اتوار، 6 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس -حصہ چہارم

 

کیا مطلب۔؟میں نے تلخی سے دریافت کیا۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی استانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشا آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے، ایک طرف مالٹے دوسری طرف مونگ پھلی، سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر۔!جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر ان کی راکھ ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔!اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر۔!اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔!ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا۔ڈھاکہ سے جسیم الدین،جلیبی اور رس گلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا۔وہ سب یہ تحفے لاکر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں ۔سال میں کئی بار سید ممتاز حسین شاہ بی۔اے، ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فانٹین پین چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔

صرف ایک راجہ شفیع ہے ،جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی کھانے میں جا کر رکھ دیتا ہے۔کیونکہ نہ وہ شاعر ہے نہ ادیب فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔بات بلکل سچ تھی چناچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کرلی۔عفت کو میرے دوستوں کے ساتھ بڑا انس تھا۔وہ ادیب پرست تھی اور ادب شناس بھی۔شاہنامہ اسلام کے سینکڑوں اشعار اسے زبانی یاد تھے۔حفیظ جالندھری کا وہ اپنے باپ کی طرح ادب کرتی تھی۔جوش صاحب کا۔یادوں کی بارات کی بھی مداح تھی۔ایک روز میں نے کہا۔میں جوش صاحب کی طرف جا رہا تھا چلو تم بھی ان سے مل لو۔تم جا، اس نے کہا۔میرے لئے جوش صاحب کے دور کے ڈھول ہی سہانے ہیں۔یحیی خان کے زمانے میں جب ہم انگلستان کے ایک چھوٹے سے گاں میں خاموشی سے اپنے دن گزار رہے تھے تو فیض احمدفیض لندن آئے۔وہاں سے انہوں نے مجھے فون کیا کہ میں کل تمہارے پاس آ رہا ہوں، دوپہر کا کھانا تمہارے ہاں کھاں گا۔عفت نے بڑا اچھا کھانا پکایا، سردیوں کا زمانہ تھا۔شائد برف باری ہورہی تھی لندن سے ہمارے ہاں آنے کے لئے ایک گھنٹہ ریل کا سفر تھا۔


اس کے بعد آدھ گھنٹہ بس کا سفر، اور پھر کوئی پندرہ منٹ پیدل۔!ڈھائی تین بجے جب فیض صاحب گھٹنے گھٹنے برف میں دھنستے دھنساتے افتاں و خیراں ہمارے ہاں پہنچے تو عفت کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔کھانا گرم کرتے ہوئے اس نے میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور بڑی عقیدت سے کہنے لگی۔ہم کتنے خوش نصیب ہیں۔!وہ کیسے۔؟میں نے پوچھا۔ہمارے دور کا اتنا بڑا شاعر ایسے خراب موسم میں اتنی دور تم سے ملنے آیا ہے۔یہ فیض صاحب کی مروت ہے، میں نے کہا۔مروت نہیں، اس نے مجھے ٹوک۔یہ ان کی عظمت اور سخاوت ہے۔ہمارے اچھے سے اچھے دنوں میں اس کا ایک مرغوب مصرعہ یہ تھا۔ ۔۔۔۔ رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو۔اس پر اس نے غالبا اپنی طرف سے دوسرا مصرعہ یہ گانٹھ رکھا تھا۔
نہ زمیں ہو نہ زماں ہو ،آسماں کوئی نہ ہو،
بیماری کے دنوں میں وہ بار بار پڑھا کرتی۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی،
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔


اپنے تین سال کے بے وطنی کے زمانے میں ہمیں اکثر اوقات مالی تنگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ایک دفعہ جب ہم تیسری چوتھی بار نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے تو اس نے بڑی محنت سے سامان باندھا۔اس کی تھکن اس کے بند بند سے یوں ٹپک رہی تھی جیسے شدید بارش کے بعد ٹوٹی ہوئی چھت ٹپکنے لگتی ہے۔میں نے اس کے پاں دبا کر کہا، عفت میری وجہ سے تمہیں کس قدر تکلیف ہورہی ہے۔ماں جی کی طرح وہ کبھی کبھی بہت لاڈ میں آکر مجھے۔کوکا کہا کرتی تھی، بولی۔!ارے کوکے۔!میں تو تیرے ساتھ بہت خوش ہوں لیکن بیچارے ثاقب پر ترس آتا ہے۔اس ننھی سی عمر میں یہ اس کا آٹھواں اسکول ہوگا۔ثاقب کی بات چھوڑو، میں نے کہا۔آخر ہمارا بیٹا ہے۔ہر نئے اسکول میں جاکر آسانی سے فِٹ ہوجاتا ہے لیکن تجھے اتنا تھکا ماندہ دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے۔تم ٹھیک تو ہونا۔؟ہاں۔!ٹھیک ہی ہوں۔اس نے اپنا سر میرے شانوں پر ٹیک کر کہا ۔مجھے اس کے بند بند سے غالب کا شعر آہ و زاری کرتا ہوا سنائی دے رہا تھا۔

کہیں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔
میرا خیال ہے کہ اسی زمانے میں دربدری کی محنت و مشقت نے اسے وہ روگ لگا دیا جس نے انجام کا راستہ کنٹربری کے گورستان میں جا بسایا۔یہ خیال اب ہر وقت احساسِ جرم کا تازیانہ بن کر میرے ضمیر پر بڑے بے رحم کوڑے مارتا ہے۔اب میں کیا کروں ایک فقیر حقیر، بندہ پر تفسیر، اسیرِ نفس شریر کو بھی کیا کہہ سکتا ہے جی چاہتا ہے خاک سے پوچھوں 
کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیاکئے
شہاب نامہ سے اقتباس۔

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر