میثم تمار عاشق مولا علی علیہ السلام' کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔وہ بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے اسی قبیلے سے منسوب کیے گئے ہیں۔بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: "میرا نام سالم ہے"؛ حضرت علیؑ نے فرمایا: "پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمھارے عجمی والدین نے تمھارا نام "میثم" رکھا تھا"، میثم نے تصدیق کردی- امیر المومنینؑ نے فرمایا: "اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبرؐ نے بھی تمھیں پکارا ہے"، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت "ابو سالم" ٹھہری۔ ان کی دوسری کنیت "ابو صالح" تھی سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔
امام علی علیہ السلام کے نامی گرامی صحابی ہیں۔ میثم کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ہاں اتنا ملتا ہے کہ نبی پاک کو بہت پسندتھے اور ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیر المومنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کیے۔ وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ دوسری روایت کے مطابق، میثم کوفہ کے بعض تاجروں کی درخواست پر کوفہ کے عامل کی شکایت پہنچانے کی غرض سے، ان کے ہمراہ ابن زیاد کے پاس پہنچے تا کہ ان سے مطالبہ کریں کہ وہ کوفہ کے عامل کو برطرف کر دے۔ میثم نے وہاں بلیغ خطبہ دیا۔ عَمروبن حُرَیث، جو ـ ابن زیاد کی طرف سے کوفہ کا والی، عثمانی مسلک اور دشمن اہل بیت ؑ تھا اور ـ دارالامارہ میں موجود تھا، ـ
اس بد بخت نے میثم پر جھوٹ اور جھوٹوں کی پیروی کا الزام لگایا لیکن میثم نے کہا "میں سچا اور سچے (مولاعلی علیہ السلام) کا پیروکار ہوں"۔ ابن زبیر نے میثم کو حکم دیا کہ علی ؑ سے بیزاری کا اظہار اور آپؑ کی بدگوئی کریں اور اس کی بجائے عثمان سے دوستی اور محبت کا اظہار کریں اور ان کا خیر و نیکی سے تذکرہ کریں۔ اس نے میثم کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس کے حکم کی تعمیل نہ کی تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے گا اور انھیں تختہ دار پر لٹکائے گا۔ گوکہ میثم اس موقع پر تقیہ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے شہادت کا انتخاب کیا اور کہا: "امام علیؑ نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ ابن زیاد میرے ساتھ یہی سلوک روا رکھے گا اور میری زبان بھی کاٹے گا"۔ ابن زیاد نے بزعم خود، اس غیبی خبر کو جھٹلانے کی خاطر حکم دیا کہ میثم کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں اور انھیں عمرو بن حریث کے گھر کے قریب تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ میثم کی زبان کاٹ دی گئ میثم نے تختۂ دار پر بلند آواز سے لوگوں کو بلایا اور کہا کہ حضرت علیؑ کی حیرت انگیز اور پر اسرار حدیثیں سننے کے لیے جمع ہوجائیں۔
انھوں نے بنو امیہ کے فتنوں اور بنو ہاشم کے بعض فضائل کوبیان کیا۔ عمرو بن حریث نے میثم کی حق بیانی اور عوام کے ازدحام کو دیکھا تو عجلت کے ساتھ ابن زیاد کے پاس پہنچا اور اس کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ ابن زیاد نے رسوائی کے خوف سے، حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ میثم تمّار اسلام میں وہ پہلے شخص تھے جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔ ایک روایت کے مطابق، عمرو بن حریث نے ـ جو لوگوں کے میثم کے کلام کی طرف رجحان اور یزیدی حکومت کے خلاف ان کی شورش سے خوفزدہ تھا ـ ابن زیاد سے درخواست کی کہ میثم کی زبان کٹوا دے۔ ابن زیاد مان گیا اور اپنے ایک محافظ کو ایسا کرنے کے لیے روانہ کیا۔ میثم نے زبان کٹوانے سے پہلے حاضرین کو یادآوری کرادی کہ "امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ابن زیاد میرے ہاتھ پاؤں اور زبان کٹوا دے گا اوراب ابن زیاد نے کہا ہے کہ وہ میری زبان نہیں کٹوائے گا اور میرے مولا کی پیشنگوئی کو جھٹلا دے گا لیکن وہ اس پیشنگوئی کو نہ جھٹلا سکا۔
شہا دت اور تدفین -ایک روایت کے مطابق میثم کے تختۂ دار پر لٹکائے جانے کے تیسرے روزایک خنجر سے ان کے پیٹ کو زخمی کیا گیا اور انھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ ۔ البتہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ بنو امیہ کے خلاف اور بنو ہاشم کے حق میں خطاب کرنے کے ایک دن بعد ان کے منہ پر لگام باندھی گئی، ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہوا اور تیسرے روز میثم تمّار کی زبان کاٹ دی گئی تو آ پ اپنے ہی لہو میں نہا گئے اور کچھ لمحے بعد ہی آ پ کی شہادت ہو گئ ۔ ۔ میثم تمّار کی شہادت 22 ذوالحجہ سنہ 60 ہجری قمری میں، امام حسینؑ کے عراق میں داخلے سے قبل واقع ہوئی۔ ابن زیاد نے ان کے جسم بے جان کی تدفین سے منع کیا تاہم کوفہ کے چند کھجور فروشوں نے رات کی تاریکی میں ان کی میت تختۂ دار سے اتار کر قبیلۂ مراد کی زمینوں میں واقع پانی کی ایک گودال میں سپرد خاک کر دیا
م مدحِ علیؑ میں دار پہ بھی
جواب دیںحذف کریںلفظوں کو روانی دیتے ہیں
ہم مدحِ علیؑ میں دار پہ بھی
لفظوں کو روانی دیتے ہیں
کٹتی ہے زباں کٹ جائے مگر
پیغام زبانی دیتے ہیں