منگل، 25 مارچ، 2025

شیخ صدوق چوتھی صدی ہجری کے مایہ ناز محدث

  

 محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی (305۔381 ھ)، شیخ صدوق کے نام سے معروف چوتھی صدی ہجری کے شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ کا شمار شہر مقدس قم کے مایہ ناز محدثوں میں ہوتا ہے اور تقریبا 300 سے زائد علمی آثار کی آپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے جن میں سے اکثر آج ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ کتاب من لایحضرہ الفقیہ شیعوں کی معتبر ترین کتب اربعہ میں سے ایک ہے جو آپ کے دست مبارک سے لکھی گئی ہے۔ ان کے دیگر علمی آثار میں معانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع و صفات الشیعہ کا نام نمایاں طور پر لیا جا سکتا ہے۔ان کے مشہور ترین شاگردوں میں سید مرتضی، شیخ مفید اور تلعکبری شامل ہیں۔ شیخ صدوق ایران کے ایک تاریخی شہر، شہر ری جو تہران کا جڑواں شہر ہے، میں مدفون ہیں۔


۔ ولادت -شیخ صدوق کی دقیق تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن جو چیز آپ کی کتاب کمال الدین و تمام النعمہ اور شیخ طوسی کی کتاب غیبت اور نجاشی کی الفہرست سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ امام زمانہ(عج) کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عَمْری کی رحلت اور امام کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کے نیابت کے ابتدائی سالوں میں متولد ہوئے ہیں۔خود شیخ صدوق ابوجعفر محمد بن علی بن اسود سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد گرامی علی بن حسین بن موسی بن بابویہ (جنہیں صدوق اول بھی کہا جاتا ہے) محمد بن عثمان عَمْری (دوسرا نائب خاص امام زمانہ) کی رحلت کے بعد ابوجعفر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حسین بن روح نوبختی (تیسرا نائب خاص امام زمانہ) سے کہہ دیں کہ امام زمانہ(عج) سے دعا کی درخواست کریں کہ خدا مجھے کوئی بیٹا عطا کرے۔ ابوجعفر کہتا ہے کہ میں نے ان کی درخواست حسین بن روح تک پہنچائی۔


 تین دن کے بعد حسین بن روح نے مجھ سے کہا کہ امام زمانہ(عج) نے علی بن حسن (شیخ صدوق کے والد گرامی) کیلئے دعا کیا ہے اور انشاء اللہ خدا ان کو ایک بیٹا عنایت کرے گا۔ او خدا اس بیٹے کے ذریعے ان کو دنیا اور آخرت میں نفع حاصل ہو گا  -شیخ صدوق نے قم میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ 20 سال زندگی کی اور اپنے والد اور دیگر علماء سے اس عرصے میں کسب فیض کیا اس کے بعد شہر ری کے مکینوں کی درخواست پر وہاں چلے گئے۔ شہر ری میں باوجود اس کے کہ وہ جوانی کی عمر میں تھے لیکن ان کی چرچے چاروں طرف پھیلنے لگے۔ وہاں پر کچھ مدت رہنے کے بعد وہاں کے والی کی اجازت سے امام رضا(ع) کی زیارت کی غرض سے مشہد مقدس کی طرف سفر پر نکل پڑے اور وہاں سے واپسی پر نیشاپور میں ساکن ہوئے اور وہاں کے بزرگوں نے ان سے کسب فیض کرنا شروع کیا۔ یوں انہوں نے قم سے جانے کے بعد شہر ری، استرآباد، جرجان، نیشابور، مشہد، مروروذ، سرخس، ایلاق، سمرقند، فرغانہ، بلخ، ماوراء النہر، ہمدان، بغداد، کوفہ، فید، مکہ اور مدینہ کی طرف مسافرت کی۔



حسب و نسب-شیخ صدوق کے والد گرامی علی بن حسین اپنے زمانے کے مشایخ، ثقہ (مورد اعتماد)، فقیہ اور شہر مقدس قم کے مراجع میں سے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ کے زمانے میں مایہ ناز علماء اور محدثین کی کثیر تعداد شہر قم میں موجود تھے لیکن آپ کو ان سب میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ اتنے علمی مقام اور جہان تشیع کے مرجع تقلید ہونے کی باوجود آپ قم میں ایک چھوٹے سے دکان پر نہایت سادگی، پاکدامنی اور قناعت کی زندگی گزارتے تھے۔ آپ نے علم کے مختلف شعبوں میں کتابیں اور مقالہ جات تحریر فرمایا ہے جنہیں شیخ طوسی اور نجاشی نے ذکر کیا ہے۔ ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں کہتا ہے: "کسی کتاب کی جلد پر میں نے دیکھا کہ ان کے بیٹے اپنے قلم سے لکھا تھا کہ میرے والد گرامی کی کتابیں جو 200 عدد ہیں اور میری اپنی کتابیں جو 18 عدد ہیں "


  وفات

شیخ صدوق سنہ 381 ہجری قمری کو 70 سال کی عمر میں شهر ری میں وفات پائی اور وہیں پر دفن ہوئے۔ ان کی قبر آج شہر ری میں موجود قبرستان ابن بابویہ نامی قبرستان میں موجود ہے جہاں زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ سنہ 1238 ہجری شمسی کو سیلاب کی وجہ سے ان کی قبر میں شگاف پڑگیا تھا اور کئی صدیاں گذرنے کے بعد بھی انکی لاش صحیح و سالم دیکھ کر لوگوں کی حیرت کا باعث بن گئی اس کے بعد فتح علی شاہ قاجار کے زمانے میں ان کے قبر کی تعمیر و توسیع ہوئی۔ علمی کارنامے-علم رجال کے ماہرین کی ان کے بارے میں سفارش-شیخ طوسی فرماتے ہیں: "محمد بن علی بن حسین، حافظ احادیث، فقہ اور رجال سے آگاہ اور حدیث شناس تھے۔ حفظ اور کثرت علم میں قمی علماء میں ان کی مثال نہیں ملتی ہے"ہمارے شیخ اور فقیہ جب بغداد میں آئے تو باوجود اس کے کہ وہ کم سن تھے لیکن اس وقت کے علماء اور فقہاء ان سے حدیث سنتے تھے۔  آپ کے اساتیدشیخ صدوق نے مختلف شہروں کے مختلف حفاظ اور بزرگان سے کسب فیض کیا یہاں تک کہ ان کی تعداد 260 تک پہنچتی ہیں۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر