منگل، 18 جولائی، 2023

معجزاتی کُرتا -حضرت امام حسین علیہ السّلام

 

 

شروعات محرّم-روائت ہے کہ امام حسین علیہ السّلام نے روز عاشورہ جو کرتا زیب تن کیا ہوا تھا یہی کرتا حضرت جبرئیل امیں نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اس وقت پہنایا تھا جب نمرود نے آپ علیہ السّلام کو آگ میں پھینکنے کے لئے منجنیق میں ڈالا تھا حضرت ابراہیم علیہ السّلام اس وقت منجنیق کے گو پھن میں گھوم رہے تھے-اور اسی کرتے کے اعجاز سے آگ گل و گلزار ہو گئ تھی-پھر دوسری مرتبہ یہی کرتا حضرت یوسف علیہ السّلام کوحضرت جبرئیل امیں نے  اس وقت پہنایا تھا جب حضرت یوسف علیہ السّلام کو ان کے بھائیوں نے  کنوئیں میں پھینکا تھا-شہادت اما م حسین علیہ السّلام کے بعد یہ کرتا حضرت جبرئیل امیں عرش بریں پر لے کر چلے گئے اب یہ کرتامحرم کی چاند رات کو فرشتے بحکم پروردگار آسمان کے افقی کنارے پر آویزاں کر دیتے ہیں اورتمام کائنا ت غم حسین میں سوگوار ہو جاتی ہے

محرم کا مہینہ ہمارے سال کا اآغاز بھی ہے اور حزن و ملال کی ابتداء بھی ۔یہ مہینہ اپنے اندر جہاں‌بے تحاشہ غم و اندہ رکھتا ہے وہیں اس مہینہ میں ہزار ہا سبق بھی پوشیدہ ہیں ۔ اللہ اور اسکے نبی کی محبت کا جاوداں سبق بھی ہے اور اٰلِ رسول کی مظلومیت اور اُن پر کئے جانے والے ظلم کی انتہاء بھی ہے ہادئ دوجہاں حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے بے حد چہیتے نواسے حضرت امام حسین علیہالسّلام نے کربلا آباد کرنے کے لئے مدینے کےچالیس گھروں کے دو سو افراد پر مشتمل بنوہاشم قبیلے کو ساتھ لیا جس میں سب سے ننّھے مسا فرعلی اصغر صرف سولہ دن کے تھےاس جنگ کا عروج 10 محرم الحرام 61ھ کو ہوا جب حق اور باطل ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکر یوں جدا ہوئے جیسے دن اور رات کا فرق عیاں ہے۔ یہاں فتح و شکست کے معنیٰ بھی بدل گئے۔ ایسا عجب معرکہ ہوا کہ ہر قسم کا اسلحہ اپنی بھرپور قوت دکھا کر بھی شکستہ رہا اور بہتا ہوا لہو شمشیر پر غالب آگیا۔

یہ ایسی جنگ تھی جس کے بظاہر فاتحین اپنے مفتوحین کے سروں سے سجے پرچم اٹھا کر اپنی فتح کا اعلان کرنے چلے لیکن انہی مقدس سروں سے متعلق کچھ بے ردا عفت مآب ہستیوں نے فتح کا اصل معنیٰ سارے جہان کو کچھ اس انداز میں سمجھانا شروع کیا کہ دیگر مخلوقات کی مانند اب انسان بھی حقیقت سے آشنا ہوتا گیا۔ اور جس کو کربلا سمجھ میں آئ اس کی قسمت یاور رہی، وہ حسین علیہ السّلام  کا عزادار بنتا گیا، اسکی زندگی میں آنے والے تمام سال آغاز سے انجام تک غمِ حسینؑ کے سمندر سے متصل ہوتے گئےنام حسین علیہ السّلام  تو ھر دور میں حق و نجات کا ،نور اور اسلام کے پیامبر کا نام ھے ۔ حسین اور حسین علیہ اسلام کی حقانیت کی اس سے بڑي دلیل کیا ھوگی کہ صاحب تاج ومعراج ، وبراق ،شافع روز محشر نے فرمایا کہ اگر حسین نہ ھوتا تو میرا نسب نہ ھوتا اور اگر میں نہ ھوتا تو حسین کا نسب نہ ھوتا ، حسین مجھہ سے اور میں حسین سے ھوں۔امام حسین علیہ السلام نے زندگی و حیات، موت و شہادت، دنیا و آخرت، عزت و شرافت، ذلت و عظمت، آزادی و اسیری، شکست و فتح، طاقت و قدرت، سعادت و سیادت اور حق و باطل کے مفاہیم کو حقیقی معانی عطا کئے اور اپنے عمل و کردار سے ان کو تاریخ میں ہمیشہ کیلئے ثبت کر دیا۔

 تاریخ میں انسانیت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ مذکورہ مفاہیم کو سطحی اور بعض اوقات برعکس سمجھنا ہے۔زندگی و حیات کیا ہے؟، امام حسین علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں بھی یہ کہ کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ظلم اور ظالموں کے ساتھ زندگی ننگ و عار ہے۔ یعنی زندگی کا حقیقی مفہوم عزت و شرافت کے ساتھ آزاد رہنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس ظاہری زندگی کو موت سے تعبیر کرتے ہیں جو ظلم کی حمایت اور ظالموں کے خلاف قیام سے عاری ہو۔ امام حسین علیہ السلام عزت و منزلت کو ظاہری اقتدار اور دنیوی طاقت میں محدود نہیں سمجھتے بلکہ وہ تلوار پر خون کی کامیابی اور آزادی و حریت کو عزت و منزلت سمجھتے ہیں۔آپ کے ہاں شکست و فتح کا تصور بھی یکسر مختلف ہے۔ آپ انسانوں کے لشکروں اور فوجی ساز و سامان کے ذریعے دشمن کے بدن کو ختم کر ” امام حسین علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں بھی یہ کہہ کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ظلم اور ظالموں کے ساتھ زندگی ننگ و عار ہے۔ “ فتح حاصل کرنے کو کامیابی نہیں سمجھتے بلکہ آپ قلب و ذہن کو شکست دے کر اور ان میں موجود باطل نظریات کو ختم کر کے ضمیر اور وجدان کی بیداری کو فتح اور کامیابی سمجھتے ہیں۔آپ کے ہاں آزادی اور اسیری کا مطلب انسانی بدن کی آزادی یا اسکا قید و بند میں ہونا نہیں ہے بلکہ آپ قلب و نظر کی آزادی اور حریت فکر کو حقیقی آزادی قرار دیتے ہیں جبکہ ظاہری طور پر آزاد ہونے کے باوجود فکری اور نظریاتی طور پر خودمختار نہ ہونے کو آزادی نہیں بلکہ اسیری سے تعبیر کرتے ہیں۔ 

آپ نے کربلا کے میدان میں فتح و شکست اور عزت و شرافت کے جو معیار مقرر کئے ہیں اور اسکے جو حقیقی مظاہر سامنے لائے ہیں اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں یزید اور یزیدیت کو ایسی شکست فاش دی کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی کوئی اس ظاہری فاتح لشکر کے ساتھ شامل ہونے کو تیار نہیں جبکہ دوسری جانب آج بھی ہر باضمیر انسان “یا لیتنا کنا معکم فنفوز فوزاً عظیماً” کا نعرہ بلند کر رہا ہے اور اس ظاہری شکست خوردہ لشکر میں شامل ہو کر عظیم کامیابی پر فائز ہونے کیلئے بے چین ہے۔کربلا کے لق و دق صحرا میں حسینی لشکر کے تمام افراد کی شہادت اور اہل خانہ کی اسیری آج بھی کیوں نمونہ عمل بنی ہوئی ہے؟، اس سانحے میں ایسے کونسے عوامل تھے جو اسے ہر آنے والے زمانے میں روشن سے روشن تر کر رہے ہیں؟۔تاریخ میں ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں جنگیں ہوں گی جس میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ کربلا میں صرف 72 افراد کی شہادت ہوئی۔ ان 72 افراد کی شہادت میں ایسا کونسا عامل پوشیدہ ہے کہ تاریخ کا ہر باضمیر انسان ان افراد کے ساتھ شامل ہونے کو اپنے لئے باعث فضیلت سمجھتا ہے اور ببانگ دہل یہ کہتا نظر آتا ہے:

 

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر