ہفتہ، 29 جولائی، 2023

شہادت حضرت عباس علمدار علیہ السلام

 

ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق   وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں۔ بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں-مولائے  کائنات حضرت علی علیہ السّلام  کی خصوصی تربیت نے  شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا جناب عباس  علیہ السّلامکا وہ عظیم فہم و ادراک اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔ ایک دن مولاءے کائنات حضرت علی علیہ السّلام  عباس کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھے حضرت زینب(س) بھی موجود تھیں امام نے اس بچے سے کہا: کہو ایک۔ عباس نے کہا : ایک۔ فرمایا : کہو دو۔ عباس نے دو کہنے سے منع کر دیا۔ اور کہا مجھے شرم آتی ہے جس زبان سے خدا کو ایک کہا اسی زبان سے دو کہوں۔ امام، عباس کی اس زیرکی اور ذہانت سے خوش ہوئے اور پیشانی کو چوم لیا۔ آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس بات کا با عث بنی کہ جسمی رشد و نمو کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی رشد و نمو بھی کمال کی طرف بڑھی۔ جناب عباس   علیہ السّلامنہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خرد مندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی منفرد تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں تاکہ اس دن حجت خدا کی نصرت میں جانثاری کریں۔ وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔

جنگ صفّین اور حضرت عبّاس علمدار- 

حضرت علی علیه السلام نے حضرت عباس علمدار کی تربیت و پرورش کی تهی۔ حضرت علی علیه السلام سے انهوں نے فن سپه گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجه اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقه حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وه ثانی حیدر کهلانے لگے۔ حضرت عباس علیه السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکهتے تهے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے هوئی تهی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بهبود کے لئے خاص طور پر مشهور تهے۔ اسی وجه سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل هوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ هے جو ان کے روحانی کمال کی بهترین دلیل هے۔ وه اپنے بهائی امام حسین علیه السلام کے عاشق و گرویده تهے اورسخت ترین حالات میں بهی ان کا ساته نهیں چهوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساته وابسته هوگیا هے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شهنشاهِ وفا هے ۔ 

جنگ صفین حضرت علی علیه السلام اور شام کے گورنر معاویه بن ابی سفیان کے درمیان مئی۔جولائی 657 ء میں هوئی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیه السلام نے حضرت علی علیه السلام کا لباس پهنا اور بالکل اپنے والد علی علیه السلام کی طرح زبردست جنگ کی حتیٰ که لوگوں نے ان کو علی هی سمجها۔ جب علی علیه السلام بهی میدان میں داخل هوئے تو لوگ ششدر ره گئے ۔ اس موقع پر علی علیه السلام نے اپنے بیٹے عباسؑ کا تعارف کرواتے هوئے کها که یه عباسؑ هیں اور یه بنو هاشم کے چاند هیں۔ اسی وجه سے حضرت عباس علیه السلام کو قمرِ بنی هاشم کها جاتا هے۔  مروی ہے کہ ابو الشعثاء نے انتہائی غیظ و غضب کی حالت میں نکل کر رجز خوانی کرتے ہوئے نکلا اور کہا: اے نوجوان تم نے میری پوری اولاد کو قتل کیا خدا کی قسم میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہاری عزا میں بٹھا دوں گا۔ چنانچہ لڑا اور مارا گیا اور جب یہ نقاب پوش نوجوان واپس لشکرگاہ میں آیا تو امیرالمؤمنین علیه السلام نے اس کے چہرے سے نقاب ہٹایا اور سب نے دیکھا کہ وہ عباس بن علی علیه السلام تھے۔ 

شائد علی  علیہ السّلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ کی تمام اولاد آپ کے اطراف میں نگراں وپریشاں اور گریہ کناں  حالت میں جمع تھی، عباس کا ہاتھ حسین کے ہاتھ میں دیا ہوگا اور یہ وصیت کی ہوگی عباس تم اور تمہارا حسین کربلا میں ہوں گے کبھی اس سے جدا نہیں ہونا اور اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔شہادت حضرت عباس علمدار علیہ السلام-لشکر حسینی کا علمبردار قمر بنی ہاشم-ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہے۔جو اخلاص ،استحکام ، ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو درس اطاعت،وفاداری ،جانثاری اور فداکاری دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔ شدید پیاس کے عالم میں جانے کس ادا سے علم اٹھایا کہ علم کا نام سنتے ہی بے ساختہ غازی عباس علیہ اسلا م کا نام گرامی ذہن میں آتا ہے- غازی، جری، شیر ،پیکر ایثار ، باوفا، سقہ سکینہ ، حسین علیہ اسلام کی ہمت ، لشکر حسینی کا علمبردار،بچوں کی آس ،عباس علمدار علیہ اسلام ہیں 

جب اطفال  کربلا پیاس کے سبب  ناله و زارى کررہے تهے، تب عباس  علیہ السّلام پانى لانے کے لئے اجازت طلب کرنے تب اعباس  علیہ السّلام پانى لانے کے لئے اجازت لینےمو لا حسین  کے پاس تشریف لاۓ اس وقت امام مظلوم کے چہرے پر افسردگی چھا گی اور آپ نے فرمایا بھائی ،، تم ہمارے لشکر کے علم بردار ھو، اور تم بھی ہم کو چھوڑے جارہے ہو۔ غازی نے ایک طرف گرم ریت پر پائمال لاشوں کی طرف اشارہ کیا مولا جس لشکر کا میں علمبردار تھا وہ تو زمیں کربلا کی گرم ریت پر پائمال ہوگیا ہے مجھہ سے سکینہ اور چھوٹے بچوں کی پیاس نہین دیکھی جاتی ۔ معصوم سکینہ اپنی چھوٹی سی خشک مشکیزہ اٹھا کر لائ اور چچا کے گلے میں ڈال دی ۔بی بی سکینہ نے سارے پیاسوں بچوں کو جمع کیا اور کہا اپنے اپنے کوزے لے آؤ میرے عمو اب پانی لینے جاتےہیں ۔ تین دن کے بھوکے پیاسے بچے اپنے اپنے ۔کوزے اٹھا کر در خیمہ پر بیٹھ گئےادھر علم لیکر لشکر حسینی کا علمبردار چلا ۔ امام نے حکم دیا تھا ،عباس جنگ نہیں کرنی ۔ حکم امام نے غازی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں صرف ایک تلوار لی ، حضرت عباس کو دیکھتے ھی لشکر یذید میں ہیبت پھیل گی –

حضرت عباس باوفا نے اپنی تلوار کی طاقت سےیزیدی فوجوں میں انتشار پیدا کیا اور فرات کی جانب پیش قدمی کی ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں تازہ دم لشکر ایک
   طرف تین دن کا بھوکا پیاسہ   عباس باوفا نے اسد اللہی طاقت کا مظاہرہ کیا کہ فوج بھاگ گی ۔غازی نے فرات پر قبضہ کیا مشکیزہ بھرا ، ایک دفعہ پانی چلو میں لیا اور پھر پھینک دیا سکینہ کی علی اصغر کی پیاس یاد آئی۔مشک بھر کر کے گھوڑے پر سوارہوۓ آگے بڑھنے لگے ۔ لشکر یذیذ کو شکست کا یقین ہوگیا -چنانچہ کمیں گاہ سے تیروں کی بارش ہونے لگی پہلے دایاں ہاتھہ قلم کیا گیا پھر بایاں ہاتھہ قلم ہوا تب آپنے دانتوں سے مشک پکڑ لی - آپ ّپھر بھی بہادری سے مشک کی حفاظت کرتے ہوے   آگے بڑھتے گے یہاں تک کے ایک تیر مشک سکینہ پر لگا اور سارا پانی بہہ گیااس کے ساتھ سر پر پپیچھے سے گرز کا وار ہوا اور آپ نے مولا حسین کو آواز دی- غازی کے جسم میں اس قدر تیر ونیزے تھے کہ اب گھوڑے پر ٹکنا مشکل ہوگیا تھا۔ کوئی بھی سوار جب گھوڑے سے زین سے زمین پر آتا ہے تو اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے    غازی کی اس مصبیت کو کیسے بیان کروں حسین کا شیر زمین پر کیسے آیا

۔ امام دریا کی ترائ میں پہنچے اور ذخموں سے چور 'چور بھائ کا سر اپنے زانو پر رکھّا مولا عباس نے امام حسین  سے کہا مولا میری لاش خیمہ    میں مت لے جایئےگا میں سکینہ سے شرمندہ ہوں پھر آپ نے کہا  کہ آقا میں نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے آپکی زیارت کی تھی  اب دنیا سے جاتے ہوے بھی آپکی زیارت کرنا چاھتاہوں- ایک  ایک آنکھہ میں خون بھرا ہے اور دوسری آنکھ بھی زخمی ہے مولا حسین نے اپنی عبا کے دامن سے مولا عباس کی آنکھ کا لہو صاف کیااور پھر   امام اعلی مقام نے فرمایا ، اے میرے باوفا بھائی ساری زندگی ھم کو آقا کہہ کر پکارا ہے ایک بار بھائی کہہ دو۔ حضرت عباس بھی ان اولیاء الٰہی میں سے ایک ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لیے مشعل راہ بنتے ہیں مولا عبّاس نے بھائ کہ کر چہرہ ءامام کی زیارت کی اور آخری ہچکی کے ساتھ اور خلد بریں کو سدھار گئے 

بعد شہادت آپ کا سر مبارک بھی اور شہدا کے سروں کے ہمراہ دربار یزید میں بھیجا گیا۔  اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔   روضہ اقدس عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ۔ غازی کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب   قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔ 

جمعہ، 28 جولائی، 2023

شہادت پسران زینب عون و محمّد

 

 

 

 

 

 روائت ہے کہ بعد از ولادت امام حسین علیہ السّلام حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اور جناب رسول خدا کو نومولود بچّے کی مبارکباد کے ساتھ اس کی شہادت کی سے بھی آگاہ کیا تو رسول اللہ نے بے اختیار گریہ کیا -جب بی بی سیّدہ نے آپ کے گریہ کرنے کا سبب پوچھا تب آ پ نے جبرئیل امیں کا پیغام بی بی سیدہ کو بتایا تب بی بی سلام للہ علیہ  روئیں اور پھر اپنے بابا جان سے دریافت کیا کہ جب میں آپ اور علی علیہ السّلام کوئ بھی دنیا میں نہیں ہو گا میرے بچّے کی نصرت کے لئے کون ہو گا  فرمایا کہ جب دنیا میں آپ وعلی مرتضےٰ کوئی نہ ہوں۔تو اللہ ایک قوم پیدا کرے گا جو تا قیامت تمھارے حسین پر گریہ کرے ۔یہ تمہاری نور نظر زینبؑ اپنے بھائی کی عزادار ہو گی۔اور اپنے دو جگر کے ٹکڑے حسینؑ پر قربان کرئے گی  -الغرض جب وہ زمانہ آیا اور امام ؑ مظلوم دشمنوں کے ظلم وجور سے تنگ آکر مدینہ سے کربلا پہنچے اور نرغہ کفار میں گھر گئے۔ تو آخر صبح عشرہ محرم بعد فراغت نماز ناخدائے جہاز آل نبیؑ یعنی فرزند زہراؑ وعلیؑ مع عزیز وانصار آمادہ پیکار ہوا۔

  بعد شہادت اصحاب باوفا جب عزیزان  ماہ لقا کی باری آئی ۔تو حضرت عون و محمدؑ کو جوش شجاعت نے بے تاب کیا تو جناب امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر اجازت جہاد طلب کی۔مگر آپ ادھر عون محمدؑ جناب امام حسینؑ سے رخصت پر مصر تھے۔آخر دونوں کو لیے ہوئے امام کون ومکان داخل عصمت سرائے ہوئے۔ان کے پیچھے پیچھے جناب علی اکبرؑ بھی تشریف لائے۔ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مقدسہ جس طرح کائنات کی اعلیٰ ترین ہستی ہیں اسی طرح اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے آپ کی قربانیاں بھی سب سے اعلیٰ ہیں جیسے آپ کی قربانیاں سب سے اعلیٰ ہیں ویسے ہی آپ کے خاندان کی قربانیاں بھی سب سے اعلیٰ ہیں ۔کربلامیں معرکہ آرائی ان کی کم عمری کے باوجود بھی بے مثال اور لازوال ہے ۔ حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام جب مکۃ المکرمہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت یہ دونوں صاحبزادگان ہمراہ نہ تھے لیکن جب حضرت امام عالی مقام کا قافلہ مکہ سے ابھی تھوڑی دور ہی پہنچا تو اس وقت حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کے ہمراہ ان دونوں شہزادوں کو آپ کے پیچھے روانہ کیا

  مشہور مفسرو محدث و مؤرخ امام طبری نے اپنی تاریخ میں بایں الفاظ نقل کیا ہے : میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ آگے نہ جائیں کیونکہ میں آپ کے بارے میں اس حوالے سے انتہائی پریشان ہوں کہ آپ نے کوفہ جانے کا قصد کیا ہے تووہاں آپ کے لئے اور باقی اہل بیت کے لئے انتہائی ابتلاو تکالیف ہیں اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو روئے زمین سے نور ہدایت بجھ جائے گا ۔ آپ ہدایت یافتہ لوگوں کے پرچم ہیں اور مومنوں کے لئے امید ہیں سفر میں جلدی نہ کریں ۔ ۔ میں بھی اپنے خط کے پیچھے پہنچ رہا ہوں ۔ ان دونوں شہزادوں نے اپنے والد محترم کا یہ پیغام آپ تک پہنچادیا ۔ چنانچہ اس کے بعد گورنر مکہ سے ضمانت حاصل کرکے حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے ۔ آپ کو مکہ میں روکنے کے لئے تمام معاملات آپ کے گوش گذار کئے تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ میں نے خواب میں نانا جان کی زیارت کی ہے اور آپ نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میں وہ کام ضرور کروں گا خواہ مجھے اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔

 انہوں نے پوچھا کہ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا حکم ارشاد فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں وہ حکم آپ کو جیتے جی نہیں بتا سکتا حتیٰ کہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں فرزند حضرت عون اور حضرت محمد علیہم السلام کو آپ کے ہمراہ روانہ کردیا اس طرح یہ دونوں شہزادگان امام عالی مقام علیہم السلام کی معیت میں کربلا تک پہنچے ۔ جب معرکہ کربلا شروع ہوا تو اس وقت امام عالی مقام کی غمگسار ہمشیرہ محترمہ حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے برادر مکرم کی خدمت میں دلگیر انداز میں بصد ادب و احترام عرض گذاری : پیارے بھائی جان اس وقت جب کہ ہم انتہائی مصائب و آلام کا شکار ہیں نانا جان نے ارشاد فرمایا تھا کہ صدقہ مصیبتوں کو ٹالتا ہے تو کیوں نہ ہم بھی صدقہ پیش کریں ؟

۔ آپ نے ارشاد فرمایا پیاری بہن اس بے سرو سامانی کے عالم میں ہم کیا پیش کرسکتے ہیں تو حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے عرض کی کہ یہ میرے دونوں شہزادے ہیں میں انہیں آپ پر صدقہ کے لئے قربان کر رہی ہوں ۔ آپ انہیں میدان جنگ میں جانے کی اجازت مرحمت فر ما دیں ۔ آپ نے تڑپ کر ارشاد فرمایا تمہارا بھائی اپنی جان بچانے کے لئے کبھی بھی اپنے بہن کے گھر کو ویران نہیں کرسکتا۔ سیدہ نے عرض کی آپ نے زندگی میں کبھی بھی میری کوئی بات نہیں ٹالی اس لئے آج بھی میری بات ضرور مان لیں میں یہ کیسے گوارہ کرسکتی ہوں کہ دشمن آپ کی شہادت کے درپے ہو اور میں اپنے بچوں کو بچاتی پھروں ۔ بہر حال آپ کے اصرار بالتکرار سے مجبور ہو کر آپ نے اشکبار آنکھوں سے اجازت مرحمت فرمادی ۔ چنانچہ حضرت عون و محمدعلیہما السلام تیار ہو کر میدان کارزار میں پہنچ گئے اور دشمن کو للکارا ۔ان دونوں نے لشکر یزید پر دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے زوردار حملہ کر دیا ہر چند کہ عمرو بن سعد ، شمر اور دیگر کچھ لوگوں نے انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوششیں رائگاں ہو گئی کہ جب انہوں نے اپنی تمام تر قوت مجتمع کرکے ان پر حملہ کر دیا اور یوں ہاشمی شیروں نے کشتوں کے پشتے لگانے شروع کردئیے قوتِ خیبر شکن کا بھر پور اظہار ہو رہا تھا اور دشمن ان اچانک حملوں سے حیران و ششدر تھا کہ کس طرح ان بچوں کو روکا جائے جبکہ دوسری طرف یہ بچے تھے کہ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے تھے اور دشمن گاجر مولی کی طرح کٹتے جارہے تھے ۔

چشم فلک عجیب نظارہ کر رہی تھی کہ دو بچوں کے آگے ایک تجربہ کار فوج بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگی پھر رہی تھی اور ان بچوں کے حملے تھے کہ تھمنے کانام نہیں لے رہے تھے اچانک دشمنوں نے یکبارگی حملہ کر دیا جبکہ اس دوران اکتیس دشمن ان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو چکے تھے ۔ اشقیاء میں سے عبد اللہ بن قطنہ نے حضرت عون علیہ السلام اور عامر بن نہشل تمیمی نے صاحبزادہ محمد علیہ السلام کو اپنی اپنی تلواروں کے وار سے شہید کر دیا یوں ان جان نثار بھانجوں نے اپنے پیارے ماموں جان پر اپنی اپنی جانیں نثار کرکے اپنے ننھیالوں کو حق وفاداری ادا کرکے شہیدانِ کربلا میں شامل ہوتے ہوئے ایک عظیم داستان رقم کر دی اور درجہ شہادت پر فائز ہوتے ہوئے ہمیشہ کی زندگی پاتے ہوئے جنت کی راہ لی اوراللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا حاصل کر لی ۔ حضرت عون و محمد علیہم السلام نے اپنے کردار سے ثابت کردیا کہ کامیابی طاقت کے ساتھ نہیں بلکہ جرأت ایمانی کے ساتھ حاصل ہوتی ہے ۔

جمعرات، 27 جولائی، 2023

حضرت مسلم ابن عقیل ا ورکو فیو ں کے خطو ط

 

حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم پر حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان مظالم کی انتہا کر دی اور جس نے آپ کے خانوادے کا ساتھ دینا چاہا  اس کو بھی شہید کر دياکا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم پر مظالم کی انتہا کر دی اور جس نے آپ کے خانوادے کا ساتھ دینا چاہا  س ا

کوفیوں کے خطوط امام حسین کے نام سے مراد کوفیوں کے وہ خطوط ہیں جو کوفہ کے رہنے والوں نے معاویہ بن ابی سفیان کی وفات کے بعد، یزید کے تخت نشین ہونے پر فرزند رسول حضرت امام حسین کو لکھے ۔کوفہ کے بزرگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد یہ خطوط اس وقت امام حسین کو لکھے جب آپ مکہ میں قیام پزیر تھے اور ان خطوط میں امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی نیز ان خطوط میں اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ان خطوط کے لکھنے والوں میں سلیمان بن صرد خزاعی، حبیب بن مظاہر اور رفاعہ بن شداد جیسے کوفہ کے اشراف اور شیعہ شامل تھے۔لیکن عبید اللہ بن زیاد نے کوفہ میں آنے کے بعد کوفہ کے لوگوں پر نہایت سختی گیری کی اور کوفہ میں خوف وہراس کو پھیلا دیا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے امام کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جس کے نتیجے میں واقعۂ کربلا رونما ہوا اور فرزند رسول کو ان کے اہل خانہ اور ان کے اصحاب کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔ انھوں نے امام حسینؑ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم حسین بن علی علیہما السلام کے نام، سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد، حبیب بن مظاہر اور شیعیان و مؤمنین و مسلمینِ کوفہ کی طرف سے۔سلام ہو آپ پر اور ہم آپ کی طرف حمد و ثناء کرتے ہیں اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے امّا بعد، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے مختص ہیں  جس نے اس امت پر حملہ کیا اور خلافت کو غارت کر دیا اور امت کے اموال کو غصب کر دیا اور ان کی رضا کے بغیر ان کی فرمانروائی پر قبضہ کیا، بعد ازاں اس نے اس امت کے نیک انسانوں کو قتل کر دیا اور اشرار اور برے انسانوں کو   مسلط کر دیا اور اللہ کے مال کو ظالموں اور صاحبان ثروت کے درمیان بانٹ دیا۔ پس دور رہے اللہ کی رحمت سے جس طرح کہ قوم ثمود خدا کی رحمت سے دور ہو گئی۔بے شک ہمارے اوپر کوئی امام و پیشوا نہیں ہے، پس ہماری طرف آئیں شاید اللہ آپ کے واسطے سے ہمیں حق کے گرد متحد کرلے اور نعمان بن بشیر امارت کے محل میں ہے اور ہم نہ تو جمعہ کے دن اس کے ساتھ نماز بجا لاتے ہیں اور نہ ہی عید میں اس ک

ے ساتھ باہر نکلتے ہیں؛ اور جب بھی خبر ملے کہ آپ ہماری طرف آئے ہیں تو ہم اس کو شہر سے نکال باہر کریں گے حتی کو اس کو شام کی طرف روانہ کریں۔ ان شاء اللہ۔ انھوں نے خط عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبداللہ بن وائل کے ہاتھوں روانہ کیا ۔ وہ تیزرفتاری سے روانہ ہوئے حتی کہ 10 رمضان سنہ 60 ہجری کو مکہ پہنچے۔پہلے خط کے دو روز بعد اہلیان کوفہ نے قیس بن مسہر صیداوی، عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی اور عمارہ بن عبد سلولی کو امام حسینؑ کے پاس روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں تقریبا 150 خطوط ارسال کیے۔ ان خطوط میں بعض ایک ایک شخص کی طرف سے تھے اور بعض دو اور چار افراد نے مل کر لکھے تھےدوسرا خط بھجوانے کے بعد ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کو امام حسینؑ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم-یہ خط ہے حسین بن علی کے نام، آپ کے پیروکاروں کی جانب سے جو مؤمنین اور مسلمین میں سے ہیں۔ہماری طرف آئیے کیونکہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور سب آپ کے آنے پر متفق  ہیں، ! والسلام۔

چوتھا خط-شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، یزید بن حارث بن رویم، عروہ بن قیس، عمرو بن حجاج زبیدی اور محمد بن عمرو تیمی نے امام حسینؑ کو خط لکھا کہ اغات ہرے بھرے ہیں اور پھل پکے ہوئے ہیں، پس جب بھی ارادہ کریں ہماری طرف آجائیں کیونکہ یہاں تیار سپاہی آپ کی نصرت کے لیے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ والسلام۔کوفیوں کے قاصدین سب امام حسین ؑ کے ہاں جمع ہوئے اور آپؑ نے سب کے خطوط پڑھ لیے اور قاصدوں سے لوگوں کا حال پوچھا۔ اور پھر ایک خط لکھا اور ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں ـ جو کوفیوں کے آخری قاصد تھے ـ، اہل کوفہ کے لیے روانہ کیا۔ خط کا متن کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے مسلمین اور مؤمنین کی جماعت کے نام۔اما بعد، ہانی اور سعید تمہارے خطوط لے کر میرے پاس آئے اور یہ دو افراد تمہارے آخری ایلچی تھے جو میرے پاس آئے اور میں سمجھ گیا کہ جو کچھ تم نے بیان کیا اور جس چیز کا تم نے ذکر کیا اور تمہاری اکثریت کا بیان کہ: ہمارا کوئی امام نہیں ہے پس ہماری طرف آؤ تاکہ شاید خداوند متعال تمہارے سبب ہمیں حق کے گرد متحد کر دے۔ اب میں اپنے بھائی اور چچا زاد اور میرے خاندان کے قابل اعتماد فرد کو تمہاری جانب روانہ کررہا ہوں؛ چنانچہ، اگر وہ میرے لیے لکھے کہ تمہاری اکثریت کی رائے اور تمہارے دانا افراد اور اکابرین کی رائے مطابقت رکھتی ہے اس چيز کے ساتھ جو میں نے تمہارے خطوط میں پڑھا، بہت جلد تمہاری طرف آؤں گا۔ ان شاء اللہ۔ کیونکہ میری جان کی قسم! امام کوئی بھی نہیں ہے سوا اس فرد کے جو کتاب خدا کے مطابقت حکم کرے اور فیصلہ کرے اور عدل و انصاف کی خاطر قیام کرے اور دین حق کا پابند ہو اور اور اپنے آپ کو اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا پابند کر دے۔ والسلام۔اس کے ساتھ اما م عالی مقام نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنی جانب سے سفیر کی حیثیت سے روانہ کیا تاکہ  وہ  تمام حالات سے آگاہ کریں  اور یہ  ابتداء تھی کربلا کے سانحہ کو وقوع پذیر ہونے کی 

اتوار، 23 جولائی، 2023

علامہ طالب جوہری ۔عالم بے بدل

 

 

ہرزمانے میں کچھ بندگان خدا ایسے بھی پیدا ہوتے ہیں جن کے لئے سارا زمانہ سوچتا ہے ان کو کبھی نہیں مرنا چاہئے۔ لیکن کیا کریں اللہ کے دستور میں کوئ ردوبدل نہیں ہو سکتا ہےاور پھر اللہ نے ایک عالم بے بدل طالب جوہری کو اپنے پاس بلا لیا۔طالب جوہری 27 اگست 1939ء کو بھارت کی ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اعلی مذہبی تعلیم کے لیے نجف اشرف عراق چلے گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی کے زیر انتظام حوزہ میں داخلہ لیا۔طالب جوہری آیت اللہ شہید باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ وہ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ہم جماعت تھے۔ اگرچہ آیت اللہ سیستانی ان سے کچھ بڑے تھے۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے -علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔لامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔

ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول اور حب اہل بیت ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔عقلیات معاصر  علّامہ طالب جوہری کیونکہ اکثر اپنے مداحوں میں گھرے رہتے تھے لہٰذا کبھی کبھار وہ ان معمولات کو توڑ کر لانگ ڈرائیو یا پرندوں کے مشاہدے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ کسی بھی دور دراز سڑک سے ہٹے ہوئے چارپائی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت خوش ہوتے جہاں انھیں کوئی پہچاننے والا نہ ہو۔علامہ طالب جوہری علومِ قرانی پر بہترین دسترس  رکھتے ہی تھے مگر نہ خود زاہدِ خشک تھے نہ زاہدانِ خشک کی ہمراہی میں خوش رہتے تھے۔ان کی شرارت آمیز خوش دلی اور حسِ جمالیات ہمیشہ توانا و تر و تازہ رہی-لامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرہوئے،

انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔اسّی کے عشرے میں پی ٹی وی سے فہم القران کی طویل سیریز نشر ہوئی جس میں علامہ نہایت عام فہم اور زود ہضم انداز میں پیغامِ قران سمجھاتے تھے۔ شاعری کا آغاز انہوں نے آٹھ برس کی عمر سے کیا  تھا، اب تک علامہ نے خاصی تعداد میں غزلیں، قصیدے، سلام، نظمیں اور رباعیات کہی، 1968 میں علامہ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ کہا،علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول ص اور حب اہلبیت ع ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں ۔سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد یہ علامہ کے انتقال کے وقت سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ علامہ کو محرم میں سنا کرتے تھے۔بین المسالک ہم آہنگی کی اگر بات کی جائے تو بلا شبہ علامہ طالب جوہری کا بیان ایک شیعہ عالم ہونے کے باوجود سرکاری ٹی وی چینل پر طویل عرصے تک اس لیے چلتا رہا کیونکہ انہوں نے مسلک کی بنیاد پر تفریق اور فرقہ واریت پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار سمجھے جاتے تھے-ان کی پسندیدہ جگہ ا نکی لائبریری تھی جو ان کے گھر واقع انچولی سوسائٹی میں اوپر کی منزل پر تھی۔

 لائبریری کی ہزاروں کتابوں میں سے ہر کتاب علامہ کی انگلیاں پہچانتی تھیں چنانچہ انھیں کسی بھی ریفرینس کے لیے کوئی بھی کتاب نکالنے میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے تھے۔ بقول محمد علی سید علامہ نے بلاشبہ ہزاروں مجالس پڑھیں مگر ہر مجلس کی تیاری وہ ایسے انہماک اور محنت سے کرتے گویا سپریم کورٹ میں آخری پیشی ہو۔لباس میں ان کی وضع داری تادم حیات قائم رہی سفید پاجامہ سیاہ اچکن اور سر پر عمامہ وہ نہائت نرم خو مزاج اور نکتہ سنج شخصیت کے مالک تھے وہ اپنی ایک ایک مجلس پر بہت توجّہ دیتے تھے انہوں قرانی اسلوب کو اپنی شبانہ روز زندگی  کا حصّہ بنا لیا تھا -اس کے بعد نو دس دن تک علامہ روزانہ کوئی ایک موضوع لے لیتے جیسے الحمد، رب العالمین، یوم الدین، نستعین وغیرہ۔ اور آدھا پونا گھنٹہ پرت در پرت سببِ نزول، ماخذ، تاریخی پس منظر اور منطق کے سہارے ایسے لے کر چلتے گویا بچے کو کہانی سنا رہے ہوں -عراق میں لگ بھگ ابتدائی دس برس حضرت قاسم الخوئی، باقر الصدر اور دیگر علمائے عظام کے آگے زانو تہہ کرنے، عربی و فارسی پر عمومی دسترس اور عرب و عجم کی تاریخ فہمی کا فیض تھا کہ علامہ کی مذہبی و غیر مذہبی گفتگو ادق مسائل کا احاطہ ضرور کرتی تھی مگر ان کی اجتہادیت مشکل پسندی اور علمیت کے مصنوعی دبدبے سے بالکل آزاد تھی۔ اسی لیے عام آدمی بھی بلا امتیازِ مسلک و نظریہ بلا دھڑک ان کی جانب کھنچتا تھا اور پورا پورا ابلاغی لطف کشید کرتا تھا۔علامہ طالب جوہری معروف خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے،آٹھ برس کی عمر سے آپ نے شاعری کا آغاز کیا تھا،علامہ طالب جوہر نے یادگار غزلیں،قصیدے،سلام،نظمیں اور رباعیات کہی، 1968میں آپ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ بھی کہا۔

علّامہ طالب جوہری کی وفات -عالمِ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت، عالمِ دین اور مفسرِ قرآن علامہ طالب جوہری کے انتقال سے آج واقعۂ کربلا بیان کرنے کے ایک مدلل انداز اور ذکرِ اہلِ بیت کے ایک سنہرے باب کا اختتام ہوگیا۔اور  وہ اپنے کروڑوں مدّاحوں کو سوگوار چھوڑ کر خلد بریں کے سفر پر روانہ ہوگئے

جمعہ، 21 جولائی، 2023

حسینی لنگر اور سبیل حسین

محرم الحرام کے مہینے میں شہدائے کربلا کی پیاس کی یاد میں مجالس اور جلوسوں کے راستوں میں سبیلیں لگائی جاتی ہیں، سبیل لگانے کا مقصد جہاں پیاسوں کی خدمت کرنا ہے وہیں لوگوں میں اس احساس کو بھی زندہ رکھنا ہے کہ میدان کربلا میں حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے پیاسے جام شہادت نوش کیا، سبیل لگانے والوں کا کہنا تھا کہ وہ یاد کربلا میں لوگوں کو مشروبات پلاتے ہین اور ثواب حاصل کرتے ہیں،سبیلوں کے علاوہ محرم میں شہر بھر میں نیاز بھی بانٹی جاتی ہے،شہدائے کربلا کی یاد میں لگائی جانے والی سبیلوں میں پانی اور میٹھے مشروبات کے ساتھ ساتھ دودھ اور میوہ جات کا انتظام بھی کیا جاتا ہے اور ان سبیلوں کو خوبصورت طریقوں سے سجایا جاتا ہے۔

  گجرات میں شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا منفرد انداز ،جہاں دودھ کی ایسی سبیل لگائی گئی ہے جہاں پر عزا داروں کوکھوئے اور عجوہ کھجور والا دودھ پلایاجا رہا ہے اس موقع پر سونے سے تیار کی جانے والے شہزادہ عون محمد سے منسوب تلوار کی زیارت بھی کروائی جا رہی ہے.یوں تو محرم الحرام میں ہر مسلمان شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے مگر گجرات میں ایک عقیدت مند پروفیسر شفیق حیدری کی طرف سے شہزادہ علی اکبر اور شہزادہ علی اصغر کے نام سے منسوب حسینی بادشاہی دودھ کی ایسی سبیل لگائی گئی ہے جہاں پر عزا داروں کو کھوئے اور عجوہ کھجور والا دودھ پلایا جا رہا ہے.

دودھ کی تقسیم کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کروائے جانے والے سونے کے برتنوں سے کی جا رہی ہے جی ٹی ایس چوک میں لگائی گئی اس سبیل پر دودھ پینے والوں کا رش لگا ہوا ہے اور لوگ عجوہ کھجور اور کھوئے سے تیار کیے جانے والا دودھ پی رہے ہیں سبیل کے منتظم شفیق حیدری کا کہنا ہے کہ میں نے کوشش کی ہے کہ امام حسین اور ان کے جانثاروں نے جتنی بڑی قربانی دی ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اتنی ہی شایان شان سبیل لگاں.منتظمین کی طرف سے گزشتہ 9 سال سے محرم الحرام کی آٹھ. نو اور دس تاریخ کو لگائی جانے والی ا س سبیل پر روزانہ سینکڑوں من دودھ پلایا جاتا ہے. جبکہ ایک اور عزادار حسین کئ من گنّے کا شربت اپنے ہاتھوں سے مشین چلا کر عزاداروں کو تقسیم کرتے نظر آ رہیں ان کا کہنا ہے کوئ پابندی نہیں خود بھی پیو اور گھروالوں کے لئے بھی لے جاو -ماہ محرم الحرام جہاں اور بہت ساری روایات کا امین ہے وہیں اس مہینے میں نذر و نیاز کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ملک بھر کی طرح لاہور میں بھی بطور لنگر بہت ساری چیزیں بانٹنے کا رواج ہے۔

حسینی لنگر محرم میں -محرم الحرام کے مہینے میں شہدائے کربلا کی پیاس کی یاد میں مجالس اور جلوسوں کے راستوں میں سبیلیں لگائی جاتی ہیں، سبیل لگانے کا مقصد جہاں پیاسوں کی خدمت کرنا ہے وہیں لوگوں میں اس احساس کو بھی زندہ رکھنا ہے کہ میدان کربلا میں حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے پیاسے جام شہادت نوش کیا، سبیل لگانے والوں کا کہنا تھا کہ وہ یاد کربلا میں لوگوں کو مشروبات پلاتے ہین اور ثواب حاصل کرتے ہیں،سبیلوں کے علاوہ محرم میں شہر بھر میں نیاز بھی بانٹی جاتی ہے،شہدائے کربلا کی یاد میں لگائی جانے والی سبیلوں میں پانی اور میٹھے مشروبات کے ساتھ ساتھ دودھ اور میوہ جات کا انتظام بھی کیا جاتا ہے اور ان سبیلوں کو خوبصورت طریقوں سے سجایا جاتا ہے۔ 

حق و باطل کے لئے مرنے جینے کا عملی مظاہرہ، واقعہ کربلا، نواسہ رسول اور شہدائے کربلا کی یاد میں نو اور دس محرم کو مجالس، جلوسوں کے ساتھ جگہ جگہ لنگر اور نیاز کی تقسیم کا سلسلہ بھی شروع رہتا ہے ، یہ سلسلہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا قدیم مجالس اور جلوس کا اہتمام ہے۔پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں محرم الحرام کے پہلے دس دنوں یعنی عاشورہ میں  بریانی، نان حلیم، چکن قورمہ، مٹن اور حلوے کی دیگیں تیار کی جاتی ہیں، گلی محلوں اور شاہراہوں پر جا بجا پانی،، مشروبات اور دودھ کی سبیلیں بھی لگائی جاتی ہیں۔سیدالشہداء امام حسین کی یاد میں کئی سو سال سے جاری نذر و نیاز کے اس سلسلے میں صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ تمام شہری بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں۔لاہور شہر کے عزاداران کربلاء کہتے ہیں کہ لنگر حسینی تاقیامت جاری وساری رہے گا۔

 

 

پنجاب میں محرم کی مشہور گنے کے شربت کی سبیل حسین  -گزرتے زمانے سے یہ بات سمجھ آئی کہ پانی کی یہ سبیلیں اس امر کی عکاس ہیں کہ میدان کربلا کی تپتی ریت پر حضرت امام حسین خواتینِ قافلہ اور کم سن پیاسے بچے کس طرح بلکے ہوں گے۔ کس طرح پیاس سے گلے سوکھ کے کانٹے ہوئے ہوں گے۔ کیا کیا ظلم ہوا ہوگا۔ اور حلیم یا کسی بھی طرح کا کھانا تقسیم کرنے والے اس بھوک سے خلقِ خدا کو آزاد کرانا چاہتے ہیں جو میدانِ کربلا میں اہل بیت رسول کو بطورِ اذیت پہنچائی گئی


جمعرات، 20 جولائی، 2023

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں

 

 

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں سنہ انّیس سو ستّاون ،، یہ میرے بچپن کا دور تھا جب پاکستان میں بننے والی فلم سات لاکھ کے اس گانے نے کراچی کے گلی کوچوں میں دھوم مچا دی تھی مجھے بھی یہ گیت بہت پسند تھا میرے زہن کے شائد کسی گوشہ میں اب تک یہ گیت یقیناً محفوظ ہو گا جو اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر اور تصویر کو دیکھ کر جاگ گیا خبر کا عنوان ہے تھرپارکر کی خواتین ڈمپر ڈرائیورز، تصویر میں تھری لباس میں ملبوس لاتعداد لڑکیاں اپنے انٹرویو کی باری آ نے کے انتظار میں کھڑی ہیں –کچھ لڑ کیوں کے چہرے کھلے ہیں لیکن کسی 'کسی نے ماتھا چھپایاہوا ہے کچھ نے ابھی بھی جبکہ انٹرویو دینے آئ ہیں گھونگھٹ نکالا ہوا ہے-میں نے تھر کی عورت کا چہرہ کبھی بھی کھلا نہیں دیکھا نا ہی اس کو کبھی کوئ جدّت طراز معاشرے کی رکن کی حیثیت سے جانابس اس کو اپنی گو د میں بچّہ اٹھائے اور سر پر پانی سے بھرے کئ مٹکے رکھ کر ننگے پاوں جلتی ریت پر چلتے ہوئے زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اس تصویر کو دیکھ کر میں حیران ہوں کہ گھونگھٹ کی اوٹ میں مٹکے اٹھانے والی عورت اپنے گھونگھٹ کی اوٹ سے ڈمپر ڈرائیونگ کس طرح کر سکے گی

لیکن تھری لوگ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنی پسماندگی کو دور کرنے لئے اپنی عورتو ں سے بھی کام لیں گے جن کا انتخاب کوئلے کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہے۔ مینا ان تیس امیدواروں میں شامل ہیں جن کوبطور ڈرا منتخب کیا گیا ہے پاکستان کے دیہی معاشرے میں پروفیشنل خواتین ڈرائیور بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں تھرپارکر جیسے پسماندہ اور دوردراز علاقے میں خواتین کو ڈمپر جیسی بھاری بھرکم گاڑی چلانا اپنی جگہ غیرمعمولی بات ہے ۔ ایک سال کی تربیت کے بعد یہ خواتین اگلے مہینے سے باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کریں گی۔ ایک تھری عورت نے پُر افسوس لہجے میں کہا کہ جب کبھی کسی پسماندہ علاقے سے خواتین اپنے مالی مسائل کے حل کے لیے گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں تو سب سے پہلے اپنے گھر والے ہی مخالفت شروع کر دیتے ہیں -وہ بتاتی ہیں کہ میں نے ڈمپر ڈرائیور کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ جب میرے بھائیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے سخت مخالفت کی۔

 محلے والوں نے بھی مذاق اُڑایا ۔ خواتین کو بطور ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ کا کہنا ہے کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے قبل کئی حلقوں کی جانب سے اس سلسلے میں مخالفت بھی سامنے آئی۔ 'یہ سوال اٹھایا گیا کہ مردوں کی بڑی تعداد بےروزگار ہے ایسے میں خواتین کو ڈمپر ڈرائیونگ جیسے شعبے میں مردوں پر ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟' ڈمپر ڈرائیور بننے کی ایک اور خواہشمند خاتون نے بتایا: 'میں لوگوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ تھر کی عورت مضبوط ہے اس لیے میں نے ڈمپر چلانے کی نوکری کے لیے درخواست دی۔میں اور میرے گھر والے خوش ہیں کہ اب میں ڈمپر چلاؤں گی اور گھر والوں کے لیے کمائی کا وسیلہ بنوں گی۔

اور ہمارے گھر کی غربت کم ہو گی'میرے لئے گھر میں حالات موافق ہیں ڈمپر ڈرائیونگ کی پروگرام انچارج جہاں آرا نے بتایا کہ اِس مقصد کے لیے پورے تھر میں چار مختلف مقامات پر کیمپ لگائے گئے ہیں جن میں رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد ان گنت تھی۔ انھی میں سے 90 خواتین کے ٹیسٹ اور انٹرویوز لینے کے بعد 30 خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جہاں آرا کے مطابق: 'رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین میں 60 سال تک کی خواتین بھی شامل تھیں تاہم وہ معمر ہونے کی وجہ سے وہ اہل نہیں تھیں۔ ایسی خواتین اپنے ساتھ اپنی بہو بیٹیوں کو بھی لائیں، کہ چلو ہم اپنی بہوؤں کے بچے سنبھال لیں گی لیکن اِن کے کام کرنے سے ہمارے گھر کے تمام افراد خوش ہوں گے۔'جہاں آرا نے مزید بتایا کہ اس وقت سارے تھرپارکر میں صرف ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں کار چلانا آتی ہے-مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ ڈمپر ڈرائیونگ کے لیے منتخب ہونے والی خواتین کو باقاعدہ اس کام پر لگانے سے پہلے انھیں ایک سال کی ٹریننگ دی جائے گی۔یہ وہ خواتین ہیں جو ڈرائیونگ سے نا آشنا ہیں۔

زندگی میں کبھی گاڑی کی سیٹ پر نہیں بیٹھیں، ڈمپر ٹرک عام ٹرک کے مقابلے میں سائز میں دگنے اور وزن میں بھاری ہوتے ہیں صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مرکزی قصبے مٹھی کی رہائشی 25 سالہ چمپا پیلے رنگ کے ایک ڈمپر کے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ان 30 امیدواروں میں شامل ہیں جن کا انتخاب کوئلے کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہےرانی کے ساتھ 30 دیگر خواتین ڈمپر ڈرائیورز بھی شامل ہیں۔ ایک سال کی تربیت کے بعد یہ خواتین اگلے مہینے سے باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کریں گی۔رانی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کبھی کسی پسماندہ علاقے سے خواتین اپنے مالی مسائل کے حل کے لیے گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں تو انھیں بعض اوقات اپنے ہی گھر والوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو بطور ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ کہتے ہیں کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان میں پروفیشنل خواتین ڈرائیور بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں تھرپارکر جیسے پسماندہ اور دوردراز علاقے میں خواتین کو ڈمپر جیسی بھاری بھرکم گاڑی چلانا اپنی جگہ غیرمعمولی بات ہے۔

دو محرم الحرام-آمد سرزمینِ کربلا

  

دو محرم الحرام-آمد  سرزمینِ کربلا امام عا لی  مقا م  حج موقو ف کر کے  مکہ مکرمہ سے عراق میں داخلے کے بعد جب  قافلے سمیت بطن عقبہ سے آگے شراف کی منزل پر پہنچے تو نوجوانوں کو پانی لینے کا حکم دیا اور آدھے دن تک چلتے رہے آپ کے اصحاب کو دور کوئی چیز نظر آئی تو انہوں نے تکبیر کہی انہیں لگا کھجور کے درخت ہیں وہ بہت خوش ہوئے امام علیہ السلام نے غور کرنے کا کہا تو انہوں نے کہا خدا کی قسم گھوڑوں کی گردنیں ہیں. لشکر کے آنے کا شُبہ ہوا تو آپ نے قافلے کا رُخ "ذوحم" نامی پہاڑ کی طرف کرنے کا حکم دیا تاکہ جنگ یا دفاع کی صورت آسانی ہو. السیدِ الشہدا مولا امام حسین علیہ السلام کا کربلا میں ورود بروز جمعرات 2 محرم الحرام 61 ہجری کو ہوا۔کاروانِ حسینی علیہ السلام غیر معروف راستہ سے کربلا آرہا تھا کہ عذیب الہجانات کے مقام پر حُر کو ابن زیاد ملعون کا خط پہنچا جس میں اس نے حُر کو ملامت کیا کہ تو امام حسین علیہ السلام سے کیوں نرمی کر رہا ہے ان پر سختی کیوں نہیں کرتا۔

اسکے بعد حُر نے سختی شروع کر دی۔کبھی کارواں کو روک دیتا اور کبھی کبھی چلنے کی اجازت دے دیتا۔یوں یہ کارواں بےآب و گیاہ بیابان میں پہنچ گیا حر نے کارواں اس وادی میں روک لیا۔جب خامسِ آلِ عبا علیہ السلام کا گھوڑا اس وادی میں پہنچا تو قدم آگے نہ بڑھایا، اگرچہ امام حسین علیہ السلام نے گھوڑے کو آگے چلنے کیلٸے ہانکا لیکن گھوڑا ایک قدم بھی نہ بڑھا۔ امام علیہ السلام نے گھوڑا تبدیل کیا تو وہ بھی آگے نہ بڑھا۔حتی کہ امام علیہ السلام نے 6 گھوڑے تبدیل کیے کسی نے بھی قدم آگے نہ بڑھاٸے۔مام علیہ السلام نے اصحاب سے پوچھا یہ کونسی سی زمین ہے؟عرض کیا: اسے کربلا کہتے ہیں۔اس وقت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالی کی قسم کرب و بلا والی یہی زمین ہے جہاں دکھ اور مصیبتیں ہونگی۔اللہ تعالی کی قسم! ہمارے جوان یہی مارے جاٸینگے۔aللہ تعالی کی قسم! ہماری عورتيں یہی بیوہ ہونگی۔اللہ تعالی کی قسم! ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہیں ذبح کیا جاٸیگا۔اللہ تعالی کی قسم! ہماری حرمت اور تعظیم کا پردہ یہیں اترے گا۔پس میرے جواں مردو!اور شرفا کے وارثو! یہاں اتر آٶ کیونکہ یہی ہماری قبروں کا مقام ہے۔پھر امام حسین علیہ السلام گھوڑے سے اترے، جوں ہی امام علیہ السلام کے قدم اس زمینِ کربلا پر پڑے تو خاکِ کربلا کا رنگ زرد پڑ گیا اور کچھ غبار اڑا جو امام حسین علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر اور بالوں میں بیٹھ گیا۔

شہیدِ کربلا امام حسین علیہ السلام نے زمینِ کربلا کو 60 ہزار درہم میں اہلِ نینوی اور غاضریہ سے خریدا جو 4 میل مربع (ساڑھے 6 کلومیٹر) پر محیط تھی۔اس وحشت ناک وادی میں جناب سیدہ زینب علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آٸیں اور عرض کیایہ وادی بہت وحشت ناک، دردناک اور ہولناک ہے جس وقت سے ہم یہاں اُترے ہیں میرے دل پر وحشت کا بوجھ زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔امام علیہ السلام نے فرمایا.بہن!بابا کے زمانے میں بابا ، میں اور بھا                  ٸی حسن علیہ السلام جب صفین جا رہے تھے اور ایسی زمین سے عبور ہوا تو ہم یہاں اُترے اور آرام کیا۔بابا کچھ دیر سو  ٸے۔اچانک نیند سے جاگے اور گریہ کرنے لگے۔جب وجہ پوچھی تو بابا نے فرمایا,میں نے خواب دیکھا کہ اس وادی میں خون کا دریا ہے اور میرا بیٹا حسین علیہ السلام اس خونی دریا میں غوطے کھا رہا ہے اور استغاثہ کر رہا اور کوٸی اس کی مدد کو نہیں آرہا۔پھر بابا میری طرف دیکھا اور فرمایا,-اس ہولناک واقعے کے وقت تمہاری حالت کیا ہو گی اور کیا کرو گے؟میں نے عرض کیا:میں صبر کرونگا اور اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہونگا۔ 

حضرت عبّاس علمدار اور حضرت علی اکبر کو خیام نصب کرنے کی ہدائت کی اور خود امام حسین علیہ السلام ایک طرف بیٹھ گۓ۔آپ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے مناجات کرتے ہو ۓ زمانے کی بےوفاٸ کا شکوہ یوں کیا:اے زمانے! تجھ پر تف ہے کہ تو بُرا دوست ہے، صبح اور شام میں حق کے طالبوں اور اپنے دوستوں کو قتل کر دیا ہے۔ پس تمام امور اللہ تعالی کے حوالے ہیں اور ہر زندہ اسکی طرف جانے والا ہے۔جب جناب زینب علیہ السلام نے یہ سُنا تو بھاٸی سے عرض کیا,بھاٸ ایسی باتیں تو وہ کرتا ہے جسے اپنے قتل کا یقین ہو جاۓ۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا,ہاں بہن! مجھے یقین ہے۔جناب زینب علیہ السلام نے عرض کیا,یہ کتنی بڑی مصیبت ہے کہ حسین علیہ السلام اپنی موت کی خبر مجھے دے رہے ہیں۔ بی بی کا یہ بیان سُنتے ہی خیام   میں گِریہ شروع ہوگیا-امام علیہ السلام نے فرمایا,یہ خیال کرنا کہ میرے دنیا سے جانے کے بعد گریباں چاک نہ کرنا اور ایسی کوٸ بات نہ کرنا جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا باعث ہو-امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے سامنے ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا اور خطبہ کے بعد فرمایا

دنیا اس سے پہلے ایسی نہ تھی  ہم آخرت کو   باقی جانتے ہیں، لہذا ہم نے دنیا سے آنکھیں بند کر کے آخرت کو اختيار کر لیا ہے۔ورودِ کربلا کے بعد ابن زیاد ملعون نے امام حسین علیہ السلام کے نام خط لکھا.اے حسین علیہ السلام! ، مجھے یزید کا حکم ہے کہ میں اس وقت تک نرم بستر پر نہ سوٶں اور گندم کی روٹی نہ کھاٶں جب تک تمہیں قتل نہ کر لوں یا پھر تم یزید کی بیعت کر لو۔والسلام!قاصد نے جب جواب کا مطالبہ کیا تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اس قسم کا خط جواب کے قابل نہیں البتہ لکھنے والا عذاب خدا کا مستحق ہے۔قاصد نے ابن زیاد ملعون کو تمام حال سنایا۔ابن زیاد کو بہت غصہ آیا اور فوری طورپر عمر بن سعد سے کہا,کہ تمہیں لشکر دیا ہے جاٶ اور امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرو۔کچھ دیر میں حُر بن یزید تمیمی ایک ھزار کے لشکر کے ساتھ آپہنچا. سخت گرمی کی وجہ سے اس کی اور لشکر اور جانوروں کی پیاس سے حالت بہت خَراب تھی.امام علیہ السلام نے جانوروں سمیت لشکر سیراب کرنے کا حُکم دیا پھر آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کوفیوں کو ان کے عہد و پیمان اور بھیجے گئے خطوط کے بارے میں پوچھا. امام علیہ السلام کے سوالوں پر سب خاموش رہے.

امام حسین علیہ السلام 2 محرم 61 ہجری قمری کو کربلا پہنچے اور کچھ دیر توقف کے بعد اپنے اصحاب اور اہل بیت کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:"اما بعد قد نزل بنا ما ترون من الأمر ، وإنّ الدنيا قد تغيّرت وتنكّرت ، وأدبر معروفها ، واستمرّت حتّى لم يبقَ منها إلاّ صبابة كصبابة الإناء ، وخسيس عيش كالمرعى الوبيل ، ألا ترون أنّ الحقّ لا يُعمل به ، وأنّ الباطل لا يُتناهى عنه ، ليرغب المؤمن في لقاء الله ، وإنّي لا أرى الموت إلاّ سعادة ، والحياة مع الظالمين إلاّ بَرَما الناسُ عبیدُ الدنیا و الدین لعق علی السنتهم یحوطونه مادرَّت معایشُهم فاذا مُحَّصوا بالبلاء قَلَّ الدَیّانون"امابعد، معاملات نے ہمارے ساتھ جو صورت اختیار کر لی ہے ، وہ آپ کے سامنے ہے۔ یقیناً دنیا نے رنگ بدل لیا ہے اور بہت بری شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس کی بھلائیوں نے منھ پھیر لیا ہے اور نیکیاں ختم ہوگئی ہیں اور اب اس میں اتنی ہی اچھائیاں باقی رہ گئی ہیں جتنی کسی برتن کی تہہ میں باقی رہ جانے والا پانی۔ اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہوگئی ہے جیسا کہ کوئی سنگلاخ اور چٹیل میدان۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا، اور کوئی باطل سے روکنے والا نہیں ہے۔ ان حالات میں مرد مومن کو چاہیے کہ وہ خدا سے ملنے کی آرزو کرے۔ میں جانبازی اور شجاعت کی موت کو ایک سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنا میرے نزدیک ذلت اور حقارت ہے۔ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں پر رہتا ہے ۔ یہ بس اس وقت تک دین کے حامی ہیں جب تک ان کی زندگی آرام اور آسائش سے گزرے، اور جب امتحان میں ڈالے جائیں تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔"اور آپ کو کوفہ ابن زیاد لعین کے پاس لیجانے کو بضد رہے اسی بیچ ظہر و عصر کی نمازوں کے اوقات آئے.امام علیہ السلام نے حُر کو اپنے لشکر کو نماز پڑھانے کا کہا پر اس نے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا اسِرار کیا امام علیہ السلام آگے بڑھے اور دونوں لشکروں کو نماز پڑھائی.

پھر آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور خطبے کے ذریعے ان کے دلوں کو جنجھوڑا ان کو انہی کے بھیجے خطوط دکھائے حُر نے ان خطوط سے لاتعلقی دکھائی اور اپنی پچھلی بات یعنی ابن زیاد لعین کے حُکم کو دہرایا.امام علیہ السلام نے سخت لہجہ میں قافلے کو سوار ہو کر روانہ ہونے کا حکم دیا جس پر حُر نے اُن کا راستہ روکنے کی کوشش کی,آپ نے اسے کہا تیری ماں تیرے ماتم میں روئے جس پر حُر نے شرمندہ ہو کر کہا میں آپ کو ایسا کچھ نہیں بول سکتا. آپ نے پھر اس کا ارادہ پوچھا اور اس نے دیئے گئے حکم کو دوھرایا. یہ سلسلہ پورا دن جاری رہا حُر امام علیہ السلام سے جنگ نہیں چاہتا تھا اس لیے آپ کو مدینہ اور کوفہ کے علاوہ کسی تیسری جگہ جانے کو کہا.امام علیہ السلام قادسیہ اور عذیب سے بائیں طرف چلے, حُر کا لشکر ساتھ ساتھ چلتا رہا کہ انہوں نے کوفہ کی طرف سے چار سواروں کو اونٹوں پر آتے دیکھا وہ امام علیہ السلام سے آکر ملے اور انہیں کوفہ اور وہاں جمع ہونے والے لشکر کے حالات اور حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام اور ان کے انصار کے حالات سے آگاہ کیا.-قافلہ     قصر بنی مقاتل پہنچا امام علیہ السلام وہاں کچھ دیر رُکے رات کے پچھلے پہر امام علیہ السلام نے پانی لینے کا حکم دیا اور وہاں سے روانہ ہوئے صبح کے وقت اترے نماز ادا کی اور پھر سوار ہوئے آپ بائیں طرف جانا چاہتے تھے حُر نے راستہ روکا وہ امام علیہ السلام کو کوفہ لیجانا چاہتا تھا   

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر