اظہار غم ایک فطری عمل ہے اسی طرح اظہار مسرت بھی عین فطرت ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے قرآن قریم میں متعددجگہ گریہ کے متعلق ذکر ہے اور اس کا درجہ بلند بتایا گیا ہے۔اسی طرح رسول اکرم ﷺ انسان کامل تھے ان کی سیرت ہمارے لیے شمع ہدایت ہے اور طریق زندگی سنت۔آنحضرت نے بھی گریہ فرمایا ہے صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے انبیا ء علیہم السلام جسیے حضرت آدم علیہ السلام ہابیل کی شہادت پر بہت روتے تھے اور اپنی اولاد کو وصیت فرماگئے تھے یہی معلول جاری رکھیں۔حضرت نوح علیہ السلام اس لیے روتے تھے کہ آپ نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئی تھی، زیادہ نوحہ کرنے کے سبب آپکا لقب نوح ہو گیا۔یعنی زیادہ نوحہ کرنے والا، حضرت ابراہیم کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وہ بہت حلیم اور آہ کرنے والے تھے۔ـ حضرت یعقوب کا اپنے بیٹے کی جدائی پر گریہ کرنا:حضرت یوسف علیہ السّلام کا پورا قصہ ایک غمگین داستان کی صورت میں اول سے آخر تک بیان ہو ہے۔ جب حسد کی آگ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائیوں کے دلوں میں جل رہی تھی تو اپنے بھائی کو کنویں میں پھینک دیا اور پھٹی ہوئی قمیص کر خون لگا کر لے آئے۔ اس واقعے پر حضرت یعقوب علیہ السّلام کا متاثر ہو کر بیٹے کی جدائی پر صبح و شام گریہ کرنا حتی کہ خداوند حضرت یعقوب کی زبان سے ایسے بیان کر رہے ہیں:َقَالَ يَأَسَفَي عَلَي يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ يوسف(6): 84کہا کہ ہائے افسوس بر یوسف اور حزن و غم کی وجہ سے انکی آنکھیں سفید ہو گئی وہ بہت صبر کرنے والے تھے۔
حضرت یعقوب
علیہ السّلام بیٹے کے غم میں حالانکہ وہ
جانتے تھے کہ وہ زندہ ہے لیکن پھر بھی جدائی کی وجہ سے ان کی روح اذیت و غم میں تھی۔
اپنی روح کی تسکین کے لیے خداوند کی پناہ تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیںقَالَ إِنَّمَآ
أَشْكُواْ بَثِّي وَحُزْنِي إِلَي اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا
لَاتَعْلَمُونَ.يوسفعلیہ السّلام : 86.اپنی
شکایت اور غم کو خداوند کی بار گاہ میں عرض کرتا ہوں اور جو کچھ خدا وند کی طرف سے
جانتا ہوں تم لوگ نہیں جانت-اس دلیل قرآنی سے خداوند کے اولیاء پر گریہ و زاری اور
ظالموں کی شکایت خداوند کی بارگاہ میں کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سیرت انبیاء
کہ جو بعنوان دلیل محکم و قرآنی ہے، سے اصل عزاداری کا جائز و شرعی ہونا بھی ثابت
ہو جاتا ہے۔ گريه حضرت يوسف علیہ السّلام- ابن عبّاس راوی ہیں کہ:عند ما خل السجن، يبكي حتّي تبكي معه جدر
البيوت وسقفها والأبواب.حضرت يوسف السّلام علیہ جب زندان میں تھے اور گریہ کرتے
تھے تو زندان کے در و دیواربھی ان کے ساتھ گریہ کرتے تھے۔تفسير قرطبي، ج 9،
مام صادق عليه السلام سے نقل نقل ہوا ہے کہ :البكّائون خمسه، آدم، و يعقوب و... و أمّا يوسف فبكي علي يعقوب حتّي تأذّي به أهل السجن، وقالوا: إمّا أن تبكي نهاراً وتسكت الليل، وإمّا أن تبكي الليل وتسكت النهار، فصالحهم علي واحد منهما. واقعہ عاشورا کے شہداء کا غم منانا اور ان پر عزاداری کرنا، سنہ 61 ہجری کے اس واقعے کےفورا بعد آغاز ہوا جو ابھی تک جاری و ساری ہے-معصومینؑ کے دور میں عزاداری -واقعۂ عاشورا کے بعد امام علیہ السّلام پر گریہ و زاری کرنے والی ہستیوں میں سب سے پہلے آپؑ کے فرزند امام زین العابدینؑ، آپؑ کی بہن زینب بنت علیؑ اور ام کلثوم تھیں۔ مقاتل کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے کہ حضرت زینبؑ جب اسیری کے وقت اپنے بھائی کی لاش کے قریب سے گزری تو بھائی کی لاش پر ان الفاظ میں نوحہ کیا جس نے دوست اور دشمن سب کو رلا کر رکھ دیا:اے میرے نانا صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم! پر آسمان کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں یہ صحرا کی گرم ریت پر پڑا ہوا لاشہ تیرے حسینؑ کا ہے۔ اے نانا تیری بیٹیاں اسیر ہو کر شام جارہی ہیں اور ان کے چہروں پر مصیبت کے گرد و غبار آن پڑا ہے۔ان کے علاوہ آپ علیہ السّلام کی بیٹیاں اور زوجۂ مکرمہ رباب بنت امرؤ القیس وغیرہ نے کربلا میں شہداء کے لاشوں پر اور بعدازاں کوفہ اور پھر شام میں عزاداری او مرثیہ سرائی کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ جب اسیران کربلا کا قافلہ شام میں وارد ہوا اور امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) کے خطبوں سے جب لوگوں پر حقیقت عیاں ہوئی اور یزید اور اس کے کارندوں کے ظلم و ستم کا پتہ چلا -جب اسیران کربلا کا قافلہ شام سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو امام سجاد علیہ السّلام کے حکم پر بشیر بن جذلم نے اشعار کے ذریعے اہل مدینہ کو اہل بیتؑ کی آمد کی خبر دی تو اہل مدینہ نے اہل بیت کی مصیبت میں گریہ و زاری کی۔ اسی طرح مدینے میں موجود اہل بیت کی خواتین نے عزاداری برپا کر کے مدینے میں سوگ منائیں جن میں زینب بنت عقیل ، ام البنین اور رباب شامل ہیں ۔
امام باقر علیہ
السّلام اور امام صاد ق علیہ السّلام کے دور امامت میں کمیت اسدی اور امام رضاکے دور امامت میں دعبل خزاعی نامور
شیعہ مرثیہ گو شعراء میں سے تھے جنہوں نے امام حسین علیہ السّلام کی شان میں مرثیہ
خوانی کی ہے -ریان بن شبیب کہتے ہیں: میں پہلی محرم کو امام رضا کی خدمت میں حاضر
ہوا۔ فرمایا: اے ابن شبیب! بیشک محرم وہ
مہینہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام
جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ اپنے نبی صلیّ اللہ
علیہ واٰ لہ وسلّم کی حرمت کا خیال رکھا۔
انہوں نے اس مہینے میں پیغمبر اکرم کی
اولاد کو قتل کیا اور ان کی خواتین کو اسیر بنایا اور ان کے مال کو لوٹا۔ خدا کبھی
بھی ان کے اس گناہ کو نہیں بخشے گااے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا
چاہو، تو حسین ابن علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کے لئے گریہ کرو کہ انہیں اس طرح
ذبح کیا گیا جیسے بھیڑ کو کیا جاتا ہے اور اں کے اہل بیت میں سے اٹھارہ افراد کو
شہید کیا گیا، جن کی روئے زمیں پر کوئی مثال نہیں تھی۔ ان کے قتل پر ساتوں زمین و
آسماں نے گریہ کیا. امام علیہ السّلام کی
نصرت کے لئے چار ہزار فرشتے زمین پر اترے انہوں نے امام کو مقتول پایا۔ اس وقت سے یہ
فرشتے آپ علیہ السّلام کی قبر پر پریشان
اور خاک آلود ہیں اور قائم آل محمد (عج) کے ظہور تک اسی حالت میں ہوں گے ظہور کے
وقت یہ ان کے انصار میں سے ہوں گے اور ان کا نعرہ ہوگا’’یالثارات الحسین‘‘
اے ابن شبیب
! میرے بابا نے اپنے بابا امام موسی کاظم علیہ السّلام سے اور انہوں نے اپنے جد
امجد امام محمد باقر علیہ السّلام سے سنا ہے کہ: میرے جد امام حسین علیہ
السّلام کے قتل پر آسمان سے خون اور سرخ
مٹی کی بارش ہوئی۔اے ابن شبیب! اگر تم حسین علیہ السّلام پر اتنا گریہ و زاری کرو یہاں تک کہ تمہارے اشک
رخسار تک پہنچ جائیں تو خداوند متعال تمہارے تمام گناہوں کو بخش دے گا چاہے وہ
چھوٹے ہوں یا بڑے، کم ہوں یا زیادہ۔اے ابن شبیب ! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس
عالم میں ملاقات کرو کہ تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ رہے تو حسین علیہ السّلام کی زیارت کرو۔اے ابن شبیب ! اگر چاہتے ہو کہ
جنت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم
کے ساتھ بنے ہوئے حجروں میں رہو، تو حسین علیہ السّلام کے قاتلوں پر لعنت بھیجو۔اے ابن شبیب! اگر
چاہتے ہو ےتمہیں امام حسین علیہ السّلام
کے ہمراہ شہید ہونے والے اصحاب کا ثواب ملے تو جب بھی حسین علیہ
السّلام کی یاد آئے، کہو ’’يا ليتني كنت
معهم فافوز فوزا عظيما‘‘ (کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ شہادت پر فائز
ہوتا۔اے ابن شبیب! اگر ہمارے ساتھ جنت کے بلند درجوں میں رہنا چاہتے ہو، تو ہمارے
غم میں مغموم ہونا اور ہماری خوشی میں شاد و خوشحال۔ اور تم پر ہماری ولایت واجب
ہے کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت اختیار کرے گا ، اللہ اسے اسی پتھر کے
ساتھ روز قیامت محشور کرے گا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں