اتوار، 23 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ'ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیورسٹی part'3

 

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: ہم نے جامعہ میں گیس کے نئے میٹر لگوانے کے لیے سو ئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے دیے ہیں، میٹر کے علاوہ ان کی بہت ساری لائینیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں، جن سے گیس لیک ہونے کی وجہ سے ہمارا بل زیادہ آتا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ میں چلنے والی کینٹینز میں گیس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک کینٹین میں میٹر لگوانے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ اس کا ماہانہ بل تو ایک لاکھ چالیس ہزار کا ہے اور کراچی یونیورسٹی ابھی تک اسے فنڈ کرتی رہی تھی۔ یہی حال کم و بیش دوسری کینٹینز کا بھی ہے۔میٹر لگوانے سے ہماری ریکوری لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں چلی جائے گی اور گیس کا لوڈ بھی بہت کم جائے گا۔ یہی معاملہ کے الیکٹرک کا ہے۔ کے الیکٹرک ابھی تک ہمیں بلک میں بجلی دیتی تھی اور وہ ہمارے ہاں میٹ  ر لگانے پر تیار نہیں ہورہے تھے۔ ہم نے اس مسئلے پر ان سے بات کی اور دو سال بعد اب وہ میٹر لگانے پر تیار ہوگئے ہیں۔


 جامعہ کراچی کے رہائشی علاقے میں واقع کسی گھر میں میٹر نہیں لگا ہوا، وہاں کا ماہانہ بل ایک سو سے سوا کروڑ روپے آتا ہے، لیکن کلیکشن صرف دس سے بارہ لاکھ ہے یعنی ہم ہر ماہ انہیں صرف بجلی کے بل کی مد میں ہی ایک کروڑ سے اوپر کی سبسڈی دیتے ہیں۔ میٹر لگنے کے بعد ہم پر سے یہ بوجھ کم ہوجائے گا۔یک دوسرا مسئلہ جامعہ کراچی کی زمین پر موجود پیٹرول پمپ ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں مہنگی بجلی خریدنی پڑتی ہے۔ کے الیکٹرک کا موقف یہ ہے کہ یہ کمرشل ادارہ ہے تو اس کی بلنگ بھی کمرشل ریٹ پر کی جائے گی۔ ہماری بلنگ بلک میں ہوتی ہے اور بلک میں کمرشل ریٹ الگ نہیں ہے تو کے الیکٹرک ہم سے فی یونٹ قیمت سب سے مہنگے ریٹ پر چارج کرتی ہے۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس پیٹرول پمپ کو جامعہ سے الگ کرکے کے الیکٹرک سے کہیں کہ ان سے کمرشل ریٹ پر بجلی چارج کرو اور ہمیں سبسڈی ریٹ پر بجلی دو۔ اگر وہ مان جاتے ہیں تو ہمارا ماہانہ بجلی کا بل جو ڈھائی سے تین کروڑ روپے آتا ہے وہ ایک کروڑ سے بھی کم ہوجائے گا۔


 اب رہی بات پیٹرول پمپ کی تو یہ بہت پہلے لیز پر دیا گیا تھا اور یہ لیز بھی مشتبہ ہے۔ اس کے معاملات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے ایک نجی پارٹٰی چلاتی ہے، ہمیں تو ہر ماہ ایک برائے نام رقم کرائے کی مد میں ملتی ہے۔ایکسپریس: پانی کے بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جامعہ کراچی کی پانی کی لائن کئی مرتبہ منقطع کردی گئی۔ کیا اب بھی جامعہ کراچی کو یوٹیلیٹی مسائل کا سامنا ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: ہم نے جامعہ میں گیس کے نئے میٹر لگوانے کے لیے سو ئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے دیے ہیں، میٹر کے علاوہ ان کی بہت ساری لائینیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں، جن سے گیس لیک ہونے کی وجہ سے ہمارا بل زیادہ آتا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ میں چلنے والی کینٹینز میں گیس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک کینٹین میں میٹر لگوانے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ اس کا ماہانہ بل تو ایک لاکھ چالیس ہزار کا ہے اور کراچی یونیورسٹی ابھی تک اسے فنڈ کرتی رہی تھی۔ یہی حال کم و بیش دوسری کینٹینز کا بھی ہے 


ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں پانی ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمارا پانی کا بل تقریباً سوا کروڑ روپے ماہانہ آتا تھا، پھر ہمیں کہا گیا کہ میٹر لگوالیں تاکہ ہمیں پتا چل سکے کہ ہم حقیقت میں کتنا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ میٹر لگوانے میں ایک کروڑ روپے کا خرچہ تھا جو کہ ہمیں ایک مخیر کاروباری شخصیت نے فراہم کر دیے ۔ ان پیسوں سے ہم مرکزی لائن پر میٹر لگوائے، جس کے بعد سے ہمارا پانی کا ماہانہ بل پینتالیس سے پیسنٹھ لاکھ روپے تک آرہا ہے ۔ اس کام سے ہمیں ماہانہ چالیس سے پچاس لاکھ ماہانہ بچت ہو رہی ہے۔ایکسپریس: اوورٹائم کی عدم ادائیگی جامعہ کراچی کے ملازمین میں بے چینی کا ایک اہم سبب ہے اور اس وجہ سے وہ متعدد بار احتجاج بھی کرچکے ہیں، اس بارے میں کیا کہیں گے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جی بالکل اوورٹائم کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا ہے، اوورٹائم کی مد میں ہونے والی غیر ضروری ادائیگیوں کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اب صرف چند دفتروں میں اوورٹائم کی مد میں ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور وہاں بھی ضرورت کے تحت جتنی دیر اسٹاف کو روکا جاتا ہے اس کے مطابق انہیں متعلقہ اوورٹائم دیا جاتا ہے، جب کہ اس سے پہلے اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن چکا تھا جس کو ختم کیا گیا۔ غیرضروری اوورٹائم ختم کرکے ہر ماہ ایک خطیر رقم کی بچت ہورہی ہے۔


ایکسپریس: پاکستان کے نظام تعلیم میں بہتری اور اسے بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جامعات کی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ دیگر ممالک کے برعکس ہمارے ہاں جامعات کی سطح پر تحقیقی کام اس سطح پر نہیں ہو پارہا، جو کہ ہونا چاہیے، اس کے اسباب؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: دیکھیں آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں، اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ریل گاڑی میں سفر کریں گے، اور اگر پیسے ہیں تو آپ ایک لگژری گاڑی میں سفر کریں گے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا بجٹ شرم ناک حد تک کم ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، یہ قوم کا معاملہ ہے۔ جب آپ تعلیم میں سرمایہ کاری ہی نہیں کریں گے تو پھر بہتری کی کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ آپ اعلٰی تعلیم، اعلٰی تحقیق پر سرمایہ کاری کریں یہ آپ کو آخر میں ٹیکنالوجی دے گی، دولت دے گی، ترقی دے گی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میں جب انیس سو اسی میں امریکا گیا تو صرف میری یونیورسٹی میں ہی چین سے فل اسکالرشپ پر کافی طلبا آرہے تھے۔چین کی اُس وقت کی سرمایہ کاری نے آج اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر