اتوار، 9 فروری، 2025

مجالس حسین علیہ السلام قریہ 'قریہ یا حسین

   بعد کربلا  حاکمان وقت نے آثار کربلا مٹانے کی بھرپور تگ و دو شروع کی لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے سب سے پہلے امام زین العابدین علیہ السلا م نے مدینہ کے لوگوں میں مجلس عزاء کا اہتمام کیا اور  اہل مدینہ کو امیہ  کے مظالم سے آگاہ کیا   -آپ کے بعد میں آنے والے ائمہ طاہرین  نے کربلا اور محرم کی روایات کو زندہ رکھا اور فروغ دیا۔ لیکن یہ تمام تر تقریبات مخصوص گھروں کے اندر بیان ہاتی تھیں حکومتی سختی کے باعث باقاعدہ طور پر کبھی نہیں منائی گئیں۔اموی دور حکومت سے 352 ہجری تک شعیوں کو محرم  منانے  پر پابندی عا ئد تھی- بعد ازاں محرم کی مجالس باقاعدہ طور پر 963 عیسویں میں نواب معزالدولہ نے بغداد میں شروع کروائیں۔ جو کہ آل بویہ خاندان میں سے تھے -یہ خاندان آل بویہ محب اہلسنت تھے۔ اس دور میں پہلی مرتبہ محرم کی مجالس عوامی طور پر منعقد ہونا شروع ہوئیں یوم عاشور پر شہر بھر میں تعطیل کا اعلان ہوتا اور سب کو خصوصی سوگ منانے کا  اعلان کیا جاتا تھا۔ اور ماتمی جلوس منعقد ہوتے تھے ۔ اس وقت شیعہ اپنے گھروں سے باہر آتے تھے سینہ کوبی کرتا ہوا یہ جلوس ایک احتجاج کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اُس ظلم کے انتقام کا جذبہ لیے ہوئے جو کہ امویوں اور عباسیوں نے آلِ رسول ؐ اور علویوں اور کربلا میں امام پر کیے تھے۔ اس طرح عزاداری ایک رسم بلکہ رزم کی صورت میں قریہ قریہ، گلی گلی کوچہ کوچہ تک پھیل گئی


 اموی اور عباسی حکمران اپنے مظالم کے ذریعے اس تحریک اور جذ بے کو دبانا چاہتے تھے لیکن وہ آج امریکہ، یورپ، انگلینڈ، افر یقہ سمیت دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی تاریخ کم و بیش ایک ہزار سال پُرانی ہے جس نے برصغیر کی قدیم سماجی، ثقافتی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا۔مسلمانوں کی موجودگی سے برصغیر میں ایک نئی ثقافت کا آغاز ہوا تھا۔ لیکن 12 عیسوی کے آخر میں شیعہ مذہب کو عادل شاہ ہشیار پور میں قبول کر لیا گیا۔ شیعہ مدارس کا قیام ہوا لیکن پھر بھی اس دور میں محرم کے منا ئے جانے کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ لیکن ریاست گو لکنڈہ میں 1512؁ء میں قطب شاہ کی زیر سر پرستی باقاعدہ طور پر شیعہ تعلیمات کو سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔ اور اس طرح شیعہ تقریبات عوامی سطح میں منانا شروع کیا گیا اس طرح سے یہ سلسلہ پورے برصغیر میں پھیل گیا۔اس کے بعد دکن میں   نظام شاہ، احمد نگر میں مغل، دہلی میں سلاطین، کشمیر اور ریاست اودھ نے براہِ راست شعیہ مذہب کو ترقی میں انکی مدد کی اور اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ دوسری جانب برصغیر سے باہر ایران، مصر، بغداد وغیرہ میں شعیہ مذہب سیاسی مذہب قرار پا چکا تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر اپنے شائع ہونے والے بروشر میں لکھتے ہیں بادشاہ قطب شاہ نے شیعہ مجالس کا عوامی سطح پر نعقاد کیا۔


تا کہ یہاں دوسرے مذاہب اور دیگر ثقافتی لوگ ایک ثقافت کا حصہ بن سکیں۔مصروف آرٹسٹ اکبر نقوی نے SOS میں لندن میں ہونے والے اپنے لیکچر میں کہا کی اسلامی اور دہندی تہذیبوں کے ملاپ سے جنم لینے والے س الہند کلچر میں یہ خاصیت تھی کہ اس نے پرانے ہندو کلچر کو مٹایا نہیں بلکہ نئی صورت میں قبول کیا جس سے نئی نئی چیزیں سامنے آئیں۔دوسروں کی عزت اور مذہبی تقدس کی علامت جسے سب مذاہب مانتے ہیں یہ رواداری کی علامت ہے۔یہ کلچر حکومتی سطح پر مذہب سے لا تعلق نہیں تھا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ لوگ انتہائی مذہبی تھے لیکن مذہب کے درمیان رہتے ہوئے فرق کو انسانی قدروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انسانی اقدار اور مذہبی عزت کا دور دورہ تھا اور یہ قدریں ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں ایک دوسرے کو قریب لانے کا بھی ذریعہ تھیں ” 20 صدی میں محرم کی تقریبات جو انڈیا کی مختلف جگہوں حیدرآباد، دکن میں دیکھیں ہیں۔ سب کسی نہ کسی طرح درشن کی خاطر جھکتا نظر آیا۔ جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی شریک ہوتے ہیں۔ “دو ماہر سماجیات لکھنٗو یونیورسٹی انڈیا سے جنکے ندیم حسین اور ابرار حسین محرم کی تقریبات کو تشکیل قوم سے تشبیہ دیتے ہیں۔اورلکھتے ہیں کہ بھارت کی بہت سی جگہوں ہندو مسلمان کی محرم کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں جو کہ ثقافتی ہم آہنگی کی ایک اچھی مثال ہے بر صغیر میں امام بارگاہوں اور تعزیہ داری کی تاریخ بڑی دلچسپ اور روشن رہی ہے۔اس کا ذکر عہد مغلیہ میں بھی ملتا ہے۔


مغل حکمرانوں نے جہاں مصوری،خطاطی،تعمیرات اور دیگر فنون کو ترقی و دوام بخشا وہاں تعزیہ داری کو وہ عروج حاصل ہوا کہ تعزیہ داری کو بھی نئی جہتیں اور رونقیں ملیں۔ماہنامہ رضاکار لاہور کے 1962 ء عزاداری نمبرکے صفحہ نمبر 158 پر شہنشاہ ہمایوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی جانب بھاگ گیا تھا۔پھر پندرہ سال بعد ایرانی بادشاہ شاہ طہماسپ کی مدد سے دوبارہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔اس نے شاہ ایران کے ہاتھوں مذہب شیعہ قبول کرلیا تھا۔چنانچہ ہمایوں نے 959 ھ بمطابق 1552 ء میں اپنے وزیر اعظم بیرم خان جوکہ شیعہ تھا اور ہر سال کربلائے معلی جایا کرتا تھا۔اُسے خصوصی طور پر کربلا بھیج کر ایک قیمیتی ضریح مبارک بمطابق تمثیل روضہ مبارک حضرت امام حسین ؑ کے بنوائی۔اور قیمتی جواہرات سے مزین کر کے یہ ضریح اقدس شاہی محل میں رکھی گئی۔عہد ہمایوں کے مشہور شاعر حیدر توتیائی کا یہ شعر ہر جلوسِ تعزیہ میں لکھا ہوتا تھا۔

ماہ محرم آمد ہ شد گریہ فرض عین

کریمیم خون بیادِ لب ِتشنہ حسین ؑ


ترجمہ؛۔ ماہ محرم کے کے آتے ہی لوگوں پر آنسو بہانا،آہ بکا کرنا لازم ہے۔یہ آہ و زاری،خون کے آنسو بہانا،امام حسین کے پیاسے ہونٹوں کی یاد میں ہے۔یہ ضریح اقدس شہنشاہ اکبر کے دور تک شاہی محل میں موجود رہی۔اور ایام محرم میں عزاداری کے بعد یہی ضریح برآمد کی جاتی تھی۔عہد جہانگیر میں ملکہ نور جہاں نے درگاہ مغنیہ اجمیری (تارا گڑھ) میں چند موضعات عزاداری  کے لئے وقف کئے تھے ۔اسی طرح شاہی فرمان کے تحت وہاں تعزیہ داری کی اجازت مل گئی۔ روایت کے مطابق آج کل جو تعزیہ قلعہ سے برآمد ہوتا ہے وہ عہد اکبری کی یادگار ہے۔رضا کا ر،ص ۴۰۱ پر درج ہے کہ سکھو ں کے عہد،مہا راجہ رنجیت سنگھ کے زما نے میں پنجا ب کے ہربڑ ے شہر سے تعزیہ کے بڑ ے جلو س نکلتے تھے۔اسی دور میں فقیر خا ندا ن کے ایک بز ر گ سید عز یز الدین،محبت ِ حسین ؑ سے سر شا ر اور غم ِ مظلو م کر بلا میں تعز یہ دار تھے۔الف شا ہ کے اما م باڑے میں چھٹی محر م کا جلو س اس خا ندا ن سے ا ٹھ کر جا تا ہے ا ور آ ج تک یہ خا ندا ن عز ا ئے حسین ؑاسی شا ن سے منا یا جا تا ہے۔لاہور میں عزاداری کا آغاز زمانہ قدیم سے ہی ہو چکا تھا لیکن لاہور میں تعزیہ کی ابتداء سید غلام حسین شاہ المعروف گامے شاہ سے منسوب ہے۔گامے شاہ نے لاہور میں سب سے پہلا تعزیہ 1828 ؁ میں سکھ حکومت مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد حکومت میں نکالا۔


روایت کی جاتی ہے کہ بابا گامے شاہ دنیا سے ماورا زمانے کی نظر میں دیوانے اور اہل بیت ؑ کی نگاہ پاک باز میں عارف کامل شیعہ عزادار تھے۔آپ ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔اور آپکا قیام دربار داتا صاحب کے پہلو میں جہاں قدیم برف خانہ تھا (جہاں اب آپکا مزار ہے) تھا۔آپ وہا ں بیٹھا کرتے تھے ااور تعلیمات اہل بیتؑ کا پرچار کرتے تھے۔اور لوگوں کو واقعہ کربلا میں خاندان رسول ؑ پر آنے والی مصیبتوں کا بتاتے تھے۔لاہور میں آپ نے سانحہ کربلا اور عزاداری کو عام کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔تاریخ لاہور کے مولف کنیہا لال ہندی اپنی کتاب تاریخ لاہور کے صفحہ نمبر 305 پر لکھتے ہیں کہ یہ بہت عالیشان مکان بیرون بھاٹی گیٹ داتا گنج بخش کے مزار کے سمت جنوب میں واقع ہے اس کے اندر گامے شاہ کی قبر ہے جو کہ اس امام باڑے کا بانی تھا۔1849 ء میں اس مکان پر سخت صدمہ آیا۔دس محرم کو جب ذوالجناح نکلا تو راستہ بین متصل شاہ عالمی دروازے کے خوب زدو کوب ہوئی قوم مخالف نے اس روز اس مکان میں گھس کر اندرونی مکانات گرا دئیے مقبرے اور قبریں بھی ٹوڑیں۔پانی کے کنویں کو اینٹوں سے بھر دیا۔گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے انارکلی چھاؤنی سے فوج کا دستہ طلب کیا تو لوگ منتشر ہوئے بعض کو سزا بھی ہوئی۔


ابتدائے زمانہ لاہور میں عزاداری کے قدیم مراکز صرف اندرون شہر کی جانب ہی واقع تھے لیکن بعد ازاں لاہور کے مشرقی جانب قدیم علاقے دھرم پورہ جوکہ ہندؤں اور سکھوں کا مذہبی مرکز تھا۔یہاں بھی ہندو اور سکھ تعزیے بنا کر برآمد کرتے تھے۔جوکہ آج بھی اپنی سابقہ روایات اور شان کے ساتھ سجائے جاتے ہیں۔ مگر اب ہندوں کی بجائے سنی المسلک کے لوگ اس جگہ نو محرم کی رات کو تعزیے سجاتے ہیں جوکہ عاشورہ تک رہتے ہیں۔ساری رات حلیم کی دیگیں تیار کی جاتی ہیں جوکہ دس محرم کی صبح کو بانٹی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ تعزیے چو بچہ کے علاقے میں سجائے جاتے ہیں۔جہاں قیام پاکستان سے قبل سکھوں کا گردوارہ چوبچہ صاحب تھا۔ اس وقت لاہور میں تین سوسے زائد امام بارگاہیں قائم ہو چکیں ہیں۔(جن پر تحقیق کا کام جاری ہے عنقریب اس پر کتاب لکھی جائے گی)

لیکن تاریخی امام بارگاہیں زیادہ تر اندرون لاہور اور اسکے مضافات میں ہیں۔قیام پاکستان کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے شیعہ حضرات نے اپنے بزرگوں کے قائم کردہ اما م بارگاہ جنہیں وہ انڈیا چھوڑ آئے تھے اسی سلسلے کو یہاں قائم کیا آج وہ شیعیت کے بڑے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جہاں ایام عزا میں ہزاروں افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔ اور لوگ رسول خدا ﷺ کو ان کے اہل خانہ کی دلدوز شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہیں۔اندرون لاہو رمیں اس وقت پرانے امام بارگاہوں میں امام بارگاہ سیدے شاہ محلہ پیر گیلانیاں اندرون موچی دروازہ اور امام بارگاہ ماتم سرائے کو ابتدائی امام بارگاہ رتصور کیا جاتا ہے۔ان کے علاوہ امام بارگاہ مائی آغا، امام بارگاہ سید رجب علی، امام بارگاہ سید الف شاہ اندرون دہلی دروازہ، امام بارگاہ سید اکبر علی شاہ،امام بارگاہ دولت شاہ،امام بارگاہ نادر شاہ سیفی، اندرون رنگ محل، ا مام بارگاہ حکیم ولی شاہ نزد چوہٹی مفتی باقرامام بارگاہ شیر گڑھیاں،امام بارگاہ باب، حسن موچی دروازہ،امام بارگاہ واجد علی شاہ وغیرہ شامل ہیں جوکہ زیادہ تر موچی دروازہ میں واقع ہیں۔اسکے علاوہ کٹڑی باوا چونا منڈی میں، حویلی فقیر خانہ بھاٹی گیٹ میں قدیمی امام بارگاہ ہیں 

خواجہ سرا کمیونٹی-خدا را 'حکومت اس مظلوم طبقہ کے لئے جامع پالیسی مرتب کرے

 


۔خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے رجسٹرڈ افراد کے   اعدادوشمار دیکھ کر پریشانی سی محسوس ہوتی ہے۔ ان میں سے مٹھی بھر ایسے ہیں جنہیں قومی شناختی کارڈ کی صورت میں باقاعدہ قانونی شناخت اور تحفظ اور حاصل ہے۔ سال 2009 میں ایک تاریخی کام یہ ہوا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی شناختی کارڈ کے فارم میں “تیسری صنف” کا خانہ شامل کرنے کا حکم دیا۔ 2012 میں خواجہ سرا افراد تیسری صنف کے طور پر اپنی رجسٹریشن کرانے اور قومی شناختی کارڈ بنوانے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی ٹریبونل نے  اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ خواجہ سرا برادری کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو آئین کی رو سے ملک کے دیگر تمام شہریوں کو حاصل ہیں جن میں وراثت کا حق، کام کرنے کے مواقع، مفت تعلیم، اور طبی نگہداشت وغیرہ جیسی سہولیات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کی روشنی میں نادرا نے 2012 میں خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کا کام شروع کیا لیکن عملی طور پر آج بھی تقریباً 90 فیصد خواجہ سرا اس حق سے محروم نظر آتے ہیں۔ یہ کمیونٹی ہمیشہ سے ایک مخمصے کا شکار رہی ہے جنہیں معاشرے میں کسی بھی دوسرے فرد کی طرح قبول نہیں کیا جاتا اور عملی طور پر وہ معاشرے سے خارج ہی رہ جاتے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بجائے اس کے کہ حالات میں کوئی بہتری آتی، الٹا ان کی صورتحال بگڑتی چلی گئی ہے۔ مانا کہ حالیہ سالوں کے دوران انہیں برائے نام ملازمت کے مواقع دئیے گئے ہیں، انہیں ملک کے شہری کے طور پر اپنا اندراج کرانے اور قومی شناختی کارڈ رکھنے کا حق بھی مل گیا ہے، اور ووٹر کے طور پر اندراج سے انہیں اظہار رائے کا موقع بھی نصیب ہوا ہے لیکن اول تو ان حقوق سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بڑی محدود سی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ عملی طور پر ان کی مشکلات میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہے اور ان کے ساتھ برتے جانے والے معاشرتی رویوں میں  برائے نام ہی کوئی بہتری آئی ہے۔


 حقیقت یہی ہے کہ آج بھی ہر طرف سے ٹھوکریں ہی ان کی مقدر بنتی ہیں۔قانون سازی جیسے اقدامات اپنی جگہ، خواجہ سرا برادری کے معاملے میں عام شہریوں کے روئیے خاص طور پر ان کی حالت زار کو مزید بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ یہ ان کی جدوجہد کا ثمر ہے کہ جن کا مقدر صرف سڑکوں پر بھیک مانگنا تھا آج وہ سکولوں اور کالجوں میں حصول تعلیم کے لئے بھی داخل ہو رہے ہیں، جیسے تیسے کر کے قومی شناختی کارڈ بھی بنوا رہے ہیں اور انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود سوچ اور رویوں کا عالم یہ ہے کہ والدین جیسے انتہائی قریبی رشتے بھی ان کی مخالفت اور ان کی حق تلفی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لہٰذا، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا معاشرہ خواجہ سراؤں کو ایک برابر انسان اور فرد کے طور پر تسلیم کرے۔ حکومت جہاں اداروں کی سطح پر مقدور بھر کوششیں کر رہی ہے وہیں  ہمیں بھی معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا تب جا کر ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ معاشرہ جس میں ہم رہتے ہیں، سب کا سانجھا معاشرہ بنے اور جس میں سب کے ساتھ رواداری اور برابری والا سلوک کیا جائے۔


اس اقدام سے خواجہ سراء ملک و قوم کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کر سکیں گے۔         اسلام آباد (آن لائن)اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا  مظلوم ومقہورطبقہ  ہے جس کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانونی اور عملی اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔ شریعت اسلامی میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ متعدد مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ رہا ہے۔ پہلی بار کونسل میں یہ معاملہ تب زیربحث آیا جب وزارت مذہبی امور نے مخنث بچوں کو وراثت میں حصہ دلانے کیلئے ”مسلم عائلی قوانین آرڈیننس (ترمیمی) بل کونسل کو ریفر کیا۔ کونسل نے اپنے اجلاس میں اس بل سے اتفاق کرتے ہوئے اسے شرعی احکام کی روشنی میں دوبارہ ڈرافٹ کرنے کی تجویز دی اور ساتھ میں مخنث افراد کو وراثت میں حقوق دلانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا۔ آخری بار سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور داخلہ میں پیش کردہ مسودہ بل "مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کا بل اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں زیرغور آیا۔ کونسل کے سامنے اس موضوع سے ملتے جلتے دیگر بلز بھی پیش کیے گئے، جن میں خیبر پختونخوا حکومت کی مخنث سے متعلق وضع کردہ پالیسی اور انسانی حقوق کمیشن کا تیار کردہ مسودہ بل بھی شامل ہیں۔ کونسل نے خواجہ سرا  کمیونٹی، نادرا، سماجی تنظیموں  اور ماہرین قانون وشریعت سے تفصیلی مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ بل متعدد دفعات کے غیر شرعی ہونے کیساتھ ساتھ خواجہ سراء کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کیلئے ناکافی ہیں۔


 اس سلسلے میں کونسل کی طرف سے  بلوں کے مسودات پر شق وار تفصیلی ترمیمی سفارشات دی گئیں۔تاہم بعدازاں! اس موضوع پر جب باقاعدہ قانون سازی ہوئی، اور مئ2018 ء میں خواجہ سراؤں (کے حقوق کے تحفظ کا) ایکٹ، 2018منظور ہو ملکی قانون بن گیا، تو کونسل نے اپنی سفارشات میں جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کی طرف توجہ نہیں دی گئی تھی۔کونسل نے وزارت انسانی حقوق کے استفسار پر اس قانون کا جائزہ لیا اور قانون میں موجود خامیوں کے حوالے سے اپنی سفارشات وزارت قانون، وزارت انسانی حقوق اور وفاقی شرعی عدالت کو ارسال کردی ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ آج یہ قانون معاشرے میں زیر بحث ہے۔ضروری ہے قانون میں ایسی جامع ترامیم لائی جائیں  جو شرعی احکام، آئین پاکستان کی عکاس، ٹرانس جینڈرز کے حقیقی مسائل کے ادراک پر مشتمل  ہوں اور قانون میں اس طبقے کے مسائل ومشکلات کے حل کیلئے راستے موجود ہوں۔لاہور کے سرٹ سٹوڈیو میں اولو موپولومیڈیا کے زیر اہتمام ’تیسری دھن‘ کے نام سے تھیٹر ڈرامہ پیش کیا گیا، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف خواجہ سرا کمیونٹی کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا گیا بلکہ اس ڈرامے کے تمام کردار بھی خواجہ سرا ہی ہیں۔ان خواجہ سراؤں نے اپنی آپ بیتیوں اور دیگر خواجہ سراؤں سے متعلق اس معاشرے میں روا سلوک کو اپنی اداکاری سے پیش کیا۔اولوموپولو کی بانی کنول کھوسٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'تیسری دھن تھیٹر ڈرامہ ہے جسے بہت سی تحقیق کے بعد بنایا گیا۔ ہم نے اسے 2015 میں لاہور میں پہلی بار پیش کیا تھا اور اس وقت ہم نے اسے ڈاکیومینٹری تھیٹر کا نام دیا تھا۔ اس بار ہم اسے ڈیوائزڈ تھیٹر پروڈکشن کے طور پر کررہے ہیںخواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی بڑی تعداد جسم فروشی پر مجبور ہونے لگی وکل گورنمنٹ میں خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد ملازمت کوٹہ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے، سیکرٹری بلدیات پنجاب-پنجاب حکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کے لئے متعدد منصوبوں کااعلان کررکھا ہے  پنجاب میں خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے قبیح دھندے میں شامل ہونے کا انکشاف ہوا ہےخواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے دھندے میں شامل ہورہی ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی کے مطابق اگرحکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبودکے لئے عملی اقدامات نہ اٹھائے توخواجہ سراؤں کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا،خواجہ سراؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ان کے ڈیروں پر چھاپے مارتی ہے جبکہ سڑکوں سے پکڑے جانے والے خواجہ سراؤں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کیا جاتا ہے۔


خواجہ سرا برادری، پاکستان میں خاصی نمایاں تعداد میں موجود ہے۔ ان میں معاشرے کے سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والے اور کم سن بچوں سے لے کر ستر سالہ بزرگوں تک، ہر عمر کے افراد شامل ہیں۔ نسلی اور مذہبی وابستگی کے اعتبار سے دیکھیں تو تقریباً ہر نسل، ذات، مذہب اور عقیدے کے لوگوں میں خواجہ سرا موجود ہیں۔ 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرا افراد کی آبادی 10,418 ہے۔ لیکن بندیا رانا جیسے فعال اور مایہ ناز خواجہ سرا رہنما اور کارکن ان اعدادوشمار پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ خواجہ سرا کارکنوں کے مطابق ان کی آبادی اور بھی کچھ نہیں تو ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ کے درمیان ہے۔حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے حتمی ووٹر فہرستیں جاری کی ہیں جن کے مطابق ملک میں کل اندراج یافتہ ووٹرز کی تعداد 115,748,753 ہے جن میں 64,078,616 مرد، 51,667,599 خواتین اور 2,538 خواجہ سرا شامل ہیں۔2,538 رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز میں سے 1,886 پنجاب میں ہیں، 431 سندھ میں، 133 خیبرپختونخوا میں، 81 بلوچستان میں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد صرف 7 ہے


ٹرانسپلانٹ ' امتحاں کیسے کیسے!پارٹ 1

 

  
زرا وہ منظر آنکھو ں میں لائیے 
جب ایک بوڑھی ماں سے پوچھا جائے کہ  وہ اپنے  جوان نیم مردہ  بیٹے کے اعضاء عطیہ کردیں  تاکہ کسی اور کو زندگی مل جائے -جب ایک جوان سہاگن سے کہا جائے کہ اپنے  شوہر کے اعضاء عطیہ کر دے  تا کہ کسی سسکتے ہوئے کو زندگی مل جائے لیکن ایسا ہو چکا تھا -اس جوان سہاگن کی زندگی میں یہ امتحان آ چکا تھا اس بوڑھی ماں کو اپنے جوان بیٹے کا صدمہء عظیم دیکھنا لکھا تھا -عزیر بن یاسین دو ڈاکٹر بہنوں ڈاکٹر سیما اور ڈاکٹر صدف کے اکلوتے اور بڑے بھائی تھے۔ ان کے سوگواروں میں بیوہ فائزہ حسین اور بیٹی عروہ عزیر بھی شامل ہیں۔عزیر بن یاسین کون تھے؟عزیر بن یاسین کے تایا زاد بھائی فیصل رفیق بتاتے ہیں کہ عزیر راولپنڈی کے علاقے صدر میں بینک روڈ پر اپنے والد کی وفات کے بعد دکان چلا رہے تھے۔ ان کا آبائی تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع باغ سے تھا۔عزیر بن یاسین دو ڈاکٹر بہنوں ڈاکٹر سیما اور ڈاکٹر صدف کے اکلوتے اور بڑے بھائی تھے۔ ان کے سوگواروں میں بیوہ فائزہ حسین اور بیٹی عروہ عزیر بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر سیما بتاتی ہیں کہ ’اکثر میری اور چھوٹی بہن کی ان سے لڑائی ہوتی تھی مگر یہ لڑائی زیادہ وقت نہیں چلتی تھی کیونکہ ہمیشہ عزیر ہی آگے بڑھ کر ہم سے معذرت کر کے بات ختم کر دیتے تھے۔


صبح اگر ناشتے کے وقت لڑائی ہوتی تو میں اس امید کے ساتھ کالج چلی جاتی تھی کہ اب معذرت کا پیغام آ جائے گا اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔‘عزیر کی بیوہ فائزہ حسین بتاتی ہیں کہ عزیر چپکے سے لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ وہ اکثر شام کو اپنی پسندیدہ فروٹ چاٹ لاتے تھے۔کچھ دن پہلے ہی ان کے پاس فروٹ چاٹ کے دو لفافے تھے، میں نے کہا کہ یہ آپ کے پاس کیوں ہیں تو وہ بتانے لگے کہ وہ کسی غریب خاتون نے فروٹ چاٹ کا ٹھیلا لگایا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ چلو ان سے فروٹ چاٹ خرید لیتا ہوں۔ ان کی بھی مدد ہو جائے گی۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’اکثر گلی سڑی سبزیاں لے آتے تھے۔ جس پر میں کہتی کہ یہ کیا ہے تو بس اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے تھے یہ سمجھ میں آ رہا ہوتا تھا کہ وہ کسی غریب ریڑھی والے کا مال ختم کرنے اور اس کو فائدہ دینے کے لیے یہ سبزی خرید لیتے تھے کہ چلو استعمال کی یا نہ کی اس کا فائدہ تو ہو جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ عزیر کسی کو کسی طرح فائدہ پہنچاتے اور مدد کرتے تھے، جس کا اندازہ فائدہ پہنچنے والے کو بھی کم ہی ہوتا تھا-‘

 فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا‘فائزہ حسین بتاتی ہیں کہ ’عزیر بالکل صحت مند تھے، بس کبھی کبھار سر میں درد کی شکایت کرتے تھے۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’جس صبح وہ بیمار ہوئے اس رات یہ آدھے سر کے درد کی شکایت کر رہے تھے اور کچھ دوائیاں وغیرہ لے کر سو گئے تھے۔ صبح جب میں ناشتہ بنا رہی تھی تو اس وقت عجیب سی حالت میں کہا کہ پانی دو میں نے پانی دیا اور پھر فوری طور پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا کہ ان کی طبعیت خراب ہے۔ان کے مطابق ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شاہد وہ بے ہوش ہو گئے-فائزہ حسین کا کہنا تھا کہ ’وہاں پر پہلے ڈاکٹروں نے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے مگر وہ سی ٹی سکین وغیرہ کر رہے تھے جس پر میں نے ان کی بہن ڈاکٹر سیما کو اس کی اطلاع کر دی۔‘ڈاکٹر سیما بتاتی ہیں کہ وہ برطانیہ میں ایمرجنسی ڈاکٹر کی خدمات انجام دیتی ہیں۔ ان کے مطابق ’پہلے جب مجھے اطلاع ملی کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور سی ٹی سکین وغیرہ ہو رہا ہے۔ اکثر اوقات سی ٹی سکین صاف ہوتے ہیں۔ میں نے بھی سوچا کہ سی ٹی سکین صاف ہو گا مگر جب کچھ دیر بعد میں نے سی ٹی سکین دیکھا تو دماغ میں کچھ موجود تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمیں جو رپورٹس مل رہی تھیں ان سے پتا چل رہا تھا کہ دماغ مردہ ہو چکا ہے۔


 میں یہ دیکھ کر بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس موقع پر میرے میاں مجھے سمجھا رہے تھے کہ مجھے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے۔‘ڈاکٹر سیما کہتی ہیں کہ ہم نے برطانیہ میں دیکھا تھا کہ ایسے کیسز جن میں دماغ مردہ ہو جاتا ہے وہاں پر اکثر اوقات خاندان اپنے اعضا عطیہ کر دیتے ہیں۔ اس طرح کچھ لوگوں کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔ڈاکٹر سیما کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری بہن تو بھائی کے اعضا عطیہ کرنے کو تیار تھے مگر یہ فیصلہ بھابھی اور ماں کو کرنا تھا۔ ماں نے بھی کہہ دیا کہ یہ بھابھی کا حق ہے وہ خود یہ فیصلہ کریں گی۔’بھابھی شروع میں تو فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔‘’سات نئی زندگیوں کے لیے فیصلہ کیا‘فائزہ کہتی ہیں کہ ’میں تو عزیر کی موت کو تسلیم نہیں کر رہی تھی مگر عزیر کی ڈاکٹر بہنوں نے بھی دبے دبے الفاظ میں کہنا شروع کیا کہ اگر ہم اعضا کو عطیہ کر دیں گے تو کئی لوگوں کی نئی زندگیاں ملنا شروع ہو جائیں گئیں۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’میرا چھوٹا بھائی بھی ڈاکٹر ہے، اس نے بھی مجھے مشورہ دیا کہ اعضا عطیہ کر دینے چاہییں۔ اس کے لیے میں نے مذہبی رہنماؤں سے بات کی جنھوں نے کہا کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‘


ان کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ عرصہ قبل ہمارے قریب ہی کرایہ پر رہائش پذیر ایک خاندان یاد آیا، جس کی ایک کم عمر بچی کا ڈائیلسز ہوتا تھا۔ اس بچی کی والدہ ہمارے گھر آتی تھیں۔ وہ جس کرب اور تکلیف سے گزرتی تھیں، مجھے وہ سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ جب میں ہسپتال گئی تو وہاں پر راجہ علی ریاض کی والدہ بھی ملی تھیں۔فائزہ حسین کا کہنا تھا کہ ’راجہ علی ریاض کی والدہ میری ساس کو ملیں اور ان سے مل کر رونے لگیں کہ میرا جوان بیٹا کہہ رہا ہے کہ مجھے زہر دے دو اب یہ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی۔ اس کا گروپ او پازیٹو ہے اور کوئی او پازیٹو خون سے میچ کرنے والا عطیہ نہیں مل رہا ہے۔‘ان کے مطابق ’میں نے یہ دیکھا تو فیصلہ کیا کہ عزیر تو اب اس دنیا میں نہیں رہے اس سے پہلے کہ ان کا وینٹی لیٹر بھی اتر جائے ان کے اعضا سے لوگوں کو نئی زندگی دیتے ہیں اس سے بڑا تحفہ عزیر کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’اگر خود عزیر کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا تو وہ بھی یہ ہی فیصلہ کرتے۔ بس اس فیصلے کے بعد کچھ دیر تک سوچا کہ یہ سبز آنکھیں عطیہ نہیں کرتی ہوں۔ یہ ان پر بہت پیاری لگتی تھیں۔ میری اور بیٹی کی پسندیدہ تھیں۔ ’مگر پھر یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ یہ سبز آنکھیں دو لوگوں کی بینائی لوٹا دیں گی تو اس سے اچھا اس کا کوئی اور استعمال نہیں ہو سکتا

صدر قذافی کی باڈی گارڈ خواتین کے فوجی دستوں کا احوال

    لیبیا کے صدر معمر قذافی صحرا نشین خانہ بدوش قبیلے میں  ایک بدو چرواہے کے بیٹے  تھے1942ء میں ان کی پیدائش ایک خیمے میں ہوئی-یہی بچہ جب بڑا ہوا تو اس نے ایک بغاوت کے  زریعہ  لیبیا کی صدارت کا عہدہ حاصل کیا اور اپنی حفاظت کے لئے لیبین لڑکیوں کا خصوصی دستہ تیار کیا - یہ لڑکیا ں  جان و دل سے معمر قذافی کے ساتھ دیکھی جاتی تھیں- اس دستے کی خصوصیت  یہ تھی کہ وہ مردوں کے لباس میں  ہتھیار بند رہتی تھیں -ان  پانچ سو خوبصورت نوجوان ترک خواتین کا انتخاب   صدر قذافی خود کرتے تھے، ایک جیسا   لباس پہنے، کمانوں اور تیروں سے لیس، دائیں ہاتھ پر کھڑی  ہوتی  تھیں اور انھیں ترک محافظ کہا جاتا تھا۔ ان کے بائیں طرف پانچ سو حبشی خواتین بھی ایک سا لباس پہنے، آتشیں اسلحہ سے لیس تھیں۔‘معمر قذافی کے ساتھ ہمیشہ ہی 30 خواتین کا ایک حفاظتی دستہ موجود رہتا تھا۔


 سن انیس سو اٹھانوے میں ان پر ہونے والے ایک حملے کے دوران ایک خاتون باڈی گارڈ ہلاک جب کہ دو زخمی ہو گئی تھیں۔معمر قذافی کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نیل پالش، آنکھوں پر مسکارا لگانا، میک اپ اور بالوں کا بہترین اسٹائل بنانا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق معمر قذافی کے حفاظتی دستے میں شمولیت کے لیے خواتین کا کنوارا ہونا بھی ضروری تھا۔ معمر قذافی کا بذات خود کہنا تھا کہ ان کی حفاظت پر معمور خواتین کو سخت فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی تاکہ وہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ بنیں۔ا ن کو کشتی  لڑنے سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی -صدر قذافی نے اس فیمیل پلاٹون کے جو قاعدے اور ضوابط مقرر کئے تھے وہ اس طرح تھے ۔ گوریلا یونیفارم کے ساتھ ساتھ لپ اسٹک، اونچی ہیل والی جوتی اور نیل پالش بھی ان کے لیے لازمی تھی۔ حفاطتی دستے میں شمولیت سے پہلے خواتین کو یہ حلف بھی اٹھانا پڑتا تھا کہ وہ مرتے دم تک قذافی کے ساتھ رہیں گی۔


العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والی معمر قذافی بیرونی دوروں پر ان خواتین کو ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔  اپنے دورہ اٹلی کے دوران بدوؤں کے خیمے کے ساتھ ساتھ وہ درجنوں خواتین باڈی گارڈز کو بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس دورے کے دوران قذافی کی طرف سے سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کو کھانے کی ایک دعوت پر بھی مدعو کیا گیا تھا، جس میں قذافی نے انہیں اسلام قبول کرنے کا کہا تھا۔معمر قذافی کا بذات خود کہنا تھا کہ ان کی حفاظت پر معمور خواتین کو سخت فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی-  تاکہ وہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ بنیں۔ا ن کو کشتی  لڑنے سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی -


سن  2009 میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس کے دوران قذافی کا اصرار تھا کہ ان کو گراؤنڈ فلور پر کمرہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 35 قدموں سے زیادہ  چڑھائی طے نہیں کر سکتے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ قذافی اپنے اسٹاف میں سب سے زیادہ انحصار یوکرائن کی چار نرسوں پر کرتےتھے۔۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق معمر قذافی کے حفاظتی دستے میں شمولیت کے لیے خواتین کا کنوارا ہونا بھی ضروری تھا۔ -العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والی ان سینکڑوں خواتین محافظوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ اب کہاں ہیں؟۔پھر بالآخر جس موت سے وہ بھاگ رہے تھے اور محافظ لڑکیوں کے حصار میں رہتے تھے-اپنی زندگی  کی آخری مزاحمت کی گھڑیوں میں وہ     فرار ہوتے ہوئے  دیکھے گئے ان کی  گاڑیوں کے قافلے میں کرنل قذافی کی فوج کے سربراہ ابو بکر یونس اور قذافی کے بیٹے معتصم بھی شامل تھے جب نیٹو افواج میں شامل فرانسیسی طیارے نے گاڑیوں کے اس قافلے پر حملہ کی۔نیٹو کے اس حملے میں اسلحے سے لیس 15 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ لیکن کرنل قذافی اور ان کے کچھ ساتھی اس حملے میں بچ گئے اور انھوں نے پانی کی نکاسی کے دو بڑے پائپوں میں پناہ لے لی مگر جنگجو جلد ہی قریب پہنچ گئے۔سالم بکیر نامی ایک جنگجو نے بعد میں رائٹرز کو بتایا کہ ’پہلے ہم نے اینٹی ائر کرافٹ گنوں سے کرنل قذافی اور ان کے ساتھیوں کی طرف فائرنگ کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر ہم پیدل ان کی طرف گئے۔ جب ہم اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں کرنل قذافی اور ان کے ساتھی چھپے ہوئے تھے تو اچانک ہی قذافی کا ایک جنگجو اپنی بندوق ہوا میں لہراتے ہوئے باہر نکل آیا اور جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا تو اس نے مجھ پر فائرنگ شروع کر دی۔


‘سالم بکیر نے کہا کہ ’اس جنگجو نے چیخ کر کہا کہ میرے آقا یہاں ہیں، میرے آقا یہاں ہیں اور وہ زخمی ہیں۔‘ سالم بکیر کا کہنا تھا کہ ہم نے کرنل قذافی کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت انھوں نے کہا یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ایک اور شخص نے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عینی شاہد ہے کہا کہ اس نے دیکھا کہ نائن ایم ایم گن سے کرنل قذافی کے پیٹ پر گولی ماری گئی۔محمود جبرائیل کے مطابق کرنل قذافی کو زندہ پکڑا گیا تھا اور انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی لیکن جب انھیں ایک گاڑی میں ڈال کر وہاں سے لے جایا جا رہا تھا تو وہ گاڑی دونوں جانب سے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئی اور ایک گولی کرنل قذافی کے سر میں لگی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ اور ان کی محافظین لڑکیوں کا نہیں معلوم کیا ہوا-باقی رہے نام اللہ کا -اللہ کے راستے پر چلنے والوں کو کسی مرد یا عورت کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایسے بندے کی حفاظت اللہ کے فرشتے کرتے ہیں 


ٹرانسپلانٹ - امتحاں کیسے کیسے پارٹ -2

 

تمام سرجن اور ڈاکٹرز18 گھنٹے تک مسلسل کام کرتے رہے‘راولپنڈی میں ایک ہسپتال کے منتظم منور حسین بتاتے ہیں کہ جب لواحقین نے حتمی فیصلہ کیا کہ جسمانی اعضا عطیہ کرنے ہیں تو اس کے بعد ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلا کام عزیر کو دوسرے ہسپتال سے محفوظ انداز میں اپنے ہسپتال منتقل کرنا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا کام یہ دیکھنا تھا کہ کون سے اعضا عطیہ ہو سکتے ہیں اس کے لیے اسلام آباد کی ایک ہسپتال سے ہنگامی بنیادوں پر مدد حاصل کی گئی، جب پتا چل گیا کہ عزیر کا جگر، آنکھیں اور گردے محفوظ انداز میں حاصل کر کے ٹرانسپلانٹ ہو سکتے ہیں تو اس کے بعد ماہرین کنسلٹنٹ کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے آپریشن کی تیاری کریں۔منور حسین کہتے ہیں کہ گردے کے ٹرانسپلانٹ کے ماہرین ہمارے ہسپتال میں موجود تھے اور یہ ٹرانسلانٹ ہمارے پاس ہی ہونا تھا۔ میجر جنرل ریٹائرڈ ارشد محمود اور ڈاکٹر نوید سرور نے اپنے کام کا آغاز کردیا تھا۔ آنکھوں کے لیےآنکھوں کے ایک ہسپتال سے ماہرین کو بلایا گیا جبکہ جگر اور لب لبے کے لیے متعلقہ شعبے کے ماہرین کو بلایا گیا تھا۔ڈاکٹر فیصل ڈار جگر ٹرانسپلانٹ کے ماہر سرجن ہیں۔

 عزیر بن یاسین کے جگر کے عطیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور لب لبا کا ٹرانسپلانٹ کرنے کے آپریشن کی نگرانی انھوں نے کی تھی۔ڈاکٹر فیصل ڈار بتاتے ہیں کہ ’ہمیں دوپہر کے وقت راولپنڈی میں واقع ایک ہسپتال کی جانب سے اطلاع ملی کہ عطیہ کیا گیا جگر اور لبلبا حاصل کر لیں۔ سب سے پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ اس کے لیے مستحق مریضوں کوتلاش کیا گیا۔ جس میں پہلی ترجیح جوان العمر تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری ٹیم نے ضروری ساز و سامان کے ہمراہ جس میں جگر اور ل لبا کو محفوظ بھی رکھنا تھا اسلام آباد کا سفر شروع کر دیا تھا۔’تقریباً چار گھنٹے میں ہم اسلام آباد پہنچے جہاں پر رات کے تقریباً نو بجے جگر حاصل کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں عزیر کے دونوں گردے، آنکھیں حاصل کرنے کا کام شروع تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی نو بجے آپریشن شروع کیا اور یہ کوئی دو، اڑھائی گھنٹے کا تھا۔ اس کے بعد جگر اور لب لبا لے کر واپس لاہور کا سفر شروع کیا۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ لاہور پہنچ کر میں اور میری ٹیم نے دوبارہ اپنا کام شروع کردیا تھا۔


 ہسپتال میں عملہ مریضوں کو آپریشن کے لیے تیار کررہا تھا۔ ہم نے بھی پہنچتے ہی تمام تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس کے لیے تین آپریشن تھیڑ تیار کیے گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان تین آپریشن تھیڑز میں تین ماہر کسنلٹنٹ سرجن اور ان کے زیر تربیت ڈاکٹرز اور عملہ مصروف عمل تھاخوشی ناقابل بیان تھی‘ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ جگر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اور لبلبے کا ٹرانسپلانٹ تو دنیا بھر میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا آپریشن ہو رہا تھا۔ ان کے مطابق ’میرے دیگر دو ساتھی کسنلٹنٹ جگر کا ٹرانسپلانٹ کر رہے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہر جگر کو دو حصوں میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جگر صحت مند ہو۔ عزیر جوان العمر تھے، ان کا جگر صحت مند تھا اور یہ فیصلہ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جگر انسانی جسم میں کمی بیشی پر خود بخود اپنی پرورش کرتا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ جب کسی کا جگر حاصل کیا جائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے دو مریضوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ اسی طرح شوگر کی ایسی سٹیج جہاں پر وہ بالکل ہی نا قابل علاج ہو جائے اس کا واحد حل لب لبے کی تبدیلی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے برطانیہ سے تربیت حاصل کی تھی۔ وہاں پر میں نے ایسے آپریشن پہلے کیے تھے اس لیے ہمارے پاس یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن کرنے کے لیے ضروری تجربہ موجود تھا۔’مگر پاکستان میں اس کا موقع اس لیے نہیں ملا کہ یہاں بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے کا رحجان بہت ہی کم ہے۔ اب یہ موقع ملا تو اس میں سب نے کوشش کی کہ جتنے بھی مریضوں کو فائدہ پہنچ سکے فائدہ پہنچنا چاہیے۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ’میں نے لب لبا اور میرے دو ساتھیوں نے جگر کا ٹرانسپلائنٹ مکمل کیا جو مشن ہم نے اتوار کی دوپہر شروع کیا تھا، وہ مسلسل کام کرتے ہوئے پیر کی صبح کوئی چھ سات بجے مکمل ہوا۔ تینوں مریضوں کی حالت تسلی بخش تھی، جس میں ایک سات سالہ بچہ بھی شام                لزینب امتیاز کہتی ہیں کہ ’میں ڈائیلیسِز پر تھی۔ ٹرانسپلانٹ سے پہلے بس ایک ہی کام ہوتا تھا کہ کب ہسپتال جانا ہے اور کب ڈائیلیسز کروانا ہے


مس رفعت ایک رضاکارانہ اعضاء عطیہ دہندہ تھیں جنہوں نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی۔ ان کے بھائی بریگیڈیئر زاہد بیگ مرزا، جو نیفرولوجسٹ اور کریٹیکل کیئر اسپیشلسٹ ہیں، نے اپنی فیملی کے ساتھ مل کر ان کی خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا اور سی ایم ایچ/ایم ایچ راولپنڈی اور اے ایف آئی یو کی ٹیموں سے اعضاء نکالنے کی رضامندی کے لیے رابطہ کیا۔ مس رفعت کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تاکہ ان کا دل موت کے بعد بھی زندہ رہے۔اے ایف آئی یو، ایم ایچ، سی ایم ایچ، شفا، بحریہ اور سفاری اسپتالوں کی ٹیموں نے مل کر ایک ایسے مریض کا انتخاب کرنے کے لیے کام کیا جسے 18 گھنٹوں کے اندر گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہو، جو اعضاء نکالنے کی ڈیڈ لائن تھی۔ ڈاکٹر فیصل دار کی ٹیم نے جگر نکالنے کے عمل میں حصہ لیا۔ مجموعی طور پر، تین مریضوں کی جان بچائی جا سکتی تھی: ایک جگر اور دو گردے جو 18 گھنٹوں کے اندر میچ کیے گئے اور ٹرانسپلانٹ کیے گئے۔اے ایف آئی پی امیونولوجی ٹیم نے رات بھر کام کرتے ہوئے 12 گھنٹوں کے اندر مطابقت کے ٹیسٹ مکمل کیے۔ الحمدللہ، دو گردے اور ایک جگر تین مریضوں کو پیوند کیا گیا اور وہ اچھی طرح کام کر رہے ہیں۔

یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن ایک انوکھا اور قابلِ ذکر کارنامہ تھا، جو حقیقی صدقہ جاریہ ہے۔ آئیے اس مثبت خبر کو عام کریں تاکہ اعضاء کے عطیات اور پیوند کاری کے اس عظیم مقصد کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے قابلِ تقلید عمل کرنے کی حکمت اور ہمت عطا فرمائے۔مس رفعت کی بیٹیوں (جو سب ڈاکٹر ہیں) نے اپنی والدہ کو آخری الوداع کہا، جب ان کا دل وینٹی لیٹر پر دھڑک رہا تھا لیکن وہ دماغی طور پر مردہ تھیں۔ اعضاء کے عطیہ کے بعد انہوں نے اپنی پیاری اور عظیم ماں کی میت وصول کی۔ کیا بہادر خاندان ہے، کیا عظیم ماں ہے! ان سب کو سلام!

کمبوڈیا میں جرائم پیشہ گروہوں کے جال میں پھنسے پاکستانی

 

یونان اٹلی اور بے شمار یورپی ملکوں کے لئے اخبارات خبروں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن کمبوڈیا کے لئے پہلی مرتبہ انڈیپنڈنٹ اردو سے معلوم ہوا کہ انسانی اسمگلروں نے وہاں بھی پنجے گاڑے ہوئے ہیں -میں انڈپنڈنٹ سے ہی یہ آرٹیکل دے رہی ہوں -کمبوڈیا جانے والے پاکستانی اغوا برائے تاوان کا نشانہ کیسے بنے؟پاکستانی شہریوں محمد حسنین اور حسن رضا سے کمبوڈیا میں اغوا کرنے والوں نے تکئی ہزار ڈالر تاوان طلب کیا جس کی ادائیگی کے بعد انہیں پاکستان آنے کے لیے رہائی ملی۔روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے کئی پاکستانی شہری وہاں اغوا برائے تاوان کا شکار ہوگئے جن کی واپسی تاوان ادا کر کے ہوئی جبکہ کئی تاحال کمبوڈیا کی جیلوں میں قید یا اغوا کاروں کے پاس ہیں۔پاکستان کے مشکل معاشی حالات اور ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث تقریباً ہر شہری نقل مکانی کا خواہاں ہے اور ملک سے باہر کہیں بھی بہتر روزگار ڈھونڈنا چاہتا ہے۔ان ہی میں سے ایک محمد حسنین طلحہ بھی ہیں جن کا تعلق ملتان سے ہے۔


 اُنہوں نے دو ماہ قبل ایک ایجنٹ کو چھ لاکھ روپے دے کر کمبوڈیا کا ویزا حاصل کیا۔ جس میں انہیں دھوکہ دہی کا سامنا کرنا پڑا۔انڈپینڈنٹ اردو کو آپ بیتی سناتے ہوئے محمد حسنین کہا کہ ’مجھے کمبوڈیا کا ویزا دیے جانے سے قبل یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں اردو کال سینٹر میں ملازمت دی جائے گی جس کے عوض ڈالر میں تنخواہ ملے گی جو پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے بہترین تنخواہ ہو گی۔‘بقول حسنین: ’کمبوڈیا جاتے ہی ہوائی اڈے پر پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا اس کے بعد ہمیں نامعلوم مقام پر لے جایا گیا جہاں بہت سارے کمپیوٹر سسٹم تھے اور اردو کال سینٹر کے نام پر ہمارے ساتھ فرا ڈ کیا گیا اور ہمیں من چاہے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا جس کی ہمیں سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی۔’کام نہ آنے پر وہاں کے ویتناموں نے مجھ پر تشدد کیا اور دو دو روز تک کھانا بھی نہیں دیتے تھے۔ ہمارے اغوا کار نے یہ کہا کہ اس نے ہمارے ایجنٹ کو دو ہزار ڈالر دے کر ہمیں کمبوڈیا بلوایا ہے۔یہ بات سن ہماری بے چینی بڑھ گئی اور ہھر پتہ لگا کہ ہم اب اغوا ہو گئے ہیں مجھ سمیت بہت سے پاکستانی نامعلوم جگہ پر اغوا کاروں کے شکنجے میں ہیں۔


‘محمد حسنین طلحہ کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے یہ کہا گیا کہ اپنے گھر سے چار ہزار ڈالر ہمیں لے کر دو اور پاسپورٹ حاصل کر لو۔ میں 20 روز سے زائد وہیں رہا اور میرے گھر والوں نے قرض ادھار لے کر مجھے تین ہزارڈالر بھیجے تب جا کر میں اپنے گھر کو پہنچا۔‘کمبوڈیا میں ہمیں کرنٹ لگا کر تشدد کیا گیا: متاثرین حسن رضا کا تعلق لاہور سے ہے اور انہیں بھی کمبوڈیا بھی جھانسہ دے کر بھیجا گیا کہ یہ ’سنہری موقع‘ہے پیسے کمانے کا۔حسن رضا نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے آٹھ لاکھ دے کر ویزا حاصل کیا اور چھ ستمبر کو کمبوڈیا پہنچتے ہی وہ لوگ اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے۔ ان سے پاسپورٹ چھینے گئے اور جاتے ہی جیل خانے میں یہ کہہ کر ڈال دیا گیا کہ اگر آزاد ہونا ہے تو چار ہزار ڈالر دو اور چلے جاؤ۔حسن رضا نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی یعقوب نے مویشی بیچ کر انہیں اغوا کرنے والوں سے نجات دلائی۔


کمبوڈیا میں پاکستانی جرائم پیشہ گروہوں کے جال میں کیسے پھنسے؟آج کل پاکستانیوں کو افریقی ممالک میں چند ماہ یا ایک سال کا ویزا لگا کر یورپ میں سیٹل کرانے کا شارٹ کٹ راستہ دکھایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ سینکڑوں پاکستانیوں کے کمبوڈیا میں پھنسنے کی شکل میں سامنے آیا۔روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے پاکستانی شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ٹریول ایجنٹس کے ذریعے ان کو کمبوڈیا لایا جا رہا ہے جنہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہاں آئی ٹی کی کمپینوں کو نوجوانوں کی ضرورت ہے مگر وہاں پہنچنے پر صورت حال یکسر مختلف ہوتی ہے۔محمد حسنین اور حسن رضا کی طرح اشرف علی کے صاحبزادے احمد علی بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہوئے جو اب بھی کمبوڈیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اشرف علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے 20 سالہ صاحبزادے احمد علی اس وقت کمبوڈیا کے کسی نامعلوم  مقام پر ہیں جہاں باقی کے دو پاکستانی متاثرین یرغمال بنے ہوئے تھے۔


اشرف علی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ بھی نوکری کا وعدہ کیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ وہ غیر قانونی کام کریں۔ ’کمپیوٹر پر اس کو تنگ کیا جا رہا ہے کے وہ چار ہزار  ڈالر بھی دے اس معاملے پر کئی بار دفتر خارجہ رابطے کی کوشش کی گئی لیکن در بدر بھٹکتے ہی رہ گئے۔‘احمد علی، محمد حسنین اور حسن رضا کی طرح سینکڑوں پاکستانی شہری کمبوڈیا میں ایسے غیر قانونی گروہوں کے شکنجے میں پھنس کر لاکھوں روپے کی ادائیگی کرنے کے باوجود کمبوڈیا سے وطن نہیں آ پا رہے۔اس سارے معاملے کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ کمبوڈیا میں پھنسے پاکستانی شہریوں سے غیر قانونی کام کرایا جا رہا ہے اور احکامات نہ ماننے والوں پر تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔ترجمان پاکستان وزارت خارجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس سارے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کمبوڈیا میں موجود ہمارے سفارتی مشن نے پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے ہیں جس میں سے کچھ پاکستانیوں کی وطن واپسی ہوئی ہے۔ صرف چند پاکستانی ہی ایسے گروہوں کے شکنجے میں ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے ہمارا سفارتی مشن کام کر رہا ہے۔‘ترجمان پاکستان دفتر خارجہ کے مطابق: ’جنوری 2023 سے لے کر اب تک ایسے 90 پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جا چکا ہے۔‘دوسری جانب اس وقت بہت سے پاکستانی کمبو ڈیا کی جیل میں ہیں انہوں نے اپنے ویڈیو بیان انڈپینڈنٹ اردو سے شیئر کیے ہیں جن میں انہوں نے اعلی حکام سے درخواست کی ہے کہ ان کی وطن واپسی کے اقدامات کو تیز تر بنائیں

کراچی میں ڈمپر لوڈر'واٹر ٹینکر'' ٹرالراور بسز کی دہشت گردی

 

   

ٹریفک حادثات میں مزید5افراد زندگی کی بازی ہارگئےکراچی، 2 ماہ میں ٹریفک حادثات میں 96 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں -کراچی  شہر میں بے قابو ڈمپروں اور دیگر گاڑیوں کی ٹکر سے مزید 5افراد جاں بحق ہوگئے ‘خاتون اورکمسن بہن بھائی سمیت 4افراد زخمی‘2دن میں 9افراد زندگی کی بازی ہار گئے ۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں ڈمپر کی ٹکر سے شہریوں کی ہلاکت کاتیسرا واقع سعود آباد تھانے کی حدود ملیر ہالٹ خالد لیبارٹری کے قریب پیش آیا جہاں تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل کو ٹکر مار کر باپ اور بیٹے کی جان لے لی جبکہ ایک خاتون زخمی ہو ئی ۔ ڈمپر کی ٹکر سے جاں بحق افراد کی شناخت 50سالہ محمد سلیم ولد محمد امین اور 13سالہ عفان احمد ولد محمد سلیم کے نام سے ہوئی ہے جبکہ زخمی خاتون کا نام30سالہ روبینہ زوجہ محمد سلیم ہے۔حادثے کے بعد ڈمپر ڈرائیور فرار ہوگیا۔


 اہل خانہ کا کارروائی سے انکار ۔علاوہ ازیںگلشن معمار ایوب حسن شاہ مزار کقریب تیز رفتار گاڑی نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماردی، حادثے میں موٹر سائیکل سوار نوجوان جاں بحق ہوگیا جبکہ اس کے 3 کمسن بہن بھائی زخمی ہو گئے ۔جاں بحق نوجوان کی شناخت 20 سالہ اسماعیل ولد رحیم کے نام سے ہوئی، زخمیوں میں 4 سالہ دعا، 5 سالہ ریحان اور 6 سالہ انس شامل ہیں۔قریب ہی موجود افراد اس بات کا تعین نہ کر سکے کہ حادثے میں ملوث تیز رفتار کون سی گاڑی یا ٹرک تھا ۔ سکھن تھانے کی حدود لانڈھی بھینس کالونی زیرو روڈ کے قریب تیز رفتار گاڑی کی زد میں اکر 50سالہ محمد سعید نامی شخص جاںبحق     ہوگیا ، متوفی کی لاش کو قانونی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ علاوہ ازیں سولجر بازار کے علاقے میں دو روز قبل حادثے میں زخمی ہونے والے معمر شخص 75 سالہ عیسیٰ سول اسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا


۔شہر قائد میں ڈمپر گردی لہر کا آغاز ہوگیا کورنگی میں مزید 3 افراد جان کی بازی ہار گئے ، نادرن بائی پاس پر حادثے میں45 سالہ عبدالمجید ولد محمد حسین کی زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی ۔مشتعل افراد نے ڈمپر کو آگ لگا دی ہمیشہ کی طرح ڈرائیور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ۔تفصیلات کے مطابق ہیوی ٹریفک کے خونی کھیل کو روکا نہ جاسکا، کورنگی ابراہیم حیدری سے کراسنگ جاتے ہوئے CBM کالج کے قریب آنے والی سڑک پر تیز رفتار دندناتے رانگ سائیڈ سے آنے والے ڈمپر نے موٹرسائیکل سوار افراد کو روند ڈالا ، تینوں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ جاں بحق دوافرادکی شناخت 25سالہ آصف ولد حضور بخش ، 27سالہ امجد جیلانی ولد غلام جیلانی اور 24سالہ نوجوان کے نام سے ہوئی ہے۔حادثے کے بعد مشتعل افراد نے ڈمپر کو آگ لگا دی جبکہ ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔


جاں بحق ہونے والے تینوں افراد کی میتوں کو جناح ہسپتال سے قانونی کارروائی کے بعد چھیپا سرد خانے منتقل کر دیا گیا ۔ٹریفک سیکشن افسر نے واقعے کو اتفاقیہ حادثہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ڈمپر تیزرفتاری سے رانگ وے پر جارہا تھا، حادثہ اتفاقیہ طور پر پیش آیا۔ جاں بحق ہونیوالے2افرادپنجاب سے آئے مہمان تھے، جاں بحق تیسرا شخص موٹرسائیکل پر مہمانوں کو گھمانے کیلئے لیکر نکلاتھا، حادثے میں جان سے ہاتھ دھونے والا تیسرا شخص اسٹیل آئرن شاپ پر ملازم تھا۔کورنگی کراسنگ پر ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کا احتجاج کیا ،مظاہرین نے سڑک پر پرانا سامان جلا کر بند کر دی،کراسنگ اور اطراف کی سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا ، احتجاج کے باعث دفاتر سے گھر کو جانے والے افراد ٹریفک جام میں پھنس گئے۔

موقع پر موجود ایک شہری نے کہا کہ ڈمپر دن دیہاڑے رانگ سائیڈ تیز رفتاری کے ساتھ جارہا تھا، ریتی لے جانے والا حادثے کا ذمے ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔کراچی میں ڈمپر ڈرائیورز نے حکومتی اقدامات اور دعووں کو ہوا میں اْڑادیا، حکومتی احکامات کے باجود دن کے اوقات میں بھی ڈمپرز اور بھاری گاڑیاں شہر کی سڑکوں پر دندناتی نظر آرہی ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ بیشتر ڈمپر اور واٹر ٹینکر ڈرائیور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں کم عمر اور نشے کے عادی ڈرائیور بھی شامل ہیں، جو بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرتے ہیں، جب کہ یہ دن کے اوقات میں بھی انتہائی تیز رفتاری سے ڈمپر اور ٹینکر دوڑاتے ہیں۔کراچی میں ٹریفک نظام کی بربادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سال جنوری سے اب تک ہیوی گاڑیوں کے مختلف حادثات میں 33افراد جاں بحق ہوچکے جن میں 10 افراد ٹریلر، 8 افراد ڈمپر، 8 افراد واٹر ٹینکر، 6 بس اور ایک منی بس کی ٹکر سے جاں بحق ہوئے ہیں ،یاد رہے خونیں ٹریفک حادثوں میں گذشتہ دو روز میں 14 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔دو روز قبل بھی کراچی کے علاقے ملیر ہالٹ میں ڈمپر کی ٹکر سے باپ اور بیٹ جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس واقعے سے چند گھنٹے قبل گلستان جوہر میں ملینیئم شاپنگ مال کے قریب ڈمپر کی ٹکر سے میاں بیوی سمیت 3 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔


 گذشتہ روز شیر شاہ کے علاقے میں موٹر سائیکل سوار شہری زندگی کی بازی ہار گیا تھا، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتی مسافر بس نے بیچ سڑک پر بس روک کر تیزی سے آنے والا موٹر سائیکل سوار شہری کو اوورٹیک کیا جس کے باعث موٹر سائیکل سوار بیلنس برقرار نہ رکھ سکا اور 22 ویلر ٹینکر کے ٹائروں کی زد میں آ گیا ۔واضح رہے کہ کراچی میں ٹینکرز، ڈمپرز اور دیگر گاڑیوں کی غفلت کے باعث ٹریفک حادثات تشویش ناک حد تک بڑھ گئے ہیں، جس میں قیمتی انسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں، جن کی روک تھام کے لیے انتظامیہ بھی متحرک ہو گئی ہے۔علاوہ ازیں سندھ حکومت نے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی روک تھام اور ٹریفک کی بہتری کے لیے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے دن کے اوقات میں ڈمپرز کے کراچی میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئے فیصلے کے تحت ڈمپرز کو صرف رات 11 بجے سے صبح 6 بجے تک شہر میں داخلے کی اجازت ہوگی۔یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ کی زیر صدارت ٹریفک حادثات کے حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس، کمشنر کراچی، ایڈیشنل آئی جی کراچی، سیکریٹری ٹرانسپورٹ، ڈی آئی جی ٹریفک اور دیگر متعلقہ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں چلنے والی تمام بڑی گاڑیوں اور ان کے ڈرائیوروں کی جسمانی تصدیق (فزیکل ویری فکیشن) کی جائے گی تاکہ روڈ سیفٹی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ شہر میں چلنے والی تمام گاڑیوں کو محکمہ ٹرانسپورٹ سے QR کوڈ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی ہوگا۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر