جمعرات، 29 ستمبر، 2022

معجزہ شقّ القمر تاریخ کے آئینہ میں

  یہ  چاند کی چودہ تاریخ اورزی الحجہ  کا مہینہ  تھا۔کفار قریش کی تعداد بھی  چودہ تھی جن کا سرغنہ ابو جہل تھا۔کفار نے منصوبہ بندی کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آسمانی معجزہ دکھانے کو کہتے ہیں

تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : اگر میں ایسا کردوں تو تم ایمان لے آؤگے؟ بولے لے آئیں گے ۔چونکہ یہ چاند کی بدر کی رات تھی ۔ ۔

ا کہ جس نے معجزہ نہ دکھایا ہو آپ کے پاس کونسا معجزہ ہے آج کی رات ؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : تم لوگ کیا چاہتے ہو ؟

لوگوں نے کہا : اگر تم ا ور تمہارا رب سچے ہیں تو چاند کو حکم دو کہ دو حصوں میں تقسیم کردو ۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ آپ پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا سلام ہے اور اس نے ہر چیز کو آپ کے تابع کردیا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے سربلند ہوکر چاند کوحکم دیا اور وہ تقسیم ہوگیا  ۔پھر مشرکین نے کہا کہ اس کو اپنی اصلی حالت میں لوٹا دیں تو وہ  اپنی پہلی حالت میں لوٹ گیا  تھا اور اسی وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی 

{اقْتَرَبَتِ السّاعَةُ وَانشَقّ الْقَمَر}   

لاکھوں درود وسلام آقائے دو جہاں خاتم ا لمرسلین شفیع المذنبین ،

حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ وآ لہ وسّلم 

شقّ القمر کا واقعہ کب اور کیسے رونما ہوا

پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معجزہ شق قمر ہے۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔

 اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ  وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ

ترجمہ:

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔

قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ علاوہ نص قرآنی کے احادیث متواترہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ ”انشقاق قمر“ کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا

لیکن چونکہ ان کے دل ٹیڑھے تھے اس لئےانہوں ملک شام سے اپنے آنے والے قبیلے کی تصدیق کا عذر تراشا  اور جب قافلہ بھی وارد ہوگیا اور اسنے شقّ ا لقمر کی تصدیق بھی کر دی  اور یہ معجزہ  14 ذی الحجہ  ہجرت سے سال پہلے دست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ پر پیش آیا ۔

معجزہ شقّ القمرہ معجزہ فقط اہل مکہ نے نہیں بلکہ مکہ کے اطراف میں رہنے والوں صحرا نشینوں نے بھی دیکھا تھا، ابوجہل اور دوسرے مشرکین نے صحرا نشینوں سے اس بات کی تصدیق بھی کی تھی کہ   انھوں نے بھی چاند کو دو حصوں میں دیکھا ہے۔

ملا محمد قاسم فرشتہؒ تاریخ ہند ص ۴۸۹ ج ۲ میں لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں کچھ عرب مسلمان کشتی پر سوار جزائر سری لنکا کی طرف جا رہے تھے کہ طوفانوں کی وجہ سے جزائر مالابار کی طرف جا نکلے اور وہاں گدنکلور نامی شہر میں کشتی سے اترے۔ شہر کے حاکم کا نام ’’سامری‘‘ تھا۔ اس نے مسلمانوں کے بارے میں یہودی اور عیسائی سیاحوں سے کچھ سن رکھا تھا۔ عرب مسلمانوں سے کہنے لگا کہ پیغمبر اسلامؐ کے حالات اور ان کی کچھ علامات بیان کریں۔ ان مسلمانوں نے اسے آنحضرتؐ کے حالات زندگی، اسلام کے اصول و مسائل اور نبی اکرمؐ کے معجزات کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں، دریں اثنا شق القمر کے تاریخی معجزہ کا ذکر بھی کیا۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ ذرا ٹھہرو ہم اسی بات پر تمہاری صداقت کا امتحان لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دستور ہے کہ جو بھی اہم واقعہ رونما ہو اسے قلمبند کر کے شاہی خزانہ میں تحریر کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اگر تمہارے کہنے کے مطابق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کے لیے چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو اسے یہاں کے لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا اور اتنا محیر العقول واقعہ ضرور قلمبند کر کے شاہی خزانے میں محفوظ کر لیا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے پرانے کاغذات طلب کیے، جب اس سال کا رجسٹر کھولا گیا تو اس میں یہ درج تھا کہ آج رات چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر جڑ گیا۔ اس پر وہ بادشاہ مسلمان ہوگیا اور بعد میں تخت و تاج چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ ہی عرب چلا گیا۔ 

علامہ سید محمود شکری آلوسیؒ اپنی کتاب مادل علیہ القرآن مما یعضد الہیئۃ الجدیدۃ القویمۃ البرہان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب سلطان محمود غزنویؒ ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے، انہوں نے بعض عمارتوں پر یہ تختی لکھی ہوئی دیکھی کہ اس عمارت کی تکمیل اس رات ہوئی جس رات چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ 

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۹ جنوری ۱۹۷۵ء کے صفحہ نمبر ۲ پر خبر شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مصری سائنسدان ڈاکٹر فاروق الباز نے، جو واشنگٹن میں طبقات ارضی اور اجرام فلکی کے تحقیقاتی مرکز کے ڈائریکٹر ہیں، گزشتہ روز مصر کے صدر جناب انور السادات سے ملاقات کی اور انہیں قرآن کریم کے اس نسخے کا ایک ورق پیش کیا جو اپالو ۱۵ کے خلانورد چاند پر رکھ کر آئے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق نے صدر سادات کو مریخ کی ایک وادی کا ماڈل پیش کیا جسے وادیٔ قاہرہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چاند پر سے لی گئی عرب ممالک کی رنگین تصویر پیش کی اور چاند پر موجود ایک دراڑ کی تصویر بھی پیش کی جسے عرب دراڑ کا نام دیا گیا ہے اور جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو دوبارہ جڑتے وقت یہ دراڑ رہ گئی تھی


منگل، 27 ستمبر، 2022

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا۔ میری کتاب زندگی



 

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

نحمدہ  و نصلّی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین 
 میں خدائے ذوالجلال والاکرام کی بے حد شکر گزار ہوں کہ بحیثیت ایک انتہائ قلیل و کم علم رکھنے والی طالبہ کے آج مجھے اپنے قارئین کے سامنے اپنی داستان حیات پیش کرنے کا موقع میسّر آیا ہے،میری کوشش ہو گی کہ  اپنی اس کتاب زندگی میں اپنے ہوش کی زندگی سے لے کرتادم تحریرمیں نے کارزارزندگی سے جو پایا ہے اسے من وعن پیش کر سکوں  اورمیرے قلم کا لکھا ہوا ایک ایک حرف صدقہ ہے میرے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم شہر علم اور
باب علم سلطان اولیاء مولائے کائنات حضرت علی ابن طالب کے علم کا 
میری جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان کے ما ئہ ناز خطّہ زمین حیدرآباد دکن
 تاریخ پیدائش
آٹھ نو مبر سن انّیس سو اڑتالیس 
ہجرت , جون انیس سو  انچاس بوجوہ سقوط حیدرآباد دکن 
 سقوط حیدرآبا د کا ظالما نہ عمل تو قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کے اگلے روز ہی پنڈت جواہر لعل نہرو نے باقاعدہ اعلان کر کے کیا تھا  
 سقوط حیدار آباد میں بھی ہزاروں کی تعداد میں وہاں کی مسلمان آبادی تہ تیغ کی گئ ,,بعد از سقوط ناگفتہ بہ فرقہ وارانہ حالات کے 
 پاکستان ہجرت کی اوربعد از ہجرت تمام عمر اپنے پیارے محبوب وطن پاکستان کے قلب کراچی میں بسر ہوئ
سنہ دو ہزار سات میں اپنے عزیز از جان شریک زندگی کی وفات  کے بعد کینیڈا آنا ہوا اور پھر یہیں کی مٹّی نے قدم پکڑ لئے
میں اپنی داستان زندگی کے آغاز پر ہی اللہ کریم رحمٰن و رحیم , کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین مر حومین کی بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے قرطاس وقلم کی اہمیت سےروشنا س کیا,اور زندگی کے لق ودق صحرا میں پیش آنے والی  اونچ نیچ سمجھائ ,,مشکلات کی کٹھن گھڑیوں میں  صبر اور نماز سے مدد کی  نصیحت کی  اور زندگی کے ہر ہر قدم پر میری رہنمائ کی ان ہستیوں کے ہمراہ اپنے محترم علم دوست شوہر  کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جن کی قریب قر یب بیالیس سالہ رفاقت میں مجھےا ن کے آ  نگن میں سائبا ن  علم نصیب ہوا
 اب میں قارئین کو اپنا خاندانی پس منظر بتانا چاہوں گی 
میری والدہ کے اجد ا دسرزمین ہند کے زی وقار اور منفرد تہزیب رکھنےوالے شہر لکھنؤ میں سادات کے سو سالہ دور حکومت  میں ایران سے وارد ہند ہوئے،ان کا شجرہء نسب نجیب الطرفین سادا ت سے ہوتا ہوا چوتھے امام حضرت اما م زین العابدین علیہ السّلام سے جا ملتا تھا اور وہ  ایران کے شاہی دربار سےمنسلک شاہانہ طرز حیات رکھنے والے  لوگ تھے   ان میں ادباء و فضلاء شعراءصاحبان علم وحکمت  تھے چنانچہ ان کی لکھنؤ میں آمد پر شاہی دربار میں بھی ان کی خاص پذیرائ ہوئ -   
یہاں بھی شاہی دربار سے ہی وابستہ ہوئےان کی امارت کا یہ عالم تھا کہ جب میری والدہ شادی ہو کر حیدرآباد دکن آئیں اسوقت ان کا جہیز ریل کی دو بوگیاں ریزرو کر کے لایا گیا ،ان کی شادی کے جوڑے سونے کے تاروں اور ریشم کی آمیزش سے تیّار کئے گئے تھے ( ہجرت نے ہماری والدہ کواور ہم کو ان چیزوں سے فیضیاب ہونے کی مہلت نہیں دی اور سب کچھ بھرا گھر چھوڑ کر جان بچانے کو گھر سے نکل آ ئےامارت کے باوجود علم و ادب کےان شیدا ئیو ں میں  خواتین کے علم سے بھی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں جب ہند وستان میں عورت کی تعلیم ایک جرم سمجھی جاتی تھی یہ لوگ اپنے گھر کی بچّیوں کی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دیتے تھے  
مجھے میری نانی جان نے بتایا تھا کہ سن انّیس سو تیس میں جب میری والدہ پانچ برس کی ہوئیں تب ان کو پڑھانے کے لئے ایک بزرگ استاد گھر پر رکھّے گئے اور میری والدہ نے اپنے استاد محترم سے فارسی عربی اردو اور انگلش کی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کا داخلہ بھی ایک مسلم اسکول میں اسی عمر میں کروادیا گیا ،، صبح آٹھ بجے ان کی ڈیوڑھی پر پردے لگا ہوا یکّہ آکر رکتا تھا اور میری والدہ کو گھر کے کوئ  بزرگ لے جا کرایکّے میں  سوار کرواد یتے تھے  اور شام چار بجے پھر اسی طرح سے واپسی کے وقت یہی عمل دہرایا جاتا تھا- 
اس طرح میری والدہ نے غیر منقسم ہندوستان میں ہی مڈل کلاس پاس کرلی تھی میری والدہ اور دادی جان مرحومہ کا تعلّق اسی خانوادے سے تھاچنا نچہ ہوش سنبھالنے پر میں نے اپنے گھر کے آنگن میں ادبی محفلیں سجتی ہوئ دیکھیں اور ان کا اثر بھی قبول کیا دراصل ہمارا گھرانہ بنیادی طور پر ایک ادبی لیکن ساتھ ساتھ کافی حد تک مذہبی گھرانہ تھا اس لئے مجھے ادب سے اپنے گھرانے کی وابستگی آہستہ آہستہ میرے مزاج میں بھی رچتی اور بستی گئ میری والدہ کے قبلہ محترم رئیس امروہوی صا حب  سے  گھریلو مراسم تھے ،جبکہ  محترم سجّاد ظہیر صاحب کے گھر ا نے سے  بھی والدہ کے ہمراہ آنا جانا لگا رہتا تھا
میری والدہ صاحبہ کے  یہ خا ندانی  مراسم
 تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ سے ہی چلے آرہے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری والدہ محترمہ کا تعلّق لکھنؤ کے سادات سے تھا جبکہ والد بھی یوپی کے سادات کے اہم خانوادے سادات نو گانواں میں عابدی سادات کےجیّد علمائے دین کے قبیلے  سے تعلعق رکھتے تھے ،میرے محترم دادا جان جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی دور حکومت میں اپنا آبائ شہر چھوڑ کر حیدرآباد دکن آئے اور انہون نے یہیں پر مستقل سکونت اختیار کی ،جسے ازاں بعد ہم بھی چھوڑ کر پاکستان آگئے  
یہاں پر پہلے ہم نے اچھے دن اپنے والد کی ائر فورس کی سروس کے طفیل دیکھےاسوقت ہم سب ملیر کے علاقے کی ایک فوجی چھاؤنی میں مقیم تھے ہجرت کے بعدکی زندگی میں کچھ کچھ ٹہراؤ سا محسوس ہونے لگا تھا مگر پھرہمارے گھر میں کچھ ماورائےفطرت حالات پیش آ ئےاور پھرتقدیر کی گردش نے ہم کو بارہ سال اپنے حصارمیں  رکھا،ان حالات کے گرداب میں ہمارا خاندان اس طرح آیا کہ والد صاحب اتنے شدید بیمار ہوئے کہ ان کی ائرفورس کی سروس بھی چھوٹ گئ اور ہم کو چھاؤنی کا مکان بھی بہت عجلت میں چھوڑنا پڑا اور والد صاحب ہم سب بچّوں اور والدہ کو لے کر اپنے ایک مخلص دوست جناب حفیظ اللہ صاحب کے گھر پر آ گئے  
میرابچپن
میرا بچپن عام بچّوں کا بچپن نہیں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کے گھروں میں پانی کے لئے علاقے میں پانی کے ٹینکر آیا کرتے تھے اور میں بہت چھوٹی سی عمر میں ٹینکرکی آواز محلّے میں آتے ہی اپنا کنستر لےکر پانی لینے والوں کی لائن میں کھڑی ہو جاتی تھی ،اور ہمارے محلّے کا کوئ خداترس انسان میرا کنستر بھر کر ہمارے دروازے تک یا گھر کے اندر تک رکھ جایا کرتا تھا
اس کے علاوہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ماشکی بھی صبح شام ایک ایک مشک پانی  معمو لی قیمت پر ڈال جاتا تھا پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد پانی کے ٹینکر کا آنا موقو ف ہو گیا اورہماری گلی کے ختم پر  ایک عدد حوضی بنا کر اس میں سرکاری نل سے پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا،میرے والد صاحب ،،اپنے والد  صاحبکے تذکرے کے تصّور سے ہی   بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہین کیونکہ مجھے اپنے والدکا بنک جانے سے پہلے نماز فجر کے وقت حوضی سے پانی بھرنا یاد آرہا ہے میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کاموں میں والد کا ہاتھ بٹا سکتی لیکن زرا سا وقت گزرنے پر  گھر میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے میں نے یہ ڈیوٹی اپنے زمّے لے لی تھی ،
میرے بھائ جان مجھ سے صرف سوا سال ہی بڑے تھے اور باجی جان ان سے تین برس بڑی تھین  ،یعنی ابھی ان کا کوئ بچّہ باہر کے کام کرنے کے قابل نہیں ہوا تھا ,,اسوقت ایک خدا ترس انسان نے اپنے گھر کے سامنے ایک کنواں بنوا کر وقف عام کر دیا تھا چنانچہ میں نے زرا سا ہوش سنبھانے پر یہ اہم ڈیوٹی اپنے زمّہ لے لی تھی کہ والد صاحب کے لائے ہوئے پانی کے علاوہ جو بھی کمی ہوتی اسے خود سے پورا کر دیا کرتی تھی اس وقت ہمارے محلّے میں کوئ حوضی نہیں بنی تھی لیکن اپنے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے سے  کنوئین سے پانی بھر کر لانے لگی اس کنوئیں میں چمڑے کی بالٹی ایک مو ٹے رسّے کے زریعے کنوئیں کی تہ تک اتار کر بھر لی جاتی اور پھر الٹی چرخی چلا کر پانی کھینچ لیا جاتا تھا ،
یہ ایک بہت محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن میں اس کام کو بھی سر انجام دے لیا کرتی تھی  اس کے علاوہ جھٹ پٹا ہوتے ہی گھر کی لالٹینیں اور لیمپ روشن کرنا بھی میرے زمّے تھا میں سب لالٹینوں کی چمنیاں نکال کر ان کو چولھے کی باریک سفید ریت سے پہبے صاف کرتی پھر صابن سے دھو کر خشک کرتی تھی تو لالٹین کی روشنی بہت روشن محسوس ہوتی تھی،کوئلو ں کی سفید راکھ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کو یونہی چھوڑ دیا جاءے تووہ خود بخود بجھتے جاتے ہیں اور ان کے اوپر سفید راکھ کی موٹی تہ جمتی جاتی ہے یہ راکھ دیگچیوں کے پیندوں کو اجلا کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی میں اس
راکھ کو ایک ڈبّے میں محفوظ کر لیتی تھی  
 اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اہم ڈیوٹی گھر میں جلانے کے لئے ٹال سے لکڑیاں لانے کی بھی تھی ،اور یہ کام کوئ مجھ سے جبریہ نہیں کرواتا تھا بلکہ میں اپنی والدہ کے لئے کام کی سہولت چاہتی تھی
با لآخرزمانے کے ان نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ہمارے گھرانے کی علمی صحبتیں برقر ار ہی تھیں اور ان ادبی صحبتوں کارنگ بھی میری زات پر نمایاں ہو نے لگا تھا  اور میں نے بہت جلد برّصغیر کے نامور ادیبو ں کی 
لا تعداد کتابیں پڑھتے ہوئے حفظ کر لی تھیں ،ان نامور ادباء میں کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی عصمت چغتائ ،قرّۃ العین حیدر ،عظیم بیگ چغتا ئ ،را م لعل ساحر لدھیانوی  اور اس وقت کے جو بھی مشہور ادیب اور شاعر تھے  سب کو بار بار پڑھایہ وقت جب ادب کے آسمان پر پاکستانی ادب بھی بھر پور انداز سے اپنا آپ منوانے کی جستجو مین جٹا ہواتھا اور یہاں کے ادیب بھی ہندوستانی ادیبوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں تھے کرنل محمّد خان ،مشتاق احمد یوسفی  بریگیڈئیر صدّیق سالک ،ممتاز مفتی جبکہ خواتین بھی ادب کے میدان پر جلوہ افروز ہو چکی تھِن اور بھی کہنہ مشق ادیب و شاعر پاکستانی ادب کے آسمان پرجگمگا رہے تھے چنانچہ شادی سے پہلے تو میں بس پڑھتی ہی چلی گئ لکھنے کی باری  شادی کے بعد میں آئ جب کہ یہ احساس دل میں اجاگر ہواکہ میں کچھ کچّا پکّا ادب بھی تحریر کر سکتی ہوں 
میرے ادبی شوق کی ابتدا میرے بچپن کے ابتدائ دور میں ہی ہو چکی تھی بس اردو پڑھنی آئ ہی تھی کہ مجھے بچّوں کی کہانیاں پڑھنے کا چسکہ لگ گیا تھا اور شاعری میں بھی خاص دلچسپی لینے لگی تھی  مجھے ابھی بھی اچھّی طرح یاد ہے کہ میں نے  چھٹی کلاس میں ایک نظم اپنے وطن سے محبّت کے اوپرپڑھی تھی 
  یہ ہمارے اسکول کی جانب سے طالبات کا مشاعرہ تھا جو بیگم رعنا لیاقت علی خان کے قائم کردہ فلاحی ادارے  اپوا کے زیر اہتما م ہواتھا
 اس مشاعرے میں ایک مشہور علمی گھرانے کی قد آور  شخصیت محترمہ وحیدہ نسیم صاحبہ مہمان خصوصی کے طور پر بلائ گئیں تھیں ،انہوں نے میری نظم سن کر مجھے شاباشی بھی دی تھی 
اور پھر کلاس ہشتم کے بعد ہی اس زمانے کے رواج کے مطابق  میری شادی ہوگئ

درود پاک کی رحمتوں سے زندگی میں برکتیں


ساہیوال جیل کے احوال کچھ یوں بتائے جاتے ہیں کہ  جیل میں چارہزار قیدی ہیں جو  سارے کے سارے یا تو  استاد ہیں یا طالب علم، جو پڑھے لکھے ہیں لیکن کسی جرم کے عوض قید کاٹ رہے ہیں  ہیں وہ پڑھاتے ہیں اور جوان پڑھ  ہیں وہ پڑھتے ہیں، یوں وہ ہیڈماسٹر، پی ٹی سر، وائس پرنسپل اور پرنسپل کے عہدے سنبھالے قید کاٹ رہے ہیں جس تیزی سے اس جیل کا تعلیمی ماحول فروغ پا رہا ہے گمان غالب ہے کہ بہت جلد کسی کو وائس چانسلر بھی نامزد کرنا پڑے گا، تعلیم بالغاں اور روائتی تعلیمی نصاب الغرض وہاں پہلی سے سولہویں تک کلاسیں جاری ہیں۔ووکیشنل ٹریننگ اور ویلڈنگ کورسز کے علاوہ جب مجھے بتایا گیا کہ الیکٹریکل اور الیکٹرونک انجینئر بننے کی ساری سہولتیں بھی یہاں موجود ہیں ۔جیل میں چارہزار مسلمان اور ستائیس غیرمسلم قیدی ہیں جن میں چالیس خواتین بھی شامل ہیں-

 نماز کی

 پابندی کرنے والے کو قید میں رعائت دی جاتی ہے، غیرمسلموں کو عبادت کی سہولتیں بھی میسر ہیں، ہرمسلمان قیدی پر روزانہ

  دوسومرتبہ درود شریف پڑھنا لازم ہے، اس سے زیادہ پڑھنے والے کو قید میں چھوٹ ملتی ہے

، روزانہ ایک جگہ سارا درودشریف جمع کیا جاتا ہے اور پھر جہلم کی تحصیل دینہ کے موضع چک عبدالخالق میں سید حسنات احمد کمال

 کے پاس جمع کرا دیا جاتا ہے جو درودشریف کے ورلڈبنک کے سرپرست ہیں، ساہیوال کی اس جیل کے تعلیمی نظام کے انچارج

 ڈپٹی جیلر شیخ محمد اکرام نے مجھے بتایا کہ درودشریف کا کمال یہ ہے کہ جو قیدی یہاں سے رہا ہوتا ہے وہ دوبارہ کبھی جیل میں مجرم

 کے طور پر نہیں آیا،  اور آج کل لاہور کے ایم، اے، او کالج میں پروفیسر ہیں۔ساہیوال جیل کے حفاظتی عملے کی تعداد چارسو ہے

 تین ڈپٹی جیلر جن میں شیخ اکرام کے علاوہ حاجی مظہر وحید اور افضل جاوید دلاور شامل ہیں جبکہ بارہ اسسٹنٹ جیلر اور ایک جیلر

 کامران انجم ہیں،

مذہبی تعلیمی پروگرام کے انچارج قاری عبدالعزیز ہیں، ملتان انٹرمیڈیٹ بورڈ، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن

 یونیورسٹی، مدرسہ حافظ نذر محمد لاہور اور جمعیت تعلیم القرآن کراچی سے جیل مذکورہ کی وابستگی یا الحاق ہے، امتحانات کے دنوں

 میں جیل امتحانی مرکزبنی ہوتی ہے، جیل میں لائبریری بھی ہے جسے نادر و نایاب کتابیں پہچانے کا بیڑہ لاہور سے ملک مقبول احمد

 نے اٹھایا ہے۔ وہ قیدی جو سزا ختم ہونے کے بعد جرمانہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے جیل میں پڑے رہتے ہیں، انہیں لاہور کے علامہ

 عبدالستار عاصم جو خود کئی کتابوں کے مصنف وموٴلف ہیں، رانا فضل الرحمن فاؤنڈیشن کی طرف سے جرمانہ ادا کرکے پہلے انہوں چھڑاتےہیں-  پہلے انہوں نے 

اس پاکیزہ وردمیں شامل تمام خواتین اور مرد حضرات کے علاوہ بچوں میں درود پاک کا شوق پیدا کرنے کیلئے سب میں تسبیاں

 تقسیم کردیں جس جس تک تسبیح پہنچی وہ خود بخو درودشریف کا ممبر بنتا گیا ۔پھر دوسری بستیوں میں درود شریف کے حلقے قائم کر

 دیئے گئے ان علاقوں سے کسی ایک کو اس حلقے کا امیر مقرر کیا جو اپنے ممبران سے ہفتہ وار درود پاک اکٹھا کر کے خانقاہ

 دارالحسنات میں جمع کروانے لگ گئے یوں میں نے مزید آسانی کے لئے موبائل فون سے ہفتہ وار ایس ایم ایس کے ذریعے درود

 پاک جمع کرنے کے لئے آسانیاں اور سہولیات فراہم کیں کچھ ممبران ہفتہ وارمحفل ذکر درود پاک یامحفل گیارویں شریف میں

 جمع ہوکر درود پاک دینے لگ گئے۔

صلی اللہ تعالى عليه وعلى آله وأصحابه وأزواجه وزریته دائما ابداوبارك وسلم

وقت گرزتا گیا ہم نے درود پاک کا با قاعدہ ریکارڈ رکھنا شروع کیا ہوا تھا جمع ہونے والا رجسٹرالگ اور تقسیم کیا جانے والے کا

 حساب دوسرے رجسٹر میں لکھا جاتا تھا کسی کی وفات پر درود پاک مغفرت کے لئے دیتے شادی بیاہ میں خیر برکت کے لئے عطیہ

 کرتے ، چوری چکاری سے محفوظ رہنے کے لئے بھی دینے لگ گئے سال بھر کا جمع شدہ درود پاک ہم حضرت پروفیسر باغ حسین

 کمال صاحب کے پاس جمع کرادیا کرتے

 پروفیسر باغ حسین کمال صاحب نے تصوف کی اپنی کتاب’’حال سفر‘ میں لکھا ہے کہ

 جب میں نے درود پاک پڑھنا شروع کیا تو ایک سال میں ایک ‘کروڑ درود پاک مکمل کرلیا‘- رہتے ہیں۔

پنجاب کی بتیس جیلوں میں سے صرف ساہیوال اور فیصل آباد کی جیلوں میں تعلیمی میدان میں مقابلہ جاری ہے پنجاب کے انسپکٹر

 جنرل جیل خانہ جات، کوکب ندیم وڑائچ کو دیگر جیلوں کے ماحول پر بھی توجہ دلانی چاہئے۔ساہیوال جیل کی دیگر خوبصورت باتوں میں سے ایک بہت ہی خوبصورت بات یہ ہے کہ وہاں جھوٹ کوئی نہیں بولتا، عملہ بھی اور قیدی بھی، سچ جیل کی بنیادی شناخت اور اصول ہے، ہمارے آج کے سیاستدان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں انہیں کچھ عرصہ ساہیوال جیل میں گزارنا چاہئے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ربّ  ا لعزّت جب کسی کا مقدّر سنوارنا چاہے تو کون اس کا مقدّر بگاڑ سکتا ہے

 


پیر، 26 ستمبر، 2022

فیض احمد فیض'پاکستان کے شہرہء آفاق شاعر

فیض احمد فیض 'بہت بڑے قد کے شاعر کی بہت چھوٹی سی کہانی

شاعری کی صنف لطیف کو ایک منفرد اور خوبصورت جہت دینے کی بات ہو گی تو صف اوّل کے شعراء میں فیض احمد فیض کا نام سر فہرست ہو گا  -حقیقت یہ ہے کہ فیض احمد فیض  نے جدید اردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنا ر کیا-فیض 13فروری 1911ء کو پنجاب کے ضلع نارووال کے علاقے فیض نگر کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد سلطان خاں بیرسٹر تھے۔  فیض احمد فیض کی ابتدائ تعلیم :  فیض احمد فیض کی ابتدائی اور دینی تعلیم مولوی محمّد ابراہیم میر سیال کوٹوی سے حاصل کی عربی صرف و نحو کی تعلیم شمس العلماء مولوی میر حسن سے حاصل کی پھر تو تعلیمی سلسلہ اس طرح سے چلا کہ اپنے وقت کے جیّد اساتذہ سے اکتساب علم کیا -

1 میں فیض نے امرتسر کے محمڈن اورینٹل کالج میں بطورلیکچرر ملازمت کر لی۔ یہاں بھی انھیں اہم ادیبوں اور دانشوروں کی صحبت ملی جن میں محمد دین تاثیر، صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی اہلیہ رشید جہاں، سجّاد ظہیراور احمد علی جیسے لوگ شامل تھے۔ 1941 میں فیض نے ایلس کیتھرین جارج سے شادی کر لی۔ یہ تاثیر کی اہلیہ کی چھوٹی بہن تھیں جو 16 سال کی عمر سے برطانوی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھیں۔ شادی کی سادہ تقریب سرینگر میں تاثیر کے مکان پر منعقد ہوئی۔ نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا۔ مجاز اور جوش ملیح آبادی نے تقریب میں شرکت کی۔جبکہ فیض نے اپنی بیگم کو مسلمان بھی کیا اور ان کا نام امّ کلثوم رکھّا-

۔ ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں، زبانوں، نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوئے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کی آواز دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حسن و عشق کے دلنواز گیتوں، اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں اپنے عہد کے انسان اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتی ہے۔ غنایئت اور رجائیت ٖفیض کی شاعری کے امتیازی عناصر ہیں۔ خوابوں اور حقیقتوں، امیدوں اور نامرادیوں کی کشاکش نے ان کی شاعری میں گہرائی اور سوزو گدازسے ہمکنار کیا- ان کے الفاظ اور استعاروں میں اچھوتی دلکشی، سرشاری اور پہلوداری ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فیض نے شاعری کا اک نیا دبستاں قائم کیا۔

شروع شروع فیض رومانیت کی طرف آگئے جس کی خاص وجہ ایک طرف ان کی ناکام عشق و محبت اور دوسرا ان کے ماحول کااثر ۔ فیض نے جس زمانے میں شاعری شروع کی اس وقت چاروں طرف رومانی شاعر نظر آتے تھے ۔ فیض نے ان شاعروں کا اثر ضرور قبول کیا تو دوسری طرف رومانی شاعری کو اہمیت دی جاتی تھی۔ فیض نے خوب رومانی شاعری کی اور ان کی رومانی شاعری میں جدائی کی خاموش تڑپ ہے۔ رومانیت کے حوالے سے ان کی نظمیں سرود شبانہ، تہ نجوم، یاس اور ایک منظر فیض کے مصوری کا اعلی نمونہ ہے۔ فیض کی ابتدائی نظمیں رومانیت کے ساتھ ساتھ جذبہ وعشق سے پُر ہیں۔ اگرچہ انھوں نے روایتی موضوعات کو اپنا یا لیکن ان کا یہ جذبہ وعشق کسی خیالی یا تصوراتی محبوب کیلئے نہیں بلکہ ان کی زندگی میں ایک جیتا جاگتا محبوب تھا جن سے وہ عشق میں ناکام ہوئے اور فیض نے مختلف نظموں کو ترتیب دے کر اپنے محبوب سے کبھی جدائی تو کبھی انتظار کی شکل میں نظمیں لکھی ہیں اور ان نظموں میں انھوں نے گہرائی کے ساتھ اپنے جذبات کو اس طرح قلم بند کیا جیسے قارئین کو وہ اپنے حالات معلوم ہوتے ہیں-

۔ گرچہ وہ شاعری کی کئی اصناف پر قدرت رکھتے ہیں، لیکن یہ ان کی غزلیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مطالعے سے اس نتیجے تک پہنچنا دشوار نہیں رہتا کہ  فیض کے اشعار وارداتِ قلبی سے عبارت ہیں۔ ان کے ہاں فکر و فن کی بلندی بھی ہے اور زبان وبیان کا کامل رکھ رکھائو،بھی اور محاورات و روزمرّہ کی پابندی اور فنّی قدروں کی پاس داری بھی۔ ۔ جب کہ  سامنے ان کااپنا   مزاج ہے۔اُنھوں نے اپنے عہد کےشعریاتی تقاضوں کو سامنے رکھ شاعری کی

 اپنی ادبی خدمات کے لئے فیض کو بین الاقوامی سطح پر جتنا سراہا اورنوازا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1962 میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا جو اس وقت کی ذو قطبی دنیا میں نوبیل انعام کا بدل تصور کیا جاتا تھا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے ان کو نوبیل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ 1976 میں ان کو ادب کا لوٹس انعام دیا گیا۔ 1990ء میں حکومت پاکستان نے ان کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ"نشان امتیاز" سے نوازا۔ پھر 2011 کو "فیض کا سال" قرار دیا۔

لینن انعام ملنے کے بعد فیض کی شہرت، جو ابھی تک ہندوستان اور پاکستان تک محدود تھی، ساری دنیا بالخصوص سوویت بلاک کے ممالک تک پھیل گئی۔ انھوں نے کثرت سے غیرملکی دورے کئے اور وہاں لیکچر دئے۔ ان کی شاعری کے ترجمے مختلف زبانوں میں ہونے لگے اور ان کی شاعری پر تحقیقی کام شروع ہو گیا۔ 1964 میں فیض پاکستان واپس آئے اور کراچی میں مقیم ہو گئے۔ ان کو عبداللہ ہارون کالج کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اس کے علاوہ بھی ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی قدر دانی بھی کی اور ان کو اہم عہدے بھی  دئےجن میں وزارت ثقافت کے مشیر کا عہدہ بھی شامل تھا۔

ض احمد فیض نے اپنے پیچھے ادب کا گرانقدر سرمایہ چھوڑا جن کے نام یہ ہیں-

 شاعری کے مجموعے

نقش فریادی

دست صبا

زنداں نامہ

دست تہ سنگ

سر وادی سینا

شام شہر یاراں

مرے دل مرے مسافر

نسخہ ہائے وفا (کلیات)

صلیبیں میرے دریچے میں متاع لوح و قلم ماہ و سال آشنائی'نسخہ ہائے وفا

ان کی زندگی کی ایک بڑی آرزو تھی کہ ان کو پاکستان کی سر زمین پر دفن  ہونے کا اعزاز ملے اور پھر ان کا انتقال بھی پاکستان کے شہر لاہور میں میں ہوا  اور تدفین بھی لاہور میں ہی ہوئ-


ہفتہ، 24 ستمبر، 2022

خلد بریں کے سفر پر روانہ ہوئے امام حسن

 

خلد بریں کے سفر پر روانہ ہوئے امام حسن

اپنے نانا سے ملنے روانہ ہوئے  امام حسن 

ہے تیروں کی بارش جنازے پہ دیکھو 

یہ امّت کا اجر رسالت ' تماشہ تو دیکھو

روایات کے مطابق ۲۸ صفر سبط اکبر رسول خدا، حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شھادت کا دن ہے، وہ امام جس کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جوانان جنت کا سردار قرار دیا۔ رسول اکرم 'ہادئ دوجہاں صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم آپ علیہ السّلام سے بہت محبّت کرتے تھے-لیکن وائے زمانے جس نبی نے اپنا اجر رسالت اپنی آل سے محبّت کی شکل میں مانگا تھا وہ کتنی جلدی آپ کی آل کی خون کی پیاسی ہو گئ اور زہر ہلاہل سے آپ کو شہید کر ڈالا -قاتلہ کو لالچ دی گئ تھی کہ امام حسن کو قتل کرے گی تو اس کی شادی یذید سے کی جائے گی -جب اس نے اپنا کام مکمّل کر لیا تب وہ محل شام پہنچی اور اپنا عوض طلب کیا تو اس کے ہاتھ اور پاوں باندھ کر اسے دریا برد کر دیا گیا  تاکہ قتل کی گواہی مٹ جائے

امام حسن مجتبی علیہ السلام: بے شک ہماری محبت بنی آدم سے گناہوں کو اسی طرح گرادیتی ہے جس طرح ہوا کا جھونکا درخت سے (سوکھے )پتوں کو گرادیتا ہے ۔

  اے بنی آدم! محرمات الٰہی سے باز رہو تو عابد بن جاؤ گے ۔ 

اللہ کی تقسیم سے راضی رھو تو بے نیاز ہو جاؤ گے ۔ 

  جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس کی ایک دعا مستجاب ہے چاہے جلدی چاہے تاخیر سے ۔بے شک قرآن میں ہدایت کے روشن چراغ اور دلوں کی شفا ہے لہٰذا اپنی آنکھوں کو اس کے ذریعہ جلا بخشو اور اپنے دل کو اس کے ذریعہ صیقل دو۔

 غور وفکر کرنا بصیر آدمی کے دل کی زندگی ہے جس طرح تاریکی میں راستہ چلنے والا اپنے ساتھ روشنی لے کر چلتا ہے

اس قرآن میں ہدایت کی روشنی کے چراغ اور دلوں کی شفا ہے ۔

۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو نماز پڑھنے کے بعد طلوع آفتاب تک اپنے مصلے پر بیٹھا رہے اس کو جہنم کی آگ سے بچنے کی سپر حاصل ہو جاتی ہے ۔

  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماہ رمضان کو اپنی مخلوقات کے لئے مسابقہ کا میدان قرار دیا ہے کہ جس میں مخلوقات خدا کی اطاعت کے ذریعہ اس کی مرضی حاصل کرنے پر سبقت لیتے ہیں جہاں ایک گروہ سبقت لے کر کامیاب ہو جاتا ہے اور دوسرا کوتاہی کر کے گھاٹے میں رہ جاتا ہے ۔

  جو علماء کی ہمنشینی میں زیادہ رہے گا اس کی زبان کا بندھن کھل جائے گا اور اس کے ذہن کی گرھیں وا ہو جائیں گی۔اور اپنے نفس میں رشد وارتقاء کا سرور پائے گا اور مذید کی جستجو رکھو اگر اسے حفظ نہ کرپاؤ تو لکھ لو اور اپنے گھروں میں محفوظ رکھو ۔

  جو اللہ کی معرفت رکھے گا اللہ اس سے ضرور محبت کرے گا، اور جو دنیا کی محبّت اپنے دل میں رکھے گا وہ دنیا  میں غلطاں ہو جائے گا

۔  کسی کو اپنا اس وقت تک دوست نہ بناؤ جب تک کہ اس کے اٹھنے بیٹھنے کی جگہ نہ سمجھ لو ۔ اور جب تمہیں معلومات فراہم ہو گئیں اور اس کی ہمنشینی سے تم راضی ھوگئے تو پھر اسے اپنا دوست اور بھائی بنالو اور اس کی کوتاہیوں سے در گذر کرو اور مشکل وقت میں اس کے کام آؤ ۔

 بخل یہ ہے کہ انسان جو انفاق کرے اسے تلف سمجھے اور جسے بچالے اسے شرف سمجھے

 زنا نہ کرنا، چوکھٹ کو صاف رکھنا، برتن کو دھلا ہوا رکھنا بے نیازی و ثروت کا باعث ہے ۔

سیاست یہ ہے کہ حقوق اللہ، زندوں اور مردوں  کے حقوق کی رعایت کرو 

 نعمت پر شکر ادا کرنا، اور مصبیت پر صبر کرنا ہے ۔خدا کو بہت پسند ہے

 اے بنی آدم ! تم جب سے اپنی ماں کے شکم سے باہر آئے ہو مسلسل اپنی زندگی کی عمارت ڈھار ہے ہو لہٰذا جو سامنے آنے والا ہے (قیامت) اس کے لئے موجودہ زندگی سے توشہ فراہم کر لو کہ مومن زاد راہ فراہم کرتا ہے اور کافر لذتوں میں مست رہتا ہے ۔

 جو تمہیں ڈراتا رہے یہاں تک کہ تم اپنی آرزو کو پالو اس شخص سے بہتر ہے جو تمہیں اطمینان دلاتا رہے یہاں تک کہ تمہیں خوف لاحق ہو جائے ۔

 تم سے نزدیک وہ ہے جو مودت و محبت کے ذریعہ تم سے قریب ہو ا ہے چاہے حسب ونسب کے اعتبار سے دور ہی کیوں نہ ہو۔ اور دور وہ ہے جو محبت کے اعتبار سے دور ہے چاہے تمہارا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا فقر و تنگدستی کو ختم کرتا ہے اور کھانے کے بعد ھم وغم کو دور کرتا ہے ۔

آپؑ  کا علمی مقام-یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ آئمہ معصومینؑ علم لدنی کے مالک ہیں اس لیے وہ کسی سے تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائلِ علمیہ سے واقف ہوتے ہیں جن سے عام لوگ حتّی کہ دانشمند حضرات بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ امام حسنؑ نے بھی بچپن میں لا تعداد ایسے عملی مسائل کے جوابات دیئے کہ جن سے بڑے بڑے اہلِ علم عاجز تھے۔ ہم یہاں فقط ایک سوال کا جواب ہی پیش کر سکتے ہیں: آپؑ سے پوچھا گیا: 

وہ دس چیزیں کونسی ہیں جن میں سے ہر ایک کو خداوند عالم نے دوسرے سے سخت پیدا کیاہے؟آپؑ نے جواب میں فرمایا: ‘‘خدا نے سب سے زیادہ سخت پتھر کو پیدا کیا ہے مگر اس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھر کو بھی کاٹ دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سخت آگ ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی ہے اور آگ سے زیادہ سخت پانی ہے جو آگ کو بجھا دیتا ہے اور اس سے زیادہ سخت اور قوی ابر ہے جو پانی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اور اس سے زیادہ طاقتور ہوا ہے جو ابر کو اڑائے پھرتی ہے اور ہوا سے سخت تر وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوا محکوم ہے اوراس سے زیادہ سخت و قوی ملک الموت ہے جو فرشتۂ باد کی بھی روح قبض کرلے گا اور موت سے زیادہ قوی حکمِ خداہے جو موت کو بھی ٹال دیتا۔


جمعہ، 23 ستمبر، 2022

خواجہ نظام الدّین اولیا ءاور نسبت امام علی نقی علیہ السّلام

خواجہ نظام الدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اور نسبت امام علی نقی علیہ السّلام



 
سلطان المشائخ المعروف محبوبِ ا لٰہی  اللہ علیہ کے  والد سید علی بخاری علیہ الرحمہ، حضرت سید عرب علیہ الرحمہ کے حقیقی چچا
زاد بھائی تھے اس طرح  خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ ء نسب   نجیب الطّرفین سادات سے  جا ملتا ہے    یہ وسطِ ایشیا کی ایک ریاست ازبکستان کے شہر بخارا  میں اپنے آبائ وطن سرزمین عرب کو   ترک کر کے یہاں آ بسے تھے  
ان کا تعلّق اہلِ تشیع کے سلسلہء امامت کے نویں امام علی نقی علیہ
السّلام سے تھا  بخاری کہلائے جانے کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ
امام علی نقی علیہ السّلام کے یہاں دو صاحبزادگان پیدا ہوئے  ان صاحبزادگان نے 
 اپنے آبائ وطن سر زمین عرب کو خیر باد کہ کر وسط ایشیا ئ ریاست  کے شہر  بخارا کو رہنے کے منتخب کیا اور ان میں سے ایک بھائ نے  اپنے نام کے ساتھ
نقوی لگانے کے بجائے بخارا کی نسبت بخاری کہلانا پسند کیا جبکہ دوسرے
صاحبزادے نے اپنے نام کے ساتھ اپنے پدر گرامی امام علی نقی علیہ
السّلام کے نام کی نسبت نقوی نام کا لاحقہ پسند کیا 
امام علی نقی علیہ السّلام سے نسبتِ خاص ہونے کے سبب یہ خاندان خود بھی ولیوں کا خاندان تھا 
سید عرب علیہ الرحمہ   طویل عرصے سے
بخارا میں مقیم تھے۔ تجارت آپ کا پیشہ تھا اور اﷲ نے آپ کی روزی میں بہت
برکت دی تھی۔ مشہور مورخ خاقی خان کی روایت کے مطابق حضرت سید عرب علیہ
الرحمہ حضرت خواجہ عثمان ہرونی علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔
خاندان چشتیہ کے یہ وہی مشہور بزرگ ہیں جو سلطان الہند حضرت خواجہ معین
الدین چشتی علیہ الرحمہ کے پیرومرشد تھے۔ اس طرح حضرت سید عرب علیہ
الرحمہ اور حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ میں رشتہ سادات کے علاوہ
رشتہ روحانی بھی موجود تھا۔ حضرت سید عرب علیہ الرحمہ بخارا میں اقامت گزین ہوتے ہوئے
 بہت دنوں سے
ہندوستان جانے کے بارے میں سوچ رہے تھے تاکہ اس ملک کے حالات کا جائزہ لے
کر تجارتی روابط قائم کرسکیں۔
کچھ دن بعد حضرت سید عرب علیہ الرحمہ نے خواب میں دیکھا۔ کوئی شخص انہیں
مخاطب کرکے کہہ رہا تھا

’’سید! تمہارا ارادہ نیک ہے، ہندوستان چلے جاؤ‘‘

اب سید عرب علیہ الرحمہ کو یقین ہوگیا کہ عازم ہندوستان ہونے کا خیال بے
سبب نہیں تھا۔ آپ نے زوجہ محترمہ سے اپنا خواب بیان کیا، وہ ایک وفا شعار
خاتون تھیں۔ انہوں نے شوہر کے خواب کو حقیقت سمجھا اور رضامندی کا اظہار
کردیا۔

حضرت سید علی بخاری علیہ الرحمہ، حضرت سید عرب علیہ الرحمہ کے حقیقی چچا
زاد بھائی بھی تھے اور دونوں میں بہت گہری دوستی بھی تھی۔ جب سید عرب
علیہ الرحمہ ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے تو سید علی بخاری علیہ الرحمہ
بھی ہمراہ تھے۔ کچھ دنوں تک یہ دونوں بزرگ اور دونوں بھائی لاہور میں
مقیم رہے اور پھر ان دونوں سید خاندانوں نے بدایوں میں مستقل سکونت
اختیار کرلی۔ سید عرب علیہ الرحمہ کے دو صاحبزادے تھے۔ خواجہ عبداﷲ علیہ
الرحمہ اور خواجہ سید محمودعلیہ الرحمہ ۔ ایک صاحب زادی بی بی زلیخا علیہ
الرحمہ تھیں، جنہیں زہدوتقویٰ کے سبب اپنے زمانے کی رابعہ بصری علیہ
الرحمہ کہا جاتا تھا۔ سید عرب علیہ الرحمہ کے سینکڑوں خدمت گارتھے جو آپ
کے پیسے سے تجارت کرتے تھے۔ سید عرب علیہ الرحمہ کا شمار امیر وکبیر
لوگوں میں ہوتاتھا۔ جب بی بی زلیخا علیہ الرحمہ جوان ہوئیں تو سید عرب
علیہ الرحمہ نے اپنے چچا زاد بھائی اور دوست سید علی بخاری علیہ الرحمہ
سے کہا۔

’’میں چاہتا ہوں کہ میرے اور تمہارے خاندانی رشتے زیادہ مضبوط ہوجائیں‘‘

سید علی بخاری علیہ الرحمہ سید عرب علیہ الرحمہ کی گفتگو کا مفہوم سمجھنے
سے قاصر رہے۔

’’یہ رشتے روز اول کی طرح مضبوط ہیں اور بفضل خدا آئندہ بھی اسی طرح
استوار رہیں گے‘‘

’’علی! تم جانتے ہو کہ میری بچی زلیخا سن بلوغت کو پہنچ چکی ہے۔ اس لئے
میں اس کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں‘‘

سید عرب علیہ الرحمہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

’’کوئی لڑکا آپ کی نظر میں ہے؟‘‘

سید علی علیہ الرحمہ نے پوچھا۔

’’تمہارے بیٹے سید احمد سے بہتر لڑکا کون ہوسکتا ہے؟‘‘

سید عرب علیہ الرحمہ نے دوست کے سامنے اپنا عندیہ ظاہر کردیا۔

’’نہیں شیخ! وہ آپ کے ہم پایہ نہیں ہے‘‘

سید علی علیہ الرحمہ نے کسی تکلف کے بغیر کہا۔

’’میرے اور آپ کے معاشی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ ظلم ہے کہ
نازونعم میں پرورش پانے والی لڑکی کو ایک ایسے شخص سے وابستہ کردیا جائے
جس کے ذرائع آمدنی بہت محدود ہوں‘‘

’’علی! تم نہیں جانتے کہ کثرت مال کے باوجود میں نے اپنے بچوں کو فقر و
قناعت کی تعلیم دی ہے‘‘

سید عرب علیہ الرحمہ نے کہا۔

’’میں اپنی بیٹی کا ہاتھ اس نوجوان کے ہاتھ میں دے رہا ہوں جو زہد وتقویٰ
اور علم کی دولت سے مالا مال ہے‘‘

آخر سید علی علیہ الرحمہ اس نئے رشتے پر رضامند ہوگئے اور 615ھ میں سید
احمد بخاری علیہ الرحمہ اور بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کی شادی ہوگئی۔

بیٹی کی شادی کے ایک سال بعد 616ھ میں سید عرب علیہ الرحمہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ جیسی نیک سیرت خاتون
سے وابستگی کے بعد بہت خوش تھے لیکن حالات کی تنگی کے باعث اکثر کہا کرتے
تھے

’’میں تمہیں وہ آسائشیں نہیں دے سکتا جن کی تم بچپن سے عادی رہی ہو‘‘

بی بی زلیخا علیہ الرحمہ اپنے شریک زندگی کی تالیف قلب کے لئے عرض کرتیں

’’ایک مسلمان عورت کی آسائشوں کی معراج یہ ہے کہ اس کا شوہر اس سے راضی رہے‘‘

’’بی بی! میں دل و جان کے ساتھ تم سے راضی ہوں مگر یہ خلش مجھے ہمیشہ بے
چین رکھتی ہے‘‘

