پیر، 16 جون، 2025

خوبصورت نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )پارٹ2

   ماریشس نے 12مارچ 1968 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور بابائے قوم سرشِو ساگر رام غلام پہلے وزیراعظم نامزد ہوئے ، آج ماریشس دنیا کے نقشے پر ایک آزاد جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے اور عوام عام انتخابات  کے نتیجے میں اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ ماریشس کی اقتصادی خوشحالی کی بات کی جائے تو براعظم افریقہ میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی ماریشس کے عوام کی ہے،ماضی میں مختلف اقوام کے زیراثر رہنے والا آج کا ماریشس سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی جیتی جاگتی مثال ہے جہاں کے بسنے والے مذہبی و لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے خوبصورت وطن کو مزید خوبصورت بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ ماریشس کے سادہ طبیعت کے عوام اپنی پرخلوص مہمان نوازی کیلئے دنیا بھر میں مشہورہیں، ماریشس کے صاف و شفاف پانی کے ساحل سیاحوں کیلئے خصوصی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں جبکہ واٹر اسپورٹس کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے، عالمی سیاحتی مقام ہونے کی بنا پر چائنیز، انڈین، مغربی ہر قسم کے کھانے باآسانی دستیاب ہیں۔ ماریشس کے عوام اور حکومت پاکستان سے دِلی لگاؤ رکھتے ہیں اور اردو زبان پورے ماریشس میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اردو زبان کے فروغ کیلئے مشاعروں سمیت مختلف ادبی تقریبات  کا انعقاد ہوتا رہتا ہے ۔


 پوری دنیا کے سیاح یہاں سیر کرنے اور چھٹیاں انجوائے کرنے کے لیے آتے ہیں سیاحت ماریشس کا سب سے بڑا  زر مبادلہ کمانے  کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس ملک کی بیشتر آبادی ماریشس اور راڈرک جزیروں میں آباد ہے جو صرف 13 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے جزیرہ راڈرک کی آبادی کا تناسب صرف ڈھائی فیصد ہے۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی چھوٹے چھوٹے بے آباد جزیرے ہیں جہاں سیاح موٹر بوٹس کے ذریعے سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ شاید ان جزیروں میں کچھ ماہی گیر خاندان آباد ہوں جن کا وہاں جانے پر ہی پتہ چل سکتا ہے۔ اگر آپ ماریشس میں صرف سیاحتی نقطہ نظر سے آئے ہیں تو آپ کے مالی وسائل بہت مضبوط ہونے چاہئیں۔یہاں کاروبار لگے بندھے اصولوں پر چلتا ہے۔ صبح نو بجے سے شامل پانچ بجے تک سرکاری و غیر سرکاری تمام ادارے اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔ پانچ بجے کے بعد تقریباً تمام کاروباری ادارے بند ہو جاتے ہیں۔ شاید چند بڑی سپر مارکیٹیں سات سے آٹھ بجے تک کھلتی ہیں۔ ملک میں ٹرانسپورٹ کا بہت   منظم  نظام ہے۔


ملک کے تمام حصوں میں تمام شہروں کے بس اڈوں سے مسافروں کے لیے گاڑیاں چلتی ہیں مگر تمام ماریشس میں شام سات بجے کے بعد بسیں چلنا بند ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں اگر آپ کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ ہے تو پھر مزے ہیں۔ اگر ذاتی گاڑی نہیں تو پھر ٹیکسیوں کا مہنگا ترین سفر اپنانا ہوگا۔ پورے ملک میں مضبوط ٹرانسپورٹ نظام کے تحت تمام شہروں اور علاقوں میں بس سٹاپ نظر آئیں گے اور آپ کو بس میں سفر کے لیے ہر صورت اس بس سٹاپ پر ٹھہرنا ہو گا۔ آپ راستے میں بس روک کر سوار نہیں ہو سکتے۔حکومت مدارس ‘ مساجد اور حجاج کے مسائل میں بھی تعاون کرتی ہے۔ مسلمان از خود بھی مسلمان کمیونٹی کی اجتماعی کفالت کی غرض سے مختلف تنظیموں کی صورت مین سرگرم عمل ہیں۔ زکوٰۃ صدقات جمع کرکے انہیں فقراء ویتامیٰ اور بیوگان و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ملک بھر میں ۲۵۰ اسکول ہیں جو حکومت کی امداد سے چل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دینی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مخصوص ادارے بھی ہیں۔


پرائمری اور مڈل اسکول بھی ہیں اور حفظ قرآن کریم کے ادارے بھی ہیں اسی طرح مساجد کے تحت کچھ حلقے بھی قائم ہیں جو مسلمان بچوں کو عربی زبان ‘ قرآن کریم اور اسلام کی بنیادی تعلیم دے رہے ہیں۔ماریشس میں اسلام اٹھارہویں صدی کے انگریزی ااستعمار کے عہد میں ہندوستان کے راستے داخل ہوا۔ یہاں کے سب سے پہلے مسلمان ماہی گیر ‘ تاجر اور بعض بیرونی افراد تھے۔ یہاں اسلامی بیداری کا حالیہ سبب وہ نوجوان ہیں جو بیرون ملک اسلامی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹے ہیں۔۸۰ء کی دہائی سے لے کر تاحال یہ لوگ دعوت دین میں مصروف ہیں انہوں نے عربی زبان کی تعلیم و اشاعت کے لئے وسیع پیمانے پر کوششیں کی ہیں انہی کوششوں کے نتیجے میں حکومت کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں مسلمان طلبہ کے لئے عربی زبان کو شامل کرلیا گیا ہے۔


 ہے ایک اہم ترین بات یہ ہے   دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص انڈیا  جن میں شامل ہے تاریخی شخصیات      جیسے علامہ اقبال، مرزا غالب اور کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے مختلف  پروگرام کرتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کا نام  کہیں بھی نمایا ں نہیں ملتا ہے اور اس کی وجہ سفارت نا اہلی ہے۔کیونکہ پاکستانی سفاتکار قومی مفاد کی بجائے ذاتی عیش و آرام کو ترجیح دیتے   ہیں، حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ بیرون ممالک سفارتکاروں کی تعیناتی کیلئے ایسے افراد کا انتخاب کرے جو باہر کی دنیا میں ملک اور قوم کا نام روشن کرنے والے ہوں  اور ان کی کاوشوں سے  ثقافتی اور تجارتی سطح پر کامیابی  ممکن ہوسکے۔ماریشس  کے معاشرتی  اوصاف  نے   اس جزیرے کو افریقہ کے خوشحال ترین ملک  کا درجہ دیا ہے -اعلیٰ  ظرفی  تفرقہ  سے دوری  سماجی خدمات  ہی وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جو کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری ہوا کرتے ہیں،

1 تبصرہ:

  1. جزیرے بھر میں قائم مندر، مسجد، گرجا گھروںاور دیگر مذہبی عبادتگاہوں کی موجودگی ریاست کی مذہبی ہم آہنگی پر مبنی امن دوست پالیسی کی نشاندہی کرتی ہے،

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر