دین اسلام کے پھیلاؤ کا دائرہ وسیع ہوتے ہی کفار کے مظالم کا سلسلہ بھی دراز ہونے لگا -آپ نبئ کریم صلی ا للہ علیہ واٰلہ وسلم کو معلوم تھا ! شاہ نجاشی جو مسلمانوں کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوحبشہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا؛ چنانچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ سے حبشہ ہجرت کرگئی، شاہ نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا، قریش کو اس احسان وسلوک کا حال معلوم ہوا توبڑا پیچ وتاب کھایا، آخر میں طے کیا کہ شاہ نجاشی کے ایک وفد جائے اور یہ عرضداشت پیش کرے کہ ہمارے مجرموں (مسلمانوں) کوہمارے حوالے کر دے، اس مہم کے لیے عمروبن العاص اور عبد اللہ بن ربیعہ کو منتخب کیا گیا یہ لوگ حبشہ پہنچے توپہلے تمام پادریوں سے ملے اور ت بیش قیمت تحائف پیش کیے اور مقصد کی تکمیل کے لیے ان کوہموار کر لیا؛ پھرشاہ نجاشی اصمحہ کے دربار میں بازیابی حاصل کی اور نذرانہ پیش کیا، نجاشی نے آمد کی وجہ دریافت کی؛ انھوں نے اپنا مطالبہ ظاہر کیا،نجاشی نے پادریوں سے دریافت کیا؛ انھوں نے بھی یک زبان ہوکر ان کے مطالبہ کی تائید کی؛
شاہ نجاشی نے کہا: میں ان لوگوں سے خود بالمُشافہ گفتگو کروں گا؛ اگروہ لوگ جیسا کہ تم کہتے ہو مجرم ثابت ہوئے توان کوواپس کردوں گا؛ ورنہ جومیری پناہ میں آگیا ہے اس پرظلم روا نہیں رکھا جا سکتا، مسلمان دربار میں بلائے گئے تواصمحہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے کونسا دین اختیار کیا ہے، جو نہ نصرانیت ہے نہ بت پرستی اور نہ کسی دوسری قوم کا دین ہے، مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر نے وکالت کی اوربرسرِدربار ایک بہت ہی مؤثر اور دلنشین تقریر کی، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور اسلام کی اخلاقی خوبیاں بیان کیں، اس کے بعد شاہ نجاشی نے حضرت جعفر کے قرآن کا کچھ حصہ پڑھنے کی فرمائش کی؛ انھوں نے سورۂ مریم کی چند ابتدائی آیتیں تلاوت کیں، نجاشی پررقت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، اس کے بعد انھوں نے ان فدائیانِ اسلام کوقریش کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیااور مسلمان زبانِ حال سے یہ شعر پڑھتے ہوئے دربار سے نکل آئے
جب قریش کے وفد کوپہلے روز ناکامیابی ہوئی توانھوں نے دوسرے روز پھرکسی طرح دربار میں رسائی حاصل کی اور شاہ نجاشی کے سامنے عرض داشت پیش کی کہ اُن مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق دریافت فرمایا جائے، مسلمان پھربلائے گئے، ان کے لیے یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا؛اگرسچ کہتے ہیں توشاہ نجاشی ناخوش ہوتا ہے اور اس کے خلاف کہتے ہیں تودین کے وقار کوصدمہ پہنچتا ہے، آخر کار انھوں نے یہ طے کیا کہ چاہے جوکچھ بھی ہو انھیں سچ ہی بولنا چاہیے، اس روز بھی حضرت جعفر ہی گفتگو کے لیے منتخب ہوئے؛ انھوں نے فرمایا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اس کے کلمہ اور اس کی روح ہیں، نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اُٹھایا اور کہاخدا کی قسم! حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں، دربار کے بطریق اور پادری اس پربہت ناراض ہوئے؛
لیکن ناراضی کا ان پرکوئی اثر نہ ہوا، قریش نے جوتحفے تحائف نجاشی کے حضور میں پیش کیے تھے، نجاشی نے سب واپس کردیے اور وفد وہاں سے نامراد مکہ واپس چلا آیا۔ حبشہ سے ہجرت مدینہ منورہ ۔ فتح خیبر کے وقت جعفر طیار کی واپسی کا واقعہ بہت اہم ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح کیا تو اس وقت جعفر طیار حبشہ سے واپس آئے۔ وہ اور ان کے ساتھی اس وقت آئے جب خیبر فتح ہو چکا تھا، اور اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال کیا اور انہیں خوش آمدید کہا۔
اس واقعے کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: حبشہ سے واپسی:جعفر طیار اپنے ساتھیوں کے ساتھ حبشہ میں تھے جہاں وہ ہجرت کر کے گئے تھے۔فتح خیبر:جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح کیا تو جعفر طیار اور ان کے ساتھیوں کو اس کی خبر ملی۔مدینہ آمد:وہ مدینہ واپس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔استقبال:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر طیار اور ان کے ساتھیوں کا والہانہ استقبال کیا اور انہیں خوش آمدید کہا۔خوشی کا اظہار:اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ کس بات پر زیادہ خوشی کا اظہار کروں، خیبر کی فتح پر یا جعفر طیار کی واپسی پر، ۔
اللہ شاہ نجاشی کو جنت کی ہری بھری چھاؤں میں رکھے آمین
جواب دیںحذف کریں