مندر میں موجود اور دیوداسیوں کی طرح مندر کے بوڑھے پجاری کی خدمت کرتے ہوئے ایک روز اس نے پجاری سے سوال کیا تھا پجاری جی میری ماں نے مجھے یہاں کس لئے چھوڑ اتھا -پجاری اس کے سوال پر کہنے لگا تیری ماں کی کوئ منت تھی جس کے پورا ہونے پر اس نے مندر کے استھان پر دان دیا تھا -اور پھر یوں ہوا کہ مندر کے بوڑھے پجاری کے چرنوں میں بیٹھی اس کی جوانی جب جوبن پر آئ تب پجاری کو اس کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی وہ اسی کے چرنوں میں ہی بیٹھی ہوئ تھی --پجاری بلکل بوڑھا ہو گیا تھا اور تب بھی اس نے اس سے ایک بار بھی نہیں کہا تھا کہ وہ کہیں جا کر باہر کی دنیا دیکھ آئے - لیکن ایک روز ایک اجنبی اس کے من مندر میں آ پہنچا اس نے پجاری کو بتایا تو پجاری نے اس کو اپنے جھرّیوں بھرے چہرے میں دھنسی ہوئ آنکھوں سےدیکھتے ہوئے پہلے تو ایک دم آگ بگولہ سا گرم ہو اٹھا پھر نا جانے کیا سوچ کر ایک دم ہی سنبھل کر بولا دیکھ دیوداسی میں تجھ کو منع نہیں کروں گا ،چل تو خود دیکھ لے ،،یہاں تو تُو اپنے من کے رشتے سے رہتی ہے ،،وہاں تو تن من د ونوں کے رشتے سے رہے گی ،پھر بھی وہ تیرا نہیں ہو گا ،کیوں پجاری جی وہ مجھ سے بہت محبّت کرتا ہے ،
،ہاں میں کب کہ رہا ہوں کہ وہ محبّت نہیں کرتا ہے ،،اچھّا جا اب آزما لے پھر آ جایئو ، پھر وہ من مندر کے دیوتا کے لیئے اپنی سیج سجا کے بیٹھ گئ،اس سیج کو سجانے کے لئے اس کے پریمی نے مندر کے قریب ہی ایک کرائے کی کھولی لے لی تھی،وہ حسبِ وعدہ آنے لگا وہ شادی شدہ تھا اس لئے دن کے اجالے میں نہیں آسکتا تھا بس رات ہی اس کو موزوں تھی اس لئے وہ ہر دوسری تیسری رات بلا دھڑک آ تا اس کے ساتھ وقت گزارتا اور چلا جاتا -لیکن یہ رات اور راتوں سے زرا مختلف رات تھی ابی دو چار ہفتے ہی گزرے تھے کہ اس رات وہ بہت سخت بیمار تھی اور ہر پل دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی کہ اب وہ آ ئے گا اور پھر ہر رات کی طرح آج کی رات بھی وہ آیا تھا لیکن آ ج کی رات وہ بہت بے قرار تھی تپ سے اس کا بدن جل رہا تھا اس کی خواہش تھی آج کی رات اس کا پریمی اس کے پاس ہوتا ،بخار کی حدّت میں وہ پوری طرح ہوش میں نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنے دل میں ایک موہوم سی خواہش جاگتی محسوس کی آنے والا اس کے اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر تے ہوئے بہت آہستہ سے پوچھے گا کہ کیا ہوا؟- پھر وہ آ گیا لیکن وہ بہت خوفزدہ تھا -اس نےدیوداسی کو بتایا کسی نے مخبری کر دی ہے کہ میں تیرے دوارے آتا ہوں اس لئے تو جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے کہیں اور چلی جا -اس نے بس اتنا کہا کہ دیو داسی مجھے معاف کر دیجو اور پھر وہ تیزی سے چلا گیا -
اس کے دل کے کواڑ تمام رات اذیّت سے بجتے رہے اور لمبی کالی وہ ایک رات اس کے دل کی تنہائیوں میں سسکتی ہوئ دھیرے دھیرے کھسکتی رہی صبح دم وہ اس قابل تو نہیں تھی لیکن اپنے آ پ کو زبردستی اٹھا کر یوگی کے استھان پر جا پہنچی ابھی تو مندر کے سنہرے کلس پر دھوپ کی پہلی کرن پر بھی نہیں پڑی تھی ،کلس ابھی اجلا نہیں میلا نظر آرہا تھا اور کلس کی مانند اس کا دل بھی میلا تھا ، مندر کی سیڑھیوں پر اس نے پہلا قدم رکھّا ہی تھا کا مندر کی گھنٹیاں گھونگھر بجانے لگیں اور سیڑھیا ں چڑھتے ہی مندر کے پجاری نے اس کو دیکھا جو گھنٹیا ں بجا کر ہٹ رہا تھا اس کی بھی پہلی نظر پجاری پر پڑی اور پھر اس نے ہولے ہولے آگے بڑھتے ہوئے بلکل مریل آواز میں پجاری کے قدموں میں جھک کراسے پرنا م کیا جو اس کو آتا دیکھ کر وہیں ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا تھا وہ سیدھی ہوئ ،تو پجاری نے کہا بول دیو داسی کیا ہوا ،وہ کچھ نہیں بول سکی کیونکہ آنسو اس کے دل سے نکل کر گلے میں اٹک گئے تھے پجاری نے اپنی بوڑھی گردن کو ایک جانب ہلکا سا جھٹکا دیا اور معنی خیز لہجے میں بولا جان گیا کیا ہوا ،،ہرجائ نہیں آیا پجاری کی بات کا جواب دینے کے بجائے وہ مندر کے فرش پر پاؤں پسار کر بیٹھ گئ اور پجاری سے روتے ہوئے کہنے لگی -
اور پھر اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آنسووں کی قطاریں اس کے چہرے کو بھگونے لگیں-ہاں مرد کی زات ایسی ہوتی ہےبوڑھے پجاری نے اپنی جہاں دیدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ،،،،دیکھ دیوداسی میں نے پہلے بھی تجھے سمجھایا تھا کہ تو بھو گی سنسار کے ان ظالم جھمیلوں میں نا جا -پر تو مانی ہی نہیں ،،، خیر ابھی بھی خیر ہے --- تو جا تیرا مسکن سونا ہے جا کر اسے آباد کر ،،میں جانتا تھا یہی ہونا تھا ،،پجاری بڑبڑاتا ہوا وہاں سے ہٹ کر چلا گیا اور دیو داسی اپنی ساری کے پلّو سے اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے یوگی کے استھان پہ دوبارہ پناہ لے لی تھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں