محر م الحرام کی 9 تاریخ کے دن میں مسجد کے صحن میں پردے داری کے ساتھ تابوت بنانے کی تیاری کی گئ اور علاقے کےمومنین کو دعوت بھیجی گئ کہ مولا فجر سے پہلے تشریف لائیں گے چنانچہ عزاروں کا ایک جم غفیر مسجد کے باہر جمع ہو گیا -مور شاہ اور انکے ساتھی بحکم امام تابوت کے کام میں مشغول رہے اور مسجد کے باہر مومنین تمام رات گرئہ و زاری کرتےرہےجس و قت صبح چار بجے تابوت کربلا کے برآمد ہونے کا وقت ہوا تو اسوقت تابوت کو مسجد میں چھوڑ کرمور شاہ سمیت تمام لوگ باہر آ گئے مسجد کا دروازہ بند کر دیا گیا -اس کے ساتھ جلوس کے راستے کی تمام شمعیں گل کر دی گئیں اور فلک شگاف یا حسین کی صدائیں بلند ہونے کے ساتھ یہ معجزانہ تابوت دیوار کے اوپر خو دبخود بلند ہوا پھر نیچے آ گیاجس کو سوگوارمومنین نے یا حسین یا حسین کی صدائین بلند کرتے ہوئے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا
جب تابو ت امام پاک آ گے بڑھ کر اسوقت کے باشرع عالم،مجتہد،،سیّد حیدر شا ہ حقّانی کے استانے کے نزدیک پہنچا تو ان کے کانوں میں یا حسین ،یا رسول کی صدائیں آنی شروع ہوئین تو وہ اپنی عبادت چھوڑ کر اپنے بیٹون سمیت باہرآئے اور تابوت میں حضرت امام حسین علیہ السّلام کی زیارت سےمشرّف ہوئےاورتابوت میں اما مت کی تجلّی دیکھ کر والہانہ انداز مین اپنی عباء و قباء اتار دی اورتابوت پاک علیہ السّلام کو کاندھا دیا اور گریہ کنان ہو کرعرض گزار ہوئے یاامام پاک علیہ اسّلا م آپ میرے قریب سے گزر کر جا رہے ہیں میری دعوت قبول فرمائیں ،جس کے جواب میں امام حسین علیہ ا لسّلام نے مورشاہ کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ ہم ان کے مہمان ہیں آپ ان سے رجوع کریں مورشاہ نے فرمایا ابھی ہماری کھبّڑ فقیر کی جانب روانگی ہے
کھبّڑ فقیر کے آستانے منڈو کھبّڑ جلوس نے پہنچ کر نماز فجر ادا کی پھر مجلس امام حسین علیہ السّلام برپا ہوئ اور صبح کے وقت یہ جلوس حیدر شاہ حقّانی کی درگاہ پہنچا جہاں حیدر شاہ حقّانی اور ان کے رفقاء نے امام پاک کااستقبال کیا اور مجلس برپا کی دوپہر تک امام حسین علیہ السّلام حیدر شاہ حقّانی کے مہمان رہے پھر حیدر شاہ حقّانی کے آستانے پر مجلس برپا ہوئ اور مومنین کی مدارات کے بعد امام پاک علیہ السّلام کی کربلا روانگی کی رخصت کا مرثیہ خود حیدر شاہ حقّانی نے پڑھا اور پھر جلوس کی شکل میں تمام عزادار ٹھٹھ بازار پہنچے جہاں کربلا کے شہزادگان کے تابوت بھی امام پاک تابوت کے ہمراہ عازم سفر ہوئے اور پھر شاہی مسجد پہنچ کر حضرت رسول خدا کی خدمت میں سلامی دی گئ کیونکہ سیّد المرسلین کا موئے مبارک یہیں جلوہ گر ہے
شاہی مسجد سے پھر تابوت امام پاک علیہ السّلام کووچھوڑا کے میدان میں لایا گیا جہاں حضرت علی اکبر اور حضرت قاسم کے تابوت دوسری سمت کی جانب الگ کئے گئے یہ منظر بڑا ہی درد ناک ہوتا ہے اور اس مطلب ہوتا ہے کہ اب خاندان بنو ہاشم کا بچّہ بچّہ شہید ہوچکا ہے اور امام مظلوم یکہ و تنہا کربلا کے میدان میں شہید ہونے جارہے ہیں وچھوڑا کے اس میدان میں قیامت خیز گریہ ہوتا ہے اور امام پاک کے تابوت کو روہڑی کی کربلا میدان میں زیارت خاص و عام کے لئے رکھّا جاتا ہے یہ معجزاتی تابوت پانچ سو سال سے اسی طرح برامد ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس جلوس میں پچّیس لاکھ عزادار پورے پاکستان سے شرکت کرتے ہیں ،اس جلوس کے راستے میں جگہ 'جگہ شربت 'پانی کی سبیلیں ہوتی ہیں اور وافر مقدار میں تبرّک تقسیم کیا جاتا ہے اس معزاتی زیارت کے دیدار کے لئے پاکستان کے مختلف شہروں سے اسپیشل ٹرینیں چلائ جاتی ہیں-آج سینکڑوں سال سے حیدر شاہ حقانی کی نسل کے بزرگ تمام رسومات نباہ رہے ہیں
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
جواب دیںحذف کریں