چھٹے امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ انسان کی روح انسان کے ظاہری حواس خمسہ کے طابع ہوتی ہے اور جب
ہمارا جسم کسی بھی سبب سے بیمار ہوتا ہے تب انسان کو روحانی
بیماریاں بھی لاحق ہو تی ہیں
اِس لئے کہ آدمی دو چیزوں ’روح اور جسم‘ سے مرکب ہے اور ہر ایک کی سلامتی اور بیماری ایک دوسرے پر اثر انداز
ہوتی ہے لہذا اِنسان صحیح و سالم وہ ہے جو دونوں حیثیت سے
سلامت ہو - مولا علیہ السّلام
فرماتے ہیں
ا گر کوئی حقیقی معنوں میں طبیب حازق بننا چاہتا ہے تواُس کو جسم وروح دونوں کا طبیب ہونا چاہئے۔ یعنی رنج و غَم و اَندوہ
روحانی کا بھی معالج ہو جس طرح عوارضات جسمانی کا جو طبیب روحانی علاج سے ناواقف ہے اگر وہ روحانی امراض ک
ا مُسہل سے علاج کرے گا تو ظاہر ہے کہ مریض کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یا مثلًا فِکر و خیال وناراحتی روح کی وجہ سے اگر کسی کو
نیند نہیں آتی اور پریشان ہے تو اس کو خواب آور گولیاں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتیں بجز قدرے سُلا دینے کے۔اِسی
طرح اگر بیخوابی اَمراض جسمانی کی وجہ سے ہے۔ تو روحانی علاج اور پند و نصائح مفید، اسکو کچھ بھی فائدہ نہ دیں گے۔
لہٰذا طبیب کامل اور حاذِق وہی ہو سکتا ہے۔ جو جسمانی اور روحانی تمام امراض اور انکے علاج سے واقف ہو اور ایسا طبیب
سوائے برگزیدگانِ خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اِسلام میں روح وبدن اگرچہ دوجداگانہ چیزیں ہیں لیکن ایسے لازم و
ملزوم ہیں کہ ایک کی سلامتی دوسرے کی سلامتی پر موقوف ہے۔ اسلام کے رہبروپیشواوٴں نے آپ کو طبیبِ روحانی کی
صورت میں اگرچہ پیش کیا مگر وہ طبیبِ جسمانی بھی تھے۔ ان کے طبیبِ جسمانی ہونے کا ایک یہ نمونہ ہی ثبوت کے لئے
کافی ہے کہ انھوں نے پاکیزگی و طہارتِ بدن کے لئے وضو۔غسل اور تیمّم مختلف نجاستوں س پاک ہونے کو لازمی قرار
دیا۔ تاکہ اَعضاءِ ظاہری
گرد و غبار سے آلودہ ہو کر مُضر صحت نہ بنیں۔
انبیاء جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے رہبر بن کر آئے۔ اُنکا اصلی مقصد صرف یہ تھا کہ انسان کو آموزگار اَخلاق و دِین بَن کر
روحانیت کی اِرتقائی منازل طے کرائیں۔ کیونکہ انسان اگرچہ جسم و روح کا مرکب ہے لیکن درحقیقت اِنسانیت روح کا
نام ہے اور جسم ایک آلہ رُوح ہے۔ انبیاء نے سلامتیِ بدن کی طرف توجہ صرف اس حد تک دی ہے کہ صحتِ جسم، صحتِ
روح کا باعث بن کر روحانی منازل طے کر سکے۔ درحقیقت اَنبیاء اَطباء اَرواح و عقول ہیں کیونکہ عقل و دِل بھی جسم کی
طرح ہوتے ہیں۔
پیغمبرِ اِسلام کا ارشادہے ۔ انّ ھٰذا القلوب تمل کم تمل الا بدان۔ یعنی یہ دِل بھی بدن کی طرح بیمار ہوتے ہیں۔علی ابن ابی
طالب علیہ اسلام کا اِرشاد ہے۔ لہذا جس قدر جسم صحیح اور سالم تر ہو گا ’حواس خمسہ‘ بھی کامل تر ہوں گے اور اُن کے معلومات بھی زیادہ ہوں گے۔ ٍ جو پیغمبر علمِ طِب سے ناواقف ہے وہ تربیتِ روح کے فرائض بھی انجام نہیں دے سکتا اور جو کتاب صحتِ جسمانی کی ضامن نہیں وہ روح کی تربیت میں بھی قاصر رہے گی۔ خدا نے ہرگز ایسا پیغمبر اور ایسی کتاب
نازل نہیں فرمائی ہے۔اِرشاد حضرت امام رضا علیہ السلام ہر درد کی شفا قرآن میں ہے ۔ قرآن سے شفا چاہو۔ جسکو قرآن
سے شفا حاصل نہ ہو اُس کو کوئی چیز شفا نہیں دے سکتی۔ یہ بے شک خدا کی کتاب ’ہُدیٰ‘ ہے۔ یہ نسخہ نیا ہر مرض کی دوا
ہے اِنسان اگر سوچے اور غور کرے تو اس میں روحانی نسخوں کے ساتھ ساتھ صحتِ جسمانی کی ضروریات وابسطہ نظر آتی
ہیں جہاں نماز پڑھو، زکوة ادا کرو، کے شربتِ رُوحِ افراز کا ذِکر ہے وہاں نماز کی فضیلت میں یہ بھی حکم ہے کہ مساجد میں
ادا کرو تاکہ ہر قدم پر روحانی اِرتقاء کے ساتھ جسمانی چہل قدمی بھی ہو کر معاون صحتِ جسمانی ہوتی رہے۔ مسجد میں
حضورِ معبود نماز کی ادائیگی کے ساتھ جہاں روحانی قُربت حاصل ہو، وہاں قیام و رُکوع و سجود کے حکم سے ورزشِ جسمانی کی
رعایت بھی نسخہ میں رکھ دی گئی۔
قرآن جہاں نیک اعمال اور مفید اَشیاء کا حکم دیتا ہے وہاں مضر افعال اور مضر اشیاء کو ممنوع قرار دے کر روح اور جسم دونوں کی
صحت کا خیال رکھتا ہے۔ اگر صحت روح کے لئے نماز کا حکم دیا گیا ہے تو مضرِ صحت شراب سے بار بار منع فرمایا ہے۔ چناچہ سورہ
مائدہ آیت نمبر۹۰،۹۱،اور سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۱۹، میں ارشاد ہوتا ہے’اے ایمان والوشراب، قمار اور مجسمہ وغیرہ شیطانی کاموں
میں سے ہیں۔پس ان سے دور رہو۔ شاید نجات پالو۔ بیشک شیطان چاہتا ہے کہ شراب و قمار کے ذریعہ تم میں باہمی دشمنی
کردے اور تم کو یادِ خدا اور نماز سے باز رکھے۔ کیا تم ایسے مرد ہو کہ ہَواوہَوس سے منہ موڑ کر پرہیز گار بن جاوٴ‘ سورہ بقر، آیت
نمبر۲۱۶ میں ارشاد ہوتا ہے ٍ’یہ لوگ ’شراب و قمار ‘ کے بارے سوال کرتے ہیں تو کہ دو کہ دونوں میں بڑا نقصان اور فائدہ ہے مگر
فائدہ سے کہیں زیادہ نقصان ہی‘ اَقِییْمُواالصَّلوٰةَ کے ساتھ لَا
تَقْرَبُو االصَّلوٰةَ وَاَنْتُم سُکاَرَا۔
بھی ہے.آج مدہوشان و مئے نوشانِ مغرب بھی چلا رہے ہیں کہ شراب کے وقتی اور تھوڑے سے فائدہ میں سینکڑوں رُوحانی اور
جسمانی قابلِ نفرت مُہلک اَمراض پوشیدہ ہیں۔ یہ جہاں تھوڑی دیر کو خواب آور گولی کی طرح یاعمل جراحی میں جسم کو بے حِ
س کرکے سکون بخش نظر آتی ہے اور عقل و خِرد ، ہوش و حَواس کو زائل کر کے اِنسان کو حیوان بنا دیتی ہے، وہاں بے شمار اَمراض
کا غمناک پیغام مَیخور کیواسطے اپنے ساتھ لاتی ہے۔ ضُعفِ باہ، ضُعفِ اعضاء، سِل، اَمراضِ سوداوی اور دِق وغیرہ کاواحد سبب یہی
بادہء بدبخت ہے۔ یہی عقل وخِرد پر پردہ ڈالکر بیگانوں کو یگانہ اور اپنا ہمراز دِکھلا کر راز سر بستہ کو ظاہر کر دیتی ہے اور یگانوں کو بیگانہ
دِکھلا کر باپ سے بیٹے کو کبھی قتل کرا دیتی ہے۔ بلکہ شرابی کے مضر اثرات نسلاً بعد نسلً اولاد کو وارثتاً پہونچتے ہیں۔ وسائل الشیع
(جلد دوم) میں صادق اٰلِ محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی لڑکی شراب خور کو دی اُسنے قطعِ رحم
کیا‘۔۔۔شاید مراد یہ ہے کہ اُس نے دُختر کی نسل ہی کو منقطع کر دیا۔ حلیةُ المتقین میں ہے کہ اپنی اولاد کے لئے شراب پینے والی
اور سور کا
گوشت کھانے والی دایہ مت مقرر کرو کہ اُسکا دودھ اُس بچہ میں یہی اَثر انداز ہو
گا۔