دو محرم الحرام-آمد سرزمینِ کربلا امام عا لی مقا م حج موقو ف کر کے مکہ مکرمہ سے عراق میں داخلے کے بعد جب قافلے سمیت بطن عقبہ سے آگے شراف کی منزل پر پہنچے تو نوجوانوں کو پانی لینے کا حکم دیا اور آدھے دن تک چلتے رہے آپ کے اصحاب کو دور کوئی چیز نظر آئی تو انہوں نے تکبیر کہی انہیں لگا کھجور کے درخت ہیں وہ بہت خوش ہوئے امام علیہ السلام نے غور کرنے کا کہا تو انہوں نے کہا خدا کی قسم گھوڑوں کی گردنیں ہیں. لشکر کے آنے کا شُبہ ہوا تو آپ نے قافلے کا رُخ "ذوحم" نامی پہاڑ کی طرف کرنے کا حکم دیا تاکہ جنگ یا دفاع کی صورت آسانی ہو. السیدِ الشہدا مولا امام حسین علیہ السلام کا کربلا میں ورود بروز جمعرات 2 محرم الحرام 61 ہجری کو ہوا۔کاروانِ حسینی علیہ السلام غیر معروف راستہ سے کربلا آرہا تھا کہ عذیب الہجانات کے مقام پر حُر کو ابن زیاد ملعون کا خط پہنچا جس میں اس نے حُر کو ملامت کیا کہ تو امام حسین علیہ السلام سے کیوں نرمی کر رہا ہے ان پر سختی کیوں نہیں کرتا۔
اسکے بعد حُر نے سختی شروع کر دی۔کبھی
کارواں کو روک دیتا اور کبھی کبھی چلنے کی اجازت دے دیتا۔یوں یہ کارواں بےآب و گیاہ
بیابان میں پہنچ گیا حر نے کارواں اس وادی میں روک لیا۔جب خامسِ آلِ عبا علیہ
السلام کا گھوڑا اس وادی میں پہنچا تو قدم آگے نہ بڑھایا، اگرچہ امام حسین علیہ
السلام نے گھوڑے کو آگے چلنے کیلٸے
ہانکا لیکن گھوڑا ایک قدم بھی نہ بڑھا۔ امام علیہ السلام نے گھوڑا تبدیل کیا تو وہ
بھی آگے نہ بڑھا۔حتی کہ امام علیہ السلام نے 6 گھوڑے تبدیل کیے کسی نے بھی قدم آگے
نہ بڑھاٸے۔مام علیہ السلام
نے اصحاب سے پوچھا یہ کونسی سی زمین ہے؟عرض کیا: اسے کربلا کہتے ہیں۔اس وقت امام
حسین علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالی کی قسم کرب و بلا والی یہی زمین ہے جہاں
دکھ اور مصیبتیں ہونگی۔اللہ تعالی کی قسم! ہمارے جوان یہی مارے جاٸینگے۔aللہ
تعالی کی قسم! ہماری عورتيں یہی بیوہ ہونگی۔اللہ تعالی کی قسم! ہمارے چھوٹے چھوٹے
بچوں کو یہیں ذبح کیا جاٸیگا۔اللہ
تعالی کی قسم! ہماری حرمت اور تعظیم کا پردہ یہیں اترے گا۔پس میرے جواں مردو!اور
شرفا کے وارثو! یہاں اتر آٶ
کیونکہ یہی ہماری قبروں کا مقام ہے۔پھر امام حسین علیہ السلام گھوڑے سے اترے، جوں
ہی امام علیہ السلام کے قدم اس زمینِ کربلا پر پڑے تو خاکِ کربلا کا رنگ زرد پڑ گیا
اور کچھ غبار اڑا جو امام حسین علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر اور بالوں میں بیٹھ گیا۔
شہیدِ کربلا امام حسین علیہ السلام نے زمینِ کربلا کو 60 ہزار درہم میں اہلِ نینوی اور غاضریہ سے خریدا جو 4 میل مربع (ساڑھے 6 کلومیٹر) پر محیط تھی۔اس وحشت ناک وادی میں جناب سیدہ زینب علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آٸیں اور عرض کیایہ وادی بہت وحشت ناک، دردناک اور ہولناک ہے جس وقت سے ہم یہاں اُترے ہیں میرے دل پر وحشت کا بوجھ زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔امام علیہ السلام نے فرمایا.بہن!بابا کے زمانے میں بابا ، میں اور بھا ٸی حسن علیہ السلام جب صفین جا رہے تھے اور ایسی زمین سے عبور ہوا تو ہم یہاں اُترے اور آرام کیا۔بابا کچھ دیر سو ٸے۔اچانک نیند سے جاگے اور گریہ کرنے لگے۔جب وجہ پوچھی تو بابا نے فرمایا,میں نے خواب دیکھا کہ اس وادی میں خون کا دریا ہے اور میرا بیٹا حسین علیہ السلام اس خونی دریا میں غوطے کھا رہا ہے اور استغاثہ کر رہا اور کوٸی اس کی مدد کو نہیں آرہا۔پھر بابا میری طرف دیکھا اور فرمایا,-اس ہولناک واقعے کے وقت تمہاری حالت کیا ہو گی اور کیا کرو گے؟میں نے عرض کیا:میں صبر کرونگا اور اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہونگا۔
حضرت عبّاس
علمدار اور حضرت علی اکبر کو خیام نصب کرنے کی ہدائت کی اور خود امام حسین علیہ
السلام ایک طرف بیٹھ گۓ۔آپ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے مناجات کرتے ہو ۓ
زمانے کی بےوفاٸ کا شکوہ یوں کیا:اے زمانے! تجھ پر تف ہے کہ تو بُرا
دوست ہے، صبح اور شام میں حق کے طالبوں اور اپنے دوستوں کو قتل کر دیا ہے۔ پس تمام
امور اللہ تعالی کے حوالے ہیں اور ہر زندہ اسکی طرف جانے والا ہے۔جب جناب زینب علیہ
السلام نے یہ سُنا تو بھاٸی سے عرض کیا,بھاٸ ایسی باتیں تو وہ
کرتا ہے جسے اپنے قتل کا یقین ہو جاۓ۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا,ہاں بہن! مجھے یقین
ہے۔جناب زینب علیہ السلام نے عرض کیا,یہ کتنی بڑی مصیبت ہے کہ حسین علیہ السلام
اپنی موت کی خبر مجھے دے رہے ہیں۔ بی بی کا یہ بیان سُنتے ہی خیام میں گِریہ
شروع ہوگیا-امام علیہ السلام نے فرمایا,یہ خیال کرنا کہ میرے دنیا سے جانے کے بعد
گریباں چاک نہ کرنا اور ایسی کوٸ بات نہ کرنا جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا باعث ہو-امام
حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے سامنے ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا اور خطبہ کے
بعد فرمایا
دنیا اس سے پہلے ایسی نہ تھی ہم آخرت کو باقی جانتے ہیں، لہذا ہم نے دنیا سے آنکھیں بند کر کے آخرت کو اختيار کر لیا ہے۔ورودِ کربلا کے بعد ابن زیاد ملعون نے امام حسین علیہ السلام کے نام خط لکھا.اے حسین علیہ السلام! ، مجھے یزید کا حکم ہے کہ میں اس وقت تک نرم بستر پر نہ سوٶں اور گندم کی روٹی نہ کھاٶں جب تک تمہیں قتل نہ کر لوں یا پھر تم یزید کی بیعت کر لو۔والسلام!قاصد نے جب جواب کا مطالبہ کیا تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اس قسم کا خط جواب کے قابل نہیں البتہ لکھنے والا عذاب خدا کا مستحق ہے۔قاصد نے ابن زیاد ملعون کو تمام حال سنایا۔ابن زیاد کو بہت غصہ آیا اور فوری طورپر عمر بن سعد سے کہا,کہ تمہیں لشکر دیا ہے جاٶ اور امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرو۔کچھ دیر میں حُر بن یزید تمیمی ایک ھزار کے لشکر کے ساتھ آپہنچا. سخت گرمی کی وجہ سے اس کی اور لشکر اور جانوروں کی پیاس سے حالت بہت خَراب تھی.امام علیہ السلام نے جانوروں سمیت لشکر سیراب کرنے کا حُکم دیا پھر آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کوفیوں کو ان کے عہد و پیمان اور بھیجے گئے خطوط کے بارے میں پوچھا. امام علیہ السلام کے سوالوں پر سب خاموش رہے.
امام حسین علیہ السلام 2 محرم 61 ہجری قمری کو کربلا پہنچے اور کچھ دیر توقف کے بعد اپنے اصحاب اور اہل بیت کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:"اما بعد قد نزل بنا ما ترون من الأمر ، وإنّ الدنيا قد تغيّرت وتنكّرت ، وأدبر معروفها ، واستمرّت حتّى لم يبقَ منها إلاّ صبابة كصبابة الإناء ، وخسيس عيش كالمرعى الوبيل ، ألا ترون أنّ الحقّ لا يُعمل به ، وأنّ الباطل لا يُتناهى عنه ، ليرغب المؤمن في لقاء الله ، وإنّي لا أرى الموت إلاّ سعادة ، والحياة مع الظالمين إلاّ بَرَما الناسُ عبیدُ الدنیا و الدین لعق علی السنتهم یحوطونه مادرَّت معایشُهم فاذا مُحَّصوا بالبلاء قَلَّ الدَیّانون"امابعد، معاملات نے ہمارے ساتھ جو صورت اختیار کر لی ہے ، وہ آپ کے سامنے ہے۔ یقیناً دنیا نے رنگ بدل لیا ہے اور بہت بری شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس کی بھلائیوں نے منھ پھیر لیا ہے اور نیکیاں ختم ہوگئی ہیں اور اب اس میں اتنی ہی اچھائیاں باقی رہ گئی ہیں جتنی کسی برتن کی تہہ میں باقی رہ جانے والا پانی۔ اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہوگئی ہے جیسا کہ کوئی سنگلاخ اور چٹیل میدان۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا، اور کوئی باطل سے روکنے والا نہیں ہے۔ ان حالات میں مرد مومن کو چاہیے کہ وہ خدا سے ملنے کی آرزو کرے۔ میں جانبازی اور شجاعت کی موت کو ایک سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنا میرے نزدیک ذلت اور حقارت ہے۔ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں پر رہتا ہے ۔ یہ بس اس وقت تک دین کے حامی ہیں جب تک ان کی زندگی آرام اور آسائش سے گزرے، اور جب امتحان میں ڈالے جائیں تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔"اور آپ کو کوفہ ابن زیاد لعین کے پاس لیجانے کو بضد رہے اسی بیچ ظہر و عصر کی نمازوں کے اوقات آئے.امام علیہ السلام نے حُر کو اپنے لشکر کو نماز پڑھانے کا کہا پر اس نے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا اسِرار کیا امام علیہ السلام آگے بڑھے اور دونوں لشکروں کو نماز پڑھائی.
پھر آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور خطبے کے ذریعے ان کے دلوں کو جنجھوڑا ان کو انہی کے بھیجے خطوط دکھائے حُر نے ان خطوط سے لاتعلقی دکھائی اور اپنی پچھلی بات یعنی ابن زیاد لعین کے حُکم کو دہرایا.امام علیہ السلام نے سخت لہجہ میں قافلے کو سوار ہو کر روانہ ہونے کا حکم دیا جس پر حُر نے اُن کا راستہ روکنے کی کوشش کی,آپ نے اسے کہا تیری ماں تیرے ماتم میں روئے جس پر حُر نے شرمندہ ہو کر کہا میں آپ کو ایسا کچھ نہیں بول سکتا. آپ نے پھر اس کا ارادہ پوچھا اور اس نے دیئے گئے حکم کو دوھرایا. یہ سلسلہ پورا دن جاری رہا حُر امام علیہ السلام سے جنگ نہیں چاہتا تھا اس لیے آپ کو مدینہ اور کوفہ کے علاوہ کسی تیسری جگہ جانے کو کہا.امام علیہ السلام قادسیہ اور عذیب سے بائیں طرف چلے, حُر کا لشکر ساتھ ساتھ چلتا رہا کہ انہوں نے کوفہ کی طرف سے چار سواروں کو اونٹوں پر آتے دیکھا وہ امام علیہ السلام سے آکر ملے اور انہیں کوفہ اور وہاں جمع ہونے والے لشکر کے حالات اور حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام اور ان کے انصار کے حالات سے آگاہ کیا.-قافلہ قصر بنی مقاتل پہنچا امام علیہ السلام وہاں کچھ دیر رُکے رات کے پچھلے پہر امام علیہ السلام نے پانی لینے کا حکم دیا اور وہاں سے روانہ ہوئے صبح کے وقت اترے نماز ادا کی اور پھر سوار ہوئے آپ بائیں طرف جانا چاہتے تھے حُر نے راستہ روکا وہ امام علیہ السلام کو کوفہ لیجانا چاہتا تھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں