پیر، 24 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ'ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیورسٹی-part'6

 

لیکن اگر آ پ انہیں زور اور جبر سے روکیں گے تو اس سے بغاوت پیدا ہوگی۔ جامعات کا تو کام ہی طلبا کو بحث و مباحثے کا کُھلا ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے علم کی تلوار سے خراب آئیڈیاز کو کاٹ کر ختم کرسکیں ۔ طلبا یونین آئیڈیاز پر بحث و مباحثے اور اچھے آئیڈیاز کے فروغ کے لیے ایک مثبت پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں طلبا یونین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس سے اس کا اصل مقصد فوت ہوگیا- سیاست کرنا گندا کام نہیں ہے، لیکن سیاست کے نام پر تشدد کرنا، غلط کام ہے، بدمعاشی کرنا گندا کام ہے، یونیورسٹی کے سسٹم پر کنٹرول حاصل کرنا گندا کام ہے۔ایکسپریس: پوائنٹس جامعہ کراچی کا دیرینہ مسئلہ ہے، جامعہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مسائل پر آپ کا کیا کہنا ہےڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں 41ہزار طلبا زیرتعلیم ہیں،


 ان سب کو گھر سے لانا اور لے جانا انتظامی طور پر ممکن نہیں ہے۔ہمیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جو ایک ارب اسی کروڑ کی گرانٹ دی گئی ہے اس میں پوائنٹس کے لیے دس بسیں بھی شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو انحطاط پوری جامعہ کراچی پر آیا اس کے اثرات ٹرانسپورٹ پر بھی مرتب ہوئے۔ پوائنٹس چلانے میں ماہانہ خرچہ ساڑھے تین کروڑ اور ریکوری پچاس لاکھ روپے سے بھی کم ہے۔ اس میں ہونے والی کرپشن کو روکنا ہماری ترجیح تو ہے لیکن ابھی اولین ترجیح اس سے بڑے معاملات میں کرپشن کو روکنا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس بات کا وعدہ نہیں کرتا کہ آپ کو گھر سے لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ دی جائے گی، نوکری دی جائے گی۔آپ نے پڑھنے کے لیے داخلہ لیا ہے تو یونیورسٹی پہنچنا آپ کی ذمے داری ہے، ہاں یونیورسٹی کے اندر شٹل سروس کی فراہمی یونیورسٹی کی ذمے داری ہے ۔


 میری ان باتوں کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم پوائنٹ کی سہولت ختم کر رہے ہیں، لیکن ہم ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ نہیں اور اکتالیس ہزار لوگوں کو لانے لے جانے کے لیے چار سے پانچ ہزار بسیں چاہییں۔ اسے مینیج کرنا، اس میں کرپشن کو روکنا کراچی یونیورسٹی کا کام نہیں ہے۔ایکسپریس: گذشتہ چند سالوں سے جامعہ کراچی کے طلبہ میں انتہاپسندی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ طلبا کو صحت مند سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر جامعہ میں انتہاپسندی کا تدارک کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: آپ کا سوال ہمارے ساتھ کچھ زیادتی ہے، یہ سیدھا سیدھا ہم پر الزام ہے۔ کراچی میں جتنی انتہاپسندی ہے جامعہ کراچی میں اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں ان الزامات پر جو لوگ پکڑے گئے وہ جامعہ کراچی کے مستقل نہیں بلکہ پاس آؤٹ کرجانے والے طلبا تھے۔ 


جامعہ کراچی چار سال پہلے پاس آؤٹ کر جانے والے طلبا کی سرگرمیوں کی ذمے دار نہیں ہے۔ ہم نے طلبا کو مختلف مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا شروع کردیا ہے، ہماری اسٹوڈنٹ باڈی، ڈبیٹ کروا رہی ہے، فنکشن کروارہی ہے، ادبی سرگرمیاں کروا رہی ہے، ہم کھیلوں کے ایونٹ منعقد کروا رہے ہیں، پہلے یہ کام سیاسی تنظیموں کے طلبہ ونگ کرتے تھے لیکن ہم نے آہستہ آہستہ ان سے درخواست کی کہ آپ کو جو بھی کام کرنا ہے وہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے کریں اور اس میں ہمیں خاطر خواہ کام یابی ملی ہے۔ جب ہم جامعات کی سطح پر طلبا کو مثبت سرگرمیوں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کریں گے تو پھر اگر جامعات میں انتہاپسندی ہے بھی تو وہ ختم ہوجائے گی۔ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا شوق ہے؟


ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے ایم ایس سی کیا تو اس زمانے میں اسٹاف کلب کا بڑا اچھا ماحول ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادیب وہاں آتے تھے۔ اس ماحول میں ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ پھر جب ایک بار یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر جتنے بھی بڑے ادیب تھے، میکسم گورکی، دوستو فسکی، سمر سیٹ موم، ٹالسٹائی، الیگزینڈرا پشکن، جارج ایلیٹ، اور دیگر کئی ادیبوں کو پڑھ ڈالا۔ ہمارا ادب پڑھنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ بس بسم اللہ پڑھ کر شروع کیا تو پھر پوری کلیکشن پڑھ کر آگے بڑھتے تھے۔ 1975 سے1980تک پانچ سال بہت ادب پڑھا، لیکن جب پی ایچ ڈی کرنے گئے تو یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔ایکسپریس: آپ کا پسندیدہ شاعر اور ادیب کون ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پسندیدہ ادیبوں کے حوالے ذہن میں سب سے پہلا نام دوستوفسکی کا آتا ہے، اس کے علاوہ سمر سیٹ موم، الیگزینڈر

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر