ہفتہ، 2 اگست، 2025

ایک انگریز شیعہ مسلمان کی داستان زندگی

  



حیدرآباد  سندھ  میں گزشتہ کافی  برس   سےمحرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ذوالجناح  کا  ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ کون تھا اور اس کی کہانی کیا ہےحیدرآباد سندھ کے چند عمر رسیدہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ  وہ انگریز شیعہ  مسلمان  تھا جس نے غم حسین کو اپنانے کے لئے  اپنا مذہب   ترک کر کے شیعہ مسلمان  مذہب اپنا لیا  تھا  اور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کئے عزا داری میں پیش پیش نظر آتا تھا۔اپنی نوجوانی کی خوبصورت عمر میں بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقعہ کربلا سن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انہوں نے گھر بار بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم حسین‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔ ان کی والدہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں ڈاکٹر تھیں اور والد فاریسٹ آفیسر تھے۔ جو کہ ہمیشہ شکار میں مصروف رہتے تھے۔چارلی کی ماں  اور باپ دونوں  انگریز تھے - چارلی کے والد  کے منشی  کی بیوی سے چارلی کی والدہ کا دوستانہ تھا  لیڈی ڈفرن کے یہاں شادی کے کے کافی عرصے بعد تک کوئ اولاد نہیں تھی



  محرم آنے پر وہ منشی کی بیوی کو  اور علاقے کی دوسری خواتین کو  زوالجناح  کی آمد پر نذر نیاز کرتے دیکھتی تھیں چارلی کی والدہ نے منشی کی بیگم سے محرم کی رسومات کے بارے میں کچھ سوال جواب کئے -جن کے جواب میں منشی کی بیگم نے بتایا کہ  یہاں لوگ ذوالجناح پر اولاد کی منت مانتے ہیں جو پوری ہو جاتی ہے 'کیو نکہ چارلی کی ماں بھی ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھیں چنانچہ انہوں نے بھی منت مان لی اور اللہ پاک نے اپنے کرم اور مولا حسین کے وسیلے  سے  ان کو  چارلی کی نعمت  سے صاحب اولاد کر دیا 'اور جب چارلی ان کی گود میں آ گئے تب  لیڈی  ڈفرن ان کو محرم آنے پر  ہمیشہ  کالے کپڑے پہنایا کرتی تھیں۔ چارلی اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے  'نوجوانی آنے پر انہوں نے تعلیم مکمل کی اور محکمہ ایکسائز میں انسپیکٹر  کی  جاب   بھی جوائن کر  لی ۔ عبدالغفور چانڈیو   غم حسین سے سرشار ان  کو بطور ڈرائیور ملا ہوا  تھا۔ اُس سے ’مولا علی اور امام حسین‘ کی شہادت اور ان کی زندگی کے بارے میں سن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلہ میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔بعد میں ایلی کاٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام علی گوہر رکھا۔ وہ اپنا وقت قدم گاہ اور اشرف شاہ کے پڑ میں گزارتے تھے۔




وہ لندن بھی گئے جہاں والد نے ان کی شادی کی۔ اس شادی سے ان کے یہا ں  ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی تھا۔قیام پاکستان کے بعد انھوں نے واپس جانے سے انکار کیا اور یوں ماں بیٹا یہاں مقیم ہو گئے۔واضح رہے کہ پڑ سندھی میں اس علاقے کو کہتے ہیں جہاں علم لگایا جاتا ہے اور ذوالجناح کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ قدیم حیدرآباد میں ہر علاقہ وہاں کے رہائشی افراد کے پیشے کے لحاظ سے آباد ہوا اور تالپور حکومت میں ہر جگہ پڑ اور علم بنائے گئے۔حیدر آباد میں گذشتہ  سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے  ایلی کاٹ کے ڈرائیور کا نام عبدالغفور چانڈیو تھا اور ان سے ہی واقعہ کربلا اور حضرت علی کے حالات زندگی کے بارے میں سُن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔عبدالغفور چانڈیو کے بیٹے غلام قادرچانڈیو نے سنہ 2004 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایلی کاٹ نے اُن کے والد عبدالغفور سے کہا تھا کہ وہ بھی  ذوالجناح  کا ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں لیکن عبدالغفور چانڈیو گریز کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اس کے لیے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے



بقول غلام قادر، چارلی اپنے فیصلہ پر اٹل رہے۔ بالآخر عبدالغفور نے چارلی ایلی کاٹ کی سرپرستی میں ماتمی جلوس نکالنے کے لیے حامی بھر لی، جس پر چارلی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔حیدرآباد کے پکے قلعہ میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی تیاری کی گئی۔ یکم محرم الحرام کو جب یہ جلوس روانگی کے لیے تیار تھا تو عجیب اتفاق یہ ہوا کہ چارلی کی والدہ کی وفات ہو گئی۔غلام قادر بتاتے ہیں کہ بابا عبدالغفور نے ایلی کاٹ کو یاد دلایا کہ انھیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اس کام میں بڑی قربانی دینی پڑتی ہے جس سے ایلی کاٹ کا ایمان اور پختہ ہو گیا۔ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع گورا قبرستان میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہو گئے۔غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُن کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائیں اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔اُن کی بیوی نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہ بچوں سمیت انگلینڈ چلی گئیں، جہاں سے وہ کبھی بھی چارلی کے لیے لوٹ کر نہیں آئیں۔



چارلی قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلے گئے جہاں انھوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔   اپریل 1971 کو چارلی ایلی کاٹ کی وفات ہوئی اور انھیں اُسی ماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا، جہاں وہ رہتے تھے۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا - اللہ کریم و رحیم چارلی ایلی کاٹ کو محشرمیں امام حسین علیہ السلام کی شفاعت عطا فرمائیں آمین 

1 تبصرہ:

  1. چارلی ایلی کاٹ دنیا سے جا چکے ہیں لیکن ان کے نام سےجلوس نکل رہا ہے -یہ ان کی کامیاب آخرت کی دلیل ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر