جمعرات، 20 اپریل، 2023

حضرت عیسی علیہ السلام کے قصے

جب کافروں نےآسمانی دستر خوان کی فرمائش کی

سورہ مائدہ قران کریم کا پانچواں سورہ ہے اور پارہ نمبر سات وازاسمعو ہے آئت نمبر ایکسو گیارہ میں پروردگارعالم اپنے حبیب حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے فرما رہا ہے وہ وقت یاد کرو جب حواریوں نے عیسٰی سے عرض کی اے مریم کے بیٹے عیسٰی کیا آپ کا خدا اس پر قادر ہے کہ ہم پر آسمان سے نعمت کا ایک خوان نازل فرما ئے۔
 
حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا اگر تم سچّے ایماندار ہو تو اللہ سے ڈرو اور ایسی فرمائش جس سے امتحان مقصود ہو اس کا اللہ سے تقاضہ نا کرو لیکن حواریوں نے جوابدیا کہ ہم تو بس آپ کی رسالت کی سچّائ دیکھنا چاہتے ہیں اور آنے والے خوان سے تبرّک کھانا چاہتے ہیں اس طرح ہمیں یقین آ جائے گا کہ آپ نے ہم سے جو کہا تھا وہ سچ تھا اور ہم اس کے خود گواہ ہیں تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے پروردگارعالم کی بارگاہ میں دعاء کی کہ

"ائے ہمارے پالنے والے پروردگارعالم ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما اور اس دن کو ہم لوگون کے لئے اور ہماری اگلی نسلوں کے لئے اور جو پچھلے گزر گئے ان کے لئے خوان نعمت اترنے کا مبارک روز عید قرار پائے اور ہمارے حق میں وہ تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو اور تو ہمیں روزی عطا کر کہ تیری زات ہی سب سے بہتر روزی عطا کرنے والی ہے۔"

حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے جواب میں پروردگارعالم نے فرمایا کہ میں خوان اتار تو دوں گا لیکن کہ پھر ان میں سے جو شخص کافر ہوا
 
تو میں اس کو یقیناً ایسے سخت عذاب کی سزا دوں گا کہ ساری خدائ میں کسی ایک پر بھی ایسا عزاب نا ہو گا۔اورپھر یکشنبہ کے دن کچھ دن چڑھے آسمان سے ابرِ سفید کے ایک ٹکڑے اوپر ایک خوان برنگ سرخ پروردگارعالم نے نازل فرمایا
 
"جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اس وقت اپنے حواریوں کے ہمراہ اپنی بستی کے قریب ایک کھلی جگہ پر بیٹھے ہوءے تھے کہ آسمان سے دستر خوان زمین پر حواریوں کے درمیان اتر آیا ،،
 
حضرت عیسٰی علیہ السّلام ابر سفید پر خوان سرخ  پُر نعمتِ  ہائے پروردگار دیکھ کر رونے لگے اور بارگاہ رب العالمین میں دعا کی اے ہمارے پالنے والے اس دستر خوان کو ہمارے لئے باعث رحمت قرار دینا نا کہ باعث عذاب ہو اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر دوبارہ روئے اور پھر بسم اللہ خیر الرّازقین کہہ کر خوان پوش ہٹایا تو روغن میں ڈوبی ہوئ ایک تلی ہوئ مچھلی رکھّی تھی ، مچھلی کی دم کے پاس سرکہ تھااور سر کے پاس نمک تھا اور گردا گرد انواع و اقسام کی ترکاریا ں و ساگ تھے ساتھ میں پانچ روٹیا ں تھیں ایک روٹی پر روغن تھا دوسری پر شہد تھا تیسری روٹی پر گھی تھا چوتھی روٹی ہر پنیر تھا پانچویں روٹی پرخشک گوشت تھا۔
 
وہیں پر موجود حضرت شمعون علیہ السّلام نے حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے سوال کیا کہ یا روح اللہ یہ کھانا دنیا کا ہے یا آخرت کا ہے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ یہ کھانا دنیا کا ہے لیکن اسے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا ہے حواریوں نے کہا یا حضرت ہمیں کوئ اور بھی معجزہ دکھائیے تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ ائے مچھلی اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا پس مچھلی فوراً تڑپ کر زندہ ہو گئ اور اس کے سپنے کانٹے چھلکے سب آ موجود ہوئے پھر آپ نے فرمایا پہلے جیسی ہو جا مچھلی پھر پہلے کی حالت پر آ گئ تب حواریوں نے کہا کہ یا حضرت پہلے آپ اس میں سے نوش فر مائیں پھر ہم کھائیں گے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا معاز اللہ میں اس میں سے کیسے کھا سکتا ہوں جنہون نے یہ خوان منگایا ہے وہی اس میں سے تناول کریں گے۔ 

لیکن حواری خوان میں سے کھاتے ہوئے ڈر رہے تھے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے بستی کے اندر سے مریضانِ دائمی و لاعلاج مریض کوڑھی ،اندھے،مبروص اور بستی کے تمام کے تمام مریض طلب کئے اور انہیں دستر خوان سے کھانا کھلایا۔ اس دستر خوان کی برکت سے جو جو کھاتا گیا وہ شفا پاتا گیا اندھے بینا ہو گئے مبروص صحت یاب ہو گئے بیساکھی کے محتاج اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے
 
یہاں تک کہ اس دستر خوان سے تیرہ سو آدمیوں نے کھایا اور دستر کی برکت بہ اعجاز پروردگار قائم رہی اور کھانا کم نا ہوا پھر دوپہر کے بعد دسترخوان چلا گیا اور پھر چالیس روز برابر اسی طرح آتا رہا لیکن پھر کچھ امیر و دولت مند حواریوں کو شرارت سوجھی اور وہ کبر و نخوت پر آمادہ ہوئے اور لوگوں کو بہکانے لگے کہ یہ جادو ہے اس پر پروردگارعالم نے تین سو تینتیس لوگوں کو خنزیر بنا دیا وہ تین دن تک زندہ رہے اور نجاست کھاتے رہے اور پھر سب کے سب 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصے


حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ایک شاگرد کے ساتھ کسی سفر پر نکلے ، راستے میں ایک جگہ شاگرد سے پوچھا : تمہاری جیب میں کچھ ہے ؟ اس نے کہا : میرے پاس دو درہم ہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جیب سے ایک درہم اسے دیا اور فرمایا : یہ تین درہم ہو جائیں گے ، قریب کی آبادی سے ، روٹیاں لے آؤ ! وہ گیا اور تین روٹیاں لیں ، راستے میں سوچنے لگا کہ حضرت نے ایک درہم دیا اور دو درہم میرے تھے ، جبکہ روٹیاں تین ہیں ، آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھا ئیں گے تو آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی ، لہذا میں ایک روٹی پہلے ہی کھالوں ، چنانچہ اس نے ایک روٹی کھائی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا ۔ آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا : تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ؟ اس نے کہا : دو روٹیاں ، ایک آپ علیہ السلام نے کھائی اور ایک اس نے کھائی ۔حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام روانہ ہوئے تو ، راستے میں ایک دریا آیا ، شاگرد نے کہا : ہم دریا عبور کیسے کریں گئے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی بھی نظر نہیں آئی ؟ حضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : گھبراؤ مت ، میں آ گے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلنا ہم دریا پار کرلیں گے ۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا ، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے ۔ شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا : میری ہزاروں جانیں آپ علیہ السلام پر قربان ! آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! میرا دل نور سے بھر گیا ، پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : اگر تمہارا دل نورانی ہو چکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں ؟ اس نے کہا : حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں ۔ پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے چلے راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا ، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا ، وہ آپ کے پاس چلا آیا ، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا 

شاگرد کو بھی کھلا یا ۔ جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کی کھال پر ٹھوکر مارکر کہا : ' اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا ' ' ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جاملا ۔شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے۔حضرت نے فرمایا : یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ؟ شاگرد نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میرا ایمان - پہلے سے دو گنا ہو چکا ہے ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں ؟ شاگرد نے کہا : حضرت روٹیاں دو ہی تھیں ۔ دونوں چلتے گئے ، ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی تھیں ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام - نے فرمایا : ایک اینٹ میری اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی شاگرد جلدی سے بولا : حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی ۔ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لالچی شاگردکو چھوڑ دیا اور فرمایا : تینوں اینٹیں تم لے جاؤ ، اور وہاں سے ۔ روانہ ہو گئے ، لالچی شاگر دسوچنے لگا کہ ان اینٹوں کو گھر کیسے لے جائے ۔اس دوران تین ڈاکو گزرے ، انہوں نے اس  کے پاس سونے کی تین اینٹیں دیکھیں ، تو اسے قتل کر دیا اور آپس میں طے کر لیا کہ ہرشخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آئی ہے ۔ وہ بھوکے تھے ، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دیے اور کہا روٹیاں لے آؤ ، پھر ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے ، ۔ وہ روٹیاں لینے گیا تو دل میں سوچا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھی مر جائیں گے اور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی ۔ادھر دونوں ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کردیں  تو ہمارے حصے میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آ جائے گی ۔ جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو دونوں نے اسے قتل کر دیا ۔ پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر سے مرگئے ، واپسی میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تعارف

ویسی کی ویسی رکھی ہیں اور وہاں چار لاشیں بھی پڑی ہیں ، آپ علیہ السلام نے فرمایا : دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر