی علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔
خاندان چشتیہ کے یہ وہی مشہور بزرگ ہیں جو سلطان الہند حضرت خواجہ معین
الدین چشتی علیہ الرحمہ کے پیرومرشد تھے۔ اس طرح حضرت سید عرب علیہ
الرحمہ اور حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ میں رشتہ سادات کے علاوہ
رشتہ روحانی بھی موجود تھا۔ حضرت سید عرب علیہ الرحمہ بخارا میں اقامت گزین ہوتے ہوئے
بہت دنوں سے
ہندوستان جانے کے بارے میں سوچ رہے تھے تاکہ اس ملک کے حالات کا جائزہ لے
کر تجارتی روابط قائم کرسکیں۔
کچھ دن بعد حضرت سید عرب علیہ الرحمہ نے خواب میں دیکھا۔ کوئی شخص انہیں
مخاطب کرکے کہہ رہا تھا
’’سید! تمہارا ارادہ نیک ہے، ہندوستان چلے جاؤ‘‘
اب سید عرب علیہ الرحمہ کو یقین ہوگیا کہ عازم ہندوستان ہونے کا خیال بے
سبب نہیں تھا۔ آپ نے زوجہ محترمہ سے اپنا خواب بیان کیا، وہ ایک وفا شعار
خاتون تھیں۔ انہوں نے شوہر کے خواب کو حقیقت سمجھا اور رضامندی کا اظہار
کردیا۔
حضرت سید علی بخاری علیہ الرحمہ، حضرت سید عرب علیہ الرحمہ کے حقیقی چچا
زاد بھائی بھی تھے اور دونوں میں بہت گہری دوستی بھی تھی۔ جب سید عرب
علیہ الرحمہ ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے تو سید علی بخاری علیہ الرحمہ
بھی ہمراہ تھے۔ کچھ دنوں تک یہ دونوں بزرگ اور دونوں بھائی لاہور میں
مقیم رہے اور پھر ان دونوں سید خاندانوں نے بدایوں میں مستقل سکونت
اختیار کرلی۔ سید عرب علیہ الرحمہ کے دو صاحبزادے تھے۔ خواجہ عبداﷲ علیہ
الرحمہ اور خواجہ سید محمودعلیہ الرحمہ ۔ ایک صاحب زادی بی بی زلیخا علیہ
الرحمہ تھیں، جنہیں زہدوتقویٰ کے سبب اپنے زمانے کی رابعہ بصری علیہ
الرحمہ کہا جاتا تھا۔ سید عرب علیہ الرحمہ کے سینکڑوں خدمت گارتھے جو آپ
کے پیسے سے تجارت کرتے تھے۔ سید عرب علیہ الرحمہ کا شمار امیر وکبیر
لوگوں میں ہوتاتھا۔ جب بی بی زلیخا علیہ الرحمہ جوان ہوئیں تو سید عرب
علیہ الرحمہ نے اپنے چچا زاد بھائی اور دوست سید علی بخاری علیہ الرحمہ
سے کہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ میرے اور تمہارے خاندانی رشتے زیادہ مضبوط ہوجائیں‘‘
سید علی بخاری علیہ الرحمہ سید عرب علیہ الرحمہ کی گفتگو کا مفہوم سمجھنے
سے قاصر رہے۔
’’یہ رشتے روز اول کی طرح مضبوط ہیں اور بفضل خدا آئندہ بھی اسی طرح
استوار رہیں گے‘‘
’’علی! تم جانتے ہو کہ میری بچی زلیخا سن بلوغت کو پہنچ چکی ہے۔ اس لئے
میں اس کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں‘‘
سید عرب علیہ الرحمہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
’’کوئی لڑکا آپ کی نظر میں ہے؟‘‘
سید علی علیہ الرحمہ نے پوچھا۔
’’تمہارے بیٹے سید احمد سے بہتر لڑکا کون ہوسکتا ہے؟‘‘
سید عرب علیہ الرحمہ نے دوست کے سامنے اپنا عندیہ ظاہر کردیا۔
’’نہیں شیخ! وہ آپ کے ہم پایہ نہیں ہے‘‘
سید علی علیہ الرحمہ نے کسی تکلف کے بغیر کہا۔
’’میرے اور آپ کے معاشی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ ظلم ہے کہ
نازونعم میں پرورش پانے والی لڑکی کو ایک ایسے شخص سے وابستہ کردیا جائے
جس کے ذرائع آمدنی بہت محدود ہوں‘‘
’’علی! تم نہیں جانتے کہ کثرت مال کے باوجود میں نے اپنے بچوں کو فقر و
قناعت کی تعلیم دی ہے‘‘
سید عرب علیہ الرحمہ نے کہا۔
’’میں اپنی بیٹی کا ہاتھ اس نوجوان کے ہاتھ میں دے رہا ہوں جو زہد وتقویٰ
اور علم کی دولت سے مالا مال ہے‘‘
آخر سید علی علیہ الرحمہ اس نئے رشتے پر رضامند ہوگئے اور 615ھ میں سید
احمد بخاری علیہ الرحمہ اور بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کی شادی ہوگئی۔
بیٹی کی شادی کے ایک سال بعد 616ھ میں سید عرب علیہ الرحمہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ جیسی نیک سیرت خاتون
سے وابستگی کے بعد بہت خوش تھے لیکن حالات کی تنگی کے باعث اکثر کہا کرتے
تھے
’’میں تمہیں وہ آسائشیں نہیں دے سکتا جن کی تم بچپن سے عادی رہی ہو‘‘
بی بی زلیخا علیہ الرحمہ اپنے شریک زندگی کی تالیف قلب کے لئے عرض کرتیں
’’ایک مسلمان عورت کی آسائشوں کی معراج یہ ہے کہ اس کا شوہر اس سے راضی رہے‘‘
’’بی بی! میں دل و جان کے ساتھ تم سے راضی ہوں مگر یہ خلش مجھے ہمیشہ بے
چین رکھتی ہے‘‘
سید احمد بخاری علیہ الرحمہ ایک حساس انسان تھے۔ اس لئے بی بی زلیخا علیہ
الرحمہ کی تکلیف کا خیال کرکے بے قرار ہوجاتے تھے۔ شادی سے پہلے یہ صورت
تھی کہ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کی خدمت کے لئے کئی نوکرانیاں مامور تھیں
… اور اب یہ حال تھا کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے گھر کا سارا کام کاج کرنا
پڑتا تھا۔
پھر کچھ دن بعد سلطان شمس الدین التمش کے حکم کے مطابق سید احمد بخاری
علیہ الرحمہ کو بدایوں کے عہدہ قضا پر فائز کردیا گیا۔ والی ہندوستان نے
سید احمد بخاری علیہ الرحمہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔
’’مجھے دیر سے خبر ملی کہ بدایوں میں آپ جیسا صاحب کردار شخص موجود ہے۔
براہ کرم عہدہ قضا قبول فرمایئے اور اسلامی سلطنت کے استحکام میں میرے
ساتھ تعاون کیجئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں گے
اور اس مقدس عہدے کوامراء کی دراز دستیوں سے محفوظ رکھیں گے‘‘
حضرت سید علی علیہ الرحمہ نے سلطان شمس الدین التمش کا شکریہ ادا کیا اور
اس دعا کے ساتھ کرسی انصاف پر جلوہ افروز ہوئے۔
’’اے قادر و عادل! اپنے اس کمزور بندے سید علی کو اتنی طاقت عطا کر کہ وہ
اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہوسکے‘‘
حضرت سید علی بخاری علیہ الرحمہ نے کبھی کسی امیر و وزیر کی سفارش قبول
نہیں کی اور آزادانہ فیصلے کئے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ برسر اقتدار
طبقے کے کسی فرد کو ملزم کی حیثیت سے عدالت میںلایاجاتا مگر آپ اسے کسی
قسم کی رعایت نہ دیتے۔ آپ کے اس طرز عمل کے خلاف دربار سلطانی میں شکایت
کی گئی کہ سید احمد بخاری علیہ الرحمہ امراء کا لحاظ نہیں رکھتے۔
والی ہندوستان شکایت کرنے والوں کو سردبار جھڑک دیتا
’’سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بحسن و خوبی اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔ اگر
مجھے یہ اطلاع دی جاتی کہ بدایوں کے قاضی امراء کے احترام میں کھڑے
ہوجاتے ہیں تو میں ان کی گرفت کرتا۔ یہ تو ان کے منصف ہونے کی روشن دلیل
ہے کہ وہ مقدمے کے دوران بیرونی اثرات کو قبول نہیں کرتے۔ آئندہ اس قسم
کی شکایتیں کرکے میرا وقت برباد نہ کیا جائے‘‘
حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمہ کی زندگی پرسکون تھی مگر پھر بھی ایک
خلش انہیں مضطرب رکھتی تھی۔ شادی کو پندرہ سال ہوچکے تھے مگر سید احمد
بخاری علیہ الرحمہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ
بھی اکثر اداس رہا کرتی تھی۔ سید احمد علیہ الرحمہ انہیں مختلف انداز میں
تسلیاں دیتے۔ جواب میں بی بی زلیخا علیہ الرحمہ فرماتیں۔
’’میں اداس ضرور ہوں مگر رحمت حق سے مایوس نہیں ہوں‘‘
آپ اکثر رات کے سناٹے میں وہ دعا مانگا کرتے تھے جو حضرت ذکریا علیہ
السلام کا ورد تھا۔ اﷲ کے یہ محبوب پیغمبر اولاد کی تمنا کرتے کرتے بوڑھے
ہوچکے تھے مگر آپ نے امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ روزانہ نصف شب کو خالق
کائنات کے سامنے اپنا دامن مراد پھیلا دیتے تھے اور گریہ و زاری کے ساتھ
عرض کرتے تھے۔
’’اے میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ کہ تو بہتر وارث دینے والا ہے‘‘
پھر ایک دن جلیل القدر نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو حضرت
ذکریا علیہ السلام کی مراد تھے۔
حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بھی رات کی تاریکیوں میں غمناک آنکھوں
کے ساتھ یہی دعا مانگا کرتے تھے۔
آخر دعائیں مقبول ہوئیں اور 636ھ میں بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کے بطن سے
ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے چہرے کی روشنی سے گھر کے دروبام منور ہوگئے۔
بچے کا نام سیّد محمد رکھا گیا۔ ۔
ابھی یہ بچّہ صغیر سن ہی تھا کہ گھر کے دروازے پر ایک اجنبی مردِ قلندر نے آواز دی اور سیّد محمّد جیسے ہی دروازے پر گئے اجنبی نے انہیں نظام الدّین کا لقب عطا کر دیا اور یہی لقب آپ کے لئے زبانِ زدِ عام ہو گیا
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,لیکن آپ کو آپ کی والدہ پیار سے نظام کہ کر پکارتی تھیں ،،ابھی تو بچپن کا ابتدائ زمانہ ہی بیت رہا تھا کہ والد گرامی کا مظبوط سایہ سر سے اٹھ لیکن آپ کی باہمّت اور خودادر والدہ بی بی زلیخا نے ناتو اپنے امیر کبیر میکے سے مدد چاہی اور نا ہی بچّے کو تحصیلِ علم کی راہ میں مالی مشکلات کا شکار ہونے دیا
اور اپنے گھر کی چاردیواری میں بیٹھ کر سوت کات کات کر ہونہار بیٹے کی تعلیم پوری کرتی رہیں یہاں تک کہ حضرت خواجہ نظام ا لدّین رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر دستار ِ فضیلت باندھنے کا وقت آ پہنچا
سولہ سال کی عمر
میں دہلی تشریف لائ۔ اپنے وقت کے فاضل ترین اساتذہ سے حدیث، فقہ، ہیئت،
اصول، تفسیر اور علم ہندسہ کی تعلیم حاصل کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے
علم کی وسعت اور قوت استدلال کے سبب ’’محفل شکن‘ کہلائے… اور نوجوانی ہی
میں تمام علمائے ہند پر سبقت لے گئے۔ عوام میں آپ کی محبوبیت کا یہ عالم
تھا کہ قیامت تک کے لئے محبوب الٰہی قرار پائے۔ سلطان علاؤ الدین خلجی
جیسا باجبروت حکمران زندگی بھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی
زیارت کے لئے ترستا رہا مگر آپ علیہ الرحمہ نے اسے ملاقات کا شرف نہیں
بخشا۔گیا ۔
بدایوں شریف سے علمِ حصولی کی تحصیل کے بعد والدہ محترمہ اور ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ دہلی تشریف لائے
اوریہاں سلطان التمش کے اتالیق مولانا شمس الملک سے علومِ ظاہری کی اعلیٰ
تعلیم حاصل کی اور بہت جلد آپ کا شمار دہلی کے ممتاز علماءو فضلاءمیں
ہونے لگا۔شروع دن سے ہی آپ کے قلب مبارک میں عشق الٰہی کی شمع روشن تھی
تمام تر دینی و دنیوی علوم میں اوج و کمال کے باوجود علم حقیقت و معرفت
کی تشنگی ان کے دل کو بیقرار رکھتی تھی۔انہیں روحانی و باطنی رہنمائی کے
لیے ایک مرشد کامل کی شدید آرزو تھی ایک بارجب آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ
قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ کی زیارت کے لیے
وہاں حاضر ہوئے تو ایک مجذوب بزرگ سے ملاقات ہوئی آپ نے ان سے دعا کی
درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں دہلی شہرکے قاضی کے عہدہ پر فائزکر دے
ان بزرگ نے فرمایا: نظام الدین تم قاضی بنناچاہتے ہو،میں تو تمہیں دینِ
حق کے بادشاہ کے عہدہ پر فائز دیکھ رہا ہوں، تم وہ بلند مرتبہ حاصل کروگے
کہ ساری دنیا تم سے فیض پائے گی۔حضرت کے دوست مرّبی اور اپنے وقت کے بہت
بڑے ولی کامل حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رحمة اللہ علیہ نے بھی حضرت
محبوبِ الٰہی سے فرمایا تھا تم قاضی نہیں ایسی چیز بنوگے جسے میں جانتا
ہوں اور پھر ایک دن ابو بکر نامی ایک قوال ملتان سے دہلی پہنچا اس کی
زبانی حضرت خواجہ فرید الدین چشتی گنج شکر رحمة اللہ علیہ کے حالات و
کمالات سنے آپ کے دل میں بابا صاحب سے محبت کا ایسا شدید غائبانہ جذبہ
بیدار ہواکہ آپ ان کی زیارت کے لیے بیقرارہوگئے اور اجودھن پہنچ کرحضرت
بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔حضرت صاحب
علیہ الرحمہ کو بہ تائید ربانی حضرت نظام الدین کی روحانی خصوصیات کا علم
تھا۔یقیناً حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ اس امر سے آگاہ تھے کہ نظام
الدین کو اللہ پاک نے کس عظیم خدمت کے لیے تیارکیاہے۔حضرت نظام الدین
بابا صاحب کے مریدبنے اور چند ماہ اپنے مرشد برحق کی خدمت میں رہ کر ان
کی خصوصی توجہ اور محبت حاصل کی اور خرقہ خلافت کی نعمت سے سرفراز ہوکر
دہلی واپس تشریف لائے اور مرشد کے فرمان کے مطابق مجاہدہ اور عبادات میں
مشغول ہوکرمادی دنیاکی تمام خواہشات اور آرزﺅں سے الگ ہوگئے۔آپ ہمیشہ
روزہ رکھتے تھے عبادات اور سخت ریاضت کے ساتھ ساتھ آپ درس و ہدایت اور
اصلاح معاشرہ کے فرائض بھی انجام دیتے ۔دلی شہر میں آپ کی عظمت و بزرگی
کا زبردست شہرہ ہوا اور ہر وقت ارادتمندوں کا ہجوم آپ کے ارد گرد رہنے
لگا اس سے آپ کی عبادات میں خلل پڑنے لگا، آبادی سے گھبرا کر آپ ایک دن
موضع حوض رانی کے قریب ایک باغ میں جاکر یادِ الٰہی میں مشغول ہوئے۔وہاں
آپ نے دعا مانگی اے اللہ! میں اپنے اختیار سے کہیں رہنا نہیں چاہتاجہاں
تیری رضا ہو مجھے وہاں رکھ۔غیب سے آواز آئی غیاث پور تیری جگہ ہے (واللہ
علم) یہ وہی جگہ ہے جہاں آج بستی حضرت نظام الدین اولیاءکا شاندارعلاقہ
ہے۔اس وقت غیاث پور ایک چھوٹا ساگاﺅں تھا اللہ کے حکم سے آپ نے اس متبرک
مقام پر قیام فرمایا۔یہ سلطان غیاث الدین بلبن کا دورِ حکومت تھا۔سلطان
آپ کا بے حد معتقد تھااس نے آپ سے شہر میں قیام فرمانے کی درخواست کی
لیکن آپ نے منع فرما دیاآپ کی برکتوں سے وہ ویران مقام بہت جلد زیارت گاہ
خلق بنا۔دور دور سے ہزاروں لوگ آپ کی دعاﺅں سے اپنی زندگی سنوارنے کے لیے
حاضر ہونے لگے یہاں تک کہ آپ کی محبوبیت اور آپ کی ہر دلعزیزی کی شہرت