سید احمد بخاری علیہ الرحمہ ایک حساس انسان تھے۔ اس لئے بی بی زلیخا علیہ
الرحمہ کی تکلیف کا خیال کرکے بے قرار ہوجاتے تھے۔ شادی سے پہلے یہ صورت
تھی کہ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کی خدمت کے لئے کئی نوکرانیاں مامور تھیں
… اور اب یہ حال تھا کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے گھر کا سارا کام کاج کرنا
پڑتا تھا۔

پھر کچھ دن بعد سلطان شمس الدین التمش کے حکم کے مطابق سید احمد بخاری
علیہ الرحمہ کو بدایوں کے عہدہ قضا پر فائز کردیا گیا۔ والی ہندوستان نے
سید احمد بخاری علیہ الرحمہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔

’’مجھے دیر سے خبر ملی کہ بدایوں میں آپ جیسا صاحب کردار شخص موجود ہے۔
براہ کرم عہدہ قضا قبول فرمایئے اور اسلامی سلطنت کے استحکام میں میرے
ساتھ تعاون کیجئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں گے
اور اس مقدس عہدے کوامراء کی دراز دستیوں سے محفوظ رکھیں گے‘‘

حضرت سید علی علیہ الرحمہ نے سلطان شمس الدین التمش کا شکریہ ادا کیا اور
اس دعا کے ساتھ کرسی انصاف پر جلوہ افروز ہوئے۔

’’اے قادر و عادل! اپنے اس کمزور بندے سید علی کو اتنی طاقت عطا کر کہ وہ
اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہوسکے‘‘

حضرت سید علی بخاری علیہ الرحمہ نے کبھی کسی امیر و وزیر کی سفارش قبول
نہیں کی اور آزادانہ فیصلے کئے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ برسر اقتدار
طبقے کے کسی فرد کو ملزم کی حیثیت سے عدالت میںلایاجاتا مگر آپ اسے کسی
قسم کی رعایت نہ دیتے۔ آپ کے اس طرز عمل کے خلاف دربار سلطانی میں شکایت
کی گئی کہ سید احمد بخاری علیہ الرحمہ امراء کا لحاظ نہیں رکھتے۔

والی ہندوستان شکایت کرنے والوں کو سردبار جھڑک دیتا

’’سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بحسن و خوبی اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔ اگر
مجھے یہ اطلاع دی جاتی کہ بدایوں کے قاضی امراء کے احترام میں کھڑے
ہوجاتے ہیں تو میں ان کی گرفت کرتا۔ یہ تو ان کے منصف ہونے کی روشن دلیل
ہے کہ وہ مقدمے کے دوران بیرونی اثرات کو قبول نہیں کرتے۔ آئندہ اس قسم
کی شکایتیں کرکے میرا وقت برباد نہ کیا جائے‘‘

حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمہ کی زندگی پرسکون تھی مگر پھر بھی ایک
خلش انہیں مضطرب رکھتی تھی۔ شادی کو پندرہ سال ہوچکے تھے مگر سید احمد
بخاری علیہ الرحمہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ
بھی اکثر اداس رہا کرتی تھی۔ سید احمد علیہ الرحمہ انہیں مختلف انداز میں
تسلیاں دیتے۔ جواب میں بی بی زلیخا علیہ الرحمہ فرماتیں۔

’’میں اداس ضرور ہوں مگر رحمت حق سے مایوس نہیں ہوں‘‘

آپ اکثر رات کے سناٹے میں وہ دعا مانگا کرتے تھے جو حضرت ذکریا علیہ
السلام کا ورد تھا۔ اﷲ کے یہ محبوب پیغمبر اولاد کی تمنا کرتے کرتے بوڑھے
ہوچکے تھے مگر آپ نے امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ روزانہ نصف شب کو خالق
کائنات کے سامنے اپنا دامن مراد پھیلا دیتے تھے اور گریہ و زاری کے ساتھ
عرض کرتے تھے۔

’’اے میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ کہ تو بہتر وارث دینے والا ہے‘‘

پھر ایک دن جلیل القدر نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو حضرت
ذکریا علیہ السلام کی مراد تھے۔

حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بھی رات کی تاریکیوں میں غمناک آنکھوں
کے ساتھ یہی دعا مانگا کرتے تھے۔

آخر دعائیں مقبول ہوئیں اور 636ھ میں بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کے بطن سے
ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے چہرے کی روشنی سے گھر کے دروبام منور ہوگئے۔
بچے کا نام سیّد  محمد رکھا گیا۔  ۔
 ابھی یہ بچّہ صغیر سن ہی تھا کہ گھر کے دروازے پر ایک اجنبی مردِ قلندر نے آواز دی اور سیّد محمّد جیسے ہی دروازے پر گئے اجنبی نے انہیں نظام الدّین کا لقب عطا کر دیا   اور یہی لقب آپ کے لئے زبانِ زدِ عام ہو گیا 
 ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,لیکن آپ کو آپ کی والدہ پیار سے نظام کہ کر پکارتی تھیں ،،ابھی تو بچپن کا ابتدائ زمانہ ہی بیت رہا تھا کہ والد گرامی کا  مظبوط سایہ سر سے اٹھ لیکن آپ کی باہمّت اور خودادر والدہ بی بی زلیخا نے  ناتو اپنے امیر کبیر میکے سے مدد چاہی اور نا ہی بچّے کو تحصیلِ علم کی راہ میں مالی مشکلات کا شکار ہونے دیا
 اور اپنے گھر کی چاردیواری میں بیٹھ کر سوت کات کات کر ہونہار بیٹے کی تعلیم پوری کرتی رہیں  یہاں تک کہ  حضرت خواجہ نظام ا لدّین رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر دستار ِ فضیلت باندھنے کا وقت آ پہنچا
 سولہ سال کی عمر
میں دہلی تشریف لائ۔ اپنے وقت کے فاضل ترین اساتذہ سے حدیث، فقہ، ہیئت،
اصول، تفسیر اور علم ہندسہ کی تعلیم حاصل کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے
علم کی وسعت اور قوت استدلال کے سبب ’’محفل شکن‘ کہلائے… اور نوجوانی ہی
میں تمام علمائے ہند پر سبقت لے گئے۔ عوام میں آپ کی محبوبیت کا یہ عالم
تھا کہ قیامت تک کے لئے  محبوب الٰہی قرار پائے۔ سلطان علاؤ الدین خلجی
جیسا باجبروت حکمران زندگی بھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی
زیارت کے لئے ترستا رہا مگر آپ علیہ الرحمہ نے اسے ملاقات کا شرف نہیں
بخشا۔گیا ۔

بدایوں شریف سے علمِ حصولی کی تحصیل کے بعد  والدہ محترمہ اور ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ دہلی تشریف لائے
اوریہاں سلطان التمش کے اتالیق مولانا شمس الملک سے علومِ ظاہری کی اعلیٰ
تعلیم حاصل کی اور بہت جلد آپ کا شمار دہلی کے ممتاز علماءو فضلاءمیں
ہونے لگا۔شروع دن سے ہی آپ کے قلب مبارک میں عشق الٰہی کی شمع روشن تھی
تمام تر دینی و دنیوی علوم میں اوج و کمال کے باوجود علم حقیقت و معرفت
کی تشنگی ان کے دل کو بیقرار رکھتی تھی۔انہیں روحانی و باطنی رہنمائی کے
لیے ایک مرشد کامل کی شدید آرزو تھی ایک بارجب آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ
قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ کی زیارت کے لیے
وہاں حاضر ہوئے تو ایک مجذوب بزرگ سے ملاقات ہوئی آپ نے ان سے دعا کی
درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں دہلی شہرکے قاضی کے عہدہ پر فائزکر دے
ان بزرگ نے فرمایا: نظام الدین تم قاضی بنناچاہتے ہو،میں تو تمہیں دینِ
حق کے بادشاہ کے عہدہ پر فائز دیکھ رہا ہوں، تم وہ بلند مرتبہ حاصل کروگے
کہ ساری دنیا تم سے فیض پائے گی۔حضرت کے دوست مرّبی اور اپنے وقت کے بہت
بڑے ولی کامل حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رحمة اللہ علیہ نے بھی حضرت
محبوبِ الٰہی سے فرمایا تھا تم قاضی نہیں ایسی چیز بنوگے جسے میں جانتا
ہوں اور پھر ایک دن ابو بکر نامی ایک قوال ملتان سے دہلی پہنچا اس کی
زبانی حضرت خواجہ فرید الدین چشتی گنج شکر رحمة اللہ علیہ کے حالات و
کمالات سنے آپ کے دل میں بابا صاحب سے محبت کا ایسا شدید غائبانہ جذبہ
بیدار ہواکہ آپ ان کی زیارت کے لیے بیقرارہوگئے اور اجودھن پہنچ کرحضرت
بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔حضرت صاحب
علیہ الرحمہ کو بہ تائید ربانی حضرت نظام الدین کی روحانی خصوصیات کا علم
تھا۔یقیناً حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ اس امر سے آگاہ تھے کہ نظام
الدین کو اللہ پاک نے کس عظیم خدمت کے لیے تیارکیاہے۔حضرت نظام الدین
بابا صاحب کے مریدبنے اور چند ماہ اپنے مرشد برحق کی خدمت میں رہ کر ان
کی خصوصی توجہ اور محبت حاصل کی اور خرقہ خلافت کی نعمت سے سرفراز ہوکر
دہلی واپس تشریف لائے اور مرشد کے فرمان کے مطابق مجاہدہ اور عبادات میں
مشغول ہوکرمادی دنیاکی تمام خواہشات اور آرزﺅں سے الگ ہوگئے۔آپ ہمیشہ
روزہ رکھتے تھے عبادات اور سخت ریاضت کے ساتھ ساتھ آپ درس و ہدایت اور
اصلاح معاشرہ کے فرائض بھی انجام دیتے ۔دلی شہر میں آپ کی عظمت و بزرگی
کا زبردست شہرہ ہوا اور ہر وقت ارادتمندوں کا ہجوم آپ کے ارد گرد رہنے
لگا اس سے آپ کی عبادات میں خلل پڑنے لگا، آبادی سے گھبرا کر آپ ایک دن
موضع حوض رانی کے قریب ایک باغ میں جاکر یادِ الٰہی میں مشغول ہوئے۔وہاں
آپ نے دعا مانگی اے اللہ! میں اپنے اختیار سے کہیں رہنا نہیں چاہتاجہاں
تیری رضا ہو مجھے وہاں رکھ۔غیب سے آواز آئی غیاث پور تیری جگہ ہے (واللہ
علم) یہ وہی جگہ ہے جہاں آج بستی حضرت نظام الدین اولیاءکا شاندارعلاقہ
ہے۔اس وقت غیاث پور ایک چھوٹا ساگاﺅں تھا اللہ کے حکم سے آپ نے اس متبرک
مقام پر قیام فرمایا۔یہ سلطان غیاث الدین بلبن کا دورِ حکومت تھا۔سلطان
آپ کا بے حد معتقد تھااس نے آپ سے شہر میں قیام فرمانے کی درخواست کی
لیکن آپ نے منع فرما دیاآپ کی برکتوں سے وہ ویران مقام بہت جلد زیارت گاہ
خلق بنا۔دور دور سے ہزاروں لوگ آپ کی دعاﺅں سے اپنی زندگی سنوارنے کے لیے
حاضر ہونے لگے یہاں تک کہ آپ کی محبوبیت اور آپ کی ہر دلعزیزی کی شہرت

ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیلتی گئی۔  حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی نظام الدین اولیا کی ولادت  یو پی کے مشہور شہر بدایوں میں ہوئی تھی۔ پیدائش کے سنہ میں اختلاف ہے کوئی 634ھ کہتا ہے کوئی 636ھ۔  وصال دہلی میں  18 ربیع الثانی 725ھ کو ہوا۔  ماں باپ:  حضرت کی والدہ اور والد دونوں بڑے نیک اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔  والدہ کا نام سیدہ بی بی زلیخا تھا اور والد کا اسم گرامی سید احمد تھا۔  والدہ کا خواب:  سیدہ بی بی زلیخا اور حضرت سید احمد کو اللہ تعالی نے دو بچے عنایت کیے تھے۔ ایک سید محمد جو بعد میں سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی کے نام سے مشہور ہوئے اور دوسری صاحبزادی سیدہ بی بی زینب یہ دونوں بچے ابھی بہت کم عمر تھے کہ والدہ ماجدہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی پوچھتا ہے بیٹا چاہتی ہو یا شوہر؟ ان کے منہ سے بے اختیار نکل گیا بیٹا! نیند سے ہوشیار ہوئیں تو افسوس کرنے لگیں کہ میں نے بیٹے کی بجائے شوہر کیوں نہ کہا مگر پھر اس خیال سے دل کو تسلی دے لی کہ خواب کی باتیں اپنے اختیار کی تھوڑی ہوتی ہیں۔ اس واقعے کے بعد خدا کا کرنا یہ ہوا کہ حضرت سید احمد اپنے دونوں چھوٹے چھوٹے بچوں اور اہلیہ محترمہ سیدہ بی بی زلیخا کو چھوڑ کر جنت سدھار گئے۔ ا

گرچہ حضرت سیدہ بی بی زلیخا نے میکے والوں سے امداد لینی پسند نہیں کی اور خود محنت مشقت کر کے اپنے یتیم بچوں کی پرورش کرنے لگیں۔ وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور لونڈی اسے بازار میں جاکر بیچ آتی تھی۔ گزر بسر ہو جاتی تھی۔ مگر ایسی تنگی ترشی سے کہ بیوہ ماں اور بن باپ کے بچوں کو کئی کئی وقت کے فاقے کرنے پڑتے تھے۔ تاہم اس صابر خاتون کی پیشانی پر بل نہ آتا تھا اور پیارے بچے بھی ماں کے ساتھ راضی برضا رہتے تھے۔ اللہ میاں کے مہمان: جس دن حضرت کے ہاتھ فاقہ ہوتا تھا۔ ماں بچوں سے کہتی تھیں کہ آج ہم اللہ میاں کے مہمان ہیں! بچے سمجھ جاتے تھے کہ آج گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے اور روٹی کی ضد کرنے کی بجائے بھوکے پیٹ ہی خوش رہتے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مجھے بچپن میں خدا کی مہمانی کا اتنا شوق ہو گیا تھا کہ اب کئی وقت تک ہم کو کھانا ملتا رہتا تھا تو میں والدہ سے پوچھا کرتا تھا کہ ہم اللہ میاں کے مہمان کب بنیں گے؟

تعلیم: بدایوں اس زمانے میں بڑا آباد شہر تھا اور یہاں بڑے بڑے عالم اور اولیا اللہ رہا کرتے تھے۔ حضرت محبوب الہی نے بھی ان علما سے تعلیم پائی اور بزرگوں کا فیض اٹھایا۔ حضرت مولانا علاالدین اصولی بھی حضرت کے استادوں میں تھے۔ ان کا مزار بدایوں شریف میں ہے استاد نے کہا کہ اب تم اس قابل ہو گئے ہو کہ دستار فضیلت تمہارے سر پر باندھی جائے چنانچہ حضرت کی والدہ ماجدہ نے خود اپنے ہاتھ سے سوت کاتا اور اس کی پگڑی بنی اور تمام مشائخ اور اولیااللہ کے جلسے میں حضرت کی دستاربندی ہوئی۔ دہلی تشریف آوری: بدایوں کی تعلیم پوری کرنے کے بعد حضرت مزید اعلی تعلیم کیلئے دہلی تشریف لائے اور یہاں کئی برس تک علم حاصل کرتے رہے اور دہلی کے مشہور علما مولانا شمس الملک اور استاد مولانا کمال الدین زاہد کو آپ کا استاد بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اس دوران کچھ عجب اتفاقات بھی ہوئے جن کے باعث حضرت نظام الدین اولیا کے دل میں حضرت بابا فرید گنج شکر کی محبت پکی ہوتی گئی۔ ادھر دہلی پہنچ کر حضرت ٹھہرے تو اتفاق سے حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کے پڑوس میں ٹھہرے حضرت متوکل بابا صاحب کے بھائی اور بڑے عالم اور پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ ان سے حضرت کا کافی ملنا جلنا رہا۔ انہوں نے حضرت کو مشورہ دیا کہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے پاس اجودھن جا۔و حضرت محبوب الہی کی تو گویا مراد بر آئی۔ بچپن سے بابا صاحب کی محبت اور عقیدت دل میں بیٹھی ہوئی تھی فورا اجودھن روانہ ہوگئے۔

بیعت: حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی اجودھن (موجودہ پاک پتن) پہنچے تو یہ حضرت بابا صاحب کی ضعیفی کا زمانہ تھا اور حضرت محبوب الہی نوعمر تھے۔ بابا صاحب نے ان کو دیکھتے ہی شعر پڑھا۔ اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ (تیری جدائی کی آگ نے دلوں کو کباب کر رکھا ہے اور تیرے اشتیاق کے سیلاب نے جانوں کو خراب کررکھا ہے) حضرت بابا صاحب جیسے جاہ و جلال کا بزرگ ایک اجنبی نوجوان کیلئے یہ شعر پڑھے تو ظاہر ہے کہ نوجوان کا کیا حال ہوگا۔ حضرت بھی سہم کر دم بخود رہ گئے مگر جذبات اور عقیدت کے جوش میں اتنی بات ضرور زبان سے نکلی کہ آپ کی قدم بوسی کا بڑا اشتیاق تھا بابا صاحب نے ان کی کیفیت کو محسوس فرما لیا اور دل جوئی کے طور پر فرمایا نووارد پر اسی طرح خوف طاری ہوا کرتا ہے۔

 اجودھن پہنچ کر حضرت محبوب الہی حضرت بابا صاحب کے مرید ہو گئے اور ان کے آنکھوں تلے تعلیم و تربیت پانے لگے۔ اجودھن میں بابا صاحب نے حضرت کو خواجہ سید بدر الدین اسحاق کے سپرد کر دیا تھا کہ انہیں پیر کے ادب آداب سکھائیں۔ حضرت سید بدر الدین اسحاق حضرت بابا صاحب کے داماد اور خلیفہ تھےدہلی تشریف آوری: بابا صاحب کی خلافت معمولی چیز نہیں تھی۔ سلطان المشائخ کو دارالسطنت دہلی جیسے مرکزی مقام پر مامور کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ انہیں مملکت روحانی کا تاجدار بنایا جا رہا ہے مگر اس تاجدار کی اپنی تخت گاہ میں آمد کے وقت کیا شان تھی۔ اس کا انداز ذیل کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ دہلی پر مغلوں کا حملہ: اس دوران دہلی پر  مغل فوج نے حملہ کر دیا علاالدین خلجی بادشاہ بڑا پریشان ہوا کیونکہ اس کی اچھی فوجیں باہر گئی ہوئی تھیں۔ مجبورا اس نے حضرت محبوب الہی کے پاس آدمی بھیجے تاکہ حضرت دعا فرمائیں اور اس کو فتح نصیب ہو

حضرت نے اس کی درخواست منظور کرکے دعا فرمائی اور کہہ دیا اطمینان رکھو کہ مغل فوج کل انشااللہ واپس چلی جائے گی۔کرامت: سب حیران تھے کہ حضرت کا یہ فرمان کیسے پورا ہوگا کیونکہ مغل حملہ آور شہر کا محاصرہ کیے پڑے تھے۔ بغیر لڑے بھڑے اور اپنا مقصد حاصل کیے وہ واپس کیسے جا سکتے تھے؟ مگر دوسرے دن سب حضرت کی کرامت کے قائل ہو گئے 

امام شافعی رحمۂ اللہ علیہ

محمد بن ادریس شافعی(امام شافعی) اذافی مجلس ذَکَرُواعلیاً وسِبْطَیْہِ وَفاطمةَ الزَّکیَةَ فَاجْریٰ بَعْضُھم ذِکریٰ سِوٰاہُ فَاَیْقَنَ اَنَّہُ سَلَقْلَقِیَةَ اِذٰا ذَکَرُوا عَلیَاً اَو ْبَنیہِ تَشٰاغَلَ بِالْرِّوایاتِ الْعَلِیَةِ یُقال تَجاوَزُوا یاقومِ ھٰذا فَھٰذا مِنْ حَدیثِ الرّٰافَضِیََّّةِ بَرِئتُ الی الْمُھَیْمِن مِن اناسٍ بَرونَ الرَّفْضَ حُبَّ الْفٰاطِمَیةِ عَلیٰ آلِ الرَّسولِ صَلوةُ رَبِّی وَ َلَعْنَتُہُ لِتِلْکَ الْجٰاھِلِیَّةِ

 ”جب کسی محفل میں ذکر ِعلی علیہ السلام ہویا ذکر ِسیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاہویا اُن کے دوفرزندوں کا ذکر ہو، تب کچھ لوگ اس واسطے کہ لوگوں کو ذکر ِمحمد و آلِ محمدسے دور رکھیں، دوسری باتیں چھیڑ دیتے ہیں۔ تمہیں یہ یقین کرلینا چاہئے کہ جوکوئی اس خاندان کے ذکر کیلئے اس طرح مانع ہوتا ہے،وہ بدکار عورت کا بیٹا ہے۔ وہ لمبی روایات درمیان میں لے آتے ہیں کہ علی و فاطمہ اور اُن کے دو فرزندوں کا ذکر نہ ہوسکے۔

وہ یہ کہتے ہیں کہ اے لوگو! ان باتوں سے بچو کیونکہ یہ رافضیوں کی باتیں ہیں(میں جو امام شافعی ہوں) خدا کی طرف سے ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو فاطمہ سے دوستی و محبت کرنے والے کو رافضی کہتے ہیں۔ میرے رب کی طرف سے درودوسلام ہو آلِ رسول پر اور اس طرح کی جہالت(یعنی محبانِ آلِ رسول کو گمراہ یا رافضی کہنا) پر لعنت ہو“۔ حوالہ جات 1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ329،باب62،از دیوانِ شافعی۔ 2۔ شبلنجی،کتاب نورالابصار میں،صفحہ139،اشاعت سال1290۔ علیٌّ حُبُّہُ الْجُنَّة اِمامُ النّٰاسِ وَالْجِنَّة وَصِیُّ المُصْطَفےٰ حَقّاً قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّة ”حضرت علی علیہ السلام کی محبت ڈھال ہے۔ وہ انسانوں اور جنوں کے امام ہیں۔ وہ حضرت محمد مصطفےٰ کے برحق جانشین ہیں اور جنت اور دوزخ تقسیم کرنے والے ہیں“۔

 حوالہ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں،جلد1،صفحہ326۔ قٰالُوا تَرَفَّضْتَ قُلْتُ کَلّٰا مَاالرَّفْضُ دِیْنی وَلَااعْتِقٰادِی لٰکِنْ تَوَلَّیْتُ غَیْرَ شَکٍّ خَیْرَ اِمامٍ وَ خَیْرَ ھٰادٍ اِنَّ کٰانَ حُبُّ الْوَصِیِّ رَفْضاً فَاِنَّنِی اَرْفَضُ الْعِبٰادِ ”مجھے کہتے ہیں کہ تو رافضی ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ رافضی ہونا ہرگز میرا دین اور اعتقاد نہیں۔ لیکن بغیر کسی شک کے میں بہترین ہادی و امام کو دوست رکھتا ہوں۔ اگر وصیِ پیغمبر سے دوستی و محبت رکھنا رفض(رافضی ہونا) ہے تو میں انسانوں میں سب سے بڑا رافضی ہوں“۔ حوالہ جات 1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،صفحہ330،اشاعت قم،طبع اوّل1371۔ 2۔ شبلنجی، کتاب نورالابصار،صفحہ139،اشاعت 1290۔ یہ بھی پڑھئے: دعائے استخارہ، خدا اور رسول کریم ﷺ کی طرف سے بہترین تحفہ یٰارٰاکِباً قِفْ بِالْمُحَصَّبِ مِنْ مِنیٰ وَاھْتِفْ بِسٰاکِنِ خِیْفِھٰا وَالنّٰاھِضِ سَحَراً اِذَافَاضَ الْحَجِیْجُ اِلٰی مِنیٰ فَیْضاً کَمُلْتَطَمِ الْفُراتِ الْفٰائِضِ اَنْ کٰانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّد فَلْیُشْھَدِ الثَّقَلاٰنِِ اِنِّیْ رٰافِضِیْ ”اے سواری! تو جو مکہ جارہی ہے،ریگستانِ منیٰ میں توقف کرنا،صبح کے وقت جب حاجی منیٰ کی طرف آرہے ہوں تو مسجد ِخیف کے رہنے والوں کو آواز دینا اور کہنا کہ اگر دوستیِ آلِ محمد رفض ہے تو جن و انس یہ شہادت دیتے ہیں کہ میں رافضی ہوں“۔ حوالہ جات 1۔ ابن حجر مکی،صواعق محرقہ،باب9،صفحہ97،اشاعت ِمصر۔ 2۔ یاقوتِ حموی، کتاب معجم الادباء،جلد6،صفحہ387۔ 3۔ فخر رازی، تفسیر کبیر میں،جلد7،صفحہ406۔ وَلَمَّا رَأَیْتُ النّٰاسَ قَدْ ذَھَبَتْ بِھِمْ مَذَاھِبُھُمْ فِیْ اَبْحَرِ الْغَیِّ وَالْجَھْلِ رَکِبْتُ عَلَی اسْمِ اللّٰہِ فِیْ سُفُنِ النَّجٰا وَھُمْ اَھْلُ بَیْتِ الْمُصْطَفیٰ خٰاتِمِ الرُّسُلِ وَاَمْسَکْتُ حَبْلَ اللّٰہِ وَھُوَوِلاٰوٴُھُمْ کَمٰا قَدْ اُمِرْنٰا بِالتَمَسُّکِ بِالْحَبْلِ اِذَا افْتَرَقَتْ فِی الدِّیْن سَبْعُوْنَ فِرْقَةً وَنِیْفاًعَلیٰ مٰاجٰاءَ فِیْ وٰاضِحِ النَّقْلِ وَلَم یَکُ ناجٍ مِنْھُمْ غَیْرَ فِرْقَةٍ فَقُلْ لِیْ بِھٰا یٰا ذَاالرَّجٰاجَةِ وَالْعَقْلِ أَفِی الْفِرْقَةِ الْھُلاٰکِ آلُ مُحَمَّد اَمِ الْفِرْقَةُ الّلا تِیْ نَجَتْ مِنْھُمْ قُلْ لِیْ فَاِنْ قُلْتَ فِی النّٰاجَیْنِ فَالْقَوْلُ وٰاحِدٌ وَاِنْ قُلْتَ فِی الْھُلاٰکِ حَفْتَ عَنِ الْعَدْلِ اِذَاکٰانَ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْھُمْ فَاِنَّنِیْ رَضِیْتُ بِھِمْ لاٰزٰالَ فِیْ ظِلِّھِمْ ظِلِّیْ رَضِیْتُ عَلِیّاً لِیْ اِمٰاماً وَنَسْلَہُ وَاَنْتَ مِنْ الْبٰاقِیْنَ فِیْ اَوْسَعِ الْحَلِ

 ”جب میں نے لوگوں کو جہالت اور گمراہی کے سمندر میں غرق دیکھا تو پھر بنامِ خدا کشتیِ نجات (خاندانِ رسالت اور اہلِ بیت ِ اطہار علیہم السلام) کا دامن پکڑا اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھاما کیونکہ اللہ کی رسی جو دوستیِ خاندانِ رسالت ہے ،کو پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔جس زمانہ میں دین تہتر فرقوں میں بٹ جائے گا تو کہتے ہیں کہ صرف ایک ہی فرقہ حق پر ہوگا ،باقی باطل پر ہوں گے۔اے عقل و دانش رکھنے والے! مجھے بتا کہ جس فرقہ میں محمد اورآلِ محمد ہوں گے، کیا وہ فرقہ باطل پر ہوگا یا حق پر ہوگا؟ اگر تو کہے کہ وہ فرقہ حق پر ہوگا تو تیرا اور میرا کلام ایک ہے اور اگر تو کہے کہ وہ فرقہ باطل اور گمراہی پر ہوگا تو تو یقینا صراطِ مستقیم سے منحرف ہوگیا ہے۔ یہ جان لو کہ خاندانِ رسالت قطعاً اور یقینا حق پر ہے اور صراطِ مستقیم پر ہے۔ میں بھی اُن سے راضی ہوں اور اُن کے طریقے کو قبول کرتا ہوں۔ پروردگار! اُن کا سایہ مجھ پر ہمیشہ قائم و دائم رکھ۔ میں حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد کی امامت پرراضی ہوں کیونکہ وہ حق پر ہیں اور تو اپنے فرقے پر رہ ،یہاں تک کہ حقیقت تیرے اوپر واضح ہوجائے“۔ حوالہ کتاب شبہائے پشاور،صفحہ227،نقل از ذخیرة المال،مصنف:علامہ فاضل عجیلی۔ یہ بھی پڑھئے: کرتے ہیں قلم روز قلم کار کے بازو یااَھْلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ حُبُّکُمْ فَرَضٌ مِنَ اللّٰہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزَلَہُ کَفَاکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْقَدْرِ اِنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُمْ لَاصَلوٰةَ لَہُ ”اے اہلِ بیت ِ رسول اللہ!آپ کی دوستی و محبت اللہ کی جانب سے قرآن میں فرض قرار دی گئی ہے: (مندرجہ بالا اشعار میں امام شافعی کا اشارہ آیت ِ زیر کی طرف ہے: ”قُلْ لا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“) آپ کی قدرومنزلت کیلئے یہی کافی ہے کہ جو آپ پر درود نہ پڑھے، اُس کی نماز قبول نہیں ہوتی“۔ اشعار کے آخر میں سخت و تند لہجہ میں دشمنانِ اہلِ بیت کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: لَولَمْ تَکُنْ فِی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ ثَکَلَتْکَ اُمُّکَ غَیْرَ طَیِّبِ الْمَوْلِدِ ”اگر تم میں آلِ محمدکی محبت نہیں تو تمہاری ماں تمہارے لئے عزا میں بیٹھے کہ تم یقینا حرام زادے ہو۔ حوالہ جات 1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینا بیع المودة،صفحہ354،366،اشاعت قم،طبع اوّل1371۔ 2۔ ابن حجر، کتاب صواعق محرقہ، صفحہ88۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر