جمعرات، 20 اپریل، 2023

حضرت عیسی علیہ السلام کے قصے

جب کافروں نےآسمانی دستر خوان کی فرمائش کی

سورہ مائدہ قران کریم کا پانچواں سورہ ہے اور پارہ نمبر سات وازاسمعو ہے آئت نمبر ایکسو گیارہ میں پروردگارعالم اپنے حبیب حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے فرما رہا ہے وہ وقت یاد کرو جب حواریوں نے عیسٰی سے عرض کی اے مریم کے بیٹے عیسٰی کیا آپ کا خدا اس پر قادر ہے کہ ہم پر آسمان سے نعمت کا ایک خوان نازل فرما ئے۔
 
حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا اگر تم سچّے ایماندار ہو تو اللہ سے ڈرو اور ایسی فرمائش جس سے امتحان مقصود ہو اس کا اللہ سے تقاضہ نا کرو لیکن حواریوں نے جوابدیا کہ ہم تو بس آپ کی رسالت کی سچّائ دیکھنا چاہتے ہیں اور آنے والے خوان سے تبرّک کھانا چاہتے ہیں اس طرح ہمیں یقین آ جائے گا کہ آپ نے ہم سے جو کہا تھا وہ سچ تھا اور ہم اس کے خود گواہ ہیں تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے پروردگارعالم کی بارگاہ میں دعاء کی کہ

"ائے ہمارے پالنے والے پروردگارعالم ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما اور اس دن کو ہم لوگون کے لئے اور ہماری اگلی نسلوں کے لئے اور جو پچھلے گزر گئے ان کے لئے خوان نعمت اترنے کا مبارک روز عید قرار پائے اور ہمارے حق میں وہ تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو اور تو ہمیں روزی عطا کر کہ تیری زات ہی سب سے بہتر روزی عطا کرنے والی ہے۔"

حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے جواب میں پروردگارعالم نے فرمایا کہ میں خوان اتار تو دوں گا لیکن کہ پھر ان میں سے جو شخص کافر ہوا
 
تو میں اس کو یقیناً ایسے سخت عذاب کی سزا دوں گا کہ ساری خدائ میں کسی ایک پر بھی ایسا عزاب نا ہو گا۔اورپھر یکشنبہ کے دن کچھ دن چڑھے آسمان سے ابرِ سفید کے ایک ٹکڑے اوپر ایک خوان برنگ سرخ پروردگارعالم نے نازل فرمایا
 
"جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اس وقت اپنے حواریوں کے ہمراہ اپنی بستی کے قریب ایک کھلی جگہ پر بیٹھے ہوءے تھے کہ آسمان سے دستر خوان زمین پر حواریوں کے درمیان اتر آیا ،،
 
حضرت عیسٰی علیہ السّلام ابر سفید پر خوان سرخ  پُر نعمتِ  ہائے پروردگار دیکھ کر رونے لگے اور بارگاہ رب العالمین میں دعا کی اے ہمارے پالنے والے اس دستر خوان کو ہمارے لئے باعث رحمت قرار دینا نا کہ باعث عذاب ہو اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر دوبارہ روئے اور پھر بسم اللہ خیر الرّازقین کہہ کر خوان پوش ہٹایا تو روغن میں ڈوبی ہوئ ایک تلی ہوئ مچھلی رکھّی تھی ، مچھلی کی دم کے پاس سرکہ تھااور سر کے پاس نمک تھا اور گردا گرد انواع و اقسام کی ترکاریا ں و ساگ تھے ساتھ میں پانچ روٹیا ں تھیں ایک روٹی پر روغن تھا دوسری پر شہد تھا تیسری روٹی پر گھی تھا چوتھی روٹی ہر پنیر تھا پانچویں روٹی پرخشک گوشت تھا۔
 
وہیں پر موجود حضرت شمعون علیہ السّلام نے حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے سوال کیا کہ یا روح اللہ یہ کھانا دنیا کا ہے یا آخرت کا ہے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ یہ کھانا دنیا کا ہے لیکن اسے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا ہے حواریوں نے کہا یا حضرت ہمیں کوئ اور بھی معجزہ دکھائیے تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ ائے مچھلی اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا پس مچھلی فوراً تڑپ کر زندہ ہو گئ اور اس کے سپنے کانٹے چھلکے سب آ موجود ہوئے پھر آپ نے فرمایا پہلے جیسی ہو جا مچھلی پھر پہلے کی حالت پر آ گئ تب حواریوں نے کہا کہ یا حضرت پہلے آپ اس میں سے نوش فر مائیں پھر ہم کھائیں گے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا معاز اللہ میں اس میں سے کیسے کھا سکتا ہوں جنہون نے یہ خوان منگایا ہے وہی اس میں سے تناول کریں گے۔ 

لیکن حواری خوان میں سے کھاتے ہوئے ڈر رہے تھے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے بستی کے اندر سے مریضانِ دائمی و لاعلاج مریض کوڑھی ،اندھے،مبروص اور بستی کے تمام کے تمام مریض طلب کئے اور انہیں دستر خوان سے کھانا کھلایا۔ اس دستر خوان کی برکت سے جو جو کھاتا گیا وہ شفا پاتا گیا اندھے بینا ہو گئے مبروص صحت یاب ہو گئے بیساکھی کے محتاج اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے
 
یہاں تک کہ اس دستر خوان سے تیرہ سو آدمیوں نے کھایا اور دستر کی برکت بہ اعجاز پروردگار قائم رہی اور کھانا کم نا ہوا پھر دوپہر کے بعد دسترخوان چلا گیا اور پھر چالیس روز برابر اسی طرح آتا رہا لیکن پھر کچھ امیر و دولت مند حواریوں کو شرارت سوجھی اور وہ کبر و نخوت پر آمادہ ہوئے اور لوگوں کو بہکانے لگے کہ یہ جادو ہے اس پر پروردگارعالم نے تین سو تینتیس لوگوں کو خنزیر بنا دیا وہ تین دن تک زندہ رہے اور نجاست کھاتے رہے اور پھر سب کے سب 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصے


حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ایک شاگرد کے ساتھ کسی سفر پر نکلے ، راستے میں ایک جگہ شاگرد سے پوچھا : تمہاری جیب میں کچھ ہے ؟ اس نے کہا : میرے پاس دو درہم ہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جیب سے ایک درہم اسے دیا اور فرمایا : یہ تین درہم ہو جائیں گے ، قریب کی آبادی سے ، روٹیاں لے آؤ ! وہ گیا اور تین روٹیاں لیں ، راستے میں سوچنے لگا کہ حضرت نے ایک درہم دیا اور دو درہم میرے تھے ، جبکہ روٹیاں تین ہیں ، آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھا ئیں گے تو آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی ، لہذا میں ایک روٹی پہلے ہی کھالوں ، چنانچہ اس نے ایک روٹی کھائی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا ۔ آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا : تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ؟ اس نے کہا : دو روٹیاں ، ایک آپ علیہ السلام نے کھائی اور ایک اس نے کھائی ۔حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام روانہ ہوئے تو ، راستے میں ایک دریا آیا ، شاگرد نے کہا : ہم دریا عبور کیسے کریں گئے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی بھی نظر نہیں آئی ؟ حضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : گھبراؤ مت ، میں آ گے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلنا ہم دریا پار کرلیں گے ۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا ، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے ۔ شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا : میری ہزاروں جانیں آپ علیہ السلام پر قربان ! آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! میرا دل نور سے بھر گیا ، پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : اگر تمہارا دل نورانی ہو چکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں ؟ اس نے کہا : حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں ۔ پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے چلے راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا ، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا ، وہ آپ کے پاس چلا آیا ، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا 

شاگرد کو بھی کھلا یا ۔ جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کی کھال پر ٹھوکر مارکر کہا : ' اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا ' ' ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جاملا ۔شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے۔حضرت نے فرمایا : یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ؟ شاگرد نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میرا ایمان - پہلے سے دو گنا ہو چکا ہے ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں ؟ شاگرد نے کہا : حضرت روٹیاں دو ہی تھیں ۔ دونوں چلتے گئے ، ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی تھیں ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام - نے فرمایا : ایک اینٹ میری اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی شاگرد جلدی سے بولا : حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی ۔ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لالچی شاگردکو چھوڑ دیا اور فرمایا : تینوں اینٹیں تم لے جاؤ ، اور وہاں سے ۔ روانہ ہو گئے ، لالچی شاگر دسوچنے لگا کہ ان اینٹوں کو گھر کیسے لے جائے ۔اس دوران تین ڈاکو گزرے ، انہوں نے اس  کے پاس سونے کی تین اینٹیں دیکھیں ، تو اسے قتل کر دیا اور آپس میں طے کر لیا کہ ہرشخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آئی ہے ۔ وہ بھوکے تھے ، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دیے اور کہا روٹیاں لے آؤ ، پھر ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے ، ۔ وہ روٹیاں لینے گیا تو دل میں سوچا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھی مر جائیں گے اور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی ۔ادھر دونوں ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کردیں  تو ہمارے حصے میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آ جائے گی ۔ جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو دونوں نے اسے قتل کر دیا ۔ پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر سے مرگئے ، واپسی میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تعارف

ویسی کی ویسی رکھی ہیں اور وہاں چار لاشیں بھی پڑی ہیں ، آپ علیہ السلام نے فرمایا : دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے

منگل، 18 اپریل، 2023

دنیا کی عظیم زمینی شاہراہ-شاہراہ ریشم

 

 

شاہراہ قراقرم (قومی شاہراہ 35 یا مختصراً این-35) پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔شاہراہ ریشم-گلگت سے کچھ پہلے پڑی کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہیں پر دریائے سندھ کے بالائی حصے کے کنارے چٹانوں کے طویل پہاڑی سلسلے پر اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے کندہ کاری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔خنجراب دنیا کے متعدد نایاب جانوروں کا مسکن ہے جن میں مارکوپولو، برفانی چیتے، بھیڑیں ، مارموٹ، پہاڑی ریچھ ، یاک ، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو    نیشنل پارک‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔شاہراہ قراقرم کا وجود انسانی تخلیق اور ہنر کا ایک لازوال نمونہ ہے اس وادی کے رنگ قدرت کی حسیں تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔ 

شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم میں بھی اہم شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی ، چین سے اجناس اور ریشم کی تجارت کے لئے یہ راستہ بھی استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ اس مناسبت سے اس شاہراہ کا نام   شاہراہ ریشم‘‘ پڑ گیا تھا۔ جب ذرائع آمدورفت میں تبدیلیاں آنے لگیں اور چین کی تجارت بحری رستوں سے بھی شروع ہوئی تو اس شاہراہ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد چین نے اس شاہراہ کی افادیت کو محسوس کرنا شروع کیا اور یوں پاکستان اور چین کی دوستی کے رشتے بڑھنا شروع ہوئی تو دونوں ملکوں نے یہ شاہراہ بنائی ۔3 مئی 1962 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1966 میں شروع ہوا۔شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گذر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔

عہدِ قدیم (Ancient Ages) کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم (انگریزی: Silk Road یا Silk route) کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گذر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔

مغرب سے شمالی چین کے تجارتی مراکز تک پھیلی یہ تجارتی گذر گاہیں سطح مرتفع تبت کے دونوں جانب شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہیں۔ شمالی راستہ بلغار قپپچاق علاقے سے گذرتا ہے اور چین کے شمال مغربی صوبے گانسو سے گذرنے کے بعد مزید تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں سے دو صحرائے ٹکلا مکان کے شمال اور جنوب سے گذرتے ہیں اور دوبارہ کاشغر پر آ کر ملتے ہیں جبکہ تیسرا راستہ تین شان کے پہاڑوں کے شمال سے طرفان اور الماتی سے گذرتا ہے۔

 

شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لیے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑ گیا تھا۔ جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہو گیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔

 اس کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، 1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100 فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا، پاکستان کی شمالی سرحد تک کا حصہ 1969ء میں مکمل ہوا ۔ تعمیر و توسیع کا کام 16 فروری 1971 ء کو دوبارہ شروع ہوا۔ شاہراہِ قراقرم پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے اور دُنیا کی بلند ترین پکی سڑک سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میں یہ سرکاری طور پر نیشنل ہائی وے 35 (N-35) اور چین میں یہ چین نیشنل ہائی وے 314 (G314) کے نام سے جانی جاتی ہے، چونکہ یہ قراقرم سلسلہ سے گزرتی ہے اس لیے یہ عام طور پر شاہراہِ قراقرم کے نام سے جانی جاتی ہے

شاہراہِ قراقرم کی کُل لمبائی تقریباً 1300 کلو میٹر ہے، جس میں سے 887 کلو میٹر پاکستان میں اور 413 کلو میٹر چین میں موجود ہے۔ یہ 85 پُلوں پر مشتمل ہے اور خنجراب پاس پر 4,693 میٹر کی حدِ اونچائی تک جا پہنچتی ہے۔ حسن ابدال شہر سے شروع ہوتے ہوئے، شاہراہ ِ قراقرم پامیر، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے۔یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ تقریباً 200 کلو میٹر تک سفر کرتی ہے اور یہ دونوں مل کے اُس مقام سے گزرتے ہیں جو ہمالیہ پہاڑوں کو قراقرم سلسلے سے الگ کرتا ہےشاہراہِ قراقرم دریائے سندھ کو چھوڑتے ہوئے اپنے راستے پر گلگت، ہُنزہ اور خنجراب دریاؤں کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ بالآخر یہ خنجراب پاس پہنچتی ہے ، پامیر سے اپنا راستہ بناتی ہے، اور آخر میں چین کے شہر کاشغر میں ختم ہو جاتی ہے۔

قراقرم ہائی وے جو دنیا کی 'بلند ترین پختہ سڑک' ہے۔ چین کے سرحدی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ خنجراب پاس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی حسن ابدال میں جی ٹی روڈ سے لنک ہو جاتی ہے-سڑکوں اور ہائی ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے طور طریقوں کے مطابق چلتا تھا۔گلگت بلتستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو چین سے زمینی راستے کے ذریعے جوڑنے کا خیال سنہ 1956 سے سنہ 1958 تک پاکستان میں چین کے سفیر تعینات رہنے والے جنرل چینگ بایئو کا تھا، جس پر سنہ 1963 میں دونوں ملکوں میں اعلیٰ سطحی بات چیت ہوئی۔

اس شاہراہ کی منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک ہر قدم ایک چیلنج تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے حال ہی میں اس شاہراہ کی تعمیر سے متعلق ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں اس دور کے کچھ نایاب مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔شاہراہ قراقرم کا منصوبہ تشکیل دینے پر کام شروع ہوا تو انتہائی مشکل علاقے ہونے کے باعث یہ ذمہ داری فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کے حصے میں آئی۔سنہ 1965 کی جنگ کے بعد جب پاکستانی فوج کے اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف چین کی جانب سے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی اور تعاون کے لیے شکریہ ادا کرنے گئے تو اس وقت چین کے صدر نے بھی ان الفاظ میں ایک شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کیا تھا کہ ’اگر پاکستان اور چین کے درمیان ایک بہتر زمینی راستہ ہوتا تو یہ امداد بہتر انداز میں پہنچ سکتی تھی۔‘

جاوداں شاعرمحسن نقوی

 

 

دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک وقت آنے پر مر جانا ہے لیکن محسن نقوی وہ فرد واحد ہیں جو مر کے جی اٹھے ہیں اور یہ جاوداں مرتبہ ان کو کربلا کی شاعری نے دیا  -ہےمحسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔ ان کی تصانیف میں بند قب اِ، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق ایلیا، رخت شب ،ریزہ حرف ، موج ادراک اور دیگر شامل ہیں۔ محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر

 نمایاں تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن

 نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں اِک ”عکس“

 تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ محسن کی نثر جو اُن کے شعری مجموعوں کے

 دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چکی ہے بلا شبہ تخلیق تحریروں کی صفِ اوّل میں شمار کی جا سکتی ہے

۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنفِ سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں۔ اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی

 طرح بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا۔ مذہبی نوعیت کے قطعات ” میراثِ محسن ” میں پہلے ہی درج کیے

 جا چکے ہیں۔ محسن نے اخبارات کے لیے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والا بہر حال محسن تھا - 1994ء میں حکومت پاکستان نے انہیں

 صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ محسن نقوی شاعر اہلِ بیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے ۔ اردو غزل کو ہر دور کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا

 کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔

 محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انہوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ

 اہل بیت سے منسوب ہے۔ انہوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ

 صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔ محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا ان

 کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری صرف الف- لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ

 انہوں نے دینا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔

 ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔ اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر محسن نقوی نے کالعدم

 تحریکِ طالبان،سپاہ صحابہ اور اس کی ذیلی شاخوں کو اپنی شاعری کے ذریعے بے نقاب کرناشروع کیا تو پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ہر حق گو کا مقدر ہے۔ اردو ادب کا یہ دمکتا

 چراغ 15 جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ

 زندہ رہے گی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو

 شہادت سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ سفر تو خیر کٹ گیا میں کرچیوں میں بٹ گیا۔ محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی

 دونوں پہلو شامل تھے۔ ان کی پہچان اہلبیتِ محمدؐکی شان میں کی گئی شاعری بنی۔

شعر و ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام محسن نقوی 5 مئی 1947ء میں سید چراغ حسین شاہ کے ہاں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔والدین نے ان کا نام غلام عباس رکھا ۔ ان کا تعلق ایک عام اور کم آمدنی والے گھرانے سے تھا۔ ان کے والدپہلے لکڑی کا کام اور بعد ازاں ایک ہوٹل پر کام کرتے تھے۔ محسن نقوی کے چھ بہن بھائی تھے۔ پرائمری تعلیم گھر کے قریب واقع پرائمری سکول نمبر 6 میں حاصل کی۔میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1جب کہ ایف اے اوربی اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے کیا۔ایم اے گورنمنٹ کالج بوسن روڈملتان سے کیا۔نامور شاعر پروفیسر اسلم انصاری محسن نقوی کے اُستاد تھے۔ غلام عباس نے آٹھویں جماعت میں شاعری کا آغاز کیا تو اپنا قلمی نام محسن نقوی رکھ لیا۔ ڈیرہ غازی خان میں شفقت کاظمی، عبد الحمید عدم اور کیف انصاری جیسے غزل گو شعراء سے رہنمائی حاصل کی ۔علامہ شفقت کاظمی کا شمار مولانا حسرت موہانی کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ابتدائی زمانے میں ہی محسن نقوی کی شاعری نے ہم عصروں کو متوجہ کیا۔محسن نقوی نے کسی سے باقاعدہ اصلاح تو نہ لی مگر علامہ شفقت کاظمی کو اپنا منہ بولا استاد ضرور کہتے تھے۔ ملتان آنے کے بعد انہیں انواراحمد، عبدالرئو ف شیخ، فخر بلوچ ، صلاح الدین حیدر اور اصغرندیم سید جیسے دوستوں کی صحبت نصیب ہوئی ۔ یہ ان سب کے طالب علمی کازمانہ تھا۔ملتان کی ادبی،ثقافتی وسیاسی زندگی میں بہت تحرک تھا۔جلد ہی گھنگھریالے بالوں والا اور قہقہے بکھیرنے والا نوجوان محسن نقوی ملتان کی ادبی محفلوں کی جان بن گیا۔ محسن نقوی نے 1969ء میں ڈیرہ غازی خاں کے ہفت روزہ’’ہلال‘‘ میںاور ملتان میں روزنامہ ’’امروز ‘‘ کے لیے باقاعدہ ہفتہ وار قطعات اور کالم بھی لکھے ۔ 1970ء میں ملک میں سیاسی گہما گہمی کا دَور تھا۔ترقی پسند سوچ رکھنے والے دیگر دانشوروں کی طرح محسن نقوی بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری سانس تک برقرار رہی۔اسی زمانے میں محسن نقوی نے ’’بندِ قبا‘‘کے نام سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ متعدد شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔جن میں عذابِ دید ، خیمہ ٔ جاں ، برگِ صحرا ، موجِ ادراک ، طُلوعِ اشک ، فُراتِ فکر ، ریزۂ حرف ، رخت ِ شب ، رِدائے خواب اور حق ایلیا شامل ہیں ۔ محسن نقوی کو اقبالِ ثانی کا خطاب بھی ملا۔ 1980ء میں محسن نقوی لاہورچلے گئے ۔لاہور کے ادبی مراکز میں انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے وسیع مواقع میسر آئے۔محسن کی غزلیں اور نظمیںکافی مقبول ہوئیں اور وہ نئی نسل کے پسندیدہ شاعر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔اُس دور میں احمد ندیم قاسمی سے لیکر شہزاد احمد تک کئی نامور اُستاد شعرا موجود تھے۔محسن نقوی نے ان سب کی موجودگی میں اپنے منفرد اسلوب اور لب و لہجے کی بدولت اپنی پہچان کرائی۔غزل کے ساتھ ساتھ نظم اور رثائی ادب میں بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔’’دسمبر مجھے راس آتانہیں‘‘سمیت ان کی کئی نظمیں آج بھی ہرخاص وعام میں مقبول ہیں۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَورِ حکومت میں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ غلام عباس المعروف محسن نقوی کو 15جنوری 1996ء میں اقبال ٹائو ن کی بارونق مون مارکیٹ لاہور میں قتل کر دیا گیا۔محبت اور امن کا شاعر نفرت اور دہشت گردی کا نشانہ بن کر اپنے ہی ایک شعر کی عملی تصویر بن گیا۔ ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے  محسن نقوی کا نمازِ جنازہ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے ناصر باغ لاہور میں پڑھائی۔ بعد ازاں اُردو کے عظیم شاعر محسن نقوی کواُن کے آبائی گاؤں ڈیرہ غازی خان میںسپردِ خاک کر دیا گیا ۔ ٭ محسن مکمل عصری شعور کے ساتھ شعر کہتے تھے ۔ معاشرتی اُتار چڑھائو بھی ان کی شاعری کا اہم موضوع تھا۔محسن نقوی کو شاعرِ اہلِ بیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ کربلا کے بارے میں ان کی شاعری کو پورے پاکستان میںایک مقبولیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کوہر جگہ قبول کیا جاتا ہے اور بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ محسن نقوی نے شعری مجموعہ ’’ردائے خواب‘‘ کے دیباچے میںاپنی شاعری کا مرکزی نکتہ محبت اور امن کو قرار دیاہے ۔ بقول محسن نقوی:  ’’زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں جی بھر کے محبت کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی خدا جانے لوگ نفرت کے لئے وقت کہاں سے بچا لیتے ہیں‘‘۔ محسن کی شاعری میں صرف پیار و محبت اور لب و رُخسار کی باتیں شامل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کے ان حکمرانوں کے خلاف بھی لکھا تھا جو اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے۔محسن نقوی نے فلم ’’بازاِ حسن‘‘ کے لیے ایک گیت ’’لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے‘‘ لکھا اور بہترین فلمی گیت نگار کا ایوارڈحاصل کیا ۔ محسن نقوی نے شعرو ادب سے وابستہ رہ کر اُردو غزل میں ایک منفرد پہچان بنائی ۔انہوں نے فنی زندگی میں بامعنی شاعری لکھ کر خوب داد و تحسین حاصل کی۔ محسن کو اپنی شاعری کے ذریعے زبردست پذیرائی ملی جو اکثر واقعات کربلا کے گرد گھومتی تھی جس نے انہیں دنیا بھر میں شہرت ملی ۔  جداگانہ اُسلوب کے حامل محسن نقوی  ہمیشہ اپنی شاعری میں سیاست اور مذہب پر بات کرتے اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور کارکردگی پر بات کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ ان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی شاعری میں محبت کے معاملات پر قائم رہنے کے بجائے تنوع دکھانا تھا۔درحقیقت وہ ان حیرت انگیز شاعروں میں سے ایک تھے جو یہ دنیا ہر نسل میں پیدا نہیں کرتی۔محسن نقوی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں : ک تھے جو یہ دنیا ہر نسل میں پیدا نہیں کرتی۔محسن نقوی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں : اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر ٭ جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا -اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا ٭ 

پیر، 17 اپریل، 2023

سوہنی مہینوال کی المیہ رومانی داستان

 

 

کہا جاتا ہے کہ یہ مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد کی بات ہے۔ دریائے چناب کے کنارے آباد شہر گجرات ظروف سازی کے حوالے سے منفرد مقام و شہرت رکھتا تھا۔ دریاوں کے کناروں پر چکنی مٹی کی وافر مقدار نے ظروف سازوں کو ہمیشہ اپنے ہی رکھا۔اس دور میں گجرات کے ایک ظروف ساز کمہار عبداللہ المعروف” تلا ” کی کوزہ گری کا ڈنکا خوب بجتا تھا۔اس کے فنی کمالات کی بدولت اس کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور وہ شہر کا دولتمند کاروباری شخص تھا۔ شہرت اور دولت کے ساتھ ساتھ قدرت نے اسے ایک خوبصورت بیٹی کی نعمت سے بھی نواز رکھا تھا۔ اس کا نام ہی سوہنی تھا۔ وہ نام کی ہی سوہنی نہیں تھی بلکہ پْرکشش حْسن و جمال کا پیکر تھی۔اس کی خوبصورتی کے چرچے بھی زبان زد عام تھے۔

اسی زمانے میں ازبکستان کے شہر بلخ بخارا میں ایک تاجر مرزا عالی نامی بہت دولتمند تھا۔ اس کے پاس سب کچھ تھا لیکن وہ اولاد کی رحمت سے محروم تھا۔ ایک درویش بزرگ کی دعا سے اس کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ منت مراد کے حاصل اس خوبرو بچے کی پرورش بڑے ناز و پیار سے کی گئی۔ اچھی تربیت کے سبب یہ نوجوان بڑا ہنر مند, مشاق تیرانداز, اور موسیقی سے خصوصی رغبت رکھنے والا تھا۔ مرزا عالی اپنے بیٹے مرزا عزت بیگ کو سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا۔ عزت بیگ بڑا ہوا تو اس نے دہلی کی شہرت سن کر والد سے درخواست کی کہ وہ اپنے تجارتی قافلے کے ہمراہ جا کر دہلی دیکھنا چاہتا ہے۔

والد نے بیٹے کو بھیجنے سے پس و پیش سے کام لیا لیکن اس کے اصرار پر اجازت دینا ہی پڑی۔ مرزا عزت بیگ اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ دلی آیا ,شاہی دربار سمیت شہر دیکھا۔بڑے تاجر کا بیٹا ہونے کے ناطے اسے بہت عزت اور احترام ملا۔دلی کے بعد اس نے قافلے کے ہمراہ دوسرے مشہور شہر دیکھنے کا بھی پروگرام بنایا۔اس طرح وہ لاہور دیکھنے پہنچا اور واپسی پر تھا کہ ایک شہر کے کنارے اسے شام ہو گئی تو قافلے نے دریائے چناب کے پاس پڑاوء کیا۔ قافلے والے تاجر ساتھیوں نے اسے بتایا کہ یہ چھوٹا مگر ظروف سازی کے حوالے سے مشہور شہر گجرات ہے اور یہاں کے تلا کمہار کے برتن ہندوستان اور ہندوستان سے باہر بھی مشہور ہیں

ساتھ ہی اس کی بیٹی سوہنی کے حسن و جمال کا بھی بڑا ذکر کیا۔اس سے عزت بیگ کو سوہنی کو دیکھنے کا تجسس ہوا۔ اگلی صبح وہ برتنوں کی خریداری کے لیے تلے کمہار کی دکان پر پہنچا اور برتن دیکھنے لگا۔ اسے برتنوں سے کوئی دلچسپی تھی نہیں , عبداللہ کمہار کی صنعت گری کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا تھا۔وہ تو سوہنی کو دیکھنے آیا تھا اور سوہنی وہاں تھی ہی نہیں۔ تھوڑی دیر بعد اچانک گھر والی طرف سے سوہنی بھی دکان پر آگئی۔ عزت بیگ نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔سوہنی اسے برتن دکھانے لگی۔ مگر عزت بیگ تو پہلی نظر میں ہی اپنا دل ہار بیٹھا تھا

یہ پہلی نظر کی محبت بھی عجیب چیز ہے۔سائنس اور طب کی آج تک کی ساری جدید تحقیق بھی پہلی نظر کی محبت کا علاج یا تریاق دریافت نہیں کر سکی۔ عزت بیگ سوہنی پر فریفتہ ہو گیا۔ چناب کے زرخیز کنارے ,اودھے نگری کی عشق خیز سرزمین پر محبت کا بیج ایک ہی ساعت میں لگا, اْگا ,اور پھل پھول گیا۔ عزت بیگ یہیں کا ہو کر رہ گیا .مال و اسباب کی فراوانی تھی چنانچہ اس نے دیدار یار کے لیے روزانہ کی بنیاد پر برتنوں کی خریداری شروع کر دی۔ جب ان کے پاس برتن کافی ہو گئے اور رکھنے کی جگہ نہیں رہی تو اس نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ ان کا کیا کیا جائے۔ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ انہیں فروخت کر دیتے ہیں۔

عزت بیگ کو بات پسند آئی اس نے بازار میں , تلا کمہار کی دُکان سے ذرا دور اپنی دکان لگا لی اور مہنگے داموں برتن  خرید کر انہیں سستے داموں بیچ دیا جاتا۔ آہستہ آہستہ ان کے پاس پیسے ختم ہونے لگےتو ایککمہار نے اسے رہنے کی جگہبھی دیاور گھریلو کام کاج کے لیے رکھ لیا اور پھر اسے بھینسیں چرانے کا کام دے دیا۔ پنجاب میں بھینسوں کو ’مہیں‘ کہتے ہیں اس لیے بھینسیں چرانے پر اسے مہینوال کہا جانے لگا یعنی بھینسیں چرانے والا۔ اسی دوران سوہنی کو بھی پوری طرح معلوم ہو گیا کہ عزت بیگ کی یہ حالت اس کی وجہ سے ہوئی ہے۔وہ اسکی تباہ حالی اور خستگی دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئی اور تڑپ کر رہ گئی۔لیکن سوہنی نے بالآخر مہینوال سےملاقات کا راستہ ڈھونڈ نکالا-

 سوہنی کے گھر والوں تک پہنچیں تو انہوں نے مہینوال کو نوکری سے نکال دیا اور سوہنی پر بھی سختی کر دی۔ عزت بیگ نوکری سے فارغ ہوا لیکن دل تو وہیں رہ گیا۔ چنانچہ وہ دریا کے دوسرے کنارے پر فقیر بن کر بیٹھ گیااور ارتوں کو سوہنی اس سے ملنے کے لئے آنے لگی لیکن ایک رات اس کا کچّا گھڑا دریا میں ڈالتے ہی ٹوٹ گیا اور سوہنی مہینوال کو آوازیں دیتے دیتے ڈوب گئ دوسری جانب مہینوال سوہنی کا منتظر تھا جب سوہنی نہیں آئ تو بھی دریا کے پانی اسے آوازیں دیتے ہوئے ڈوب گیا اور یہ لوک کہانی امر ہو گئ -کہا جاتا ہےکا کہنا ہے کہ رالیالہ گاوں کے قریب ہی سوہنی مہینوال ملتے تھے۔اس روز ڈوبتے وقت سوہنی نے رالیالہ کے لوگوں کو بد دعا دی تھی شاید اسی لیے آنے والے دنوں میں یہ گاوں دریا برد ہوگیا۔ لوگوں کے مطابق اب صرف اس کا نام باقی رہ گیا ہے۔رالیالہ اس وقت کی انتظامی تقسیم کے مطابق ٹپہ جیوا وڑائچ کا حصہ تھا۔جس میں اس وقت 18 دیہات شامل تھے۔

لوگ پوچھتے ہیں ان کی لاشیں کدھر گئیں ؟ کہا جا سکتا ہے کہ چناب کا بہاوء سوہنی مہینوال کی اجتماعی قبر بن گیا۔ تاہم اس حوالے سے بھی کئی روایات ہیں۔ پنجاب کے دریا ایک مقام پر دریائے سندھ میں ملتے ہیں اس لیے گمان یہی ہے کہ گہرے پانی کی تیز لہریں انہیں بہاتے ہوئے سندھ لے گئیں۔ سندھ کے شہر شہداد پور میں دو لاشیں پانی میں بہتی ہوئی ملیں جنہیں ایک بیان کے مطابق کچھ لوگوں کی شناخت کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔ایک روایت کے مطابق دونوں کو اکٹھے ایک ہی جگہ دفن کیا گیا لیکن یہ روایت ہماری تہذیبی اور ثقافتی روایات سے متصادم ہے اس لیے شہداد پور میں الگ الگ مقام پر دو قبریں ہیں۔

اتوار، 16 اپریل، 2023

کراچی کی قدیم مادرعلمی سندھ مدرسۃ الاسلام

 

 

۔ اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد گورنر ووائسرائے آف سندھ لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا

سندھ مدرسے نامور طلبہ میں قائد اعظم محمد علی جناح، سرعبداللہ ہارون، سر شاہنواز بھٹو، سر غلام حسین ہدایت اللہ خان، خان بہادر محمد، ایوب کھوڑو، شیخ عبدالمجید سندھی، علامہ آئی آئی قاضی، محمد ہاشم گزدر، غضنفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ، محمد ابراہیم جویو، جسٹس سجاد علی شاہ، قاضی محمد عیسی، رسول بخش پلیجو، اے کے بروہی، علی احمد بروہی، پیرالٰہی بخش، میر غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، غلام محمد بھر گڑی، علامہ علی خان ابڑو، جی الانہ، حکیم محمد احسن، موسیقار، سہیل رعنا، فلمسٹار ندیم، قومی ترانے کی دھن کے خالق احمد علی چھاگلہ، میران محمد شاہ، قاضی فضل اللہ، لٹل ماسٹر، حنیف محمد اور بے شمار اہل علم شعرا، ادبا، وکلا، سیاست دانوں نے یہاں سے استفادہ کیا۔ اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد گورنر ووائسرائے آف سندھ لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا

1887ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے دو سال بعد قائد اعظم ؒمحمد علی جناح نے اس مادر علمی میں داخلہ لیا۔ آپ 1887ء سے 1897ء تقریباً ساڑھے چار سال اس ادارے سے وابستہ رہے۔ قائد اعظم کو اپنی مادر علمی سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے اپنی وصیت میں اپنی جائداد کا ایک تہائی حصہ اس ادارے کے نام کر دیا تھا۔ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے21 جون 1943ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام کالج کا قیام عمل میں آیا، جس کا افتتاح قائد اعظم نے اپنے دست مبارک سے کیا۔

اگر ہم کراچی کی سندھ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سی شخصیات ایسی نظر آئیں گی جنہوں نے سندھ میں علم و ادب اور تہذیب ثقافت کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اپنی زندگیاں آنے والی نسل کے لئے وقف کردیں، ان میں،حسن علی آفندی، نارائن جگن ناتھ واڈیا ، دیا رام جیٹھ مل ، جمشید نسروانجی مہتا، ہوشنگ نادر شاہ ادولجی ڈنشا، بابائے اردو مولوی عبدالحق ،ایم اے قریشی، حکیم محمد سعید ، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، پیر حسام الدین راشدی، علامہ غلام مصطفی قاسمی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، انیتا غلام اور دیگر شامل ہیں تعلیم کے میدان میں ایک تعلیمی ادارہ یکم ستمبر 1885 ء کو، سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں قائم کیا گیا، اس کو قائم کرنے کا مقصد مسلمانوں کے بچوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔

اس کا نام سندھ مدرستہ الاسلام رکھا گیا، یہ عمارت کراچی کے مصروف ترین کاروباری علاقے میں واقع ہے، ایک جانب آئی آئی چندریگر روڈ جبکہ دوسری جانب شاہراہ لیاقت ہے۔ آئی آئی چندریگر روڈ کی جانب سے اگر سندھ مدرسے کی جانب آیا جائے تو حبیب بینک پلازہ کے عقب میں کراچی چیمبر آف کامرس کراچی کی تاریخی عمارت کے بالمقابل ہے، اس عمارت کے اطراف میں سٹی ریلوے اسٹیشن ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان اسٹاک ایکسچینج، نیشنل بینک آف پاکستان کا ہیڈ آفس اور میریدور ٹاور موجود ہے، اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد گورنر جنرل ووائسرائے آف انڈیا، لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا۔

یہ عمارت گوتھک طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے جس کا ڈیزائن کراچی میونسپلٹی کے انجینئر جیمس اسٹریجن نے بنایا تھا۔ سندھ مدرسے کی دوسری قدیم عمارت حسن علی آفندی لائبریری ہے۔ یہ عمارت 19ویں صدی کے آخری دنوں میں خیر پور ریاست کے ٹالپر حکمرانوں کی مالی معاونت سے پرنسپل ہائوس کے طور پر تیار کی گئی تھی۔ 1985ء میں اس عمارت کو لائبریری میں تبدیل کیا گیا تھا، آج اس لائبریری میں 20 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں، جن میں ایک صدی قدیم کتابیں بھی شامل ہیں۔ سندھ مدرسے کی ایک اور خوبصورت عمارت تالپور ہائوس ہے جو ،جدید اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔

یہ عمارت بھی سندھ کے سابق ٹالپر حکمرانوں کی مالی اعانت سے جولائی 1901ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ ابتداء میں ٹالپر ہائوس سندھ مدرسے میں ٹالپر حکمرانوں کے زیر تعلیم بچوں کے لئے بورڈنگ ہائوس کے طور پر زیر استعمال تھا۔ قائداعظم اور دیگر شخصیات جو سندھ مدرسے سے وابستہ رہیں ان کے استعمال کی اشیاء اور نوادرات کیلئے جناح میوزیم بھی ہے۔ اس ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1887 ء سے 1892 ء تک اس ادارے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،1887ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے دو سال بعد قائداعظم ؒمحمد علی جناح نے اس مادر علمی میں داخلہ لیا۔ آپ ساڑھے چار سال اس ادارے میں رہے۔ قائداعظم کو اپنی مادر علمی سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے وصیت میں اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ اس ادارے کے نام کر دیا تھا۔سندھ مدرستہ الاسلام کی شاندار خدمات کے اعتراف میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ، یونیورسٹی کے قیام کا بل دسمبر 2011 ء میں سندھ اسمبلی سے منظور ہوا اور 21 فروری 2012 ء کو اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کا چارٹر منظور کیا اور یونیورسٹی کے قیام سے ایک صدی پرانے خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ 2012 ء میں ہی پہلے تعلیمی سیشن کا آغاز ہوا، مدرستہ الاسلام کا پہلا کیمپس کے طور پر ملیر کیمپس کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے اور اس کے لئے سو ایکڑ زمین سندھ کی صوبائی حکومت نے بلامعاوضہ فراہم کی ہے، یہ تاریخی درس گاہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اور مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

اس کے شاندار ماضی کے سبب معروف ماہر تعلیم اور سندھ مدرستہ الاسلام کے سابق طالب علم غلام محمد مصطفی شاہ نے سندھ مدرستہ الاسلام کو طفل سندھ اور مادر پاکستان قرار دیا۔ آزادی کے رہنمائوں کے علاوہ سندھ مدرستہ الاسلام نے شاندار ماہر تعلیم ، قانون داں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد بھی پیدا کی، جن میں علامہ آئی آئی قاضی، علامہ عمر بن دائود پوتہ، اے کے بروہی، علی احمد بروہی، لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد اور دیگر شامل ہیں ،جنہوں نے اس ادارےکی ترقی میں مزید اضافہ کیا

ہفتہ، 15 اپریل، 2023

مفت آٹے کی تقسیم میں بھگدڑ

  

ساہیوال کے قائد اعظم اسٹیڈیم میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2 خواتین جاں بحق جب کہ 45 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ 19 زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ٹیچنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری اور ضلع انتظامیہ وہاں پہنچ گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق واقعہ ناقص انتظامات کے باعث پیش آیا ہے۔

بھگدڑ مچنے اور خواتین کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے آٹے کی فراہمی روک دی جس پر وہاں آنے والی خواتین نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہماری مائیں اور بہنیں مرگئیں مگر پھر بھی آٹا نہیں دیا جا رہا ہے۔ آج یہاں سے آٹا لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ دوسری جانب اس حوالے سے کمشنر ساہیوال کا کہنا ہے کہ ایپ بند ہونے کے باعث آٹے کی ترسیل کو روکا گیا ہے۔جہانیاں میں بھی مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے ایک بزرگ خاتون جاں بحق جب کہ دو خواتین بے ہوش ہوگئیں۔ مرنے والی خاتون کی شناخت رشیداں بی بی کے نام سے ہوئی ہے۔ خاتون کی ہلاکت کے بعد افسران آٹا پوائنٹ سےغائب ہو گئے۔

ٹبہ سلطان پور میں شدید بدنظمی اور بھگدڑ مچنے سے 4 خواتین بے ہوش ہوگئیں جب کہ سیکیورٹی نہ ہونے پر انتظامیہ آٹے کی فراہمی بند کرکے فرار ہوگئی۔ آٹا نہ ملنے پر دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں احتجاج کیا۔سرائےعالمگیر میں بزرگ خاتون رش کے باعث گر کر زخمی ہوگئی، بہاولنگر میں ڈونگہ بونگا بنگلہ سینٹر پر آٹا پوائنٹ پر بدنظمی کے باعث تین خواتین بے ہوش ہوگئیں شہریون نے آٹا فراہمی کی بندش پر شدید احتجاج کیا اور دھرنا دے کر مین ہائی وے ہارون آباد روڈ بلاک کر دیا۔ 

ساہیوال کے قائد اعظم اسٹیڈیم میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2 خواتین جاں بحق جب کہ 45 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ 19 زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ٹیچنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری اور ضلع انتظامیہ وہاں پہنچ گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق واقعہ ناقص انتظامات کے باعث پیش آیا ہے۔

بھگدڑ مچنے اور خواتین کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے آٹے کی فراہمی روک دی جس پر وہاں آنے والی خواتین نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہماری مائیں اور بہنیں مرگئیں مگر پھر بھی آٹا نہیں دیا جا رہا ہے۔ آج یہاں سے آٹا لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ دوسری جانب اس حوالے سے کمشنر ساہیوال کا کہنا ہے کہ ایپ بند ہونے کے باعث آٹے کی ترسیل کو روکا گیا ہے۔ 

جہانیاں میں بھی مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے ایک بزرگ خاتون جاں بحق جب کہ دو خواتین بے ہوش ہوگئیں۔ مرنے والی خاتون کی شناخت رشیداں بی بی کے نام سے ہوئی ہے۔ خاتون کی ہلاکت کے بعد افسران آٹا پوائنٹ سےغائب ہو گئے۔ٹبہ سلطان پور میں شدید بدنظمی اور بھگدڑ مچنے سے 4 خواتین بے ہوش ہوگئیں جب کہ سیکیورٹی نہ ہونے پر انتظامیہ آٹے کی فراہمی بند کرکے فرار ہوگئی۔ آٹا نہ ملنے پر دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں احتجاج کیا۔

سرائےعالمگیر میں بزرگ خاتون رش کے باعث گر کر زخمی ہوگئی، بہاولنگر میں ڈونگہ بونگا بنگلہ سینٹر پر آٹا پوائنٹ پر بدنظمی کے باعث تین خواتین بے ہوش ہوگئیں شہریون نے آٹا فراہمی کی بندش پر شدید احتجاج کیا اور دھرنا دے کر مین ہائی وے ہارون آباد روڈ بلاک کر دیا۔خانیوال میں لائیواسٹاک دفتر میں قائم مفت آٹا پوائنٹ پر شدید بدنظمی اور بھگدڑ کے نتیجے میں 60 افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں خواتین اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

حاصل پور میں آٹا سیل پوائنٹ پر مفت آٹا لینے کے لیے آنے والے شہریوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ دھکم پیل کے باعث عیدگاہ آٹا پوائنٹ کی دیوار گرگئی جب کہ بدنظمی کی وجہ سے ایک خاتون بیہوش ہوگئی۔ چیچہ وطنی میں  بھی مشتعل خواتین نے آٹا نہ ملنے پر بائی پاس روڈ بلاک کر دیا اور پولیس پر تشدد کا الزام لگایا۔ لیاقت پور میںض مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے 73 سالہ بزرگ محمد انور کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔اس کے علاوہ ٹانک، دیپالپور، قائد آباد، بصیر پور، شجاع آباد ودیگر علاقوں میں بھگدڑ مچنے سے درجنوں خواتین زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔

خانیوال میں لائیواسٹاک دفتر میں قائم مفت آٹا پوائنٹ پر شدید بدنظمی اور بھگدڑ کے نتیجے میں 60 افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں خواتین اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

حاصل پور میں آٹا سیل پوائنٹ پر مفت آٹا لینے کے لیے آنے والے شہریوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ دھکم پیل کے باعث عیدگاہ آٹا پوائنٹ کی دیوار گرگئی جب کہ بدنظمی کی وجہ سے ایک خاتون بیہوش ہوگئی۔ چیچہ وطنی میں  بھی مشتعل خواتین نے آٹا نہ ملنے پر بائی پاس روڈ بلاک کر دیا اور پولیس پر تشدد کا الزام لگایا۔ لیاقت پور میںض مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے 73 سالہ بزرگ محمد انور کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

اس کے علاوہ ٹانک، دیپالپور، قائد آباد، بصیر پور، شجاع آباد ودیگر علاقوں میں بھگدڑ مچنے سے درجنوں خواتین زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔درخواست میں کہا گیا کہ حکومت نے مفت آٹے کی تقسیم کا طریقہ کار انتہاٸی ناقص ہے جس کی وجہ سے عوام میں پریشانی کے باعث بھگدڑ مچ جاتی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ تقسیم کے ناقص طریقہ کار پر ذمہ داروں کے خلاف کاررواٸی کا حکم دیا جائے جبکہ آٹے کا معیار بھی عالمی لیب سے چیک کروانے کی استدعا کی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچ گئی تھی جس کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔اندوہناک واقعہ کراچی کے علاقے سائٹ ایریا میں واقع فیکٹری میں پیش آیا تھا جہاں راشن کی تقسیم کی جارہی تھی، تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 3 بچوں اور خواتین سمیت 11 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ متعدد خواتین بے ہوش ہوگئیں۔

سورج اور چاند زمین کے مدار میں

 

مکمل سورج گرہن

مکمل سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند زمین اور سورج کے درمیان میں آجائے لیکن کچھ اس طرح کہ چاند کا زمین سے فاصلہ اتنا ہو کہ وہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لے، مکمل سورج گرہن میں چاند سورج کا 'روشن کرّہ' یعنی فوٹو سفئیر ڈھانپ لیتا ہے لیکن سورج کی فضا، جسے "کورونا" کہا جاتا ہے، نظر آنے لگتی ہے جو کہ ایک دلکش منظر ہوتا ہے کیونکہ روشن کرّے کی موجودگی میں کورونا کو دیکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، کورونا ہی وہ جگہ ہے جہاں سورج کے دھماکے ہوتے ہیں اور پلازما سورج کے اطراف میں پھیل جاتا ہے۔ مکمل سورج گرہن میں سورج کو چاند کے مکمل ڈھانپنے کو ہی مثال بنا کر شمسی سائنسدان بھی جب تحقیق کے لیے سورج کی تصویر لیتے ہیں تو سورج کے روشن کرّے کو اسی طرح ڈھانپ کر اس کی فضا کی جانچ کرتے ہیں۔

جزوی سورج گرہن جزوی سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب پورا چاند زمین اور سورج کے مدار کی سیدھ میں نہ ہو، اس وجہ سے جب چاند سورج کے سامنے سے گزرتا ہے تو چاند کا کچھ حصّہ ہی سورج کو ڈھانپتا ہے۔حلقہ نما سورج گرہن

حلقہ نما سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان میں تو آجائے لیکن اپنے مدار کے اس مقام پر چاند کا زمین سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے زمینی باشندوں کے لیے چاند مکمل طور پر سورج کے روشن کرے کو ڈھانپ نہ پائے، اس کے نتیجے میں سورج کا درمیانی حصّہ چھپ جاتا ہے جبکہ اطراف میں روشن حلقہ بن جاتا ہے۔کراچی: سورج اور چاند گرہن کیوں ہوتا ہے اور اس سلسلے میں سائنس کیا کہتی ہے اس بات سے شاید کم ہی لوگ واقف ہوں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ چاند اور سورج کو گرہن کب اور کن وجوہات کی بنا پر لگتا ہے۔

سورج گرہن کی تاریخ

سورج گرہن کو قدیم و جدید مذاہب میں خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھا جاتا ہے جب کہ بعض مذاہب میں اسے منحوس بھی سمجھا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک سورج کا گرہن لگنا اللہ کی بندوں سے ناراضی کی نشانی ہے۔اسلام میں سورج گرہن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’’سورج اور چاند اللہ کے متعین کردہ راستے پر چل رہے ہیں اور گردش میں ہیں‘‘۔ سائنسی حقیقت میں بھی اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ سورج اور چاند زمین کے گرد اپنے اپنے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔

سورج / چاند گرہن میں اسلامی احکامات

سورج گرہن کے وقت اللہ کے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ’’صلوۃ کسوف‘‘ ادا کرو جس کا اردو ترجمہ ’’نمازِ خوف‘‘ کے ہیں جب کہ چاند گرہن کے وقت کسی بھی خاص عبادت کا حکم نہیں دیا گیا۔سورج گرہن کب ہوتا ہے؟

زمین پر سورج گرہن اُس وقت ہوتا ہے جب چاند گردش کے دوران سورج اور زمین کے درمیان میں آجاتا ہے، جس کے بعد زمین سے سورج کا کچھ یا پھر پورا حصہ نظر نہیں آتا۔چاند کا زمین سے جتنی مسافت کا راستہ ہے اُس سے 400 گنا زیادہ راستہ سورج اور چاند کے درمیان ہے اس لیے زمین سے سورج گرہن واضح طور پر نہیں دیکھا جاتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سورج گرہن کو پوری دنیا میں دیکھا جاسکے۔

سائنسدان سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے دور دراز سے سفر طے کرکے گرہن زدہ خطے میں جاتے ہیں کیونکہ مکمل سورج گرہن ایک علاقے میں تقریباً 370 سال بعد دوبارہ آسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ 7 منٹ چالیس 40 تک برقرار رہتا ہے، البتہ جزوی سورج گرہن کو سال میں کئی بار دیکھا جا سکتا ہے۔

زمین کو مکمل سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند کا فاصلہ زمین سے اتنا ہو کہ جب وہ سورج کے سامنے آئے تو سورج مکمل طور پر چھپ جائے چونکہ چاند اور زمین کے مدار بیضوی ہیں اس لیے کے مدار چاند کا زمین سے فاصلہ بدلتا رہتا ہے اس لیے ہر دفعہ مکمل سورج گرہن نہیں لگتا۔مکمل سورج گرہن کے وقت چاند کا فاصلہ زمین سے نسبتاً کم ہوتا ہے، سورج کے مکمل چھپ جانے کی وجہ سے خطے میں نیم اندھیرا ہو جاتا ہے اور دن کے وقت ستارے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں مگر یہ گرہن ایک مقام پر سات منٹ چالیس سیکنڈ تک ہی ہوتا ہے اور اکثر اس کا دورانیہ کم بھی ہوتا ہے، زمین کے جس خطے میں مکمل سورج گرہن لگتا ہے وہاں دوبارہ 340 سال بعد اس طرح کا گرہن لگنے کے اثرات ہوتے ہیں۔

حلقی سورج گرہن

زمین پر حلقی سورج گرہن اُس وقت لگتا ہے کہ جب چاند سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے مگر اس کا سورج سے فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ سورج کو مکمل طور پر چھپا نہیں سکتا۔ اس صورتِ حال میں چاند کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور سورج کی روشنی زمین پر پڑتی ہے۔

مخلوط سورج گرہن

زمین پر بعض اوقات سورج گرہن اس طرح نظر آتا ہے کہ بعض جگہ پر مکمل سورج گرہن نظر آتا ہے اور کسی مقام پر مخلوط نظر آتا ہے، اس صورت میں حلقی سورج گرہن کا حلقہ بہت باریک ہوتا ہے اس لیے زمین پر مخلوط قسم کے سورج گرہن بہت کم نظر آتے ہیں۔

جزوی سورج گرہن

یکم اگست 2008 کو پاکستان میں نظر آنے والا سورج گرہن

جزوی سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند اور سورج ایک دوسرے کے سامنے نہ ہوں اور چاند جزوی طور پر سورج کو زمین سے چھپا رہا ہو۔ ایسی صورتحال میں ممکن ہے کہ زمین کے مختصر حصے پر سورج گرہن اور ایک بڑے حصے پر جزوی گرہن نظر آئے۔

سورج گرہن کس تاریخ کو ہوتا ہے؟

کسی بھی چاند اور سورج گرہن میں 13.9 سے 15.6 دن کا فرق ہوتا ہے، اسلامی مہینے کی تاریخ کے حساب سے چاند کو گرہن 13، 14 یا 15 کو  جبکہ سورج گرہن 28 یا 29 کو ہوتا ہے۔

اب تک دیکھا جانے والا سب سے طویل سورج گرہن

اب تک کا سب سے لمبا سورج گرہن سن 1999 میں یورپ میں دیکھا گیا ہے اور  یہ تاریخ میں اب تک کا سب سے دیر تک نظر آنے والا سورج گرہن تھا۔

سورج گرہن کی اقسام

مکمل سورج گرہن

حلقی سورج گرہن

مخلوط سورج گرہن

جزوی سورج گرہن

مکمل سورج گرہن

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر