شاہراہ قراقرم (قومی شاہراہ 35 یا مختصراً این-35) پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔شاہراہ ریشم-گلگت سے کچھ پہلے پڑی کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہیں پر دریائے سندھ کے بالائی حصے کے کنارے چٹانوں کے طویل پہاڑی سلسلے پر اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے کندہ کاری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔خنجراب دنیا کے متعدد نایاب جانوروں کا مسکن ہے جن میں مارکوپولو، برفانی چیتے، بھیڑیں ، مارموٹ، پہاڑی ریچھ ، یاک ، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔شاہراہ قراقرم کا وجود انسانی تخلیق اور ہنر کا ایک لازوال نمونہ ہے اس وادی کے رنگ قدرت کی حسیں تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔
شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم میں بھی اہم
شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی ، چین سے اجناس اور ریشم کی تجارت کے لئے یہ راستہ بھی
استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ اس مناسبت سے اس شاہراہ کا نام شاہراہ ریشم‘‘ پڑ گیا تھا۔ جب ذرائع آمدورفت
میں تبدیلیاں آنے لگیں اور چین کی تجارت بحری رستوں سے بھی شروع ہوئی تو اس
شاہراہ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد چین نے اس شاہراہ کی افادیت
کو محسوس کرنا شروع کیا اور یوں پاکستان اور چین کی دوستی کے رشتے بڑھنا شروع ہوئی
تو دونوں ملکوں نے یہ شاہراہ بنائی ۔3 مئی 1962 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے
بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1966 میں شروع ہوا۔شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی
بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ
اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گذر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال
ہوتی ہے۔
عہدِ قدیم (Ancient
Ages) کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر
شاہراہ ریشم (انگریزی: Silk Road یا Silk
route) کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ
روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گذر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی
ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی
تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی
کردار رہا ہے۔
مغرب سے شمالی چین کے تجارتی مراکز تک
پھیلی یہ تجارتی گذر گاہیں سطح مرتفع تبت کے دونوں جانب شمالی اور جنوبی حصوں میں
تقسیم ہیں۔ شمالی راستہ بلغار قپپچاق علاقے سے گذرتا ہے اور چین کے شمال مغربی
صوبے گانسو سے گذرنے کے بعد مزید تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں سے دو
صحرائے ٹکلا مکان کے شمال اور جنوب سے گذرتے ہیں اور دوبارہ کاشغر پر آ کر ملتے ہیں
جبکہ تیسرا راستہ تین شان کے پہاڑوں کے شمال سے طرفان اور الماتی سے گذرتا ہے۔
شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ
قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس
دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لیے
اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑ گیا تھا۔ جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے
خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد
جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس
شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک
نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہو
گیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔
اس
کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دار
الحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز
ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے،
1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی
ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو
درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100
فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا
اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا، پاکستان کی شمالی سرحد تک
کا حصہ 1969ء میں مکمل ہوا ۔ تعمیر و توسیع کا کام 16 فروری 1971 ء کو دوبارہ شروع
ہوا۔ شاہراہِ قراقرم پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے اور دُنیا کی
بلند ترین پکی سڑک سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میں یہ سرکاری طور پر نیشنل ہائی وے 35 (N-35) اور چین میں یہ چین نیشنل ہائی وے 314 (G314) کے نام سے جانی جاتی ہے، چونکہ یہ قراقرم سلسلہ سے گزرتی ہے اس لیے
یہ عام طور پر شاہراہِ قراقرم کے نام سے جانی جاتی ہے
شاہراہِ قراقرم کی کُل لمبائی تقریباً
1300 کلو میٹر ہے، جس میں سے 887 کلو میٹر پاکستان میں اور 413 کلو میٹر چین میں
موجود ہے۔ یہ 85 پُلوں پر مشتمل ہے اور خنجراب پاس پر 4,693 میٹر کی حدِ اونچائی
تک جا پہنچتی ہے۔ حسن ابدال شہر سے شروع ہوتے ہوئے، شاہراہ ِ قراقرم پامیر، ہمالیہ
اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے۔یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ تقریباً 200
کلو میٹر تک سفر کرتی ہے اور یہ دونوں مل کے اُس مقام سے گزرتے ہیں جو ہمالیہ
پہاڑوں کو قراقرم سلسلے سے الگ کرتا ہےشاہراہِ قراقرم دریائے سندھ کو چھوڑتے ہوئے
اپنے راستے پر گلگت، ہُنزہ اور خنجراب دریاؤں کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ بالآخر یہ
خنجراب پاس پہنچتی ہے ، پامیر سے اپنا راستہ بناتی ہے، اور آخر میں چین کے شہر
کاشغر میں ختم ہو جاتی ہے۔
قراقرم ہائی
وے جو دنیا کی 'بلند ترین پختہ سڑک' ہے۔ چین کے سرحدی علاقے کاشغر سے شروع ہونے
والی یہ شاہراہ خنجراب پاس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر ملک کے
مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی حسن ابدال میں جی ٹی روڈ سے لنک ہو جاتی ہے-سڑکوں اور ہائی
ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی
علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے
طور طریقوں کے مطابق چلتا تھا۔گلگت بلتستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو چین سے
زمینی راستے کے ذریعے جوڑنے کا خیال سنہ 1956 سے سنہ 1958 تک پاکستان میں چین کے
سفیر تعینات رہنے والے جنرل چینگ بایئو کا تھا، جس پر سنہ 1963 میں دونوں ملکوں میں
اعلیٰ سطحی بات چیت ہوئی۔
اس شاہراہ کی
منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک ہر قدم ایک چیلنج تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات
عامہ نے حال ہی میں اس شاہراہ کی تعمیر سے متعلق ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں
اس دور کے کچھ نایاب مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔شاہراہ قراقرم کا منصوبہ تشکیل دینے
پر کام شروع ہوا تو انتہائی مشکل علاقے ہونے کے باعث یہ ذمہ داری فوج کے ذیلی
ادارے ایف ڈبلیو او کے حصے میں آئی۔سنہ 1965 کی جنگ کے بعد جب پاکستانی فوج کے اس
وقت کے چیف آف جنرل سٹاف چین کی جانب سے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی اور تعاون کے
لیے شکریہ ادا کرنے گئے تو اس وقت چین کے صدر نے بھی ان الفاظ میں ایک شاہراہ کی
تعمیر کا ذکر کیا تھا کہ ’اگر پاکستان اور چین کے درمیان ایک بہتر زمینی راستہ
ہوتا تو یہ امداد بہتر انداز میں پہنچ سکتی تھی۔‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں