پیر، 16 جون، 2025

پاکستان ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی زبوں حالی

 

 کیا کریں بیگم بچے ضد کر رہے تھے تو میں نے سوچا چلو  کچھ تفریح کروا دوں کیبل کار   پر آ کر ٹکٹ خریدے  لیکن یہ تجربہ ایک خوفناک تجربہ  رہا    کیونکہ  ہمارے   کیبل  کار میں بیٹھتے ہی  کیبل کار حادثے کا شکار ہوگئی  -لاہور کے چوہدری  نیاز الٰہی    اپنی بیگم، چھوٹی بہن اس کے بچے  اور  اپنے  بچوں کے ہمراہ   کئ  گھنٹے تک فضا میں معلق رہے تھے۔چوہدری  صاحب  کا کہنا تھا کہ ابھی ہم کیبل کار بیٹھے  ہی میں تھے کہ تیز طوفان شروع ہو گیا۔ پھر  میں نے  آپریٹر  سے کہا کہ طوفان بہت شدید ہے، ہم لوگ اترنا چاہتے ہیں جس پر آپریٹر نے کہا کہ اب کیبل کار سے اترنا ممکن نہیں ہے اور یہ کہ سفر جاری رکھنے کے علاوہ اب کوئی راستہ نہیں بچا۔’وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیبن میں کل آٹھ لوگ تھے جن میں ایک نیا شادی شدہ جوڑا بھی تھا۔ شدید طوفان میں جب کیبل کار تھوڑی دیر چلی تو یک دم جھٹکا لگا اور ان کے ایک بچے کا سر کیبن کے شیشے پر جا کر لگا جبکہ دوسرے بچے گر گئے۔


’میری بیگم جو دروازے کے ساتھ تھیں، وہ بھی کیبن کی زمین پر گر گئیں۔ میں نے فوراً بچوں اور بیگم کو اٹھایا۔ کیبن کے سارے شیشے ٹوٹ چکے تھے جبکہ بچے خوف سے چیخ رہے تھے۔ ہمیں توقع تھی کہ شاید اندھیرا پھیل جانے سے پہلے ہی کوئی مدد آ جائے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔’’تھوڑی دیر بعد ہمیں محسوس ہوا کہ لوگ امدادی سرگرمیاں شروع کررہے ہیں مگر اندھیرا پھیل جانے کے بعد تک بھی وہ کسی کی مدد کو نہیں پہنچ سکے تھے۔ ایسے میں کبھی کھبار کسی کیبن سے خوفناک چیخ کی آواز آتی تو ہمارے ساتھ موجود خواتین اور بچوں میں سے بھی کوئی چیخ اٹھتا تھا۔’چوہدری   صاحب  کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ جب ان کے حواس قابو میں آئے تو انہوں نے اپنے دو کم عمر بچوں کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ ایسے میں ان کے گھر سے فون آیا تو ایک بچے نے اپنے نانا سے کہا کہ ’نانا ابو جلدی کچھ کریں ایسا نہ ہو کہ ہم سب یہاں ہی مر جائیں۔’اس وقت بس ایک ہی خیال تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو بھی جاتا ہے تو کوئی بات نہیں مگر میرے بچے کسی طرح بچ جائیں۔ اس صورتحال میں امداد ہم تک پہنچی تو ہم نے اللہ کا کتنا شکر ادا کیا، یہ میں بتا نہیں سکتی۔’


 

  کیبل کار کا فالٹ درست کر کے کیبن نیچے لائے گئے جس کے بعد اہلکاروں نے سیڑھیاں لگا کر لوگوں کو باہر نکالا۔محمد کاشف اور ان کے دوست صوبہ پنجاب کے علاقے لودھراں سے تفریح کے لیے مری پہنچے تھے۔ محمد کاشف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پانچ دوست تھے جن میں سے دو نے پہلے ہی کیبل کار پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا جبکہ باقی تین دوست کیبل کار میں بیٹھنے پر مصر تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب وہ لوگ شام کے وقت کیبل کار کے مقام پر پہنچے تو موسم بہت سہانا تھا اور لوگ کیبل کار پر بیٹھنے کے لیے لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔کاشف کہتے ہیں کہ ’ابھی ہم لوگ کیبل کار کے پاس پہنچے ہی تھے کہ یک دم طوفان آگیا۔ اس موقع پر میں نے کیبل کار والوں سے کہا کہ اس طوفان میں ہم نے کیبل کار میں نہیں بیٹھنا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’بیٹھو بیٹھو، کچھ نہیں ہوتا، ہم لوگ اتنا بڑا پراجیکٹ چلا رہے ہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کیا ہوگا اور کیا نہیں۔’ موقع پر موجود انتظامیہ نے ہم سے کہا کہ ’اس موسم میں تو اتنا انجوائے کرو گے کہ تمھاری زندگی کا یادگار سفر بن جائے گا۔’محمد کاشف کے مطابق ان کے ساتھ موجود ایک خاندان جس میں خواتین اور بچے بھی تھے، ان سے بھی کیبل کار انتظامیہ نے ایسے ہی الفاظ ادا کیے تھے جس کے بعد لوگ بیٹھنا شروع ہوگئے تھے۔ یہ کوئی چھ بجے کا وقت تھا۔ کیبن میں زیادہ سے زیادہ آٹھ لوگوں کی گنجائش تھی مگر انھوں نے 10 لوگوں کو بٹھا دیا تھا۔


’ہم لوگ سب سے پہلے والے کیبن پر سوار تھے جو سب سے اوپر پھنسی تھی۔ ابھی کیبل کار تھوڑی دیر ہی چلی ہوگی تو طوفان تیز ہوا اور ایک زوردار جھٹکا لگا۔ ہم سب لوگوں کے سر کیبن کے شیشوں، دیواروں اور دروازوں سے لگے جس سے ایک بندے کا سر پھٹ گیا۔ چند لمحوں کے لیے تو سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو ہم لوگ فضا میں لٹکے ہوئے تھے۔ ہمارے قریب ہی ایک کیبن سے چیخ و پکار اور کلمے کی آوازیں آ رہی تھیں۔’ان کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کتنی اونچائی پر تھے مگر جب انہوں نے نیچے دیکھا تو انہیں زمین نظر نہیں آئی تھی۔ ’بس ایسے لگا کہ اب ہمیں یہاں سے کوئی بھی نہیں اتار سکتا اور موت ہی ہمارا مقدر ہے۔ ہمارے ساتھ کیبن میں موجود لوگوں نے تو اپنے گھروں اور دوستوں کو فون کر کے معافی تلافی بھی شروع کردی تھی۔’ان کا کہنا تھا کہ گھر اور دوستوں کی فون کالز آرہی تھیں، وہ حوصلہ دے رہے تھے کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہے۔ ’رات کے کوئی بارہ بجے کا وقت ہوگا جب میں نے دیکھا کہ پہاڑوں اور قریب ہی واقع گاؤں سے ٹارچ وغیرہ کی روشنی نظر آرہی تھی۔ پھر ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ سب لوگ حوصلہ رکھیں، ہم سے پہلے والے کیبن کے لوگوں کو مدد فراہم کردی گئی ہے اور جلد ہی باقی لوگوں تک بھی پہنچ جائیں گے۔’


ان کا کہنا تھا کہ کوئی رات گیارہ بجے جب امداد پہنچی اور وہ محفوظ مقام پر پہنچے تو ایسے لگا کہ موت کے منہ سے باہر نکلے ہوں۔ ’سب ایسے ایک دوسرے کے گلے لگ رہے تھے جیسے شاید دوبارہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔’مری ریسیکو کے انچارج انجنیئر  نے بی بی سی کو بتایا کہ کیبل کار کی دو پلیاں اپنی جگہ چھوڑ گئیں تھیں جس کی اطلاع ملتے ہی وہ فوراً موقع پر پہنچ گئے تھے۔کیبل کار کے کیبن 25 فٹ سے لے کر 800 فٹ تک فضا میں معلق تھے۔ پہلے تین کیبن کے لوگوں کو تو جلد ہی امداد فراہم کردی گئی تھی مگر باقی کیبن کے لوگوں نے رسیوں کی مدد سے اترنے سے انکار کردیا تھا۔ چنانچہ ایک طویل میٹنگ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کیبل کار میں موجود فالٹ کو ٹھیک کیا جائے اور اس کے بعد جتنا ممکن ہوسکے ہر کیبن کو کسی محفوظ مقام تک لایا جائے اور وہاں سے پھر لوگوں کو امداد فراہم کی جائے۔’ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا آپریشن آٹھ گھنٹے طویل تھا جس میں مجموعی طور پر 106 لوگوں کی جان بچائی گئی، جس میں سے صرف چھ کو ہسپتال بھیجنے کی ضرورت پڑی تھی۔ اس آپریشن میں پاک فوج کے کمانڈوز اور مقامی لوگوں کی بھی مدد حاصل تھی۔

1 تبصرہ:

  1. میرا خیال ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان کے ہر محکمہ کا یہی حال ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر