زندگی کے پچاس برسوں پر محیط فن اداکاری کے ایک دور کا نام طلعت حسین ہے جو پاکستان کی نسل نو کے لئے اپنے نقش قدم چھوڑ کر اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضری کے لئے آج جا چکا ہے -وہ کچھ عرصے سے علیل تھے -اب آئیے ان کے فن پر کچھ بات کتے ہیں -ان کا نام ہر ڈرامہ کی کامیابی کی سند ہوا کرتا تھا -لیکن یہ مقام انہوں نے اپنے خون جگر کی قیمت دے کر حاصل کیا تھا -وہ بتاتے ہیں کہ وہ ملک سے باہر ویٹر کا کام کرتے تھے ،کیونکہ اپنی تعلیم کی تکمیل کے لئے ان کو جس اضافی رقم کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہیں ہوتی تھی اس لئے انہوں نے ایک جگہ ویٹر کا کام کرنا شروع کر دیا -اس بارے میں وہ کہتے ہیں ’’مشکل اُس وقت ہوتی تھی جب کوئی پاکستانی فیملی ہوٹل میں کھانا کھانے آتی۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیتی۔ مجھے آرڈر دیتے ہوئے اُنہیں جھجک ہوتی۔ میں ان سے کہتا کہ وہ بے چین نہ ہوں اور اطمینان سے اپنا آرڈر لکھوا دیں۔ اس کے بعد صورتِ حال اُس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی جب اُنہیں بل کے ساتھ ٹپ دینا ہوتی۔ پاکستانی مجھے ٹپ دیتے ہوئے شرماتے تھے۔‘‘طلعت حسین بتاتے ہیں کہ میں نے انگلش لٹریچر میں گریجو یشن کیا۔پھر لندن چلا گیا اور تھیٹر آرٹس میں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے ٹریننگ حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تھیٹر آرٹس پڑھنے کے ساتھ مجھے بی بی سی پر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ یہ اس لحاظ سے یادگار کہہ سکتے ہیں کہ میں نے نہایت پروفیشنل ماحول میں کام کیا اور بہت کچھ سیکھا اور پھر اس کا فائدہ میں نے پاکستان میں آکر خوب اُٹھایا۔ طلعت حسین نے لندن میں ریڈیو پر کام کے دوران یہ کبھی نہیں سوچا تھاکہ کریئر بھی یہیں بنالیا جائے۔ان کاٹارگٹ تھیٹر آرٹس میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آنا تھا۔ اس لئے جونہی تعلیم مکمل ہوئی وطن آگئے۔ وہ وہاں کام کررہے تھے، مواقع مل رہے تھے چاہتے تو وہیں رُک جاتے ۔لیکن انہیں وطن کی محبت واپس اپنی مٹی پر لے آئ
اُنہوں نے نا صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائےبچپن میں طلعت حسین کو گلوکار بننے کا شوق تھا۔والد نے ہارمونیم بھی لا کر دیالیکن والدہ کو یہ پسند نہیں تھا۔یوں اُنہیں یہ شوق ترک کرنا پڑا۔پھر وہ پینٹنگ کی طرف راغب ہوئے۔اگر ایک مقابلے میں ہار نہ جاتے تو شاید پینٹر ہوتے۔والد کی یہ خواہش بھی تھی کی وہ لٹریچر خوب پڑھیں۔وہ اُنہیں انگریزی ناول لا کر دیتے بس یہیں سے اُنہیں پڑھنے کا شوق ہوا۔وہ زیادہ تر پیسے کتابوں کی خریداری میں خرچ کرتے۔طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد ہے اور انہوں نے فنون لطیفہ نصف صدی دی ہےیعنی انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اداکاری، صداکاری اور فنون لطیفہ کو دی۔طلعت حسین نے 1970 سے قبل کم عمری میں ہی اداکاری شروع کردی تھی لیکن انہیں 1970 کے بعد شہرت ملنا شروع ہوئی۔لندن سے تعلیم حاصل کرنے والے طلعت حسین نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغا ز کیا اور انہوں نے برطانوی ٹی وی سمیت بالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔
طلعت حسین نے ٹیلی ویژن کے سیکڑوں ڈراموں میں ایسی لازوال اداکاری کی ہے کہ ان کے نام بتانا بھی بہت مشکل ہے تاہم وہ جس ڈرامے میں نظر آئے ، ان کی جاندار اداکاری کی وجہ سے وہ ڈرامہ ہٹ ہوگیا-طلعت حسین نے زندگی کا نہایت مشکل دور بھی دیکھا ، وہ اداکاری کی اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن میں تھے، اُنہیں ایک نشریاتی ادارے میں تو کام ملنا شروع ہو گیا تھا لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کام سے گزر بسر ممکن نہیں تھی۔اس لئے ویٹر کی جزوقتی ملازمت بھی کی ۔وہ اداکار کے طور پر ایک پہچان بنا چکے تھے اِس لئے یہ کام بہت مشکل ہوتا تھا۔طلعت حسین وہ شخصیت ہیں جو اپنی ذات میں فن کی یونیورسٹی ہیں۔ اُنہوں نے نا صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ گلوکاری اور پیٹنگ میں دلچسپی رکھنے کے باوجود اداکاری کے شعبے میں نام اور مقام بنایا اور کئی اہم دستاویزی فلموں اور کمرشلز میں پس پردہ آواز کا جادو جگایا۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طلعت حسین کے کریئر کی ابتدا بچوں کے ایک رسالہ میں مضامین لکھنے سے ہوئی۔ طلعت حسین دو مرتبہ قرآن پاک کا ترجمہ ریکارڈ کرانے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔ بہت کم فنکار ایسے ہوتے ہیں جن کو تلفظ کی ادائی پر عبور حاصل ہو اور طلعت حسین کا شمار ایسے ہی فنکاروں میں ہوتا ہے جو لفظوں کی ادائی میں بھر پور صوتی تاثرات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ طلعت حسین اداکاری پر ہی نہیں ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں اور ہر وقت ان شعبوں کی قدیم و جدید کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔طلعت حسین بلا شبہ وہ فنکار ہیں جوپاکستان کی پہچان ہیں اور انہوں نے عوام کے دلوں پہ اپنی اداکاری کے وہ نقش ثبت کئے ہیں کہ انہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ارجمند، آنسو،طارق بن زیاد ،یس پردیس، عید کا جوڑ،افنون لطیفہ، ہوائیں،اک نئے موڑ پہ، پرچھائیاں،دی کاسل ،ایک امید،ٹائپسٹ، انسان اور آدمی، رابطہ، نائٹ کانسٹیبل اور درد کا شجر وغیرہ ان کے مقبول ڈرامے ہیں۔انہوں نے متعدد فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں چراغ جلتا رہا گمنام، انسان اور آدمی، جناح، لاج قربانی، سوتن کی بیٹی(انڈین) ،اشارہ ،آشنا ،بندگی اورمحبت مر نہیں سکتی وغیرہ شامل ہیں۔
جیسا کہ بتایا گیا کہ بچپن میں طلعت حسین کو گلوکار بننے کا شوق تھا۔والد نے ہارمونیم بھی لا کر دیالیکن والدہ کو یہ پسند نہیں تھا۔یوں اُنہیں یہ شوق ترک کرنا پڑا۔پھر وہ پینٹنگ کی طرف راغب ہوئے۔اگر ایک مقابلے میں ہار نہ جاتے تو شاید آج پینٹر ہوتے۔والد صاحب کی یہ خواہش بھی تھی کی وہ لٹریچر خوب پڑھیں۔وہ انہیں انگریزی ناول لا کر دیتے بس یہیں سے انہیں پڑھنے کا شوق ہوا۔وہ زیادہ تر پیسے کتابوں کی خریداری میں خرچ کرتے۔درحقیقت طلعت حسین کے والدین پڑھے لکھے اور براڈ مائنڈڈ لوگ تھے۔والد تقسیمِ ہندسے پہلے سرکاری ملازم تھے اور والدہ ریڈیو پر شوقیہ پروگرام کیا کرتی تھیں۔ ا ن کے خاندان کے لوگ دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔
طلعت حسین پاکستان کے مایہ ء ناز فنکار تھے اللہ رحیم و کریم ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں