حجِ بیت اللہ 'ایک عاشقانہ عبادت حج تو درحقیقت خدا کی اس مقدس سرزمین پر حاضری کا نام ہے، جہاں نبیوں، رسولوں اور برگزیدہ بندوں نے اپنی حاضری کے ذریعہ اطاعت وبندگی کا فریضہ انجام دیا ہے، اور اپنی اطاعت وبندگی کا عہدوپیمان کیا ہے۔ مختلف مکاتب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا ذکرآیا ہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھا تھا۔ انہوں نے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ آپؑ نے اس موقع پر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو آپ کو حضرت اسماعیل ؑ نظر آئے تو آپ نے بیٹے سے تینوں راتوں کے خواب کا ذکر کیا۔ اس سے کہا۔ میر ے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے قربان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا، والد محترم جو حکم ہوا ہے، اسے بجا لائیے، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
غرض جب دونوں مطیع ہو گئے ۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ؑیقیناً تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ بے شک ہم نیکی کرنے والے کو اسی طرح جزادیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔‘‘(سورہ الصافات آیات نمبر 101-تا106)قربانی محض جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام نہیں ہےیہ ایثار وجاں نثاری، تقویٰ اور طہارت کا نام ہے - عید الاضحی کے دن حضرت ابراہیم ؑکی اس عظیم ترین اطاعت خدا وندی کی مثال کی یاد گار کے طور پر ادا کیا جاتا ہے جس کے تحت خلیل اللہ (اللہ کے دوست) لقب پانے والے اس حق و صداقت کے علمبر دار پیغمبر ؑ نے اپنی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہونے والے پیارے بیٹے کو حکم خداوندی سے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا ارداہ کر لیا تھا۔قربانی کا مطلب ہے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا جبکہ شرعی اصطلاح میں اس کا مطلب عبادت کی نیت سے ایک خاص وقت میں حلال جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا یا ذبح کرنا ہے۔
یہ خاص وقت10ذی الحج کی صبح یعنی اشراق سے شروع ہوتا ہے اور 12ذی الحجہ کی عصر تک رہتا ہے۔ نماز عید سے قبل قربانی نہیں ہوتی۔عید الاضحی کی قربانی اصل میں اس واقعہ عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ سے واقع ہوا یعنی خواب میں فرزند عزیز حضرت اسما عیل ؑ کو ذبح کرتے دیکھا تو سچ مچ انہیں قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ مختلف مکاتب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا ذکرآیا ہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھا تھا۔ پہلی رات یعنی آٹھ ذی الحج جسے شرعی اصطلاح میں ’’یوم الترویہ‘‘کہا جاتا ہے۔ لغت میں ترویہ کے معنی ’’سیراب کرنا‘‘پانی فراہم کرنا، منی اور عرفات میں چونکہ پانی نہیں ہے اس لئے ایام صبح میں یعنی اسی تاریخ کو یہاں بذریعہ ٹینکر پانی سپلائی کیا جاتا ہے جس کی شہادت عازمین حج بھی دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ’’ترویہ‘‘ کے معنی و مفہوم میں ’’پانی پلانا‘‘لکھے ہیں لوگ اس دن اپنے اونٹوں کو پانی پلاتے تھے۔
بعض اہل زبان نے ’’ترویہ‘‘کورویت سے لیا ہے اس لئے ’’دیکھنے کے ‘‘ معنی میں لیا ہے۔حضرت ابراہیم ؑنے بھی چونکہ خواب دیکھا تھا اس لئے دیکھنے کے معنوں میں ترویہ لیا۔ اس کی ایک توجیہہ یہ بھی لکھی ہے کہ اس دن عازمین حج نماز ظہر کے بعد احرام باندھ کر منی کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور زادراہ کی خاطر پانی بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ حضرات ابراہیم ؑنے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ صبح اٹھ کر آپؑ نے سوچا کہ کیا چیز قربان کی جائے کہ جس سے منشائے ایزدی پوری ہو جائے۔ آپؑ نے سوسرخ اونٹ قربان کر دیئے۔ دوسری رات پھر وہی خواب آیا۔ چنانچہ آپؑ نے پھر ایسا ہی کیا۔ واضح ہوکہ حجاز کی سرزمین پر سرخ اونٹ شروع ہی سے بڑا قیمتی رہا ہے جسے صرف چند مخصوص افراد استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ عام آدمی کی قیمت خرید سے باہر ہوتا ہے۔ اس دوسرے دن آپؑ نے جو قربانی پیش کی وہ ’’یوم عرفہ‘‘ تھا جس کے معنی ’’پہچاننے‘‘کے ہیں۔عر فہ نوذی الحج کا دن ہوتا ہے۔ اسی دن تمام عازمین حج عرفات کے میدان میں آتے ہیں جو حج کارکن اعظم ہے،
یہاں کی حاضری خواہ چند ساعتوں کیلئے ہی سہی ، ضروری ہے ورنہ حج نہیں ہوتا۔ اس دن عازمین حج اپنے آپ کو مجرموں کی طرح رب کائنات کے حضور پیش کر کے اپنے گناہوں کا اعتراف بر ملا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے چونکہ عرفہ والی رات کو بھی یہ خواب دیکھا تھا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے پہلے دن والے خواب کو پہچان لیا تھا کہ یہ وہی خواب ہے جو کل دیکھا تھا۔ اسی دن فجر کی نماز سے تیر ھویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد خواتین و حضرات پر چاہے وہ مقیم ہو یا مسافر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہےمفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خواب دیکھا اس وقت حضرت اسمعیل ؑ کی عمر 13برس تھی۔ پیغمبران کرام کے خواب بھی وحی الہٰی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے بیٹے کی قربانی کے حکم کو وحی الٰہی جانتے ہوئے تسلیم کیا اور بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امرالٰہی کے لئے کس حد تک تیار ہے؟۔ انہی تمام صورتوں کا مجموعہ اللہ تعالیٰ نے حج کی شکل میں عطا فرمایا۔ شعائراللہ کی صورت میں انبیاءو مرسلین کی مختلف یادگاروں کو مناسک حج میں قائم فرما دیا۔
اگر ہم غور کریں تو دیکھتے ہیں کہ حج بیتا للہ عبادات کا سرچشمہ ہے
جواب دیںحذف کریں