ہفتہ، 15 مارچ، 2025

امام عادل حضرت علی علیہ السلام مشاہیر عالم کی نظر میں

 تاریخ اسلام    کا مطالعہ کرنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ یقینا حضرت علی علیہ السلام امام عادل اور رہبر تقوی تھے اور خداوند عالم نے مخلوقات کی خلقت کا باعث عدالت کو قرار دیا ہے اور پیغمبروں کی بعثت کا فلسفہ بھی اسی عدالت کو قرار دیا ہے۔ عدالت کے بارے میں نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :’’عدل ساعۃ خیر من عبادۃ بستین سنۃ‘‘ یعنی ایک گھنٹہ کی عدالت ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے-عیسائی دانشمند اور ادیب و صاحب قلم جارج جرداق نے حضرت امام علی علیہ السلام کی بارگاہ میں یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا ’’جب میں نے مسلمانوں کے عظیم الشان فرمانروا، جانشین پیغمبرؐ امام المتقین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کہ دنیائے انسانیت کو اس کی متاع گم شدہ مل گئی ہو اور میرے دل نے بے ساختہ یہ آواز دی کہ روی زمین کو ظلم و جور سے پاک کرنے، مظلوموں کو انکا حق دلانے ظلم کا ہاتھ روکنے ستم رسیدہ انسانوں کو امن وسکون عطا کرنے اور پوری دنیا کو عدل وانصاف سے پر کرنے کیلئے جن صفات و خصوصیات کی ضرورت ہے وہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی میں اپنے نقطہ عروج و کمال پر نظر آئی ہے۔ 


حضرت امام علی علیہ السلام کی پوری زندگی پر اگر غور کیا جائے تو وہ عدالت انسانی کی ایک گونجتی ہوئی آواز محسوس ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس مفکر نے اپنی کتاب کا نام بھی رکھا تو ’’الامام العلی صوت العدالۃ الانسانیۃ‘‘ رکھا حقیقت میں کلمہ ’’حکومت عدل علیؑ‘‘ کا شعار زیبا ترین و جذاب ترین شعار تھا اس زمانہ کا ہر انسان عدل کی پناہ گاہ میں پناہ لینا چاہ رہا تھا سابقہ حکومتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہر انسان کا دل اور اس کی روح یہ باور کرنے پر آمادہ تھی کہ حکومت علوی میں ہی عدل و قسط کی رعایت ہوسکتی ہے اور علی نے بھی اسے سچ ثابت کردکھایا۔فضائلِ علی علیہ السلام غیر مسلم مفکرین کی نظر میں-  امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اپنے اور غیرسبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔



  ایک محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام وہ پہلی شخصیت ہیں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے۔ وہ سب کے دوست ہیں اور اُن کی موت پیغمبروں کی موت ہے۔ دوسرا محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام روح و بیان میں ایک لامتناہی سمندر کی مانند ہیں اور ان کی یہ صفت ہر زمان اور ہر مکان میں ہے۔شبلی شُمَیِّل(ایک عیسائی محقق ڈاکٹر)”امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہٴ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی“۔اگر علیؑ نے خلافت کو قبول بھی کیا تو مقصد یہ تھا کہ اس حکومت کے سائے میں عدالت کو قائم کریں -علی علیہ السلام نے یہ منصب حکومت ظلم و شر کو ختم کرنے کیلئے قبول کیا تھا نہ کہ کسی پر ظلم ڈھانے کیلئے  بالا ذکر کی گئی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام صرف انسانوں ہی کے ساتھ انصاف کے آرزو مند نہیں تھے بلکہ دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی حسن سلوک کو اپنا فرض عین سمجھتے تھے اور یہی ہے کہ آپؑ کی حکومت میں کسی مخلوق خدا جو آپ کی حکومت میں رہی ہو کبھی ظلم ہوا ہو۔ امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہم السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اپنے اور غیرسبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔


   دوسرا محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام روح و بیان میں ایک لامتناہی سمندر کی مانند ہیں اور ان کی یہ صفت ہر زمان اور ہر مکان میں ہے۔ ولتر نے اپنی کتاب جو آداب و رسومِ اقوام کے بارے میں لکھی، اُس میں رقمطراز ہے کہ خلافت ِ علی  برحق تھی اور اسی کی وصیت پیغمبر اسلام نے کی تھی۔ آخری وقت میں پیغمبراکرم نے قلم دوات طلب کی کہ حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کو خود اپنے ہاتھ سے لکھ دیں۔ ولتر اس بات پر پشیمان ہے کہ پیغمبر اسلام کی یہ وصیت کیوں نہ پوری کی گئی۔ جبکہ اُن کا جانشین علی  کومقرر کردیا گیا تھا تھامس کارلائل(ایک انگریز فلاسفر اور رائٹر)-تھامس کارلائل لکھتا ہے: ”ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ اُن کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔ اُن کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے۔ وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن اُن کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش تھی سلیمانِ کتانی(ایک عیسائی لبنانی دانشور)”مہاجرین کی اوّلین شخصیات میں سے علی علیہ ا لسلام سب سے زیادہ معروف تھے۔


انہوں نے بہت سی جنگوں اور معرکوں میں فتح حاصل کرکے اپنے نام کا سکہ بٹھادیا تھا۔ لیکن ان کامیابیوں سے بھی قیمتی چیز یہ تھی کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے دل میں ایک مقام بنالیا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام ہی کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ اُن کے دوست بھی تھے۔ ایسے ساتھی بھی تھے جو کبھی جدا نہ ہوئے۔ وہ (حضرت علی علیہ السلام) پیغمبر اسلام کی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمسر بھی تھے۔ پیغمبر اسلام کی عظیم بیٹی جو اپنے والد کو سب سے زیادہ عزیز تھی، وہ(علی علیہ السلام) حسن  و حسین  کے والد ِ بزرگوار بھی تھے جن سے نسلِ پیغمبر چلی۔ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ وہ دین کے سب سے طاقتور محافظ ، شجاع ترین حامی اور مستحکم جنگجو تھے۔ وہ سب سے زیادہ عقلمند،حالات کی نزاکت کو سمجھنے والے رہبر، بے نظیرمقرر اور دین کا بہترین دفاع کرنے والے تھے۔امین نخلہ(ایک لبنانی عیسائی معروف دانشور)-”تم چاہتے ہو کہ میں علی علیہ السلام کے بلیغ ترین کلام میں سے ایک سو کلمے(اقوال) چن لوں۔ میں گیا اور نہج البلاغہ کو تھام لیا۔ ورق پر ورق الٹتا گیا مگر خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اُن کے سینکڑوں ارشادات میں سے ایک سو کلمے(اقوال) بلکہ ایک کلمہ(قول) بھی کیسے چنوں! میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک یاقوت کو باقی لعل و گوہر سے کیسے منتخب کیا جائے۔ بس یہی کام میں نے کیا۔ جب میں ایک یاقوت تلاش کررہا تھا تو میری نظر یں اُس کی چمک اور گہرائی میں کھو گئیں۔ سب سے زیادہ حیرت والی بات میرے لئے یہ تھی کہ میں گمان نہیں کرتا کہ علم و دانش کے اس منبع سے خود کو جدا کرسکوں گا۔

1 تبصرہ:

  1. ایک اور سکالر نے کہا کہ علی علیہ السلام روشن ضمیر، شہید ِمحراب اور عدالت ِ انسانی کی پکار تھے۔ وہ مولا علی کوستاروں سے بلند مقام پر سمجھتا ہے۔ایک محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام وہ پہلی شخصیت ہیں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے۔ وہ سب کے دوست ہیں اور اُن کی موت پیغمبروں کی موت ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر