ہفتہ، 14 جون، 2025

عید غدیر 'یوم تکمیل دین

 


10 ہجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کے اعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ،قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر رابغ نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے  مقام  پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیااے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئ ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے ،جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟


لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ (ع) نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ۔ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس ا للہ کی پناہ چاہتے ہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے۔ اور جس نے بھی گمراہی کی طرف راہنمائ کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔


 اس کے بعد آپنے فرمایا کہ میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تمھارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کو پوراکیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بند اور رسول ہے؟اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟


 اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔ ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی ناکرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی (ع) سے سب لوگوں سے متعرف کرایا ۔ اس کے بعد فرمایا: ” کون ہے جومومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف ر کھتا ہے ؟ “ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔پپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔


 اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ”اے اللہ تو اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب حضرت عمر بن خطاب (رض )نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا . حضرت عمر( رض )وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی  -  اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے

 

1 تبصرہ:

  1. اللہ ہر مسلمان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ غدیر کی اہمیت کو جان سکے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر