جمعہ، 11 اپریل، 2025

اونٹوں کا مقابلہ ءحسن پارٹ2

 

 '  جس طرح سے بو ٹوکس کے انجیکشن  خواتین  کو افزائش حسن کے لئے لگائے جاتے ہیں اسی طرح سے اونٹوں کو بھی  بوٹوکس کے  انجیکشن اونٹوں کے ہونٹوں، ناک، جبڑے اور سر کے دیگر حصوں میں لگا کر پٹھوں کو نرم کیا جاتا ہے، اور ان  کے  ہونٹوں اور ناک میں کلوجین بھرا جاتا ہے اور پٹھوں کو موٹا کرنے کے لیے ہارمونز دیے جاتے ہیں۔اونٹوں کے جسم کے مختلف حصوں پر ربڑ بینڈ لگا کر خون کا بھاؤ روک دیا جاتا ہے تاکہ کچھ حصے زیادہ بڑے ہو جائیں-لیکن مقابلہ کے منتظمین نے اس عمل کی نا صرف مذمت کی ہے بلکہ  'بوٹوکس' کے استعمال کے باعث کم از کم 40 اونٹ نااہل  بھی قرار دئے گئے ہیں ، اونٹوں کا مقابلہ حسن ہر سال منعقد کیا جاتا ہے9 دسمبر 2021سعودی عرب میں ہونے والے اونٹوں کے مقابلہ حسن میں شرکت کے لیے لائے گئے چالیس سے زیادہ اونٹوں کو مصنوعی طریقوں اور 'بوٹوکس' کے انجیکش لگنے کی وجہ سے مقابلے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔


خوبصورت اونٹوں کا مقابلہ شاہ عبداللہ عزیز کے نام سے ہونے والے اونٹوں کے میلے کا اہم حصہ ہے جس میں جیتنے والے اونٹ کو چھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر انعام کی رقم دی جاتی ہے۔سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے خبر دی ہے کہ اس سال اونٹوں کے مقابلے کے ججوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اونٹوں کو کہیں مصنوعی طریقوں سے خوبصورت بنانے کی کوشش تو نہیں کی گئی۔ اونٹوں میں خوبصورتی کا معیار لمبے اور لٹکے ہوئے ہونٹ، بڑی ناک اور کوہان کی شکل ہوتی ہے۔شاہ عبدالعزیز اونٹوں کا میلہ دنیا میں سب سے بڑا اونٹوں کا میلہ ہے۔اس میلے میں امریکہ، روس اور فرانس سمیت دنیا بھر سے 33 ہزار اونٹ شرکت کے لیے لائے جاتے ہیں جو یکم دسمبر سے شروع ہو کر 40 دن تک جاری رہتا ہے۔


سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے سو کلو میٹر کی دوری پر 32 مربع میل پر پھیلے ہوئے ایک میدان میں یہ مقابلہ منعقد ہوتا ہے جس میں روزنہ ایک لاکھ سے زیادہ شائقین شرکت کرتے ہیں۔خوبصورت اونٹوں کا مقابلہ شاہ عبداللہ عزیز کے نام سے ہونے والے اونٹوں کے میلے کا اہم حصہ ہے جس میں جیتنے والے اونٹ کو چھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر انعام کی رقم دی جاتی ہے۔سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے خبر دی ہے کہ اس سال اونٹوں کے مقابلے کے ججوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اونٹوں کو کہیں مصنوعی طریقوں سے خوبصورت بنانے کی کوشش تو نہیں کی گئی۔ اونٹوں میں خوبصورتی کا معیار لمبے اور لٹکے ہوئے ہونٹ، بڑی ناک اور کوہان کی شکل ہوتی ہے۔


ابوظبی میڈیاآفس کے مطابق اونٹ میلے کے سرپرست ولی عہد شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے متحدہ عرب امارات کے بدوی ورثے کو فروغ دینے کے لیے انعامی رقم میں اضافہ کیا ہے۔یہ میلہ فروخت کنندگان کو نیلامی اور انفرادی سودے بازی کے ذریعے اپنے خالص نسل کے اونٹوں کو بھاری قیمت پر بیچنے کاموقع بھی فراہم کرے گا۔اونٹوں کے مقابلۂ حسن کے ساتھ ساتھ ٱلظَّفْرَہ میلے میں روایتی اماراتی سرگرمیوں کا ایک سلسلہ بھی شامل ہوگا۔اس میں شاہینوں کے مقابلے ہوں گے؛قریباً300 عرب گھوڑے اور اونٹ دوڑ میں حصہ لیں گے۔ان کے مختلف مقابلوں کے لیے 2700 سے زیادہ کے انعامات رکھے گئے ہیں۔یہ میلہ 22 جنوری 2022 تک ابوظبی کے مدینۃ الزاید میں جاری رہے گا۔ یہ اس سلسلے کا پندرھواں میلہ ہے اور یو ای اے کے قیام کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پرمنعقد ہورہا ہے۔واضح رہے کہ خلیجی ریاستوں میں اونٹوں کے مقابلۂ حسن عام ہوتے جا رہے ہیں۔


ان کے ذریعے اہل عرب اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس کوجدیدیت میں تبدیلی کے عمل سے خطرات لاحق ہیں۔ہمسایہ ملک سعودی عرب بھی دارالحکومت الریاض سے قریباً 100 کلومیٹرشمال میں دنیا کے سب سے بڑے شاہ عبدالعزیز شُترمیلے کی میزبانی کر رہا ہے۔توقع ہے کہ انعام یافتگان میں مجموعی طورپر 6کروڑ60 لاکھ ڈالر (25 کروڑ سعودی ریال) گھرلے جائیں گے

جمعرات، 10 اپریل، 2025

اونٹوں کا مقابلہ ء حسن -پارٹ1

 امارت ابوظبی میں اونٹوں کا مقابلۂ حسن    عام  طور پر  مڈ     دسمبر سے شروع ہوتا ہے اور یہ 21 دسمبر تک چلتا ہے ۔پہلے اونٹوں کی خوب صورتی کا یہ مقابلہ 23 دسمبر سے شروع ہونا تھا لیکن اب اس کا نودن قبل آغاز کیا جارہا ہے۔مدینۃ الزاید میں منعقد ہونے والا اونٹوں کا مقابلہ حسن سالانہ ٱلظَّفْرَہ میلے کا حصہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے اونٹوں میں سے سب سے بہترکافیصلہ ان کی جسمانی خصوصیات کی بنا پرکیا جائے گا۔اس میں اصیل اور مجاحیم کے خون سے تعلق رکھنے والے خالص نسل کے اونٹ حصہ لیں گے۔ٱلظَّفْرَہ میلے میں اونٹوں کی خوب صورتی کے چار مقابلوں کے لیے انعامی رقم مجموعی طور پرتین کروڑ ڈالر 11 کروڑاماراتی درہم)ہوگی۔العلا: سعودی عرب صدیوںپراناقصبہ سعودی عرب کے پہاڑوں میں اونٹوں کے مجسمے دنیا میں ’قدیم ترین‘مقابلے میں شرکت کے لیے لائے گئے تمام اونٹوں کو پہلے ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں ماہرین نے ان کی ظاہری شکل و صورت اور ان کے چلنے کے انداز کا معائنہ کیا۔


پھر جدید ایکسرے اور 3 ڈی الٹرا ساؤنڈ کا استعمال کرتے ہوئے اونٹوں کے سر، گردن اور دھڑ کے عکس لیے گئے اور ان اونٹوں سے حاصل کیے گئے نمونوں کو جنیاتی معائنے اور چند دیگر ٹیسٹ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مقابلے میں شامل 27 اونٹوں کو اس لیے نااہل قرار دے دیا گیا کیونکہ ان کے جسم کے اعضا کو مصنوعی طریقوں سے بڑا کیا گیا تھا۔ سولہ اونٹوں کو انجیکشن لگائے جانے کی وجہ سے مقابلے سے نکال دیا گیا۔اونٹوں کے مقابلہ حسن کے منتظمیں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ اونٹوں کو دھوکے اور مصنوعی طریقے سے خوبصورت بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں اور دھوکہ بازی کرنے والوں پر جرمانے بھی عائد کریں گے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'بوٹوکس' کے انجیکشن اونٹوں کے ہونٹوں، ناک، جبڑے اور سر کے دیگر حصوں میں لگا کر پٹھوں کو نرم کیا جاتا ہے، ہونٹوں اور ناک میں کلوجین بھرا جاتا ہے اور پٹھوں کو موٹا کرنے کے لیے ہارمونز دیے جاتے ہیں۔


اونٹوں کے جسم کے مختلف حصوں پر ربڑ بینڈ لگا کر خون کا بھاؤ روک دیا جاتا ہے تاکہ کچھ حصے زیادہ بڑے ہو جا۔شاہ عبدالعزیز اونٹوں کا میلہ دنیا میں سب سے بڑا اونٹوں کا میلہ ہے۔اس میلے میں امریکہ، روس اور فرانس سمیت دنیا بھر سے 33 ہزار اونٹ شرکت کے لیے لائے جاتے ہیں جو یکم دسمبر سے شروع ہو کر 40 دن تک جاری رہتا ہے۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے سو کلو میٹر کی دوری پر 32 مربع میل پر پھیلے ہوئے ایک میدان میں یہ مقابلہ منعقد ہوتا ہے جس میں روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ شائقین شرکت کرتے ہیں۔سعودی عرب: اونٹوں کے مقابلہ حسن میں 'بوٹوکس' کے استعمال کے باعث کم از کم 40 اونٹ نااہل،اونٹوں کا مقابلہ حسن ہر سال منعقد کیا جاتا ہے9 دسمبر 2021سعودی عرب میں ہونے والے اونٹوں کے مقابلہ حسن میں شرکت کے لیے لائے گئے چالیس سے زیادہ اونٹوں کو مصنوعی طریقوں اور 'بوٹوکس' کے انجیکش لگنے کی وجہ سے مقابلے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔


مقابلے میں شرکت کے لیے لائے گئے تمام اونٹوں کو پہلے ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں ماہرین نے ان کی ظاہری شکل و صورت اور ان کے چلنے کے انداز کا معائنہ کیا۔پھر جدید ایکسرے اور 3 ڈی الٹرا ساؤنڈ کا استعمال کرتے ہوئے اونٹوں کے سر، گردن اور دھڑ کے عکس لیے گئے اور ان اونٹوں سے حاصل کیے گئے نمونوں کو جنیاتی معائنے اور چند دیگر ٹیسٹ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مقابلے میں شامل 27 اونٹوں کو اس لیے نااہل قرار دے دیا گیا کیونکہ ان کے جسم کے اعضا کو مصنوعی طریقوں سے بڑا کیا گیا تھا۔ سولہ اونٹوں کو انجیکشن لگائے جانے کی وجہ سے مقابلے سے نکال دیا گیا۔اونٹوں کے مقابلہ حسن کے منتظمیں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ اونٹوں کو دھوکے اور مصنوعی طریقے سے خوبصورت بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں اور دھوکہ بازی کرنے والوں پر جرمانے بھی عائد کریں گے۔

 

بدھ، 9 اپریل، 2025

چرنو بل جوہری پلانٹ کی تباہی-حصہ اول

 

 چرنو بل پلانٹ کی تباہی  اس جوہری پلانٹ سے ریڈیو ایکٹو یعنی تابکار شعاعيں نکل پڑیں تھیں جو یورپ کے بعض علاقوں کی فضا میں پھیل گئی تھیں اور جس کی وجہ سے تھائرائڈ کینسر میں اضافہ دیکھا گیا-بھاپ کے دباؤ سے ہونے والے دھماکے نے ری ایکٹر کی چھت اڑا دی اور ری ایکٹر کا مرکزی حصہ بیرونی ماحول پر عیاں ہو گیا۔دھماکے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہو گئے اور ہوا کی وجہ سے لگنے والی آگ مسلسل 10 دن تک لگی رہی۔ تابکار دھوئیں کی گرد کے بادل ہوا کے ذریعے یورپ میں پھیل گئےمہلک دھویں کے اخراج کے وقت امدادی کارکنوں کی پہلی کھیپ وہاں پہنچی۔بعد ازاں ان میں سے 134 کارکنوں میں تابکاری سے متعلقہ بیماریوں کی تشخیص ہوئی۔ ان 134 میں سے 28 کارکنوں کی موت اس واقعہ کے چند ماہ کے اندر ہی واقع ہو گئی جبکہ بچ جانے والوں میں سے اب تک 19 مذید ہلاک ہو چکے ہیں۔ہائڈرو میٹرولوجیکل انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماحولیاتی سائنسدان گیناڈی نے انخلا کے تین ماہ بعد ہی اس ممنوعہ علاقے میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔سٹیل کا حفاظتی ڈھانچہ متاثرہ ری ایکٹر کا احاطہ کیے ہوئے ہےیہ ایکسکلوژن زون یوکرین اور بیلاروس تک پھیلا ہے۔


 یہ علاقہ 4،000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو کہ لندن کے رقبے کے دگنے سے بھی زائد ہے۔پلانٹ کے 30 کلومیٹر کے حصار میں موجود تمام آبادیوں کا انخلا عمل میں آیا اور کسی کو وہاں دوبارہ جا کر بسنے کی اجازت نہیں تھی۔اس حادثے کے چند ماہ بعد ممنوعہ متاثرہ علاقے کے بیرونی حصے میں لوگوں کو خاموشی سے ان کے گھروں میں لوٹنے کی اجازت دے دی گئی۔نیروڈیچی 2،500 لوگوں پر مشتمل ایک آبادی ہے-30 کلو میٹر زون‘ سے مختلف اس تقریباً غیر آباد علاقے میں آمد و رفت روکنے کے لیے چیک پوائنٹس موجود نہیں ہیں۔ اس تابکاری سے متاثرہ علاقے پر کڑے قوانین لاگو ہوتے ہیں اور یہاں کی زمین کو کاشت کاری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کو آباد کیا جا سکتا ہے۔آج نقشے پر یوکرین کے اس حصے کو دو حصوں یعنی آلودہ یا صاف میں تقسیم کرنا آسان نہیں ہے۔ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چرنوبل حادثے کے بعد کی صورتحال بہت پیچیدہ ہے


 اور یہاں کا جغرافیہ نیروڈیچی پر لاگو ہونے والے 'ڈو ناٹ ٹچ' (یا ہاتھ مت لگائیے) جیسے کڑے قوانین سے زیادہ عجیب اور دلچسپ ہے۔نیروڈیچی کے باشندوں کو تابکار شعاعوں سے زیادہ تابکار شعاعوں کا خوف نقصان پہنچا رہا ہے۔یہاں تابکاری جہاز میں موجود تابکاری سے کم ہے‘ڈوزی میٹر تابکاری کی اس مقدار کو جانچتا ہے جو کہ ہم ہر ایک گھنٹے میں حاصل کرتے ہیں۔ڈوزی میٹر تابکاری کی اس مقدار کو جانچتا ہے جو کہ ہم ہر ایک گھنٹے میں حاصل کرتے ہیںسنہ 2019 میں یوکرینی سائنسدان گیناڈی لیپٹوو اور نمائندہ بی بی سی وکٹوریہ گِل نے اس علاقے کا ایک ہفتے پر محیط دورہ کیا تھا۔ اس وقت صورتحال کیا تھی ذیل میں اس کی تفصیلات بیان کی جا رہی ہیں۔ہم ایک خشک قطعہ زمین پر کھڑے ہیں جو کبھی چرنوبل جوہری پاور پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے والا تالاب ہوتا تھا۔کشادہ کندھوں والے گیناڈی لیپٹوو کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ یہاں گزارا ہے۔


 میں فقط 25 سال کا تھا جب میں تابکاری سے متاثرہ علاقے کی صفائی کے لیے یہاں آیا تھا۔ اب میں تقریباً 60 سال کا ہوں۔‘سنہ 1986 میں وقوع پذیر ہونے والے تاریخ کے بدترین جوہری حادثے کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والے اس خطرناک صفائی کے کام میں ہزاروں افراد نے حصہ لیا تھا۔یناڈی نے مجھے میز کے سائز کا گرد اکٹھا کرنے والا پلیٹ فارم دکھایا۔ سنہ 2014 میں جب نزدیکی دریا سے پانی کھینچنے والے پمپس بند کر دیے گئے تو تالاب کا یہ حصہ خشک ہو گیا۔ ایسا بچ جانے والے تین ری ایکٹرز کو بند کرنے کے بھی 14 سال بعد کیا گیا۔گرد جانچ کر تابکار آلودگی کا اندازہ لگانا اس وسیع و عریض ویران علاقے پر کی جانے والی دہائیوں پر مشتمل ریسرچ کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ جوہری حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔تالاب کے جس حصے پر ہم کھڑے ہیں


 اس سے ایک کلومیٹر سے بھی کم دوری پر واقع نیوکلئیر پلانٹ کو میں گیناڈی کے عقب میں دیکھ سکتی ہوں۔یونٹ نمبر چار کو اپنے اندر سمائے ہوئے ایک بڑے حفاظتی سٹیل ’نیو سیف کنفائنمٹ‘ کا ڈھانچہ سورج کی روشنی سے دمک رہا ہے۔سنہ 2016 میں اس کو سانحے کے مرکز پر نصب کیا گیا تھا۔ اس نے نیچے روبوٹ کرینز 33 سال پرانے تابکاری کے ملبہ کو گرا رہی ہیں۔انخلا کے وقت لوگ جو کھیت اور باغ چھوڑ گئے تھے وہ زمین جنگلی حیات کے لیے حیران کُن طور پر زرخیز آماجگاہ بن گئی ہے۔ لمبے عرصے تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق متروکہ دیہات میں جنگلی حیات کی تعداد اس زون کے باقی علاقوں سے زیادہ ہے۔ بھورے ریچھ، جنگلی سور اور سیاہ گوش یہاں گھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔تحقیق کے مطابق تابکاری سے شدید متاثرہ علاقوں میں پائے جانے والے پرندوں کے ڈی این اے میں نقصان کے شواہد ملے ہیں۔


کیف چڑیا گھر میں کام کرنے والی ڈاکٹر مرینا کہتی ہیں ’15 سال تک ان پر تحقیق کرنے کے بعد ہمارے پاس ان کے رویے کے بارے میں بہت زیادہ معلومات ہیں۔ چرنوبل کے بھیڑیے یوکرین کے سب سے زیادہ قدرتی بھیڑیے ہیں۔‘چرنوبل کے بھیڑیے، ہرن اور یہاں تک کے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ خفیہ کیمروں سے بنائی گئی تصاویر بھیڑیوں کے کھانے کی عادات ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں لوگوں کے پرانے باغات کے درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے۔ہر گاؤں پر جنگلی حیات قابض نہیں ہیں، 30 کلومیٹر زون کے اندر کچھ لوگ بھی رہتے ہیں -


 

منگل، 8 اپریل، 2025

جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو امام حسین سے غیر معمولی عقیدت تھی

     

ہندوستان کے تاریخ  نویس  لکھتے ہیں کہ  جھانسی  کی  رانی لکشمی بائی کو امام حسین  علیہ السلام سے غیر معمولی عقیدت تھی۔  پروفیسر رفیعہ شبنم نے اپنی کتاب ہندوستان میں شیعیت اور عزاداری میں جھانسی کی رانی کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ یوم عاشورہ بڑے خلوص وعقیدت کے ساتھ مجلس عزا برپا کرتی تھی۔ مہارانی لکشمی بائی کی قائم کردہ مجلس اب تک جھانسی پولیس کوتوالی میں منعقد کی جاتی ہے جہاں پہلے اس رانی کا قلعہ تھا جس نے امام حسین علیہ السلام سے حق پر ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کیا تھا ۔ منشی جوالہ پرشاد اختر لکھتے ہیں کہ صوبہ اودھ میں امام حسین کی فوج کے سپہ سالار اور علمبردار عباس کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھا جس کے اٹھانے کا سہرا مغلیہ فوج کے ایک راجپوت سردار دھرم سنگھ کے سر ہے۔ اودھ سلطنت میں لکھنؤ کی عزاداری کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے


  محرم کی مجلسوں اور جلوسوں میں ہندوﺅں کی شرکت و عقیدت ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا ایک ایسا نمونہ ہے جس نے قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔لکھنؤ کے ہندوؤں کی امام حسین سے عقیدت -مسز میر حسن علی نے لکھنؤ کی عزاداری کے سلسلہ میں اہل ہنود کی امام حسین سے غیر معمولی عقیدت و احترام کا ذکر اپنی ایک تحریر میں کرتی ہوئی لکھتی ہیں کہ لکھنؤ کا مشہور روضہ کاظمین ایک ایسے ہی ہندو عقیدت مند جگن ناتھ اگروال نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی طرح راجا جھاﺅلال کا عزاخانہ جو آج بھی لکھنؤ کے ٹھاکر گنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجا جھاﺅلال نے تعمیر کرایا تھا۔ راجا بلاس رائے اور راجا ٹکیل رائے نے بھی عزاخانے تعمیر کرائے اور ان میں علم اور تعزیے رکھے۔ گوالیار کے ہندومہاراجاﺅں کی امام حسین سے عقیدت خصوصی طور پر قابل ذکر ہے جو ہر سال ایام عزا کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کرتے تھے۔


مدھیہ پردیش کے علاقہ گونڈوانہ کے ضلع بیتول میں بلگرام خصوصًا بھاریہ نامی قصبہ میں ہریجن اور دیگر ہندو حضرات امام حسین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے اہم اور ضروری کاموں میں کامیابی کے لیے حسین بابا کا تعزیہ اٹھانے کی منت مانتے ہیں۔عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر نے ہندوﺅں کی عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشان دہی کرتے ہوئے لکھاہے۔ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے وہ امام حسین کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہمیراتعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سو گ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نہیں کھایا جاتا ہے۔ سری نگر کے امام باڑے میں حضرت امام حسین کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا ہے۔ ایک حسینی برہمن اسے سو سال قبل کابل کے امام باڑے سے لایا تھا۔


کشمیر سے کنیا کماری تک پھیلے ہوئے ہندوستان میں ماہ محرم آتے ہی یہاں کے مختلف شہروں، قصبوں، پہاڑی بستیوں اور دیہاتوں میں عزاداری سیدالشہدا کی مجالس اور جلوس عزا میں مشترکہ تہذیب کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں ہندو عقیدت مند مسلمان عقیدت مندوں کے ساتھ شریک عزا ہوتے ہیں۔ کہیں ہندو حضرات عزاداروں کے لیے پانی و شربت کی سبیلیں لگاتے ہیں تو کہیں عزاخانوں میں جا کر اپنی عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور اپنی منتیں بڑھاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عقیدت مند ہندو خواتین اپنے بچوں کو علم اور تعزیوں کے نیچے سے نکال کر حسین بابا کی امان میں دیتی ہیں۔-راجستھان اور آندھرا میں ہندوؤں کی عزاداریآندھراپردیش کے لاجباڑی ذات سے تعلق رکھنے والے اپنے منفرد انداز میں تیلگو زبان میں دردناک لہجہ میں پر سوز المیہ کلام پڑھ کر کربلا کے شہیدوں کو اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح راجستھان کی بعض ہندو ذات کے لوگ کربل اکی جنگ کا منظرنانہ پیش کرتے ہیں اور ان کی عورتیں اپنے گاﺅں کے باہر ایک جلوس کی شکل میں روتی ہوئی نکلتی ہیں۔


یہ عورتیں اپنی مقامی زبان میں یزیدی ظلم پر اسے کوستی ہیں اور اپنے رنج وغم کا اظہار اپنے بینوں کے ذریعے کرتی ہیں۔ راجستھان میں ہندوﺅں کی عزاداری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراجے جو ہندو سوراج کے لقب سے جانے جاتے تھے شب عاشور سر و پا برہنہ نکلتے تھے اور تعزیہ پر نقدی چڑھایا کرتے تھے۔پریم چند کا مشہور ڈراما کربلا حق و باطل سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح اردو ادب میں ایسے ہندو شاعروں کی تعداد کچھ کم نہیں جنہوں نے اپنی معرکہ آرا منظوم تخلیقات میں معرکہ کربلا سے انسانیت کے اعلیٰ کرداروں کی خوشہ چینی کی ہے۔ ایسے قابل ذکر شعرا بیجاپور کے رامارواﺅ، مکھی داس، منشی چھنولال دلگیر، راجا بلوان سنگھ، لالہ رام پرشادبشر، دیاکشن ریحان، راجا الفت رائے، کنوردھنپت رائے، کھنولال زار، دلورام کوثری، نانک لکھنوی، منی لال جوان، روپ کماری، یوگیندر پال صابر جوش ملیشانی منشی گوپی ناتھ امن، چکبست، باواکرشن مغموم، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کرشن بہاری، ڈالٹر دھرمیندر ناتھ، ماتھر لکھنوی، مہیندر سنگھ اشک، بانگیش تیواری، گلزاردہلوی، بھون امروہوی وغیرہ کا کلام امام حسین سے ان کی غیر معمولی عقیدتوں کا مظہر ہے۔


مگر اس سوال کے ساتھ کہ حسین ؑ صرف شیعوں کے ہوتے تو پروفیسر ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار کو کیا پڑی تھی کہ آپ کی شان میں قصیدے اور مرثیہ لکھتے۔؟ دلو رام کوثری کو مرثیہ اور نعت کہنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ ہندو شاعرہ روپ کماری امامؑ عالی مقام سے کیوں اظہارِ عقیدت کر رہی ہیں؟ پورن سنگھ ہنر کیوں واقعہ کربلا پر اشک بار ہیں؟ پرتپال سنگھ بیتاب کیوں واقعہ کربلا پہ بے تاب ہوجاتے ہیں؟ ان کے علاوہ بھی کئی اور غیر مسلم شعراء و مفکرین واقعہ کرب و بلا سے حریت و زندگی کا درس لیتے ہیں۔ حسین ؑ کی قربانی انسانی وقار اور عظمت کے لئے تھی۔ اسلام کی بقاء کا راز کربلا ہے۔ جس طرح نبی کی نبوت کسی ایک قوم یا قبیلے کے لئے نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح امام ؑ کی امامت بھی تمام عالمِ بشریت و جن و انس کے لئے ہوتی ہے۔ میرے پاس ہندو اور سکھ شاعروں کا نعتیہ کلام بھی موجود ہے اور ان کا رثائی کلام بھی۔ میرا مقصود مگر تمہید نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ حسین ؑ تو مسلمانوں کے نبی (ص) کے لاڈلے نواسے تھے۔۔ پھر ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار کو حسینؑ سے اتنا عشق کیوں؟ نکتہ یہی ہے جو ہندو شاعرہ روپ کماری نے کہا تھا۔ جوش ملیح آبادی کا مصرع بھی لمحہ بہ لمحہ اس حقیقت کا گواہ بنتا چلا جا رہا ہے کہ ‘‘ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ‘‘۔


پیر، 7 اپریل، 2025

پاکستان اسٹیل ملز کا سنہرادور

 

  پاکستان اسٹیل ملز کا سنہرا دور-  پاکستان سٹیل ملز ، 19 ہزار 500 ایکڑ رقبے پر قائم  ایک مکمل صنعتی  زون  کا علاقہ تھی۔ اس کی پیداوار 11 لاکھ ٹن فولاد سے شروع ہوئی اور محض پانچ برسوں میں 33 لاکھ ٹن تک جا پہنچی تھی۔ 1990ء اور 1991ء میں عروج کے دور میں 24 ہزار ملازمین تھے۔ اس منافع بخش ادارے نے 1981ء سے 2007ء تک ملکی بنکوں سے لیا گیا 25 ارب روپے کا قرضہ واپس کرنے کے علاوہ 114 ارب روپے ٹیکسوں کی صورت میں بھی وفاقی حکومت کو ادائیگی کی تھی-پاکستان سٹیل ملز ، ایک عظیم منصوبہ-پاکستان سٹیل ملز میں فولاد سازی کے علاوہ 165 میگاواٹ بجلی پیداکرنے کا تھرمل پاور پلانٹ بھی نصب کیا گیا تھا جس سے خارج ہونے والی بھاری گیسیں ، پاور پلانٹ میں منتقل کرکے سستی بجلی پیدا کی جاتی تھی۔

جب سو فیصدی پیداواری عمل جاری تھا تو چار ہزار گھروں پر مشتمل رہائشی کالونی اور تین ہزار سے زائد گھروں کی بجلی کی ضروریات بھی انھی پاور پلانٹس سے پوری کی جاتی تھی۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC) کو بھی کئی سالوں تک بجلی فروخت کی جاتی رہی۔ اسی طرح یہاں کام کرنے والے آکسیجن گیس کا پلانٹ جوکہ تقریبا 15 سے 20 ہزار کیوبک فٹ آکسیجن پیدا کرتا تھا ، اس سے فرنس پلانٹ کی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد ہزاروں کیوبک گیس کی بچت بھی کی جاتی تھی جسے بعد میں آکسیجن سلنڈرز کی شکل میں کراچی کے تمام سرکاری ہسپتالوں کو مفت فراہم کردیا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ یہاں واحد (Liquid Gas)
بھی تیار کی جاتی تھی۔


پاکستان سٹیل ملز میں 110 ملین گیلن پانی ذخیرہ کرنے والا فلٹر پلانٹ بھی موجود تھا جوکہ پچاس کلومیٹر کی پائپ لائن کے ذریعے کینجھر جھیل سے پانی حاصل کرتا ہے۔ اس کا فلٹر کیا گیا پانی پلانٹ کے ساتھ رہائشی کالونی اور نجی صنعتوں کو فراہم کیا جاتا تھا۔پاکستان سٹیل ملز کی چار ہزار ایکڑ زمین کو مکمل انفراسٹریکچر کے ساتھ نیشنل انڈسٹریل پارک کے حوالے کیا گیا جہاں دیگر نجی شعبوں کی سٹیل فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ موٹر کاریں بنانے والے ادارے بھی قائم تھے۔ اسی کے ساتھ یہاں ایک بہت بڑا ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی تھا جس میں 850 بڑی گاڑیوں سمیت 200 کے قریب ہیوی لوڈنگ والے ڈمپر اور ڈوزر بھی شامل ہیں۔ ان گاڑیوں کی مرمت کرنے کے لیے ورکشاپس بھی موجود ہیں جہاں ماہر مکینک اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک ریلوے ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جس میں 15 ریلوے انجن موجود ہیں

۔پاکستان سٹیل ملز اور پورٹ قاسم پاکستان سٹیل مل کی طرف سے ملک سے باہر کچا لوہا درآمد کرنے کے لئے پورٹ قاسم سے جہازو  ں سے سیدھا ملز کے اندر لانے کے لئے ایک جیٹی بھی موجود ہے جہاں بحری جہازوں سے خام مال بنا کسی ٹرانسپورٹ کے اپنے کنویئر بیلٹ کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔ یہ بیلٹ سات کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ پلانٹ میں فولاد بننے کے بعد جو سکریپ بچتا تھا ، وہ ملک کی دیگر کارخانوں کو بیچا جاتا تھا۔ سٹیل ملز کا اپنا ایک میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر (MTC) بھی تھا جہاں تربیت کے ذریعے لاکھوں ہنرمند تیار کیے گئے ہیں۔ جوآج دنیا کے مختلف ملکوں کے اندر سٹیل کے کارخانوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ملک کا ایسا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ ہے،

جس سے فولاد کے علاو ہ دیگر صنعتیں بھی منسلک ہیں۔ ان تمام تر وسائل کے ہونے کے باوجود بھی  پا پا کستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا   اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔اسٹیل میل کی تعمیر کے لیے روسی ماہرین بھی پاکستان آئے - پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کررہی تھی۔

اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کردیا اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔سٹیل مل کے لیے روسی پیشکش پر غور کیا گیاپاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا-

اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔

اتوار، 6 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس -حصہ چہارم

 

کیا مطلب۔؟میں نے تلخی سے دریافت کیا۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی استانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشا آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے، ایک طرف مالٹے دوسری طرف مونگ پھلی، سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر۔!جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر ان کی راکھ ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔!اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر۔!اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔!ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا۔ڈھاکہ سے جسیم الدین،جلیبی اور رس گلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا۔وہ سب یہ تحفے لاکر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں ۔سال میں کئی بار سید ممتاز حسین شاہ بی۔اے، ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فانٹین پین چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔

صرف ایک راجہ شفیع ہے ،جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی کھانے میں جا کر رکھ دیتا ہے۔کیونکہ نہ وہ شاعر ہے نہ ادیب فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔بات بلکل سچ تھی چناچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کرلی۔عفت کو میرے دوستوں کے ساتھ بڑا انس تھا۔وہ ادیب پرست تھی اور ادب شناس بھی۔شاہنامہ اسلام کے سینکڑوں اشعار اسے زبانی یاد تھے۔حفیظ جالندھری کا وہ اپنے باپ کی طرح ادب کرتی تھی۔جوش صاحب کا۔یادوں کی بارات کی بھی مداح تھی۔ایک روز میں نے کہا۔میں جوش صاحب کی طرف جا رہا تھا چلو تم بھی ان سے مل لو۔تم جا، اس نے کہا۔میرے لئے جوش صاحب کے دور کے ڈھول ہی سہانے ہیں۔یحیی خان کے زمانے میں جب ہم انگلستان کے ایک چھوٹے سے گاں میں خاموشی سے اپنے دن گزار رہے تھے تو فیض احمدفیض لندن آئے۔وہاں سے انہوں نے مجھے فون کیا کہ میں کل تمہارے پاس آ رہا ہوں، دوپہر کا کھانا تمہارے ہاں کھاں گا۔عفت نے بڑا اچھا کھانا پکایا، سردیوں کا زمانہ تھا۔شائد برف باری ہورہی تھی لندن سے ہمارے ہاں آنے کے لئے ایک گھنٹہ ریل کا سفر تھا۔


اس کے بعد آدھ گھنٹہ بس کا سفر، اور پھر کوئی پندرہ منٹ پیدل۔!ڈھائی تین بجے جب فیض صاحب گھٹنے گھٹنے برف میں دھنستے دھنساتے افتاں و خیراں ہمارے ہاں پہنچے تو عفت کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔کھانا گرم کرتے ہوئے اس نے میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور بڑی عقیدت سے کہنے لگی۔ہم کتنے خوش نصیب ہیں۔!وہ کیسے۔؟میں نے پوچھا۔ہمارے دور کا اتنا بڑا شاعر ایسے خراب موسم میں اتنی دور تم سے ملنے آیا ہے۔یہ فیض صاحب کی مروت ہے، میں نے کہا۔مروت نہیں، اس نے مجھے ٹوک۔یہ ان کی عظمت اور سخاوت ہے۔ہمارے اچھے سے اچھے دنوں میں اس کا ایک مرغوب مصرعہ یہ تھا۔ ۔۔۔۔ رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو۔اس پر اس نے غالبا اپنی طرف سے دوسرا مصرعہ یہ گانٹھ رکھا تھا۔
نہ زمیں ہو نہ زماں ہو ،آسماں کوئی نہ ہو،
بیماری کے دنوں میں وہ بار بار پڑھا کرتی۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی،
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔


اپنے تین سال کے بے وطنی کے زمانے میں ہمیں اکثر اوقات مالی تنگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ایک دفعہ جب ہم تیسری چوتھی بار نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے تو اس نے بڑی محنت سے سامان باندھا۔اس کی تھکن اس کے بند بند سے یوں ٹپک رہی تھی جیسے شدید بارش کے بعد ٹوٹی ہوئی چھت ٹپکنے لگتی ہے۔میں نے اس کے پاں دبا کر کہا، عفت میری وجہ سے تمہیں کس قدر تکلیف ہورہی ہے۔ماں جی کی طرح وہ کبھی کبھی بہت لاڈ میں آکر مجھے۔کوکا کہا کرتی تھی، بولی۔!ارے کوکے۔!میں تو تیرے ساتھ بہت خوش ہوں لیکن بیچارے ثاقب پر ترس آتا ہے۔اس ننھی سی عمر میں یہ اس کا آٹھواں اسکول ہوگا۔ثاقب کی بات چھوڑو، میں نے کہا۔آخر ہمارا بیٹا ہے۔ہر نئے اسکول میں جاکر آسانی سے فِٹ ہوجاتا ہے لیکن تجھے اتنا تھکا ماندہ دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے۔تم ٹھیک تو ہونا۔؟ہاں۔!ٹھیک ہی ہوں۔اس نے اپنا سر میرے شانوں پر ٹیک کر کہا ۔مجھے اس کے بند بند سے غالب کا شعر آہ و زاری کرتا ہوا سنائی دے رہا تھا۔

کہیں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔
میرا خیال ہے کہ اسی زمانے میں دربدری کی محنت و مشقت نے اسے وہ روگ لگا دیا جس نے انجام کا راستہ کنٹربری کے گورستان میں جا بسایا۔یہ خیال اب ہر وقت احساسِ جرم کا تازیانہ بن کر میرے ضمیر پر بڑے بے رحم کوڑے مارتا ہے۔اب میں کیا کروں ایک فقیر حقیر، بندہ پر تفسیر، اسیرِ نفس شریر کو بھی کیا کہہ سکتا ہے جی چاہتا ہے خاک سے پوچھوں 
کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیاکئے
شہاب نامہ سے اقتباس۔

ہفتہ، 5 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس۔ حصہ سو ئم

 

میں نے کہا۔!میڈم اٹھو۔!ہمارے ارد گرد جو بے شمار بچے کھیل کود رہے ہیں، وہ کیا سمجھیں گے کہ یہ بڈھا بڈھی کس طرح کی عاشقی میں مبتلا ہورہے ہیں۔؟وہ چمک کر اٹھ بیٹھی اور حسبِ دستور مسکرا کر بولی، یہ لوگ یہی سمجھیں گے ناکہ کوئی بوالہواس بوڑھا کسی چھوکر ی کو پھانس لایا ہے۔کبھی تم نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی ہے۔؟ہاں۔!روز ہی دیکھتا ہوں، میں نے کہا۔اس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے آخری بار کنگھی کی اور بولی۔:تمہارے بال کتنے سفید ہورہے ہیں۔میں نے اتنی بار کہا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار کلر شیمپو کیا کرو لیکن تم میری کوئی بات نہیں مانتے۔میں خاموش رہا۔اس نے مجھے گدگدا کر ہنسایا اور کہنے لگی۔تمہیں ایک مزے کی بات سناں۔؟ضرور سنا۔میں نے کہا۔وہ بڑے فخریہ انداز میں کہنے لگی، کوئی دو برس پہلے میں نسیم انور بیگ کی بیگم اختر کے ساتھ آکسفورڈ اسٹریٹ شاپنگ کے لئے گئی تھی۔وہاں اس کی ایک سہیلی مل گئی،


اس نے میرا تعارف یوں کرایا کہ یہ عفت شہاب ہے۔یہ سن کر اختر کی سہیلی نے بے ساختہ کہا۔ارے۔!ہم نے تو سنا تھا شہاب کا صرف ایک بیٹا ہے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ ان کی اتنی بڑی بیٹی بھی ہے، دیکھا پھر۔!ہاں ہاں بیگم صاحبہ۔!دیکھ لیا۔میں نے جھینپ کر کہا،پانچ بجنے کو ہیں۔چلو۔!طارق کی سالگرہ پر بھی تو جانا ہے۔یہ ہمارا آخری انٹرویو تھا۔اٹھارہ سال کی ازدواجی زندگی میں ہم نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بیک وقت اتنی ڈھیر ساری باتیں نہ کی تھیں، دوستوں، یاروں اور عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم کئی کئی گھنٹے ہی ہی، ہا ہا کر لیتے تھے لیکن اکیلے میں ہم نے اتنی دل جمعی کے ساتھ اتنے موضوعات پر کبھی اتنی طویل گفتگو نہ کی تھی۔یہاں تک کے جب میں نے سی ۔ایس۔پی سے استفعی دیا۔تو یوں ہی ایک فرض کے طور پر مناسب سمجھا کے اپنی بیوی سے بھی مشورہ کرلوں۔


جب میں نے اسے بتایا کہ میں ملازمت سے مستفعی ہونا چاہتا ہوں تو وہ ثاقب کے اسکول جانے سے پہلے اس کے لئے آملیٹ بنا رہی تھی۔آملیٹ بنانے کا چمچہ ہاتھ سے چھوڑے بغیر اور میری طرف آنکھ اٹھائے بغیر وہ بولی۔اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے، تو بسم اللہ۔!ضرور استفعی دے دو۔اس کی اس شانِ استغنا سے جل کر میں نے شکایتی لہجے میں کہا، بیگم صاحبہ۔!آپ کی رضامندی کے بغیر میں ایسا قدم کیسے اٹھا سکتا ہوں۔؟اور ایک آپ ہیں کہ کوئی توجہ ہی نہیں دیتیں۔اس نے چمچہ ہاتھ سے رکھ دیا  اور میری طرف یوں پیار سے دیکھا جیسے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر بولی۔ارے یار۔!میں تجھے کیسے سمجھاں کہ جو تیری مرضی وہ میری مرضی۔مجھے یہ زعم تھا کہ میں خود فنا کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ عفت پہلے ہی اس مقام سے گزر چکی ہے۔جب وہ تابوت میں لیٹی ہوئی تھی، تو میں نے چپکے سے اس کے سر پر آخری بار ہاتھ پھیر کر پیار کیا۔میرے اندر کے توہمات نے میرے سینے میں عجیب و غریب امیدوں کی موم بتیاں سجا رکھی تھیں لیکن ان میں سے کسی معجزے کی ایک بھی موم بتی روشن نہ ہوئی۔


وہ مر گئی تھی ! ہم نے اسے قبرستان میں لے جا کر دفنا دیا۔باقی اللہ اللہ خیر سللا۔یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں اور باہمی شکر رنجیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہییں لیکن ہماری اصلی بڑی لڑائی صرف ایک بار ہوئی۔اسلام آباد میں اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا۔میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور درمیان میں رنگین پھول تھے۔عفت نے اسے فورا یوں مسترد کر دیا جس طرح وہ کسی چالاک سبزی فروش کو الٹے ہاتھوں باسی پالک،مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو۔مجھے بڑا رنج ہوا، گھر آکر میں نے سارا دن اس سے کوئی بات نہ کی۔رات کو وہ میرے پہلو میں آکر لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر رکھ کر کہنے لگی، دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے۔جب تو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہوجاتا ہےآج بھلا تو اتنا ناراض کیوں ہے۔؟میں نے قالین کی بات اٹھائی۔قالین تو نہایت عمدہ ہے ،اس نے کہا۔لیکن ہمارے کام کا نہیں۔!وہ کیوں۔؟میں نے پوچھا۔دراصل بات یہ ہے۔جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے ان میں سے کوئی بھی ہمارے ہاں نہیں آتا۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر