اتوار، 23 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ'ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیورسٹی part4

 

 ڈاکٹر اجمل :آپ پرائمری کی تعلیم پر سرمایہ کاری کریں گے تو اس سے سکینڈری کی تعلیم اچھی ہوگی، جب سیکنڈری تعلیم اچھی ہوگی تو کالج کی تعلیم اچھی ہوگی، اسی طرح یونیورسٹی میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہوگا۔ جب شروع سے آخر تک پراڈکٹ اچھی ہوگی تو ہم آگے ترقی کریں گے ناں! ہماری جامعات کے پیچھے جانے کی سب سے بڑی وجہ سرمائے کی کمی ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، حکومت پاکستان کے پندرہ کروڑ روپے خرچ کرکے ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن‘ بنایا، ہم نے شروع میں اعلٰی معیاری آلات خرید لیے، لیکن اب اس انسٹی ٹیوٹ کو مینٹین کرنے کے لیے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں، ایک چھوٹا سا آلہ بھی خراب ہوجائے تو پانچ سے دس لاکھ کا آتا ہے، لیکن یہاں تو اس انسٹی ٹیوٹ کی پوری گرانٹ ہی پندرہ سے بیس لاکھ ہے تو اس میں ہم اسے کیسے چلا سکتے ہیں؟اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ صرف ایک انسٹی ٹیوٹ کو چلانے کے لیے کروڑوں روپے چاہییں تو پھر پوری یونیورسٹی کو چلانے کے لیے کتنا پیسا چاہیے؟ 


 میں آپ کو ایک اہم بات بتاؤں سائنس سرمایہ مانگتی ہے، ہماری اشرافیہ اور بیوروکریسی کو سائنس کا صحیح معنوں میں ادراک ہی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ ہمیں دکھا نہیں رہے۔ جس طرح آپ آم کا ایک درخت لگا کر پھل کے لیے پانچ سال انتظار کرتے ہیں، جس طرح آپ ایک بچے کو بیس پچیس سال تک پیسے خرچ کرکے کسی قابل بناتے ہیں، اسی طرح سائنس کو پالنا پڑتا ہے، اس کی کم از کم بیس سے پچیس سال تک آب یاری کرنی پڑتی ہے۔چین نے سائنس کو پالا پوسا اور آج وہ تھرڈورلڈ کنٹری سے دنیا کا لیڈنگ ملک بن گیا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ پانچ لاکھ روپے کی گرانٹ دے کر پوچھتے ہیں کہ اس گرانٹ سے پاکستان میں کیا تبدیلی آئے گی؟ تبدیلی پانچ لاکھ کی سرمایہ کاری سے نہیں آئے گی، مستقبل میں ترقی کے لیے آپ کو سائنس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔


چین آج سے نہیں بلکہ 1977سے سائنس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور آج اس سرمایہ کاری کا پھل کھا رہا ہے۔ پاکستان کو ترقی کرنا ہے تو پھر سائنس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اور یہ سرمایہ کاری آج سے ہوگی تو اس کا پھل بیس پچیس سال بعد ملے گا۔ میں آپ کو ایک بات اور بتاؤں، جامعہ کراچی بہت بڑا تعلیمی ادارہ ہے اور یہ ڈوبتے ڈوبتے بھی پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے بہتر ہے، آپ ہمیں دس سال سپورٹ کریں تو پھر ہم بتاتے ہیں کہ ہم پاکستان کی ترقی اور معاشی نمو کے لیے کتنا اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کیپیسٹی ہے، پوٹینشل ہے، کام کرنے والے لوگ ہیں۔ لیکن ہمارے لوگ بددل ہوکر سائنس سے دور جارہے ہیں، سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب کو شامل کرنے کی ضرورت ہے ، یہ پاکستان کا قابل قدر اثاثہ ہیں


۔ایکسپریس: جدید ٹیکنالوجی سے ایک طرف طالب علموں کے لیے سہولیات پیدا ہوئیں تو دوسری جانب اس سے ’کاپی پیسٹ‘ کلچر کو بھی فروغ ملا، اس بارے میں کیا کہیں گے؟ جامعہ کراچی میں سرقے کے سدباب کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: سرقے کے لیے جامعہ کراچی میں زیروٹالرینس پالیسی ہے، اس کے لیے ہمارا ایک طریقۂ کار ہے۔ ٹیکنالوجی سے جہاں کاپی پیسٹ کرنا آسان ہوا اسی ٹیکنالوجی سے اس چوری کو پکڑنا بھی آسان ہوگیا ہے۔ جب پوری دنیا میں سائنس ترقی کا آغاز ہو ا تو وہاں پر بڑے پیمانے پر سرقہ ہونا شروع ہوا، لیکن جب چوری پکڑی جانے لگی تو وہاں یہ کاپی پیسٹ کا کلچر بھی بتدریج ختم ہوگیا۔


 ہم اس سطح تک پہنچے بھی نہیں تھے کہ سائنس میں سرمایہ کاری ختم کردی گئی، میری مراد ہائرایجوکیشن کمیشن سے ہے۔اس کی گرانٹ، ترقی کم کردی گئی، اچھا کام کرنے والے لوگوں کو ہٹا دیا گیا تو ہماری جو بھی کارکردگی تھی وہ وہیں ختم ہوگئی۔ جب ہر ایک کے پاس کمپیوٹر ہوگا، ہر ایک انٹرنیٹ پر مواد سرچ کر رہا ہوگا، جب ہر ایک دوسرے کی چوری پکڑ رہا ہوگا تو یہ مسئلہ خود ہی ختم ہوجائے گا۔ایکسپریس: جامعہ کراچی میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی کے کچھ واقعات رونما ہوئے، جن کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں بھی بنائی گئیں، ان تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جنسی ہراسگی کے سدباب کے لیے ہم نے ہر شعبے میں ایک ہراسمنٹ کمیٹی بنائی ہے، جو ایک مرکزی کمیٹی کے سامنے جواب دہ ہے۔ 

 

1 تبصرہ:

  1. ابھی بھی وقت کو صحیح معنوں میں استعمال کر کے ہم دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں بشرطیکہ سائینس پر سرمایہ لگائیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر