پاکستان اسٹیل ملز کا سنہرا دور- پاکستان سٹیل ملز ، 19 ہزار 500 ایکڑ رقبے پر قائم ایک مکمل صنعتی زون کا علاقہ تھی۔ اس کی پیداوار 11 لاکھ ٹن فولاد سے شروع ہوئی اور محض پانچ برسوں میں 33 لاکھ ٹن تک جا پہنچی تھی۔ 1990ء اور 1991ء میں عروج کے دور میں 24 ہزار ملازمین تھے۔ اس منافع بخش ادارے نے 1981ء سے 2007ء تک ملکی بنکوں سے لیا گیا 25 ارب روپے کا قرضہ واپس کرنے کے علاوہ 114 ارب روپے ٹیکسوں کی صورت میں بھی وفاقی حکومت کو ادائیگی کی تھی-پاکستان سٹیل ملز ، ایک عظیم منصوبہ-پاکستان سٹیل ملز میں فولاد سازی کے علاوہ 165 میگاواٹ بجلی پیداکرنے کا تھرمل پاور پلانٹ بھی نصب کیا گیا تھا جس سے خارج ہونے والی بھاری گیسیں ، پاور پلانٹ میں منتقل کرکے سستی بجلی پیدا کی جاتی تھی۔
جب سو فیصدی پیداواری عمل جاری تھا تو چار ہزار گھروں پر مشتمل رہائشی کالونی اور تین ہزار سے زائد گھروں کی بجلی کی ضروریات بھی انھی پاور پلانٹس سے پوری کی جاتی تھی۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC) کو بھی کئی سالوں تک بجلی فروخت کی جاتی رہی۔ اسی طرح یہاں کام کرنے والے آکسیجن گیس کا پلانٹ جوکہ تقریبا 15 سے 20 ہزار کیوبک فٹ آکسیجن پیدا کرتا تھا ، اس سے فرنس پلانٹ کی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد ہزاروں کیوبک گیس کی بچت بھی کی جاتی تھی جسے بعد میں آکسیجن سلنڈرز کی شکل میں کراچی کے تمام سرکاری ہسپتالوں کو مفت فراہم کردیا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ یہاں واحد (Liquid Gas)
بھی تیار کی جاتی تھی۔
پاکستان سٹیل ملز میں 110 ملین گیلن پانی ذخیرہ کرنے والا فلٹر پلانٹ بھی موجود تھا جوکہ پچاس کلومیٹر کی پائپ لائن کے ذریعے کینجھر جھیل سے پانی حاصل کرتا ہے۔ اس کا فلٹر کیا گیا پانی پلانٹ کے ساتھ رہائشی کالونی اور نجی صنعتوں کو فراہم کیا جاتا تھا۔پاکستان سٹیل ملز کی چار ہزار ایکڑ زمین کو مکمل انفراسٹریکچر کے ساتھ نیشنل انڈسٹریل پارک کے حوالے کیا گیا جہاں دیگر نجی شعبوں کی سٹیل فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ موٹر کاریں بنانے والے ادارے بھی قائم تھے۔ اسی کے ساتھ یہاں ایک بہت بڑا ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی تھا جس میں 850 بڑی گاڑیوں سمیت 200 کے قریب ہیوی لوڈنگ والے ڈمپر اور ڈوزر بھی شامل ہیں۔ ان گاڑیوں کی مرمت کرنے کے لیے ورکشاپس بھی موجود ہیں جہاں ماہر مکینک اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک ریلوے ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جس میں 15 ریلوے انجن موجود ہیں
۔پاکستان سٹیل ملز اور پورٹ قاسم پاکستان سٹیل مل کی طرف سے ملک سے باہر کچا لوہا درآمد کرنے کے لئے پورٹ قاسم سے جہازو ں سے سیدھا ملز کے اندر لانے کے لئے ایک جیٹی بھی موجود ہے جہاں بحری جہازوں سے خام مال بنا کسی ٹرانسپورٹ کے اپنے کنویئر بیلٹ کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔ یہ بیلٹ سات کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ پلانٹ میں فولاد بننے کے بعد جو سکریپ بچتا تھا ، وہ ملک کی دیگر کارخانوں کو بیچا جاتا تھا۔ سٹیل ملز کا اپنا ایک میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر (MTC) بھی تھا جہاں تربیت کے ذریعے لاکھوں ہنرمند تیار کیے گئے ہیں۔ جوآج دنیا کے مختلف ملکوں کے اندر سٹیل کے کارخانوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ملک کا ایسا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ ہے،
جس سے فولاد کے علاو ہ دیگر صنعتیں بھی منسلک ہیں۔ ان تمام تر وسائل کے ہونے کے باوجود بھی پا پا کستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔اسٹیل میل کی تعمیر کے لیے روسی ماہرین بھی پاکستان آئے - پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کررہی تھی۔
اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کردیا اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔سٹیل مل کے لیے روسی پیشکش پر غور کیا گیاپاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا-
اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔
نیشنلائزیشن کے عمل نےت پاکستان کو اندھیروں کی سوغات دی
جواب دیںحذف کریں