سن 563 ق م میں ہمالیہ کی ترا ئ میں کپل وستو کے راجہ شدھودا نا کے گھر میں ایک شہزادہ پیدا ہوا جس کا نام سدھارتھ رکھا گیا ۔ ننھے شہزادے کو شروع سے ہی تلوار بازی اور جنگی فنون سکھائے گئے ۔ اس کے علاوہ اپنے وقت کے دانا استادوں نے اسے مذہب و فلسفے کی خصوصی تعلیم دی ۔ سدھارتھ کا خاندانی نام گوتم تھا، جو آگے چل کر گوتم بدھ(Gautama Buddha) بنا ۔ گوتم کی شادی ہوئی ، جس سے اس کے ہاں ایک خوب صورت بیٹا پیدا ہوا۔ اس شہزا دے کو بچپن سے غو ر و فکر کی عا دت تھی- غور و فکر کی منزلوں سے گزرتے ہو ۓ ایک دن گوتم بدھ دنیا سے تیاگ لےکرجنگل کی جا نب نکل گیا -کئ برس کے بعد اپنی حالت پر غورکرکے گوتم بدھ اس نتیجے پر پہنچا کہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ درست نہیں تھا۔ گوتم نے تیاگ ختم کیا اور پیپل کے درخت کے نیچے یو گا کا ایک آسن جما کر بیٹھ گیا اور تہیہ کرلیا کہ جب تک اسے نروان نہیں ملے گا، تب تک وہ اس درخت کے نیچے ہی بیٹھار ہے گا۔ آخر انسانی دکھوں ، عذابوں ، بیماریوں ، بڑھاپے اور موت کا سبب کیا ہے؟ یہ سوال مسلسل اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا تو اچانک اسے اس سوال کا جواب مل گیا اوراسے نروان حاصل ہو گیا۔
گوتم کہتا ہے کہ "میں نے اپنا ذہن ایک نکتے پر مرکوز رکھا اور مجھے خالص گہری و مافوق الانسانی بصیرت حاصل ہوگئی ، جس سے میں نے خود کو مرتے اور پھر جنم لیتے دیکھا اسکوگہرے غو ر و فکر کی عا دت تھی- ہرجنم میں دکھ، اذیتیں عذاب اور تکلیفیں وغیرہ پہلے جنم سے بھی زیادہ تھیں ۔ ایک جنم کے گناہوں کی سزا، انسان دوسرے جنم میں بھگت رہا تھا۔ بس میں بات سمجھ گیا اور مجھے میرے سوالات کا جواب یہ ملا کہ "انسانی دکھوں کی بڑی وجہ انسانی جنم ہے"۔ نروان حاصل کرنے کے بعد گوتم ، جو اب گوتم بدھ بن چکا تھا، وہ شاگردوں کو با قاعدہ تعلیم دینے لگا۔شہزادہ سدھارتھ نے تنہائی میں انسان کی موجودگی کے مسائل پر استغراق کیا، آخر ایک شام جب وہ ایک عظیم الجثہ انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا تو اسے اس معمے کے سبھی ٹکڑے باہم یکجا ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ سدھارتھ نے اس کے بعد ساری رات غورو فکر میں بتائی ، صبح ہوئی تو اس پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ اس نے حل پالیا ہے اور وہ یہ کہ اب وہ بدھ بن گیا ہے۔ جس کے معنی ایک اہل بصیرت کے ہیں۔ شہزادہ سدھارتھ جب بدھ بنا تو اس کی عمر 35 برس تھی۔ زندگی کے اگلے 45 سال اس نے شمالی ہندوستان میں سفر کرتے ہوئے گزارے، وہ ان لوگوں کے سامنے اپنے خیالات کا پرچار کرتا جو اسے سننے آتے تھے، 483 قبل مسیح میں وہ اپنی وفات کے سال تک ہزاروں پیروکار بنا چکا تھا۔
اگرچہ اس کے افکار لکھے نہیں گئے تھے لیکن اس کے ماننے والوں نے اس کی تعلیمات کو یاد رکھا ۔ گوتم کی ساری تپسیا اور اس کے اخلاقی نظام کا حاصل یہ ہے کہ نروان حاصل کیا جائے ، مگر یہ نروان ہے کیا ؟ اسے کوئی حتمی لفظی معنی دینا تو کچھ مشکل ہے مگر اس کا مفہوم واضح ہے ۔ سنسکرت میں نروان کا طالب ہے " بجھا نا اور ختم کرنا" اور اس کا مفہوم بنتا ہے خواہشات کی آگ کو بجھا نا۔ اس کے دیگر معنی یہ ہیں ، آواگون یعنی دوبارہ پیدائش سے نجات ،انفرادی شعور کا خاتمہ ،مرنے کے بعد خوشی وسکون حاصل کرنا ، اگر ان تمام مفاہیم کو بدھ کے تناظر میں رکھ کر نروان کا کوئی ایک مفہوم واضح کیا جائے تو وہ ہوگا "ہرقسم کی خواہشات کے خاتمے کے ذریعے ،ازلی دکھوں سے نجات اس وقت کے دستور کے مطابق گوتم بدھ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر درس دیتا تھا اور پھر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر جاری رکھتا تھا۔ اس کے پیروکاروں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ آخر کار جب و وسفر کر تا تھا تو بارہ سو پیروکار یا بھکشو بھی ہمراہ ہوتے ۔ مہاویر کی طرح گوتم نے بھی دیدوں کی الوہیت سے انکار کیا اور کہا کہ یہ برہمنوں کے تخلیق کردہ ہیں ۔
وہ ہند و نظام میں مروج پر وہتی نظام کے سخت خلاف تھا، جس میں بابے، مہاراج، پروہت اور دوسرے مذہبی پیشوا اپنے پیٹ بھرنے کے لیے سادہ و جاہل لوگوں کو بے وقوف بنا کر ، چالاکی سے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ گوتم بدھ کے خیالات تیزی سے پھیلنے لگے اور یہ ہر جگہ مقبول ہونے لگے جوں جوں اس کی عمر بڑھتی گئی اس کے اندرونی سکون میں اضافہ ہوتا چلا گیا گوتم نے اپنی تعلیمات کو موثر بنانے کے لیے ان کو مختلف تشریحات یعنی خلاصوں میں تقسیم کیا۔ گوتم بدھ کے مطابق، دکھ کے محرک اور وجوہات ختم کر دیں تو دکھ ختم ہو جائیں گے۔ یعنی خواہش کا خاتمہ ہی دکھوں کا خاتمہ ہے ۔“ دکھوں کے خاتمے کا یہ عظیم راستہ آٹھ منازل پرمشتمل ہے جو یہ ہیں : درست نظر ، درست اراده، درست گفتگو، درست رویہ، درست کمائی، درست کوشش، درست سوچ اور درست مراقبہ ۔بدھ نے پانچ اخلاقی فرمان جاری کیے، جو کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہ بدھ کے فلسفے کا مرکز انسان ہے ۔ انسان کے دکھ اور ان کا خاتمہ، بدھ کے نزدیک بہت اہم ہے۔ اس کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔ اہنسا اور عدم تشدد کا پیغام ہے، مساوات کا پیغام ہے اور پورے عالم انسانیت کی بھلائی کے لیے سچائی ، دیانت داری اور راست گوئی کا پیغام ہے۔ یہ پیغام تیزی سے ہر طرف پھیلا۔ نیپال و ہندوستان سے ہوتا ہوا موجودہ پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور روس تک پہنچا۔ دوسری طرف مشرق بعید سے ہوتا ہوا، خصوصا جاپان و چین میں انتہائی مقبول ہوا۔ پورے ایشیا میں جگہ جگہ بدھ کے آثار موجود ہیں ۔
بدھ مت میں کئی فرقے پیدا ہوئے لیکن نروان ان کا مرکزی نکتہ ہے، جس پر سب متفق ہیں۔ ہندوستان کا عظیم فلسفی شہنشاہ "اشوکا" بھی بدھ مت کا پیروکار ہو گیا تھا اور اس نے بے شمار مقامات پر بدھ کے مجسمے نصب کروائے ۔ زمانے کی گرد ہر نظریے کو دھندلا دیتی ہے مگر آج بھی گوتم کے فلسفہ انسانیت ، محبت اورہمدردی کے کروڑوں پرستار موجود ہیں ۔ سن 483 ق م میں چہرے پر بے پناہ سکون اور دھیمی مسکراہٹ سجائے تاج و تخت کو ٹھکرانے والا کپل وستو کا شہزادہ اپنے لاکھوں بھکشوؤں کو سوگوار چھوڑ کر 80 سال کی عمر میں اس دنیا کو خاموشی سے الوداع کہہ گیا۔ گوتم نے ساری زندگی ہرقسم کی قربانی وعبادت کی مخالفت کی مگر اس کےانتقال کے بعد اس کی ہی پوجا شروع ہوگئی۔ جگہ جگہ اس کے مجسمے نصب ہو گئے اور بھکشوا سے ایک عظیم نر وان یافتہ اور نجات یافتہ روح سمجھ کر پوجنے لگے۔