بدھ، 19 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیور سٹی-part-2

  جب میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کے معاملات تو میری توقع سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔یہاں کوئی سسٹم آپریشنل نہیں تھا، تمام سسٹمزٕ کمپرومائز ہوچکے تھے، فنڈز میں بڑے پیمانے پر خردبُرد ہورہی تھی، شعبہ ہیومن ریسورس کا کچھ پتا نہیں تھا، غیرقانونی ترقیاں اور بھرتیاں ہورہی تھیں۔ ایک زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں نان ٹیچنگ اسٹاف کی سب سے بڑی پوسٹ گریڈ اٹھارہ کی تھی جواب گریڈ بیس ہوگئی ہے ۔ اس طرح کے بے تحاشا معاملات ایسے تھے جو خلاف ضابطہ چل رہے تھے۔ کوئی بھی اشتہار تین ماہ کے لیے موثر ہوتا ہے اگر آپ چاہیں تو اس میں چھے ماہ تک کی توسیع کردیں، لیکن ہمارے ہاں اشتہار دس، دس سال چلتے تھے۔ ہماری ساری بھرتیاں پرانی تاریخ میں ہوتی ہیں، نہ صرف بھرتیاں بلکہ انہیں تنخواہوں کی ادائیگی پرانی تاریخوں سے ہوتی ہے۔ یعنی کہ جامعہ کراچی لاکھوں روپے کی ادائیگی غیرقانونی کرتی ہے۔اس بابت ہمیں قومی احتساب بیورو (نیب) بھی کہہ چکا ہے کہ ادائیگیوں کا یہ نظام درست نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی نیب نے ہمیں ایسے 49 پوائنٹس کی نشان دہی کی ہے جہاں چیزیں غلط ہورہی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی بے تحاشا باتیں ہیں۔

 

یہاں اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن گیا تھا، ہر آدمی صبح وقت پر آتا نہیں تھا لیکن شام میں دیر تک دفتر میں بیٹھا رہتا تھا، کیوں کہ اوورٹائم لگ رہا تھا۔ اگر سچ کہا جائے تو حالات ابھی بھی بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں، مگر ہم نے بے تحاشا تبدیلیاں کی ہیں، یہاں معاملہ اتنا خراب تھا کہ آپ کتنی بھی تبدیلیاں کرلیں وہ کم ہی لگتی ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے کرپشن کے دروازے بند کرنا شروع کیے۔ پہلے ایک بینک ڈرافٹ پر پچاس، ساٹھ داخلے ہوجاتے تھے اور بعد میں وہ ڈرافٹ بھی واپس ہوجاتا تھا، ہم نے اس خردبرد کو روکنے کے لیے رقم کی وصولی اور ادائیگی کو بینک ویری فیکیشن سے مشروط کردیا کہ جب تک بینک تصدیق نہیں کرے گا۔اس وقت تک وہ ادائیگی، ادائیگی نہیں سمجھی جائے گی۔ صرف کلیکشن کو بینک کے ساتھ مربوط کرنے سے ہماری لکویڈیٹی بیس فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ تو کرپشن کے چھوٹے چھوٹے معاملات تھے،اب ہم جامعہ کراچی میں مکمل طور پر ای آر پی (انٹر پرائیز ریسورس پلاننگ) سسٹم کے نفاذ ک عمل نہ ہوسکا -


 سسٹم کے نفاذ کی طرف جا رہے ہیں، اگر ہم اسے مکمل طور پر نافذ کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔ جامعہ کراچی میں داخلے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا تھا یہ پورے شہر کو پتا ہے۔ ہم نے داخلے کے نظام کو آن لائن کردیا، اب کوئی آدمی چاہے وہ گلگت میں ہو یا مٹھی میں، وہ وہاں بیٹھ کر داخلے کے تمام مراحل مکمل کرسکتا ہے، اب اسے کراچی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مکمل اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ دو سال میں ہونے والے تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال ہمیں اس ضمن میں بے ضابطگیوں کا پتا چلا تھا تو ہم نے فوراً ایسے داخلے منسوخ کردیے۔ ہمارا داخلے کا نظام ننانوے اعشاریہ نو فی صد میرٹ پر آگیا ہے۔یہی طریقۂ کار ہم ایگزامیشن پر بھی لاگو کرنے جا رہے ہیں، لیکن اس پر میں اتنا بڑا دعویٰ نہیں کرسکتا کیوں کہ ایگزامینیشن کا نظام بہت بڑا ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں اور بے تحاشا کرپشن ہے، لیکن ہم نے اس میں ہونے والی کرپشن اور نقل کے رجحانات کو بتدریج کم کیا ہے، لیکن اس شعبے کو مکمل طور پر کرپشن سے پاک کرنے میں وقت لگے گا 


۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ جامعہ کراچی کے ننانوے فی صد استاد بہت محنت کرتے ہیں، ایمان دار ہیں،  لیکن ماضی میں کچھ لوگ بشمول پروفیسر یہاں سرگرم تھے ، رجسٹرار آفس ان کے کنٹرول میں تھا ۔ وہ یہاں بیٹھ کر مافیا کی طرز پر معاملات چلاتے تھے وہ یہاں عملی طور پر وائس چانسلر بنے بیٹھے تھے ۔ ہم نے جامعہ کراچی کو اپنے قواعد اور ضوابط پر چلانا اور دوسروں کی مداخلت کو کم کرنا شروع کیا، ورنہ یہاں تو یہ ہوتا تھا کہ ایک صاحب آئے انہوں نے کسی طالب علم کو پاس کرنا تھا تو اس کی فائل نکلوائی، اس پر نوٹ بنوایا، رجسٹرار سے منظوری کے دستخط کروائے اور وائس چانسلر کے سامنے رکھ کر انہیں دستخط کرنے کا حکم دے دیا۔ ہم نے ان کا یہ نظام بھی ختم کردیا، تو آج جو بھی پریشانی آپ دیکھ رہے ہیں وہ کرپشن کا نظام ٹوٹنے کا ردعمل ہے۔

 

ایکسپریس: جامعہ کراچی ایک عرصے سے مالی مشکلات سے دوچار ہے، گذشتہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے جامعہ کے لیے ایک ارب اسی کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی گئی، اس حوالے سے کچھ بتائیے؟ کیا اس گرانٹ سے جامعہ کراچی کی مالی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوئی؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: حکومت کے بہت سارے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، ہم سے بات کی، ہمارے مسائل سمجھنے کی کوشش اور ان کے حل میں دل چسپی ظاہر کی۔گورنر سندھ اور کئی وفاقی وزراء نے بھی ہم سے بہت سارے وعدے کیے۔ مجھے امید ہے کہ ہم سے کیے گئے سارے وعدے حقیقت کا روپ دھار لیں گے، مگر فی الحال ہم انتظار کر رہے ہیں، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ کم از کم وہ ہماری بات سن تو رہے ہیں۔ گذشتہ سال کافی طویل عرصے کے بعد ہائرایجوکیشن کمیشن نے ہمارے لیے تقریباً۔ایک ارب اسی کروڑ روپے کی ڈیولپمنٹ گرانٹ کی منظوری دی۔ اس گرانٹ سے آرٹس فیکلٹی، سائنس فیکلٹی اور ایک ویژیول اسٹیڈیز کا بلاک بنایا جائے گا۔اس کے علاوہ ہمیں لیباریٹری کے لیے آلات خریدنے ہیں۔ اس گرانٹ کی پہلی قسط کے ڈھائی کروڑ روپے (پچیس ملین) مل چکے ہیں ۔ایکسپریس: گذشتہ ماہ جامعہ کراچی نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے کا چیک جاری کیا، اس سے جامعہ کے ماہانہ اخراجات میں کس حد تک کمی واقع ہوگی؟

 

منگل، 18 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیور سٹی حصہ اول

 پاکستان  کا علمی سرمایہ   ڈاکٹر محمد اجمل خان  وائس  چانسلر آف کراچی یونیور سٹی -سائنس کے میدان میں ڈاکٹر محمد اجمل خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ڈاکٹر صاحب  پاکستان  کا وہ  علمی سرمایہ ہیں کہ اگر ان کو  پاکستان  کا وزیر خزانہ بنا دیا جائے تو وہ بہت قلیل عرصے میں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں -یہ میری زاتی رائے ہے اور ساتھ ہی میری خوش نصیبی ہے کہ  میں آج کے علمی مفلس اورقلاش پاکستان میں ایک علمی دولت سے مالامال  ہستی کے بارے میں  تحریر پیش کر رہی ہوں ساتھ ہی ایکپریس کی شکر گزار ہوں جس نے محنت کے ساتھ  ڈاکٹر صاحب کی  یونیورسٹی کے علمی شہر کے بارے میں محنت کی تفصیل فراہم کی -اب ڈاکٹر صاحب  کا تفصیلی تعارف اور اور کی علمی کاوشیں جو ایکسپریس نے مجھ   جیسی/جیسے قارئین  تک پہنچائیں میں وہ لفظ اور حرف کی تبدیلی کے بغیر اپنے قارئین تک پہنچا رہی ہوں -


ڈاکٹر صاحب نے جامعہ کراچی سے 1973 نباتیات میں بی ایس سی آنرز اور1974 میں نباتیاتی ماحولیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1977میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1985میں امریکا کی اوہائیویونیورسٹی سے نمک زدہ پودوں کی ماحولیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے ایک سال بعد وطن آکر جامعہ کراچی سے منسلک ہوگئے اور پھر یہیں سے نباتیات میں ڈاکٹر آف سائنس (ڈی ایس سی) کی ڈگری حاصل کی۔ ہیلو فائٹ (نمکین زمین پر قدرتی طور پر اُگنے والا پودا) ان کی تحقیقی دل چسپی کا محور ہے۔


ڈاکٹر محمد اجمل خان نے 40 سال پر محیط تدریسی وتحقیقی کیریئر میں بے شمار اعزازات حاصل کیے اور مختلف بین الاقوامی جامعات میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ صدر پاکستان نے ڈاکٹر محمد اجمل خان کو ان کی سائنسی خدمات پر 2001 ء میں تمغہ حسن کارکردگی اور 2007 ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ ہائرایجوکیشن کمیشن نے 2005 ء میں انہیں ’ڈسٹینگوشڈ نیشنل پروفیسر‘ کے اعزاز سے بھی نوازا۔ 2012 ء میں وہ جامعہ کراچی سے بحیثیت میریٹوریس پروفیسر ریٹائر ہوئے اور بعدازاں قطر یونیورسٹی کے فوڈ سیکیوریٹی پروگرام کے چیئرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔ڈاکٹر محمداجمل خان کنگ سعود یونیورسٹی، سعودی عرب اور قطر فاؤنڈیشن دوحہ میں بہ حیثیت سائنسی مشیر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے قطر یونیورسٹی میں ’مرکز برائے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ‘ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قومی اور بین الاقوامی سائنسی جرائد میں ڈاکٹرمحمد اجمل خان کے400 سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔


 ڈاکٹر محمد اجمل خان کو 2004 میں ورلڈ اکیڈمی آف سائنس نے اپنا فیلو مقرر کیا۔ سائنس کے شعبہ نباتیات میں نمایاں مقام رکھنے والے ڈاکٹر محمد اجمل خان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں جامعہ کراچی کو ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے سیر حاصل گفت گو کی گئی جو نذرقارئین ہے۔ایکسپریس: اپنے حالات زندگی کے بارے میں بتائیے، کہاں پیدا ہوئے، تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: والد صاحب تقسیم سے پہلے سول سروس میں تھے، تقسیم کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور واپڈا سکھر میں کلرک کی ملازمت کرلی۔ چھے برس کی عمر میں والد صاحب برین ہیمرج کی وجہ خالق حقیقی سے جاملے، اور ہم سب کی کفالت کی ذمے داری بڑے بھائی پر آن پڑی، جو اس وقت انٹر میں زیرتعلیم تھے۔ میں نے ابتدائی تعلیم شاہ فیصل کالونی کراچی کے سرکاری اسکول سے حاصل کی، میٹرک کے بعد جامعہ ملیہ کالج، ملیر میں داخلہ لے لیا۔ 


انٹر کے بعد جامعہ کراچی میں بی ایس سی آنرزشعبہ نباتیات میں داخلہ لے لیا۔ایکسپریس: آپ کو وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے تقریباً دو سال ہوچکے ہیں، آج آپ جامعہ کراچی کو کہاں دیکھتے ہیں؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: دو سال پہلے جب میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے انٹرویو دے رہا تھا تو اس وقت مجھے کہا گیا کہ جامعہ کراچی کے معاملات کو درست کرنا بہت مشکل کام ہے اور آپ اسے کس طرح سر انجام دیں گے؟ تو اس وقت میرا جواب کچھ یوں تھا کہ معاملات کا ٹھیک ہونا اور نہ ہونا اللہ کی مرضی پر منحصر ہے لیکن میں اس سلسلے میں اپنی پوری کوشش کرنا چاہتا ہوں۔اس چیلینج کو قبول کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ میں 1977سے جامعہ کراچی سے منسلک ہوں، یہ اور میں الگ نہیں ہوسکتے۔ یہ معاملہ نوکری کا نہیں میرے اس جامعہ سے قائم دیرینہ رشتے کا ہے، آپ مجھے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے کا موقع دیں، تاکہ آخری وقت میں مجھے اس بات کا افسوس نہ ہو کہ میں اپنی مادر علمی کے لیے کچھ کر نہیں سکا۔ 

 جاری ہے

پیر، 17 مارچ، 2025

مقدونیہ نا ئٹ کلب آتشزدگی کا اندوہنا ک حادثہ

 م دنیا میں نائٹ کلبس میں پیش آنے والے حادثات پر نظر ڈالیں تو کچھ اس طرح  خطوط بنتے ہیں--- 25 جولائی 2016- امریکی ریاست فلوریڈا میں حکام کے مطابق ایک نائٹ کلب میں فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم دو افراد ہلاک اور 16 کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔پولیس کے مطابق یہ واقعہ اتوار کی شب فورٹ میئرز نامی شہر میں رات ساڑھے 12 بجے (04:30 جی ایم ٹی) کلب بلو میں پیش آیا۔12 جون 2016-امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں پولیس کے مطابق ہم جنس پرستوں کے ایک نائٹ کلب میں فائرنگ کے واقعے میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک بیان میں فائرنگ کے اس واقعے کو ’درجنوں معصوم لوگوں کا خوفناک قتل عام‘ قرار دیا ہے۔31 اکتوبر 2015-رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ کے ایک نائٹ کلب میں آتشزدگی سے کم از کم 27 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ تقریباً 150 افراد زخمی ہوئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق آگ لگنے کے وقت نائٹ کلب میں جاری راک کنسرٹ سننے اور دیکھنے کے سینکڑوں افراد وہاں موجود تھے۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ہلاکتیں بھاگنے کی دوڑ میں کچلنے اور دھوئیں کے سبب دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ نائٹ کلب کے باہر افرا تفری کا ماحول تھا کیونکہ لوگ اپنے عزیزوں کی تلاش میں بے چین نظر آ رہے تھے۔


  شمالی مقدونیہ کے نائٹ کلب میں آگ لگ گئ -حکام کا کہنا ہے کہ شمالی مقدونیہ میں نائٹ کلب میں آگ لگنے سے کم از کم 59 افراد ہلاک او155 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔آگ تقریباً 02:30 (01:30 GMT) کوکانی کے پلس کلب میں لگی، جو دارالحکومت اسکوپجے سے 100 کلومیٹر (60 میل) مشرق میں واقع ایک قصبہ ہے، جہاں 500 افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ DNK کے کنسرٹ میں شرکت کر رہے ہیں، جو ملک میں ایک مشہور ہپ ہاپ جوڑی ہے۔وزیر اعظم ہرسٹیجان میکوسکی نے اسے ملک کے لیے ایک "مشکل اور انتہائی افسوسناک دن" قرار دیا، جس میں کئی "نوجوان جانیں" ضائع ہوئیں۔پولیس نے نائٹ کلب تک رسائی روک دی ہے کیونکہ تحقیقات جاری ہیں۔ اتوار کی سہ پہر کو ایک اپ ڈیٹ میں، وزیر داخلہ پینس توسکووسکی نے کہا کہ کلب کے پاس کام کرنے کا قانونی لائسنس نہیں ہے۔توسکوفسکی نے صحافیوں کو بتایا کہ حکام آگ سے منسلک بدعنوانی اور رشوت ستانی کے الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔وزیر نے کہا کہ زخمیوں میں سے 20 سے زیادہ اور ہلاک ہونے والوں میں سے تین کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔پہلے اندازوں کے مطابق شرکاء کی تعداد 1,500 بتائی گئی تھی، لیکن اس کے بعد حکام نے اس تعداد کو کم کر دیا ہے۔


اس مقام کو مقامی پریس میں ایک "ترقی یافتہ نائٹ کلب" کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو پہلے قالین کا گودام رہا تھا۔جب آگ لگی، یہ DNK کے لیے ایک کنسرٹ کر رہا تھا - 2002 میں تشکیل پانے والا ایک بینڈ، جو گزشتہ دہائی کے دوران شمالی مقدونیائی چارٹ میں سرفہرست ہے۔ابتدائی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے توسکووسکی نے کہا کہ آگ آتش گیر آلات کی چنگاریوں سے شروع ہوئی تھی جو چھت سے ٹکرائی تھی، جو کہ انتہائی آتش گیر مادے سے بنی تھی۔رائٹرز 16 مارچ 2025 کو شمالی مقدونیہ کے قصبے کوکانی میں آتشزدگی کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد نائٹ کلب کے باہر کا منظر-کہا جاتا ہے کہ سیکڑوں لوگ ڈی این کے بینڈ کے کنسرٹ میں شریک تھے۔فوٹیج میں بینڈ کو اسٹیج پر بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب دو بھڑک اٹھتے ہیں، جس کے بعد چنگاریاں تیزی سے پھیلنے سے پہلے چھت پر آگ پکڑ لیتی ہیں۔بی بی سی کے ذریعے تصدیق شدہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ چھت پر لگی آگ کے شعلوں کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ کلب ابھی بھی بھرا ہوا تھا اور کچھ لوگ باہر جانے کے بجائے آگ بجھانے کی کوششوں کو دیکھ رہے تھے۔


رپورٹس بتاتی ہیں کہ دیسی ساختہ نائٹ کلب میں صرف ایک ہی داخلہ اور خارجی راستہ تھا، جس سے خوف و ہراس پھیل گیا۔20 سالہ ماریجا تسیوا نے چینل 5 ٹی وی کو بتایا کہ وہ کلب میں اس وقت پھنس گئی جب لوگ باہر نکلنے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ اس نے باہر نکلنے کا انتظام کرنے سے پہلے زمین پر گرنا اور افراتفری کے دوران روندا جانا یاد کیا۔اس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’میں نہیں جانتی کہ کیسے، لیکن کسی طرح میں باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔‘‘ "اب میں ٹھیک ہوں، لیکن بہت سے لوگ مر چکے ہیں۔"اس نے مزید کہا کہ اس کی 25 سالہ بہن - جسے اس کا خاندان پہلے تلاش کر رہا تھا - مر گئی تھی، یہ کہتے ہوئے: "میں بچ گئی تھی اور وہ نہیں تھی۔"رائٹرز ماریجا تسیوا-ماریجا تسیوا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آگ لگتے ہی سب نے چیخنا شروع کر دیا، لیکن "صرف ایک ہی باہر نکلنا" تھا۔ریڈ کراس کے رضاکار مصطفیٰ سیدوف نے کہا کہ متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر 18-20 سال کی عمر کے نوجوان تھے۔انہوں نے مزید کہا، "صورتحال سفاکانہ، افراتفری کا شکار ہے، کہانیاں بہت افسوسناک ہیں، اور بدقسمتی سے بہت سے نوجوان جانیں ضائع ہو گئے


 ہیں۔"حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہلاکتیں "ضرورت نہیں" تھیں اور ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا۔شمالی مقدونیہ کے وزیر داخلہ توسکووسکی نے پہلے کی ایک تازہ کاری میں کہا تھا کہ اس وقت مرنے والوں میں سے 35 کی شناخت ہو چکی تھی۔کوکانی کے ہسپتال کے ڈائریکٹر نے پہلے کہا تھا کہ عملہ شناختی کارڈز کی کمی کی وجہ سے مریضوں کی شناخت کرنے میں مشکلات کا شکار تھا۔انہوں نے کہا کہ مرنے والوں کی عمریں 14 سے 24 سال کے درمیان تھیں۔ اٹھارہ مریضوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔حکومت نے سات روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے، اور حکومت اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے کہ یہ واقعہ کیسے سامنے آیا۔وزیر اعظم میکوسکی نے کہا کہ حکومت "مکمل طور پر متحرک ہے اور اس کے نتائج سے نمٹنے اور اس سانحے کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی"۔یورپی رہنماؤں نے تعزیت کا اظہار کیا ہے، یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے کہا ہے کہ یورپی یونین "اس مشکل وقت میں شمالی مقدونیہ کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑی ہے"۔ہمسایہ ملک سربیا کے صدر الیگزینڈر ووچک نے اسے "انتہائی شدت کا المیہ" قرار دیا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ خدشہ بدستور برقرار ہے کہ "اس وقت مزید بہت سے لوگ زخمی ہونے کی سطح کو برداشت نہیں کر سکیں گے"۔شمالی مقدونیہ کے کوکانی علاقے میں ایک میوزک بینڈ کی لائیو پرفارمنس کے دوران ایک پرہجوم نائٹ کلب میں آگ لگنے سے کم از کم 59 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مقدونیہ کے وزیر داخلہ پینس توسکووسکی نے کہا کہ نائٹ کلب میں آتشزدگی کے سلسلے میں چار افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔ مقدونیہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ پولیس نے واقعے کے سلسلے میں نائٹ کلب کے مالک کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے وقت کلب میں ایک میوزک بینڈ پرفارم کر رہا تھا جب کہ دوست اور خاندان کے کئی افراد موجود تھے۔ 

خیبر شکن علی مولا (ع)

خیبر شکن علی مولا (ع)خیبر کا علاقہ اور اس کے کئی قلعے یہودی فوجیوں کے مرکز تھے اور یہ مسلمانوں کے خلاف خود بھی سازشیں کرتے اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ساز باز کرتے خیبر کے یہودیوں نے قبیلہ بنی نضیر کو بھی اپنی پناہ میں رکھا۔ خیبر میں بے شمار یہودی آباد تھے اور یہ بڑا شہر تھا۔بنو قریظہ نے غزوہ خندق میں مسلمانوں سے عہد شکنی کرکے مشکلات کا شکار کر دیا تھا خیبر کے یہودیوں نے نجد کے قبیلے کے ساتھ بھی معاہدے کیے تھے جن کی رو سے وہ مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے در پر تھے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے پیارے نبی 1600 کی فوج کے ساتھ جن میں سے 100 سے زائد گھڑ سوار بھی شامل تھے جنگ کی نیت سے روانہ ہوئے اور پانچ چھوٹے قلعے فتح کر لیے اور اس کے ساتھ ہی خیبر کا محاصرہ کر لیا یہ قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔یہودیوں نے اپنا ساز و سامان اور خواتین و بچوں کو علیحدہ علیحدہ قلعوں میں حفاظت کے لیے پہنچا دیا،


 باقی دو قلعوں کو جن میں قلعہ قموص بھی شامل تھا ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کی قیادت میں افواج بھیجیں، مگر مسلمان کامیاب نہ ہو سکے۔اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا ’’کل میں علم اس کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اسے شکست ہوگی اور نہ وہ میدان چھوڑے گا‘‘ یہ سن کر صحابہ کرام خواہش کرنے لگے کہ یہ سعادت ان کے نصیب میں ہو۔دوسرے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو طلب کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! علیؓ آشوب چشم میں مبتلا ہیں‘

ندا کے معنی آواز دینا ہیں )  اور پھر حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ علی علیہ لاسلام کو آواز دیجئے جو کہ مظہر  العجائب ہیں تو انہیں اپنا مددگار پائیے گا ۔ مصیبتوں میں سب پریشانی وغم اب دورہوتے جاتے ہیں حضور کی ولایت سے یا علی یا علی یا علی ۔۱؂جواہر خمسہ مترجم اردو مرزا محمد بیگ نقشبندی دارالاشاعت کراچی ص ۲۸۲ و۴۵۳-- حضرت علیؓ کو پتا چلا کہ بارگاہ نبوی ﷺ سے بلاوا آیا ہے تو آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھوں پر لگایا، آپؓ اسی وقت صحت مند ہوگئے اور پھر پوری زندگی آشوب چشم میں مبتلا نہ ہوئے۔

ناد علی ؑ_

نَادِ عَلِيّاً مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ

تَجِدْهُ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِبِ

كُلُّ هَمٍّ وَ غَمٍّ سَيَنْجَلِي

بِوَلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا عَلِی

جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ قلعہ کو فتح کرنے کے لیے پہنچے تو یہودیوں میں سے ایک شخص جوکہ پہلوان تھا اس کا نام مرحب تھا، اس کی جوانمردی کی بہت شہرت تھی، عرب میں ایک سو سواروں کے لیے اکیلا ہی کافی تھا، اس کے ساتھ جنگ شروع ہوئی، حضرت علیؓ نے ایسا وار کیا کہ اس کا سر درمیان سے دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار مرحب کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی، اور اس وار کی گونج دور تک گئی۔مرحب کی لاش کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ کر اس کی تمام فوج حضرت شیرخدا رضی اﷲ تعالٰی عنہ پر ٹوٹ پڑی۔ لیکن ذوالفقار حیدری بجلی کی طرح چمک چمک کر گرتی تھی جس سے صفوں کی صفیں اُلٹ گئیں ۔ اور یہودیوں کے مایہ ناز بہادر مرحب، حارث، اسیر، عامر وغیرہ کٹ گئے۔ اسی گھمسان کی جنگ میں حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی ڈھال کٹ کر گر پڑی تو آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آگے بڑھ کر قلعہ قموص کا پھاٹک اکھاڑ دیا اور کواڑ کو ڈھال بناکر اس پر دشمنوں کی تلواریں روکتے رہے۔


 یہ کواڑ اتنا بڑا اور وزنی تھا کہ بعد کو چالیس آدمی اس کو نہ اٹھا سکے۔2(زرقانی ج ۲ص۲۳۰ )جنگ جاری تھی کہ حضرت علی شیرخدارضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کمال شجاعت کے ساتھ لڑتے ہوئے خیبر کو فتح کرلیا اور حضرت صادق الوعد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان صداقت کا نشان بن کر فضاؤں میں لہرانے لگا کہ’’کل میں اس آدمی کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تَعَالٰی فتح دے گا وہ اللہ عزوجل و رسول وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا محب بھی ہے اور اللہ و رسول عز وجل وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا محبوب بھی۔‘‘بے شک حضرت مولائے کائنات رضی اﷲ تعالٰی عنہ اللہ عزوجل و رسول وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے محب بھی ہیں اور محبوب بھی ہیں ۔ اوربلاشبہ اللہ تَعَالٰی نے آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سے خیبر کی فتح عطا فرمائی اور قیامت تک کے لئے اللہ تَعَالٰی نے آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو فاتح خیبر کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیا

ہفتہ، 15 مارچ، 2025

امام عادل حضرت علی علیہ السلام مشاہیر عالم کی نظر میں

 تاریخ اسلام    کا مطالعہ کرنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ یقینا حضرت علی علیہ السلام امام عادل اور رہبر تقوی تھے اور خداوند عالم نے مخلوقات کی خلقت کا باعث عدالت کو قرار دیا ہے اور پیغمبروں کی بعثت کا فلسفہ بھی اسی عدالت کو قرار دیا ہے۔ عدالت کے بارے میں نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :’’عدل ساعۃ خیر من عبادۃ بستین سنۃ‘‘ یعنی ایک گھنٹہ کی عدالت ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے-عیسائی دانشمند اور ادیب و صاحب قلم جارج جرداق نے حضرت امام علی علیہ السلام کی بارگاہ میں یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا ’’جب میں نے مسلمانوں کے عظیم الشان فرمانروا، جانشین پیغمبرؐ امام المتقین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کہ دنیائے انسانیت کو اس کی متاع گم شدہ مل گئی ہو اور میرے دل نے بے ساختہ یہ آواز دی کہ روی زمین کو ظلم و جور سے پاک کرنے، مظلوموں کو انکا حق دلانے ظلم کا ہاتھ روکنے ستم رسیدہ انسانوں کو امن وسکون عطا کرنے اور پوری دنیا کو عدل وانصاف سے پر کرنے کیلئے جن صفات و خصوصیات کی ضرورت ہے وہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی میں اپنے نقطہ عروج و کمال پر نظر آئی ہے۔ 


حضرت امام علی علیہ السلام کی پوری زندگی پر اگر غور کیا جائے تو وہ عدالت انسانی کی ایک گونجتی ہوئی آواز محسوس ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس مفکر نے اپنی کتاب کا نام بھی رکھا تو ’’الامام العلی صوت العدالۃ الانسانیۃ‘‘ رکھا حقیقت میں کلمہ ’’حکومت عدل علیؑ‘‘ کا شعار زیبا ترین و جذاب ترین شعار تھا اس زمانہ کا ہر انسان عدل کی پناہ گاہ میں پناہ لینا چاہ رہا تھا سابقہ حکومتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہر انسان کا دل اور اس کی روح یہ باور کرنے پر آمادہ تھی کہ حکومت علوی میں ہی عدل و قسط کی رعایت ہوسکتی ہے اور علی نے بھی اسے سچ ثابت کردکھایا۔فضائلِ علی علیہ السلام غیر مسلم مفکرین کی نظر میں-  امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اپنے اور غیرسبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔



  ایک محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام وہ پہلی شخصیت ہیں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے۔ وہ سب کے دوست ہیں اور اُن کی موت پیغمبروں کی موت ہے۔ دوسرا محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام روح و بیان میں ایک لامتناہی سمندر کی مانند ہیں اور ان کی یہ صفت ہر زمان اور ہر مکان میں ہے۔شبلی شُمَیِّل(ایک عیسائی محقق ڈاکٹر)”امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہٴ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی“۔اگر علیؑ نے خلافت کو قبول بھی کیا تو مقصد یہ تھا کہ اس حکومت کے سائے میں عدالت کو قائم کریں -علی علیہ السلام نے یہ منصب حکومت ظلم و شر کو ختم کرنے کیلئے قبول کیا تھا نہ کہ کسی پر ظلم ڈھانے کیلئے  بالا ذکر کی گئی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام صرف انسانوں ہی کے ساتھ انصاف کے آرزو مند نہیں تھے بلکہ دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی حسن سلوک کو اپنا فرض عین سمجھتے تھے اور یہی ہے کہ آپؑ کی حکومت میں کسی مخلوق خدا جو آپ کی حکومت میں رہی ہو کبھی ظلم ہوا ہو۔ امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہم السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اپنے اور غیرسبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔


   دوسرا محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام روح و بیان میں ایک لامتناہی سمندر کی مانند ہیں اور ان کی یہ صفت ہر زمان اور ہر مکان میں ہے۔ ولتر نے اپنی کتاب جو آداب و رسومِ اقوام کے بارے میں لکھی، اُس میں رقمطراز ہے کہ خلافت ِ علی  برحق تھی اور اسی کی وصیت پیغمبر اسلام نے کی تھی۔ آخری وقت میں پیغمبراکرم نے قلم دوات طلب کی کہ حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کو خود اپنے ہاتھ سے لکھ دیں۔ ولتر اس بات پر پشیمان ہے کہ پیغمبر اسلام کی یہ وصیت کیوں نہ پوری کی گئی۔ جبکہ اُن کا جانشین علی  کومقرر کردیا گیا تھا تھامس کارلائل(ایک انگریز فلاسفر اور رائٹر)-تھامس کارلائل لکھتا ہے: ”ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ اُن کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔ اُن کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے۔ وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن اُن کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش تھی سلیمانِ کتانی(ایک عیسائی لبنانی دانشور)”مہاجرین کی اوّلین شخصیات میں سے علی علیہ ا لسلام سب سے زیادہ معروف تھے۔


انہوں نے بہت سی جنگوں اور معرکوں میں فتح حاصل کرکے اپنے نام کا سکہ بٹھادیا تھا۔ لیکن ان کامیابیوں سے بھی قیمتی چیز یہ تھی کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے دل میں ایک مقام بنالیا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام ہی کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ اُن کے دوست بھی تھے۔ ایسے ساتھی بھی تھے جو کبھی جدا نہ ہوئے۔ وہ (حضرت علی علیہ السلام) پیغمبر اسلام کی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمسر بھی تھے۔ پیغمبر اسلام کی عظیم بیٹی جو اپنے والد کو سب سے زیادہ عزیز تھی، وہ(علی علیہ السلام) حسن  و حسین  کے والد ِ بزرگوار بھی تھے جن سے نسلِ پیغمبر چلی۔ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ وہ دین کے سب سے طاقتور محافظ ، شجاع ترین حامی اور مستحکم جنگجو تھے۔ وہ سب سے زیادہ عقلمند،حالات کی نزاکت کو سمجھنے والے رہبر، بے نظیرمقرر اور دین کا بہترین دفاع کرنے والے تھے۔امین نخلہ(ایک لبنانی عیسائی معروف دانشور)-”تم چاہتے ہو کہ میں علی علیہ السلام کے بلیغ ترین کلام میں سے ایک سو کلمے(اقوال) چن لوں۔ میں گیا اور نہج البلاغہ کو تھام لیا۔ ورق پر ورق الٹتا گیا مگر خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اُن کے سینکڑوں ارشادات میں سے ایک سو کلمے(اقوال) بلکہ ایک کلمہ(قول) بھی کیسے چنوں! میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک یاقوت کو باقی لعل و گوہر سے کیسے منتخب کیا جائے۔ بس یہی کام میں نے کیا۔ جب میں ایک یاقوت تلاش کررہا تھا تو میری نظر یں اُس کی چمک اور گہرائی میں کھو گئیں۔ سب سے زیادہ حیرت والی بات میرے لئے یہ تھی کہ میں گمان نہیں کرتا کہ علم و دانش کے اس منبع سے خود کو جدا کرسکوں گا۔

دیوار برلن سے دیوار میکسیکو تک 'صرف نفرت کا سفر

 

   امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کے میکسیکو  کی سرحد پر   دیوار  تعمیر کرنے  کے اعلان کے بعد  میکسیکن صدر نے بھی اپنی خوددار طبیعت کے موافق جواب دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ   یکسیکو  سات کروڑ صارفین امریکی اشیاء نہیں خریدتے،وہاں بے روز گاری پھیل جائے گی اور معیشت دھڑام سے نیچے آ گرے گی،اُن کی حالت اِس قدر خراب ہو جائے گی کہ وہ ہم سے فریاد کریں گے خدا کے لئے یہ دیوار گرا دو،ہم یہ دیوار نہیں چاہتے،تم دیوار چاہتے ہو، تم دیوار بناؤ ہم اس کی پُرخلوص حمایت کریں گے“۔میکسیکن صدر کے اِس خط نما پیغام نے امریکیوں کے ہوش اُڑا دیئے ہیں۔میکسیکو ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہے۔اُس کے عوام کی قوتِ خرید امریکی عوام سے کم نہیں،  شمالی امریکہ کے ممالک امریکہ کو اتنی سی اہمیت دیتے ہیں جتنی ایک عام ملک کو دی جاتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی پہلا حکم یہ جاری کیا  کہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کی جائے، ساتھ ہی یہ آرڈر بھی پاس کیا تھا میکسیکو سے درآمدات پر ٹیکس عائد کر دیا جائے۔اگر بعدازاں اِس حکم پر ایک ماہ کے لئے عملدرآمد روک دیا تاہم دیوار تعمیر کرنے کا حکم برقرار رکھا۔  میکسیکو کی صدر کلاڈیا چین بام    کے لہجے سے   خود داری اور خود انحصاری کے جذبے کی خوشبو آ رہی ہے۔


دوسری طرف یہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک تنبیہہ بھی ہے کہ اگر ایسے اقدامات جاری رکھے تو خود امریکہ میں بے روز گاری،کساد بازاری اور معیشت کے زوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔کلاڈیا چین بام نے اپنے پیغام میں کہا ہے، کہ آئی فون کو سام سنگ،ہواوے موبائلز سے صرف 42 گھنٹوں میں بدل دیں۔وہ کمپیوٹرز کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں، صرف چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں ہم شیورلیٹ اور فورڈ گاڑیوں کی بجائے ٹویوٹا ، مزدا، ہنڈا، ہنڈائی، والوو، میرو، رینالٹ اور بی ایم ڈبلیو کو اپنا سکتے ہیں جو تکنیکی طور پر بہتر بھی ہیں اور امریکی کاروں کے مقابلے میں سستی بھی، سات کروڑ صارفین ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھنا بھی بند کر سکتے ہیں اور اُس کے مقابلے میں لاطینی امریکہ اور یورپ کی بہتر،معیاری  اور سبق آموز فلمیں دیکھیں گے، جو اپنے تکنیکی و صوتی حوالے سے امریکی فلموں سے کہیں بہتر ہوتی ہیں۔ہم ڈزنی لینڈ کو چھوڑ کر کینیڈا، میکسیکو اور یورپ کے پُرفضاء مقامات پر جا سکتے ہیں جہاں تفریح کے زیادہ مواقع م ہیں۔


جہاں تک تاریخی مقامات کا تعلق ہے تو امریکہ میں ایک بھی نہیں۔ میکسیکو، مصر، سوڈان، گوئٹے مالا اور دیگر ممالک میں تہذیب و تاریخ کا بیش بہا خزانہ موجود ہے،جہاں تاریخ اور جدید دنیا کا سنگم نظر آتا ہے۔امریکہ میں توایک بھی نہیں،  ۔ہمیں معلوم ہے ہمارے پاس ایڈی ڈاس اور نائیک کے جوگرز نہیں،لیکن ہمارے پاس میکسیکن ٹینس شوز پانام ہے۔ہم تمہاری سوچ سے زیادہ جانتے ہیں مثلاً ہم یہ بھی جانتے ہیں اگر یہ سات کروڑ صارفین امریکی اشیاء نہیں خریدتے،وہاں بے روز گاری پھیل جائے گی اور معیشت دھڑام سے نیچے آ گرے گی،اُن کی حالت اِس قدر خراب ہو جائے گی کہ وہ ہم سے فریاد کریں گے خدا کے لئے یہ دیوار گرا دو،ہم یہ دیوار نہیں چاہتے،تم دیوار چاہتے ہو، تم دیوار بناؤ ہم اس کی پُرخلوص حمایت کریں گے“۔میکسیکن صدر کے اِس خط نما پیغام نے امریکیوں کے ہوش اُڑا دیئے ہیں۔میکسیکو ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہے۔اُس کے عوام کی قوتِ خرید امریکی عوام سے کم نہیں،اپنے براعظم کی مطابقت کے باعث میکسیکو کے عوام زیاد تر امریکی مصنوعات استعمال کرتے ہیں،


 کلاڈیا چین بام نے اپنے پیغام میں ذکر کیا ہے۔امریکہ کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی فورڈ کی زیادہ ترگاڑیاں میکسیکو جاتی ہیں۔دوسری بڑی کمپنی شیور لیٹ ہے اُن کے مقابلے میں جاپان،جرمنی اور برطانیہ کی گاڑیوں کا ذکر کر کے درحقیقت یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہمسائیگی کے باعث یہ امریکی گاڑیاں درآمد کرتے ہیں،حالانکہ یہ جاپانی و یورپی گاڑیوں کے مقابلے میں غیر معیاری ہیں۔ میکسیکو میں امریکی ساختہ آئی فون سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔بہت مہنگا بھی ہے اور خوبصورتی میں دیگر موبائلز کمپنیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس کی جگہ دیگر موبائل فونز کا ذکرکر کے گویا یہ پیغام دیا گیا ہے سات کروڑ صارفین کی منڈی اگر امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے جنون کی وجہ سے کھونا چاہتے ہیں توپھر اُس کے اثرات و نتائج کے لئے بھی تیار رہیں۔



میکڈونلڈ برگر جو دنیا بھر میں امریکہ کی شناخت ہے میکسیکو کی صدر نے اُس کی بھی ایسی تیسی کر کے رکھ دی ہے۔ میڈیا کے مطابق میکسیکو کی صدر کے اِس پیغام نے جہاں امریکی عوام میں ایک ہلچل مچا دی ہے، وہیں میکسیکن عوام اِس پر پر فخر کر رہے ہیں اور انہوں نے حکومت کو مکمل اختیار دے دیا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دیوار بنانے کے فیصلے پر بضد رہتے ہیں تو میکسیکو میں امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے۔ دوسری طرف امریکی عوام کی طرف سے دیوار بنانے کی مخالفت بھی شروع ہو گئی ہے۔یاد رہے کہ امریکی صدر نے میکسیکو کی سرحد کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا، کیونکہ امریکی انتظامیہ کے خیال میں میکسیکو سے انسانی سمگلنگ اور منشیات امریکہ میں لائی جاتی تھیں۔میکسیکو کی صدر نے بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے اس پر قابو پانے کا عندیہ دیا تھا، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہوں نے دیوار بنانے کا وعدہ کر کے امریکی عوام سے ووٹ لئے ہیں اب یہ تنازع شدت اختیار کرگیا ہے۔یاد رہے کہ امریکہ کی کسی دوسرے ہمسایہ ملک سے جتنی بھی سرحدیں ملتی ہیں وہاں کوئی دیوار نہیں۔میکسیکن صدرکلاڈیا چین بام نے اِس حوالے سے کسی کشیدگی میں پڑنے کی بجائے امریکی عوام کو یہ پیغام دیا ہے وہ اپنے ملک کو جزیرہ نہ سمجھیں وہ اِس دنیا کا حصہ ہیں اور اُنہیں اپنی خوشحالی کے لئے دنیا کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو  ایک دیوار کی تعمیر کا اعلان گلے پڑ گیا ہے۔  

جمعرات، 13 مارچ، 2025

فن تعمیر کی مہارت کا شاہکار ۔ سکھر بیراج

 

     برٹش    فن تعمیر کی مہارت کا  شاہکار سکھر بیراج  برٹش گورنمنٹ                   نے برصغیر  کے لوگوں پر جہاں حکومت کی وہیں انہوں نے اپنے دور میں بے مثال  تعمیراتی کام بھی کئے  ان بہتریں فلاحی کاموں کو  سو برس سے اوپر کا وقت ہو چکا ہے لیکن یہ یہ منصوبے آ ج بھی اس خطہ کےلوگوں کے لئے نفع مند  نظر آ رہے ہیں جیسا کہ آج سے 12 سال قبل بیراج نے اپنی گولڈن جوبلی منائی تھی، یہ بیراج اب اپنی عمر کی پہلی صدی کے سفر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جن کی مجموعی لمبائی 6.473 میل ہے اور ان سے 59 لاکھ ایکڑ کا زرعی رقبہ سیراب ہوتا ہے۔بیراج کے بائیں طرف چار نہریں ، نارا کینال ، میرواہی کینال ، روہڑی کینال اور ابو واہ کینال ہیں جو سندھ کے 12 اضلاع یعنی سکھر، خیرپور، نوشہرو فیروز، نوابشاہ، سانگھڑ، میرپورخاص، بدین، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہ یار اور تھرپار کے علاقوں کو سیراب کرتی ہیں۔دائیں طرف دادو کینال اور رائس کینال ہیں جو لاڑکانہ ، شکارپور اور دادو وغیرہ کے علاقوں کو پانی فراہم کرتی ہیں جبکہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ مراد جمالی کو سیراب کرنے والی کھیرتھر کینال بھی ہے۔


سکھر بیراج میوزیم کے بارے میں جانیں۔سکھر بیراج کے دائیں جانب بیراج کا کنٹرول روم اور محکمہ آبپاشی کے افسران کے دفاتر ہیں، جبکہ بائیں جانب سکھر بیراج کا میوزیم اور لائبریری اسی طرح کے خوبصورت کمروں میں بنائے گئے ہیں جیسے سکھر بیراج، اس کا میوزیم بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، جس میں سکھر بیراج کی مکمل تاریخ پہلے سے موجود ہے۔ بیراج سے متعلق تمام ماڈلز میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔اس میں ہر افسر کا تفصیلی بائیو ڈیٹا موجود ہے جس نے شروع سے آخر تک اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔سکھر بیراج کی تعمیر سے اس کی تکمیل تک ان تمام افسران کے نام، عہدے اور تصاویر موجود ہیں جنہوں نے سکھر بیراج کی تعمیر میں کردار ادا کیاسکھر بیراج کی بنیاد سے اس کی تکمیل تک تمام مراحل کی درجہ بندی کے مطابق تصویریں آویزاں ہیں۔سکھر بیراج کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مواد کے تمام نمونے بالخصوص چونا پتھر بھی میوزیم میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ سیمنٹ، بجری اور دیگر تعمیراتی اجزاء کے نمونے بھی محفوظ رکھے گئے ہیں۔


سکھر بیراج میوزیم میں ایک لائبریری ہے جس میں بیراج کی تعمیر میں استعمال ہونے والی تمام کتابیں دستیاب ہیں، خاص طور پر انجینئرنگ، مکینیکل، الیکٹریکل اور سول انجینئرنگ کی تمام کتابیں موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس لائبریری میں انجینئرنگ کی 20 ہزار سے زائد کتابیں دستیاب ہیں جنہیں کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے۔سکھر بیراج کی تعمیر پر خرچ ہونے والی کل رقم بھی محفوظ ہے جب کہ وقتاً فوقتاً کتنی رقم کتنے مراحل میں خرچ ہوئی اس کا ریکارڈ بھی ریکارڈ کی صورت میں محفوظ رکھا گیا ہے۔سکھر بیراج کا مکمل ماڈل، بیراج سے نکلنے والی نہریں، اس دور میں استعمال ہونے والی ٹائپ رائٹرز، لیتھ مشین، پرنٹنگ مشینیں، کرینیں، پونٹون اور استعمال شدہ پتھر، چونا، بجری، ریت، بیراج کے گیٹوں کے ماڈل، ان کا آپریٹنگ سسٹم، ان کا وزن، درحقیقت بیراج کے چھوٹے سے چھوٹے حصے کے بارے میں بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سکھر میوزیم۔1982 میں جب سکھر بیراج کی 50ویں گولڈن جوبلی منائی گئی تو سکھر بیراج کا ایک خصوصی میٹل ماڈل تیار کرکے اس پر سونے کا پانی ڈالا گیا، اسے بھی وہیں رکھا گیا ہے۔


سکھر بیراج کے تعمیر کنندگان کے اہل خانہ کو گولڈن جوبلی کے موقع پر شرکت کی دعوت دی گئی۔مذکورہ تقریب کی تمام تصاویر بھی میوزیم میں موجود ہیں۔ انچارج کنٹرول روم سکھر بیراج عبدالعزیز سومرو نے بتایا کہ بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح خصوصاً ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے سول انجینئرنگ کے طلباء سکھر بیراج میوزیم کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں جہاں انہیں بیراج کی تعمیر کا مکمل جائزہ فراہم کیا جاتا ہے۔سکھر بیراج میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیا میں سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے۔   سندھ کی زراعت کی بنیاد  اس شاندار بیراج سے نکالی جانے والی  سات نہریں ہیں۔   دوسری جانب  یہ بیراج فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے جو طویل عرصے سے انسانی دستکاری اور مہارت کا زندہ ثبوت ہے۔ سکھر بیراج 1923 سے 1932 کے درمیان برطانوی دور حکومت میں بنایا گیا تھا اور اسے لائیڈ بیراج کا نام دیا گیا تھا۔ اس دور میں انگلینڈ پر بادشاہ جارج پنجم کی حکومت تھی ۔


اس بیراج کی تعمیر 9 سال کی قلیل مدت میں مکمل ہوئی۔13 جنوری 1932 کو اس وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ویلنگٹن نے اس انقلابی زرعی منصوبے کا افتتاح کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں آبپاشی کا سب سے بڑا نظام سکھر بیراج کہلاتا ہے۔  اس بیراج کے 66 دروازے ہیں 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررپارٹ2

   اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر