کہا جاتا ہے کہ یہ مغل بادشاہ شاہجہاں
کے عہد کی بات ہے۔ دریائے چناب کے کنارے آباد شہر گجرات ظروف سازی کے حوالے سے
منفرد مقام و شہرت رکھتا تھا۔ دریاوں کے کناروں پر چکنی مٹی کی وافر مقدار نے ظروف
سازوں کو ہمیشہ اپنے ہی رکھا۔اس دور میں گجرات کے ایک ظروف ساز کمہار عبداللہ
المعروف” تلا ” کی کوزہ گری کا ڈنکا خوب بجتا تھا۔اس کے فنی کمالات کی بدولت اس کی
شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور وہ شہر کا دولتمند کاروباری شخص تھا۔ شہرت اور
دولت کے ساتھ ساتھ قدرت نے اسے ایک خوبصورت بیٹی کی نعمت سے بھی نواز رکھا تھا۔ اس
کا نام ہی سوہنی تھا۔ وہ نام کی ہی سوہنی نہیں تھی بلکہ پْرکشش حْسن و جمال کا پیکر
تھی۔اس کی خوبصورتی کے چرچے بھی زبان زد عام تھے۔
اسی زمانے میں ازبکستان کے شہر بلخ
بخارا میں ایک تاجر مرزا عالی نامی بہت دولتمند تھا۔ اس کے پاس سب کچھ تھا لیکن وہ
اولاد کی رحمت سے محروم تھا۔ ایک درویش بزرگ کی دعا سے اس کے گھر بیٹے کی پیدائش
ہوئی۔ منت مراد کے حاصل اس خوبرو بچے کی پرورش بڑے ناز و پیار سے کی گئی۔ اچھی تربیت
کے سبب یہ نوجوان بڑا ہنر مند, مشاق تیرانداز, اور موسیقی سے خصوصی رغبت رکھنے
والا تھا۔ مرزا عالی اپنے بیٹے مرزا عزت بیگ کو سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا۔ عزت بیگ
بڑا ہوا تو اس نے دہلی کی شہرت سن کر والد سے درخواست کی کہ وہ اپنے تجارتی قافلے
کے ہمراہ جا کر دہلی دیکھنا چاہتا ہے۔
والد نے بیٹے کو بھیجنے سے پس و پیش
سے کام لیا لیکن اس کے اصرار پر اجازت دینا ہی پڑی۔ مرزا عزت بیگ اپنے تجارتی
قافلے کے ساتھ دلی آیا ,شاہی دربار سمیت شہر دیکھا۔بڑے تاجر کا بیٹا ہونے کے ناطے
اسے بہت عزت اور احترام ملا۔دلی کے بعد اس نے قافلے کے ہمراہ دوسرے مشہور شہر دیکھنے
کا بھی پروگرام بنایا۔اس طرح وہ لاہور دیکھنے پہنچا اور واپسی پر تھا کہ ایک شہر
کے کنارے اسے شام ہو گئی تو قافلے نے دریائے چناب کے پاس پڑاوء کیا۔ قافلے والے
تاجر ساتھیوں نے اسے بتایا کہ یہ چھوٹا مگر ظروف سازی کے حوالے سے مشہور شہر گجرات
ہے اور یہاں کے تلا کمہار کے برتن ہندوستان اور ہندوستان سے باہر بھی مشہور ہیں
ساتھ ہی اس کی بیٹی سوہنی کے حسن و
جمال کا بھی بڑا ذکر کیا۔اس سے عزت بیگ کو سوہنی کو دیکھنے کا تجسس ہوا۔ اگلی صبح
وہ برتنوں کی خریداری کے لیے تلے کمہار کی دکان پر پہنچا اور برتن دیکھنے لگا۔ اسے
برتنوں سے کوئی دلچسپی تھی نہیں , عبداللہ کمہار کی صنعت گری کی طرف اس کا دھیان ہی
نہیں جاتا تھا۔وہ تو سوہنی کو دیکھنے آیا تھا اور سوہنی وہاں تھی ہی نہیں۔ تھوڑی
دیر بعد اچانک گھر والی طرف سے سوہنی بھی دکان پر آگئی۔ عزت بیگ نے اسے دیکھا اور
دیکھتا ہی رہ گیا۔سوہنی اسے برتن دکھانے لگی۔ مگر عزت بیگ تو پہلی نظر میں ہی اپنا
دل ہار بیٹھا تھا
یہ پہلی نظر کی محبت بھی عجیب چیز
ہے۔سائنس اور طب کی آج تک کی ساری جدید تحقیق بھی پہلی نظر کی محبت کا علاج یا تریاق
دریافت نہیں کر سکی۔ عزت بیگ سوہنی پر فریفتہ ہو گیا۔ چناب کے زرخیز کنارے ,اودھے
نگری کی عشق خیز سرزمین پر محبت کا بیج ایک ہی ساعت میں لگا, اْگا ,اور پھل پھول گیا۔
عزت بیگ یہیں کا ہو کر رہ گیا .مال و اسباب کی فراوانی تھی چنانچہ اس نے دیدار یار
کے لیے روزانہ کی بنیاد پر برتنوں کی خریداری شروع کر دی۔ جب ان کے پاس برتن کافی
ہو گئے اور رکھنے کی جگہ نہیں رہی تو اس نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ ان کا کیا کیا
جائے۔ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ انہیں فروخت کر دیتے ہیں۔
عزت بیگ کو بات پسند آئی اس نے بازار
میں , تلا کمہار کی دُکان سے ذرا دور اپنی دکان لگا لی اور مہنگے داموں برتن خرید کر انہیں سستے داموں بیچ دیا جاتا۔ آہستہ
آہستہ ان کے پاس پیسے ختم ہونے لگےتو ایککمہار نے اسے رہنے کی جگہبھی دیاور گھریلو
کام کاج کے لیے رکھ لیا اور پھر اسے بھینسیں چرانے کا کام دے دیا۔ پنجاب میں بھینسوں
کو ’مہیں‘ کہتے ہیں اس لیے بھینسیں چرانے پر اسے مہینوال کہا جانے لگا یعنی بھینسیں
چرانے والا۔ اسی دوران سوہنی کو بھی پوری طرح معلوم ہو گیا کہ عزت بیگ کی یہ حالت
اس کی وجہ سے ہوئی ہے۔وہ اسکی تباہ حالی اور خستگی دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئی اور
تڑپ کر رہ گئی۔لیکن سوہنی نے بالآخر مہینوال سےملاقات کا راستہ ڈھونڈ نکالا-
سوہنی کے گھر والوں تک پہنچیں تو انہوں نے مہینوال
کو نوکری سے نکال دیا اور سوہنی پر بھی سختی کر دی۔ عزت بیگ نوکری سے فارغ ہوا لیکن
دل تو وہیں رہ گیا۔ چنانچہ وہ دریا کے دوسرے کنارے پر فقیر بن کر بیٹھ گیااور
ارتوں کو سوہنی اس سے ملنے کے لئے آنے لگی لیکن ایک رات اس کا کچّا گھڑا دریا میں
ڈالتے ہی ٹوٹ گیا اور سوہنی مہینوال کو آوازیں دیتے دیتے ڈوب گئ دوسری جانب مہینوال
سوہنی کا منتظر تھا جب سوہنی نہیں آئ تو بھی دریا کے پانی اسے آوازیں دیتے ہوئے
ڈوب گیا اور یہ لوک کہانی امر ہو گئ -کہا جاتا ہےکا کہنا ہے کہ رالیالہ گاوں کے قریب
ہی سوہنی مہینوال ملتے تھے۔اس روز ڈوبتے وقت سوہنی نے رالیالہ کے لوگوں کو بد دعا
دی تھی شاید اسی لیے آنے والے دنوں میں یہ گاوں دریا برد ہوگیا۔ لوگوں کے مطابق
اب صرف اس کا نام باقی رہ گیا ہے۔رالیالہ اس وقت کی انتظامی تقسیم کے مطابق ٹپہ جیوا
وڑائچ کا حصہ تھا۔جس میں اس وقت 18 دیہات شامل تھے۔
لوگ پوچھتے ہیں ان کی لاشیں کدھر گئیں
؟ کہا جا سکتا ہے کہ چناب کا بہاوء سوہنی مہینوال کی اجتماعی قبر بن گیا۔ تاہم اس
حوالے سے بھی کئی روایات ہیں۔ پنجاب کے دریا ایک مقام پر دریائے سندھ میں ملتے ہیں
اس لیے گمان یہی ہے کہ گہرے پانی کی تیز لہریں انہیں بہاتے ہوئے سندھ لے گئیں۔
سندھ کے شہر شہداد پور میں دو لاشیں پانی میں بہتی ہوئی ملیں جنہیں ایک بیان کے
مطابق کچھ لوگوں کی شناخت کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔ایک روایت کے مطابق دونوں کو
اکٹھے ایک ہی جگہ دفن کیا گیا لیکن یہ روایت ہماری تہذیبی اور ثقافتی روایات سے
متصادم ہے اس لیے شہداد پور میں الگ الگ مقام پر دو قبریں ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں