بدھ، 18 جون، 2025

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررپارٹ2

 


 اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری امّاں میرا جینا حرام کرتیں اور نا ہم اپنا وطن چھوڑ کر باہر نکلتے ،میری امّاں تو کہتی تھیں آج کل کی لڑکیوں کو بس ایک دھن ہئے کہ ان کے شوہر ان کو لے کر باہر اڑن چھو ہو جائیں تاکہ سسرال کی جنجھٹ پالنا ہی نا پڑے ،وہ یہ نہیں جانتی ہیں پردیس کی پوری سےاپنے دیس کی آدھی ہی بھلی ہوتی ہئے ،ایک تمھاری امّاں کی خاطر میرے سارے اپنے چھوٹ گئے اور پھر بات کرتے ہوئے  فائزہ کا لہجہ آزردہ ہوگیا اور اسی وقت نصیر شاہ  ایک دم ہی آرام کرسی چھوڑکر صوفے پر آ بیٹھےاور کہنے لگےہماری امّاں تو بس اپنی جگہ ایک مثال تھیں لیکن بیٹوں کی شادی کر کے وہ بھی روائتی امّاں ہی بن گئیں  نصیر شاہ کے جواب میں فائزہ کہنے لگی-بس اب ما ضی کی  بھولی بسری باتیں چھوڑئے اور یہ دیکھئے کہ آج ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہئے


فائزہ نے نصیر شاہ کو ٹوکا تو نصیر شاہ بھی سنبھل گئے اور پھر کہنے لگےہاں ! ایک چھوٹے سے کاروبار سے شروع ہونے والی بزنس نے ہمکو ان گنت سٹورزکی چین کا مالک بنا دیا ہے ، اب تو میں اکثر بھول جاتا ہوں کہ بنک میں کتنا سرمائہ پڑا ہئے ،اور آج اس سنہرے مستقبل کو پانے کی جدوجہد میں تم نے قدم قدم میرا ساتھ دیا ہے مجھے تمھاری خدمات کا پورا پورا احساس ہے جب تم سوہا کو ڈے کئرمیں چھوڑ کر تمام تمام دن سٹور پر کھڑے ہو کر میرا ہاتھ بٹاتی تھیں اورتمھارے پیر اکثر سوج جایا کرتے تھےہاں نصیر تم ٹھیک کہ رہئے ہو لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ میری وہ محنت رائگاں نہیں گئ ہے مجھے  اسی مستقبل کو پانے کی آرزو تھی جو آج تمنے مجھے دیا ہےیا ہم دونو ں کی محنت نے ہمیں دیا ہئےچائے کی پیالی میں کینڈرل کی گولی ڈال کر چمچ چلاتے ہوئے فائزہ نے کہا اور پھر چائے کی پیالی شوہر کے سامنے رکھ دی -پھرچائے پیتے ہوئے نصیر شاہ نے اپنے موبائل میں وقت دیکھ کر فائزہ سے کہا آج میں نے چھٹی اس لئے کی ہے کہ اپنا اور تمھارا یہ محل دیکھ سکوں -ٹھیک ہے تم اپنے محل کا سروے کرو مین کل کی تیاری مکمل کر لوں  ابھی ایونٹ مینیجر کو  میٹنگ کے لئے بھی آ نا ہے فائزہ   ٹرے میں چائے کے خالی  کپ واپس رکھتے ہوئے کہنے لگیں 


دن گزر چکا تھا اور شام کے سائے درو دیوار پر اترنے لگے تھے -ایسے میں نصیر شاہ  فائزہ کے قریب آ کر کہنے لگے شام ہو رہی ہے سوہا اب تک گھر نہیں آئ ہے-فائزہ  نے اپنے سر کے بالوں سے کرلنگ کلپ نکالتے ہوئے ان کو ہوئے ایک تجاہل عارفانہ سے جواب دیا ،ارے جائے گی کہاں گھر ہی تو آنا ہے اسے- فائزہ کبھی کبھی کچھ باتیں ہمارے اندازوں سے ہٹ کر بھی وقوع پذیر ہوجایا کرتی ہیں ،،نصیر شاہ نے فائزہ سے کہا تو فائزہ نے زرا حیرت کا اظہارکرتے ہوئے نصیر شاہ کی جانب دیکھ کر ان سے سوال کیا مطلب کیا ہئے تمھارا ،،سیدھا سادا مطلب ہئے زرا سا غور کرو گی تو سمجھ میں آجائے گاکہ بس اب سوہا کو اپنے گھر بار کا ہو جانا چاہئے


  فائزہ کا لہجہ پھر حیرت سے چھلکنے لگا اور  نصیرشاہ کو دیکھ کر  بولیں واقعی مجھے یقین نہیں آ رہا ہئے کہ ،کیا واقعی ہم اتنا وقت پیچھے چھوڑ آئے ہیں کہ ہماری بیٹی بھی شادی کے قابل ہو گئ ہےاور اس کے ساتھ سوہا  گیراج  کا آٹومیٹک  ڈور ریموٹ سے کھول کر  گاڑی اندر لا چکی تھی

 

  اور پھرفائزہ اور ان کے شوہر نصیر شاہ کے لئے یہ منظر ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا جس میں  سوہا  ایک  انگریزلڑکا ایک دوسرے کا بازو تھامے ہوئے اندر آتے دکھائ دئے اور سوہا بے حجابانہ و بے باکانہ انداز میں فائزہ سے مخاطب ہوئ ممّا   ڈئر ،ان سے ملئے یہ میرے بوا ئے فرینڈ ہیں جیمز آئیوان  ،ہم دونوں نے آج ہی مارننگ میں کورٹ میرج کر لی ہے فائزہ جو صوفے کے سامنے ہی کھڑی تھیں اس منظر کی تاب نا لاتے ہوئے صوفے پر گر گئیں  اور ان کے منہ سے ٹوٹے ہوئے الفاظ  نکلے یہ تم کیا نے کیا کیا   اور پھر وہ کہنے لگیں لیکن سوہا ابھی تمھاری عمر اتنی تو نہیں ہوئ تھی کہ تم اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ وہ بھی اس طرح ہمارے بغیر کر گزرتیں -فائزہ  کی بات کے جواب میں سوہا نے ان کو بر جستہ جوابدیا اوہوممّازرا اپنے بوتیک کی اور ڈالر کی دنیا کے حساب و کتاب سے بھی باہر آکر دیکھ لیجئے زمانے کی رفتار کیاہے ،

 

1 تبصرہ:

  1. باہر آجانے والے والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی زمہ داری کو ترجیح میں رکھیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررپارٹ2

   اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر