بدھ، 29 مئی، 2024

پیر علی محمد راشدی۔روداد چمن


  محترم پیر علی محمد راشدی مرحوم   ہمارے وطن کے ایک جید سیاسی رہنما گزرے ہیں  ان کی ایک تحریر دل کو اچھی لگی جو آپ کے لئے پیش خدمت ہے۔اللہ پاک کا حکم کہ اپنے غصے پر قابو رکھو اور احسان کروانسانوں پر )یہاں لفظ ’’انسان ‘‘ خاص اہمیت کاحامل ہے )۔ہمارے پیغمبر ﷺ کا وہ سلوک جوانہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنے پرانے دشمنوں تک سے روا رکھا۔۔ہمارے قائدا عظم کے ارشادات ،پاکستان دستور ساز اسمبلی کی اولین نشست کے سامنے، ان کے الفاظ یہ ہیں۔’ایک حکومت کی اولین ذمہ داری امن وامان کو برقرار رکھناہوتا ہے ،تا کہ مملکت کی طرف سے اپنے باشندوں کی جان ومال اور مذہبی عقائدکی پوری حفاظت کی جاسکے۔ اس تقسیم میں ایک یا دوسری ڈومینین میں اقلیتوں کا باقی رہنا ناگزیر تھا۔ ہمیں اپنی ساری توجہ لوگوں با لخصوص عوام اور غریبوں کی بہبود پر مرکوز کردینی چاہیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ،ذات یا عقیدہ سے ہو۔اس کا کاروبار َمملکت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی شہری ہیں۔ میرے خیال میں اب ہمیں اس بات کو بطور نصب العین پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور وقت گزرنے پر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ،ہندو نہیں رہیں گے۔ مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی لحاظ سے نہیں، کیونکہ وہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ مملکت کے شہریوں کے طور پر سیاسی لحاظ سے‘‘اس سے وسیع اور بہتر چارٹر کسی نئی ریاست کو پختہ بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے تصور میں آنا مشکل تھا۔مگر قائداعظم کا انتقال ہوتے ہی یہاں WITCH HUNTING کی ابتدا ہو گئی، غدار سازی کے کارخانے کھل گئے، جس اپنے پرائے کو سیاست سے بھگانا مقصود تھا، اس پر غدار اور ’’پاکستان دشمن‘‘ کا لیبل چسپاں ہونے لگا۔

جو الفاظ ہم یہاں کے رہنے والوں نے شاید ہی کبھی سنے تھے وہ یکایک مروج ہوگئے۔ ’’غدار‘‘، ’’ملک دشمن‘‘، ’’سبوئیٹر‘‘، ’’کٹرلنگ‘‘، ’’تخریب پسند‘‘ (بھارت کا جاسوس)، یعنی پچھلی عالمی لڑائی کے دوران اتحادیوں نے جو الفاظ اپنے دشمنوں کی تذلیل اور دل آزاری کیلئے گھڑ لئے تھے، وہ ہم نے بغیر سوچے سمجھے اپنی سیاسی لغت اور اخباری زبان میں شامل کرلئے اور ان کا استعمال اس سارے عرصے میں ہمارا روزمرہ کا مقبول ترین مشغلہ بنا رہا (اعتبار نہ آئے تو اس دور کے اخبارات کے فائل اور تقریروں کا ریکارڈ ملاحظہ کرلیجئے)اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ رہی کہ جس شخص کو آج غدار قرار دیا کل اسی کو بشرط ضرورت گلے لگالیا، پھر الٹا کر دیا، پھر سیدھا کر دیا، پھر جیل میں ڈال دیا یا پڑودا کے تحت خارج کر دیا، پھر اس کو کسی نہ کسی بڑے عہدے پر بٹھا دیا!

غرض اکھاڑ پچھاڑ، الٹ پلٹ، باہمی آبروریزی اور دل آزاری کا یہ سلسلہ برابر 1970-71ء تک جاری رہا اور جو وقت اور قوت قوم کے مختلف ’’طفلان گریزپا‘‘ کو درس محبت دے کر، اپنے ساتھ ملاکر قومی تعمیر کے کام میں لگا دینے پر صرف ہوتی تو داخلی انتشار، باہمی تلخیوں اور جمہوریت کی پراگندگی کے وہ مناظر سامنے نہیں آتے جو پاکستان کے دشمنوں کیلئے باعث خوشنودی اور دوستوں کیلئے وجہ دل گرفتگی بنتے رہے۔افسوس یہ ہے کہ کسی نے یہ نہں سوچا کہ اس کے نتائج آگے چل کر قومی اتحاد و تنظیم اور جمہوریت کے حق میں کیا ہونے والے ہیں۔زبان سے تو سب پاکستان کا بھلا چاہتے تھے اور کہتے یہ تھے کہ وہ قوم کو ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ بنانا چاہتے ہیں، مگر عملاً اپنی غیر مال اندیشی سے، اس دیوار میں ایسے شگاف ڈالتے رہے جن کی نہ مرمت ہو سکتی تھی نہ ان کو چھپایا جا سکتا تھا۔ہاتھ کے زخم مندمل ہو سکتے ہیں، زبان کے چرکے ناسور بن جاتے ہیں۔ آدمی جسمانی اذیت بھول سکتا ہے مگر بے آبروئی بھول نہیں سکتا۔ انسان آخر بشریت کے تقاضوں کے سامنے مجبور ہی رہتا ہے۔یہ مشغلہ غدار سازی کا صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہی نہیں رہا، بلکہ بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ گئی۔ مثلاً منتخب عوامی نمائندوں کو بے آبرو اور مجبور کر کے نوکر شاہی کے قدموں میں ڈال دینے، اور اس طرح سے جمہوری سیاست کو ناکام بنانے کے مقصد سے، درون خانہ نوکر شاہی کے ہی ایما پر قائداعظم کے انتقال کے بعد (ان کی زندگی میں اس قسم کے ’’قانون‘‘ بنانے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی) ایک خاص قانون پروڈا بنایا گیا جس کا بظاہر مقصد تو انتظامی بدعنوانیوں کا احتساب تھا مگر نتیجہ کے اعتبار سے اس کا حقیقی مقصد یہ لگتا تھا کہ، منتخب قومی نمائندوں، وزیروں وغیرہ کی داڑھیاں مستقلاً نوکر شاہی کے ہاتھوں میں دے دی جائیں،تا کہ وہ وزیر، اپنی آبرو بچانے کی خاطر نوکر شاہی کے آدمیوں سے اختلاف نہ کر سکیں۔یہ پہلا قدم تھا، اولاً جمہوریت کو نوکر شاہی کا تابع فرمان بنانے کیلئے اور ثانیاً دنیا کے سامنے پاکستانی عوام اور پبلک لائف کو ذلیل و خوار کرنے کیلئے۔ پروڈا کی کارگزاریوں کے ذریعے یہ دکھا کر کہ پاکستان کے عوام بالعموم ایسے آدمیوں کو منتخب کرتے ہیں جو بددیانت اور بدعنوان ہوتے ہیں اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان کو پکڑنے کیلئے ایک خاص قانون بنانے کی ضرورت پیش آ گی ہے۔ایسا ’’قانون‘‘ دنیا میں کہیں نہیں بنا تھا،حالانکہ یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ دنیا کی جملہ جمہورتیں (بھارت سمیت) فرشتوں پر مشتمل تھیں اور ان کے خلاف کبھی بدعنوانی کی شکایتیں نہیں ہوئیں،اور یہ کیفیت محض پاکستان میں رونما ہوئی تھی کہ پاکستاان بنتے ہی ایک سال کے اندر اندر اکثر سیاست دان بدعنوان بن گئے تھے جن کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ایک خاص قانون کی ضرورت محسوس ہو گئی تھی۔ کون سی جمہوریت میں بدعنوانی کی شکایتیں نہیں ہوئیں؟ امریکہ کے کتنے صدور کے خلاف بدعنوانی کے الزامات اٹھے،(ایک پوری کتاب ہے اس مضمون پر)۔ برطانیہ کے وزیراعظم لائڈ جارج پر الزام آیا کہ اس نے القاب بیچے ہیں، وہیں مارکونی کمپنی کے شیئرز پر بڑے ہنگامے ہوتے رہے، کرچل ڈائون کے پلاٹوں میں ہیرا پھیری ہوئی اور ایک وزیر زیر عتاب آیا، جنوبی امریکہ تو سرتاپا مجسمہ اسکینڈل بنا رہا ہے،مگر کہیں ’’پروڈا‘‘ جیسا ’’قانون‘‘ نہیں بنا،  

1 تبصرہ:

  1. پیر علی محمد راشدی 5 اگست، 1905ء کو سندھ میں ضلع لاڑکانہ کے گاؤں بہمن، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں سندھ کے مشہور روحانی گھرانے راشدی خاندان میں پیر سید حامد شاہ راشدی کے گھر پیدا ہوئے ۔ انھوں نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گھر پر ہی عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کیوہ تحریک پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ تحریک پاکستان کے ان اشخاص میں شامل تھے جنھوں نے تاریخی قرارداد پاکستان کی ڈرافٹنگ کا کام سرنجام دیا۔ آپ سندھ کے ممتاز مورخ، محقق اور فارسی ادبیات کے ماہر حسام الدین راشدی کے بڑے بھائی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر