دو برس پہلے ہمارے بچے یوکرائن میں رہائ کے لئے دہائیاں دے رہے تھے اور ہمارے سفیر بھنگ پی کر سو رہے تھے -اور پھر آج کے حاضر میں کر غیزستان میں وہی صورتحال ہے
روس یوکرین جنگ: روس کے زیرِ قبضہ سومی شہر جہاں پاکستانی طلبا کا ایک گروہ محصور ہے
-منزہ انوار-بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آ باد میں یہ بی بی سی کی رپورٹ جوں کی توں پیش کر رہی ہوں
26 فروری 2022 کی رپورٹ-بلال احمد، ثنا اللہ اور مصباح اللہ۔ ان طلبا کا کہنا ہے کہ آج تیسرا دن ہے وہ دن میں پانچ پانچ چھ چھ مرتبہ سفارت خانے سے رابطہ کرکے مدد مانگ رہے مگر کوئی رسپانس نہیں مل رہا’شہر پر دو دن سے روسی فوجیوں کا قبضہ ہو چکا ہے، ہمارے پاس کھانے پینے کی اشیا اور پیسے ختم ہو رہے ہیں۔۔۔ہم 15 طلبا یہاں پھنسے ہوئے ہیں، ایک دوست نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے روسی فوجیوں نے مارا اور وہ واپس آ گیا۔۔۔ ہم نے یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے مدد کے لیے فون کیا تو اہلکار نے پوچھا ’سومی کہاں ہے‘ ہم تو دنگ رہ گئے کہ کیا آپ واقعی سفارتخانے میں کام کرتے ہیں۔۔۔‘روس کے حملے کے بعد یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستانی طلبا کی اکثریت کو ملک سے نکلنے میں مدد فراہم کی جا رہی ہے اور اب صرف چند ہی طلبا ایسے ہیں جو یوکرین میں موجود ہیں لیکن پاکستانی طلبا کا ایک گروہ یوکرین کے ایسے شہر میں پھنس چکا ہے جہاں روس کی فوج قبضہ کر چکی ہے۔یوکرین پر روسی حملے کے تیسرے دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر صوابی سے تعلق رکھنے والے ثنا اللہ اور ان کے 14 پاکستانی ساتھی روسی سرحد سے 40-50 کلومیٹر پر واقع سومی شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ سب افراد سومی سٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں -ان طلبا نے مدد کے لیے یوکرین میں واقع پاکستانی سفارتخانے فون کیا تو پہلے تو بڑیہ مشکل سے فون ریسیو کیا اور پھرانھیں کہا گیا کہ وہ لییو یا ترنوپل شہر پہنچیں (یہ دونوں شہر سومی سے بالترتیب 900 اور 800 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں)۔دوسری جانب یوکرین میں موجود پاکستانی سفیر میجر جنرل (ریٹائرڈ) نوئیل اسرائیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ انھوں نے سومی میں پھنسے ان طلبا سے بات کی ہے مگر سومی روسی فوجوں کے قبضے میں ہے اور ہم اپنے ذرائع سے انھیں وہاں سے نہیں نکال سکتے۔ تاہم طلبا ایسی کسی بھی گفتگو کی تردید کرتے ہیں۔پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے وزارتِ خارجہ کے ذریعے ماسکو میں سفارتخانے سے درخواست کی ہے کہ وہ روسی فوجوں سے کہیں کہ ان طلبا کی حفاظت کی جائے اور جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے ہم انھیں وہاں سے نکال لیں گے۔’روسی فوجیں ہمیں شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہیں‘
ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ’پہلی بات تو یہ کہ روسی فوجیں ہمیں شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ دوسرا لییو یہاں س90 کلومیٹر جبکہ ترنوپل تقریباً 800 کلومیٹر دور ہے۔ ہمارے پاس نہ تو گاڑی ہے نہ شہر میں پٹرول مل رہا ہے اور نہ یہاں سے کوئی بس یا ٹرین چل رہی ہے۔۔۔ ہر طرف جنگ جاری ہے، ہم اپنے طور پر یہاں سے ان دونوں شہروں تک کیسے جائیں۔‘یہ 15 طالبعلم چاہتے ہیں کہ سفارتخانہ لییو یا ترنوپل پہنچنے کے لیے روسی فوج سے ان کے لیے اجازت نامہ لے اور ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرے یا کسی اور راستے سے انھیں نکالنے کا انتطام کرے مگر ان کے مطابق سفارتخانہ مصر ہے کہ وہ خود اپنے طور پر لییو یا ترنوپل پہنچیں جو فی الحال ناممکن اور خطرناک نظر آتا ہے۔
’یوکرین سے پاکستانی طلبا کی اکثریت کو نکالا جا چکا ہے‘یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق اب تک تقریباً 70 طلبہ کو یوکرین کے شہر خرخیو سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جاری حملوں کا زور بھی اسی شہر میں ہے۔پاکستانی سفیر ڈاکٹر نوئیل اسرائیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں 3000 پاکستانی طلبہ تھے جن میں سے زیادہ تر کو حملوں کی زد میں آئے دو شہروں خرخیو اور کیئو سے نکال لیا گیا ہے۔ ان طلبہ کو دو سے تین گروپ میں پولینڈ بھیجا جائے گا جہاں سے پاکستانی سفارتخانہ انھیں وطن واپس بھیجے گااس سے پہلے یوکرین کے شہر ترنوپل پہنچنے والے 35 طلبہ کو بھی پولینڈ کے ذریعے پاکستان واپس پہنچایا جائے گا۔ ڈاکٹر نویئل کے مطابق اس وقت فائرنگ کی آواز ہر دوسرے منٹ سنائی دے رہی ہے جبکہ ملک کے کئی شہروں میں حملے جاری ہیں۔پاکستانی سفارتخانے نے یوکرین میں موجود طلبہ کو مغربی یوکرین کی طرف جانے کا کہا ہے جو اس وقت سب سے محفوظ ترین خط بتایا جارہا ہے۔
یاد رہے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کی طرح انڈین حکومت بھی اپنے شہریوں کو یوکرین سے نکالنے میں مصروف ہے اور اب تک 470 انڈین طلبا کو یوکرین سے نکال کر رومانیہ کی سرحد پر پہنچایا جا چکا ہے۔ انڈین طلبا کو پولینڈ میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے پولینڈ - یوکرین کی سرحد پر بھی تیاریاں تیز کر دی گئی ہیں۔سفارتخانے نے کہا ’آپ پڑھائی پر توجہ دیں‘ثنا اللہ بتاتے ہیں کہ چونکہ ان کا شہر بالکل سرحد کے قریب ہے اسی لیے آج سے تقریباً ایک ہفتہ قبل انھوں نے سفارتخانے کو مطلع کیا تھا کہ ’یہاں حالات بہت خراب ہو رہے ہیں اور ہم یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، بتائیں ہم کیا کریں؟ جس پر سفارتخانے نے پہلے تو یہ پوچھا کہ ’سومی ہے کہاں؟‘ ہم تو دنگ رہ گئے اور ان سے پوچھا ’کیا آپ واقعی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں؟‘وہ بتاتے ہیں کہ ان کا میڈیکل کے تیسرے سال کا امتحان ہونے والا تھا جس کے باعث یونیورسٹی نے انھیں ہفتہ قبل نکلنے کی اجازت نہیں دی، انھوں نے سفارتخانے سے یہ کہہ کر مدد مانگی کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کریں کیونکہ انھیں خدشہ تھا سب سے پہلے اسی شہر پر قبضہ ہو گا جس پر سفارتخانے نے کہا ’آپ پڑھائی پر توجہ دیں‘۔‘ان طلبا کے مطابق جمعرات کو جب حالات مزید خراب ہوئے اور شہر پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا تو انھوں نے ایک بار پھر سفارتخانے سے رابطہ کیا جس پر انھیں کہا گیا کہ ’آپ خود وہاں سے نکلیں پھر ہم کچھ کرتے ہیں -زرا سوچیئے کیا سفارت کاروں کو یہی طریقہ کا ہونا چاہئے جو ہمارے ان مہربانوں کا ہے
پچاس برس پہلے ہمارے ممتاز ادیب ممتاز مفتی نے بھی سفارت کاروں کے یہی احوال درج کئے تھے جو بیچارے یوکرائنی پاکستانی طالب علموں نے بتائے ہیں -
جواب دیںحذف کریں