پیر، 28 جولائی، 2025

ہم تمھارے پاس تا قیامت آئیں گے-امام عالی مقام حصہ اول

 



نحمد ہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم واٰلہ الطّیبین الطا ہرین ۃ برّصغیر اپک وہند میں سندھ کے علاقے کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ دین اسلام کی روشنی یہاں سے داخل ہوئ اور پھر پورے برّصغیر کو اس روشنی نے اپنی پاکیزہ کرنو ں سے منوّر کیا  اس کی ابتدااس طرح سے ہوئ کہ ساتویں صدی ہجری میں امام علی نقی علیہ اسّلام کی نسل سےایک بہت بڑے عالم و زاہد و متّقی صاحب کشف وکرامت بزرگ امیر سیّد محمّد مکّی ابن سیّد محمد شجاع 640 ء میں مشہد مقدّس سے تشریف لائے اورسنّت کے مطابق یہان کے حاکم سےزمین خریدی اور اس زمین پر جا گزیں ہو گئے۔یہاں آپ نے مدرسہ اور  مسجد تعمیر کروائ اور اسی مدرسے اور مسجد سےتبلیغ دین اور ترویج اسلام و درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا ،ان کی رحلت کے بعد ان کے فرزندحضرت خطیب سید صدرالدّین نے بھی اپنے والد کی طرح درس وتدریس کا یہ سلسلہ قائم رکھّا   خطیب سید صدرالدّین کا جائے مدفن سکھّراور  روہڑی کے درمیان جزیرہ نما ء قلعہ بکھّر میں واقع ہے 


سندھ کے علاقے میں تعزئیےداری و عزاداری کی ابتداء اسی شہر سے ہوئ اور یہ سلسلہ پھیلتا ہوا سندھ کے دیگر علاقوں میں پھیلااس وقت روہڑی شہر میں ماہ محرّم میں نکلنے والے تابوت کے لئے لے بتایاجاتا ہے کہ  ہجری 1000  میں یہاں پر  حضرت سید محمّدامیر مکّی کی پشت سے ایک بچّےنے جنم لیا ،یہ بچّہ آگے چل کر اپنے اجداد کی مانند بزرگ ،ولی ثابت ہوامحمد شریف اپنی ابتدائ عمر سے ہی غم حسین علیہ ا لسّلام میں سوگوار'واشکبار رہا کرتے تھےاسی مودّت امام حسین علیہ السّلام میں ہونے کی بناء پرنوجوانی آنے پر   وہ ہر سال پیدل روضہ امام حسین علیہ اسّلام کی زیارت کو جایا کرتے تھے اورا س سفر میں ان کے کچھ خاص رفقاء بھی ساتھ ہوتے تھےان رفقاء میں  ایک کھبّڑ فقیر بھی تھے یہ تمام افراد   پا پیادہ کربلا عازم سفر ہوا کرتے تھے-یاد رہے کہ کھبڑ فقیر بھی سادات  کے خوانوادے سے تھے جنہوں نے عشق امام  میں اپنے آپ کو کھبڑ فقیر کہلانا  پسند کیا -عاشقان امام کا یہ متبرّک سفر اسی طرح سے ہر سال عازم سفر ہوتا رہا اور بالآخر مور شاہ ضعیف العمرہوئے تو ان کے دیگر رفقاء  طبعئ  عمر کے ساتھ  جنت  مکین ہوتے گئےلیکن کھبڑ فقیر اور مور شاہ  ایک دوسرے کے ہمرکاب رہے -ایک سال ماہ محرم سے پہلے  مورشاہ روضہ ءاما م مظلوم علیہا لسّلام پر جاکر عرض گزار ہوئے


مولا  میں اب  ضعیف ہو گیا ہو ں 'آپ  اجازت دیجئے کہ میں یہیں کربلا میں تا حیات  قیام کروں اما م پاک علیہ السّلام نے فرمایا ،اے فرزند تم نےاپنی تمام عمر میری زیارت کے لئے وقف کر دی اب تم واپس اپنے شہر چلے جاؤاب ہم تمھارے پاس خود  آئیں گےاور تا قیامت آئیں گے یہ بشارت ملتے ہی سیّد مور شاہ نے خاک کربلا کو الوداعی بوسہ دیا اورخوشی خوشی واپسی کے سفر کے لئے روانہ ہوئے تاکہ اپنے محبوب امام اور آقاکی میزبانی کا شرف حاصل کر سکیں روہڑی شہر پہنچ کر اپنی بشارت کا زکرپنے دوستوں ساتھیون ،بزرگوں اور سادات کو بھی سنایااور پھر بڑے اشتیاق سے محو انتظار ہوئےمور شاہ کی واپسی کے کچھ دنوں بعد ملک عراق کر بلا سےدو بزرگ حضرات مورشاہ کے پاس آئےاور انہوں  نے اپنا تعارف کرواتے ہوئ بتایا کہ ہم بنی اسد قبیلے کے افراد ہیں اور ہمارے پاس میدان کربلا سےلاشہائے شہداء کی کچھ متبرّک نشانیا ن موجود ہیں یہ تبرّکات ہمارے بزرگون کو  شہداء کی لاشوں کی تدفین کے وقت ملی تھیں ۔




   اب ہمیں حضرت امام حسین علیہ ا لسّلام کی جانب سے بشارت ہوئی ہے کہ ہم یہ امانتیں آپ کے سپرد کر دیں پھر بزرگوں نے  تابوت  کا نقشہ اورامانتیں دیں اور کہا کہ اس تابوت  کا نقشہ  ہے جو قبیلہ بنی اسد کےلو گو ں      نے پہلی مرتبہ امام مظلوم کی قبر پر سائے کے لئے بنایا تھا پھر ان دونو ں بزرگ حضرات نے کچھ عرصے روہڑی میں سیّد مور شاہ کے ہمراہ قیام کیا، اورتابوت  کربلا کے حوالے سے کچھ اور بھی راز جو سینہ بہ سینہ چلے آ رہے تھے  ان کےگوش گزار کئے ،ان میں وقت اور دن کا تعین بھی تھا ان دو بزرگوں میں سےایک کا انتقال ہوگیا جن کا مدفن سید مورشاہ کے مزار کےبرابر مسجد عراق روہڑی میں  زیارت خاص و عام ہے۔اور دوسرے بزرگ عراق کربلا روانہ ہو گئےیہ ساری امانتیں  اور احکامات  ملنے کے بعد جب پہلی مرتبہ محرّم الحرام کاآغاز ہوا تو سیّد مورشاہ نےبتائے ہوئے طریقے اور نقشے کے مطابق ۹ محرّم الحرام کے دن اور۱۰ محرّم الحرام کی درمیانی رات کو تابوت بنانے کی تیّاری شروع کی گئ

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر